آئی ایف جے صحافیوں کی آواز دبانے اور اظہار رائے پر قدغن لگانے والے پیکا جیسے قوانین کے خلاف ہے .صدر انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔18 فروری ۔2025 )پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کا آئی ایف جے کی صدر ڈومینک پراڈیلی، پی ایف یو جے کے صدر رانا عظیم اور سیکرٹری جنرل شکیل احمد کی قیادت میں پیکا ایکٹ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ اور ریلی، پورے ملک میں 21 اور 22 فروری کو احتجاج کیا جائے گا.
(جاری ہے)
سینکڑوں کی تعداد میں صحافیوں کے منتخب نمائندوں نے احتجاجی ریلی اور دھرنے میں حصہ لیا اور پیکا ایکٹ کے خلاف نامنظور، نامنظور پیکا ایکٹ نامنظور اور کالا قانون واپس لو، کے نعرے لگائے اس موقع پر آئی ایف جے کی صدر ڈومینک پرآڈیلی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ پی ایف یوجے کے صدر رانا عطیم کی دعوت پر پاکستان کے صحافیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے آئی ہیں انہوں نے کہا کہ آئی ایف جے صحافیوں کی آواز دبانے اور اظہار رائے پر قدغن لگانے والے پیکا جیسے قوانین کے خلاف ہے لہذا آئی ایف جے اس قانون کو مسترد کرتی ہے میں اس قانون کے خلاف احتجاج میں شرکت کے لیے پاکستان آئی ہوں. انہوں نے کہاکہ ہم پاکستانی صحافیوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک اور حکومتی اداروں کی کارروائیوں کی سخت مذمت کرتے ہیں ہم نے یورپی یونین اور اقوام متحدہ میں آئی ایف جے کو متحرک کردیا ہے ہم دنیا بھر میں پاکستان کے صحافیوں کے خلاف ہونیوالے اقدامات کو اجاگر کرینگے. صدر آئی ایف جے نے مطالبہ کیا کہ حکومت پاکستان آزادی صحافت اور اظہار رائے کے خلاف قوانین پر نظر ثانی کرے پی ایف یو جے کے صدر رانا عظیم خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم فیک نیوز کی آڑ میں آزادی صحافت پر قدغن نہیں لگانے دیں گے فیک نیوز دیتا کون ہے ہم بھی اس کے خلاف ساتھ دینگے انتظامیہ کان کھول کر سن لے کہ پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں. صدر پی ایف یو جے رانا عظیم نے کہا کہ پیکا کے خلاف منظم تحریک شروع کر دی ہے انہوں نے کہا کہ آج کا دھرنا ٹوکن ہے اگلے مرحلہ میں ملک بھرمیں 21 اور 22 فروری کو پورے پاکستان میں احتجاج کریں گے اور پورے پاکستان کے گلی محلے اور پریس کلبوں کے سامنے احتجاج ہوگا حکمران سن لیں نہ پارلیمنٹ دور ہے اور نہ اسلام آباد دور ہے اب ملک بھر میں چاروں صوبائی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ ہاﺅس کے باہر احتجاج ہوگا. انہوں نے کہاکہ پیکا قانون کی واپسی تک اسلام آباد میں مستقل رہنا بھی پڑا تو رہیں گے پی ایف یو جے کے سیکرٹری جنرل شکیل احمد نے کہا کہ حکومت نے پاکٹ یونینز بنا رکھی ہیں جن کی مدد سے صحافیوں پر کالے قانونلاگو کرتی ہے کبھی جعلی احتجاج کرواتی ہے اور کبھی پریس کلبوں میں اپنے گلوں میں ہار ڈلواتے ہیں ان کالی بھیڑوں کی وجہ سے صحافتی ورکرز کا استحصال ہو رہا ہے . سابق صدر پی ایف یو جے جی ایم جمالی کا کہنا تھا کہ ہم نے ہمیشہ پر امن جدوجہد کی ہے پاکستان کی تاریخ کا سب سے کالا قانون پیکا کا قانون ہے یہ قانون صرف صحافیوں کے لیے نہیں بلکہ یہ سارے پاکستانی شہریوں کے خلاف ہے پاکستان نے اقوام متحدہ کے ساتھ آزادی اظہار رائے کے چارٹر پر دستخط کیے ہیں پیکا ترمیمی قانون اقوام متحدہ کے اس چارٹر کی بھی خلاف ورزی ہے اس قانون کے تحت کوئی بھی شخص موبائل نہیں رکھ سکتا جب تک اتھارٹی کے پاس اس کی رجسٹریشن نہ کروائے جن پارلیمنٹیرینز نے اس قانون کو منظور کروایا انہوں اس کو پڑھنے کی زحمت ہی نہیں کی. پی ایف یو جے کے دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے سابق صدر لاہور پریس کلب اعظم چوہدری نے کہا کہ ماضی میں اخبارات اور ٹی وی چینلز کو بند کیا گیا کالے قوانین کے ذریعے اظہار رائے کی آزادی کو سلب کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں پنجاب کے اندر بھی ہتک عزت قانون منظور کیا گیا اس سے اظہار رائے پر پابندی لگا دی گئی ہے پی ایف یو جے کی قیادت کو سلام پیش کرتا ہوں جس نے کالے قوانین کے خلاف ریلی نکالی ہے. پی ایف یو جے کے سینئر راہنما حسن عباس نے کہا کہ حکمرانوں کو عوام کی کوئی فکر نہیں بلکہ وہ اپنی تنخواہوں اور مراعات بڑھانے میں مگن ہیں جبکہ صحافیوں کی زبان بندی کر رہے ہیں تاکہ وہ ان کے کرتوت سامنے نہ لا سکیں ان کاکہنا تھا کہ ہم سچ کو سامنے لانے کے لئے کسی دباﺅ کو خاطر میں نہیں لائیں گے اور پیکا سمیت کسی کالے قانون کی پرواہ نہیں کریں گے پی ایف یو جے کے سینیر راہنما جمیل مرزا نے کہا کہ پیکا کو مسترد کرتے ہیں اور صحافیوں کے حقوق کے لئے جدوجہد جاری رکھیں گے اس کے لئے وہ تمام رکاوٹوں کوعبور کریں گے مگر پیکا قوانین کے خاتمہ کے لئے آخری حد تک جائیں گے جمیل مرزا کا کہنا تھا کہ اس حکومت کو ہر صورت پیکا کا کالا قانون واپس لینا پڑے ورنہ بین الاقوامی سطح پر سخت ردعمل آئے گا اب تو اس قانون کو انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کی صدر ڈومینیک پیراڈالئی نے اسلام آباد میں کھڑے ہو کر مسترد کردیا ہے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پی ایف یو جے کے جے کے صدر رانا انہوں نے کہا صحافیوں کے اظہار رائے اسلام آباد آئی ایف جے کرتے ہوئے قوانین کے نے کہا کہ کے خلاف کے لئے
پڑھیں:
دینی مدارس کے خلاف اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کا رویہ دراصل بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہے، مولانا فضل الرحمن
ملتان میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جے یو آئی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اگر مدارس کے خلاف رویہ تبدیل نہ کیا گیا تو علما اپنی حریت اور دینی اقدار کے تحفظ کے لیے اسلام آباد کا رخ کریں گے، پاکستان کے آئین کے مطابق اسلام مملکتِ پاکستان کا سرکاری مذہب ہے اور کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بنایا جا سکتا۔ اسلام ٹائمز۔ جامعہ خیر المدارس ملتان میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے زیراہتمام جنوبی پنجاب کے ملحقہ دینی مدارس کا عظیم الشان اجتماع خدماتِ تحفظِ مدارسِ دینیہ کنونشن کے عنوان سے منعقد ہوا۔ اجلاس میں جنوبی پنجاب کے چار ہزار سے زائد مدارس و جامعات کے مہتممین اور ذمہ داران نے شرکت کی۔ کنونشن میں کہا گیا کہ مدارس کے خلاف ہتھکنڈے بند کریں ورنہ کفن پہن کر اسلام آباد کا رخ کرلیں گے، اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے امیر اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سرپرست مولانا فضل الرحمن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں اسلامی نظام کے لئے پنجاب والے اٹھیں، انہوں نے کہا کہ ہمیں مجبور نہ کیا جائے ہم سڑکوں پر آکر اسلام آباد کی طرف رخ کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دینی مدارس کے خلاف اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کا رویہ دراصل بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہے، جس کا مقصد نوجوانوں کو ریاست کے خلاف بھڑکانا ہے۔ لیکن وفاق المدارس اور جمعیت علمائے اسلام نے نوجوانوں کو امن و استحکام کا پیغام دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ بیرونی طاقتیں ان اداروں سے خائف ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے مزید کہا کہ پاکستان کے آئین کے مطابق اسلام مملکتِ پاکستان کا سرکاری مذہب ہے اور کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بنایا جا سکتا، لیکن اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر آج تک قانون سازی نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ مدارس کے کردار کو محدود کرنے کی کوشش دراصل اس بات کا ثبوت ہے کہ کچھ قوتیں ملک میں ایسے ماہرینِ شریعت نہیں دیکھنا چاہتیں جو شریعت کے مطابق قانون سازی کر سکیں۔ انہوں نے حقوقِ نسواں، نکاح کی عمر، گھریلو تشدد، اور وقف قوانین پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب بیرونی دباو کے نتیجے میں بنائے جا رہے ہیں۔
انہوں نے حکومت پنجاب کے آئمہ کرام کو دیے جانے والے 25 ہزار روپے ماہانہ وظیفے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ رقوم ضمیر خریدنے کی کوشش ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے خبردار کیا کہ اگر مدارس کے خلاف رویہ تبدیل نہ کیا گیا تو علما اپنی حریت اور دینی اقدار کے تحفظ کے لیے اسلام آباد کا رخ کریں گے۔