سندھ بلڈنگ ،آصف رضوی کی سرپرستی ،سرکاری اراضی پر کمرشل تعمیرات مکمل
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
جمشید ٹاؤن جہانگیر روڈ نمبر 2یوٹیلیٹی اسٹور کے برابر میں مین روڈ پر تعمیرات جاری
سرکاری کوارٹر پلاٹ نمبر T10پر ناجائز دکانیں اور چار منزلہ کمرشل پورشن کی تیاری
عوام کی خون پسینے کی کمائی سے ادا کیے جانے والے ٹیکسز سے بھاری تنخواہیں اور مراعات حاصل کرنے والے ادارے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا وجود عوام کے لیے بے فیض ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ بلڈنگ افسران ملکی خزانے پر بوجھ بنتے نظر آتے ہیں جو ذاتی مفادات کی خاطر اپنے فرائض کو پس پشت ڈال کر خطیر رقوم وصول کرنے کے بعد غیر قانونی تعمیرات میں ملوث ہیں دیگر علاقوں کی طرح ضلع شرقی میں بھی قابض ڈائریکٹر آصف رضوی نے بھاری نذرانے وصول کرنے کے بعد بیٹر مافیا کو غیر قانونی امور کی مکمل چھوٹ دے رکھی ہے۔ جرأت سروے کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ آفتاب اور جہانگیر نامی شخص نے عوام کو کروڑوں روپے کا چونا لگانے کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ملازمین کو الاٹ کئے جانے والے سرکاری کوارٹر جہانگیر روڈ نمبر 2یوٹیلیٹی اسٹور کے برابر میں مین روڈ پلاٹ نمبر T10پر دکانیں اور چار منزلہ کمرشل پورشن یونٹ کی تیاریاں تکمیل کے مراحل میں داخل ہوچکی ہیں۔ ناجائز تعمیرات پر علاقہ مکینوں میں شدید غم وغصہ کی لہر پائی جاتی ہے۔ سروے پر موجود نمائندہ سے بات کرتے ہوئے علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ مین روڈ پر غیر قانونی تعمیرات انتظامیہ کی نظروں سے کیوں اوجھل ہے ؟ بلڈنگ افسران اپنی مٹھیاں گرم کرنے کے بعد غیر قانونی جاری تعمیرات سے دانستہ چشم پوشی اختیار کر رہے ہیں ،وزیر بلدیات سعید غنی سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ سرکاری کوارٹر پر پلازہ طرز پر بننے والی غیر قانونی تعمیرات کو جلد سے جلد مسمار کیا جائے اور مزید بننے والی ناجائز عمارتوں کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
سندھ کے کسانوں کا جرمن کمپنیوں کے خلاف قانونی کارروائی کا اعلان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سندھ کے سیلاب متاثرہ کسانوں نے کہا ہے کہ وہ 2022 کے تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں زمینیں، فصلیں اور روزگار کھو بیٹھے، اور اب وہ جرمنی کی آلودگی پھیلانے والی کمپنیوں کے خلاف قانونی مقدمہ دائر کرنے جا رہے ہیں۔
کسانوں کی جانب سے جرمن توانائی کمپنی آر ڈبلیو ای (RWE) اور ہائیڈلبرگ سیمنٹ کمپنی کو باضابطہ قانونی نوٹس بھجوا دیا گیا ہے۔ نوٹس میں خبردار کیا گیا کہ اگر کسانوں کے نقصان کی قیمت ادا نہ کی گئی تو دسمبر میں جرمن عدالتوں میں مقدمہ دائر کیا جائے گا۔ کسانوں کا مؤقف ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور کاربن اخراج میں بڑا حصہ ڈالنے والی بڑی کمپنیاں ہی اس تباہی کی ذمہ دار ہیں، اس لیے انہیں نقصان کی ادائیگی بھی کرنی چاہیے۔
کسانوں نے کہا کہ وہ خود ماحولیات کی بربادی میں سب سے کم حصہ دار ہیں لیکن نقصان سب سے زیادہ انہیں اٹھانا پڑا ہے۔ چاول اور گندم کی فصلیں ضائع ہوئیں، زمینیں برباد ہوئیں، اور تخمینے کے مطابق صرف سندھ کے ان متاثرہ کسانوں کو 10 لاکھ یورو سے زائد کا نقصان ہوا ہے جس کا ازالہ وہ ان کمپنیاں سے چاہتے ہیں۔ ادھر جرمن کمپنیوں کا کہنا ہے کہ انہیں ملنے والے قانونی نوٹس کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
برطانوی میڈیا کے مطابق عالمی کلائمیٹ رسک انڈیکس نے 2022 میں پاکستان کو دنیا کا سب سے زیادہ موسمیاتی آفات سے متاثر ملک قرار دیا تھا۔ اس سال کی بارشوں سے ملک کا ایک تہائی حصہ ڈوب گیا، 1،700 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، 3 کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ متاثر ہوئے اور اقتصادی نقصان 30 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا۔ سندھ اس سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوا، بعض اضلاع تقریباً ایک سال تک پانی میں ڈوبے رہے۔