ماہ رمضان میں ہر شہر ی صرف کتنےکلو چینی خرید سکے گا؟ جانیں
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
ماہ رمضان میں چاروں صوبوں میں چینی کی سبسڈائز فروخت کا فارمولا طے پاگیا۔شناختی کارڈ پر ہر شہری زیادہ سے زیادہ 5 کلو چینی خرید سکے گا۔
سبسڈائز چینی سے متعلق اجلاس میں سیکرٹری فوڈ کے پی نے ملز کو سبسڈائز چینی کا مراسلہ نہ ملنے کا شکوہ کیا۔میٹنگ منٹس کے مطابق رمضان المبارک میں چینی پر 20 روپے سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور رمضان المبارک میں چاروں صوبوں میں فی کلو چینی 130 روپے میں دی جائے گی۔
میٹنگ منٹس میں بتایا گیا ہے کہ رمضان المبارک میں چینی سستے ماڈل بازاروں میں فروخت کی جائے گی اور سبسڈائز چینی چھوٹے بڑے سٹورز پر ڈی سی کاو¿نٹر پر فراہم کی جائے گی۔
میٹنگ منٹس کے مطابق رمضان المبارک میں ایک اور 2 کلو چینی کے بیگز فروخت کئے جائیں گے، شناختی کارڈ پر فی شہری زیادہ سے زیادہ 5 کلو چینی خرید سکے گا۔
میٹنگ منٹس کے مطابق چاروں صوبوں میں چینی کی تقسیم کے فوکل پرسن کی ذمہ داری کین کمشنر کے سپرد کردی گئی ہے، سبسڈائز چینی کی فروخت رمضان سے 3 روز قبل شروع کی جائے گی اور 27 رمضان تک چینی کی فروخت جاری رکھی جائے گی۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: رمضان المبارک میں سبسڈائز چینی میٹنگ منٹس میں چینی کلو چینی چینی کی جائے گی
پڑھیں:
بھارت کی روس کو مہلک دھماکہ خیز مواد کی خفیہ فروخت، امریکی پابندیوں کی دھجیاں اُڑا دیں
نئی دہلی(انٹرنیشنل ڈیسک) بھارت نے عالمی پابندیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے خفیہ طور پر روس کو ہتھیاروں میں استعمال ہونے والا خطرناک دھماکہ خیز کیمیکل ”ایچ ایم ایکس“ فروخت کیا ہے، جو یوکرینی شہریوں پر برسنے والے میزائلوں اور راکٹوں میں استعمال ہو رہا ہے۔ یہ انکشاف بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے بھارتی کسٹمز ڈیٹا کے ذریعے کیا ہے۔
دسمبر میں بھارتی کمپنی ”آئیڈیل ڈیٹونیٹرز پرائیویٹ لمیٹڈ“ (Ideal Detonators Pvt Ltd) نے تقریباً 14 لاکھ ڈالر مالیت کا ایچ ایم ایکس روس بھیجا۔ حیرت انگیز طور پر یہ مواد دو ایسی روسی کمپنیوں کو فراہم کیا گیا، جن کے براہِ راست تعلقات روسی دفاعی صنعت سے ہیں۔ ان میں سے ایک کمپنی ”Promsintez“ وہی ادارہ ہے جس پر حال ہی میں یوکرین نے ڈرون حملہ کیا تھا۔
یاد رہے کہ ایچ ایم ایکس ایک ایسا دھماکہ خیز مواد ہے جو میزائلوں، ٹارپیڈوز، راکٹ موٹروں اور جدید فوجی ہتھیاروں میں استعمال ہوتا ہے۔ امریکی وزارتِ دفاع اسے روسی جنگی مشین کے لیے ”انتہائی اہم“ قرار دے چکی ہے، اور کسی بھی ملک کو اس کے لین دین سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔
بھارتی کسٹمز کے ریکارڈ اور ایک سرکاری اہلکار کی تصدیق کے مطابق، دونوں کھیپیں روس کے شہر سینٹ پیٹرز برگ میں اتاری گئیں۔
رپورٹ کے مطابق، پہلی کھیپ، جس کی مالیت 4 لاکھ 5 ہزار ڈالر تھی، روسی کمپنی ”High Technology Initiation Systems“ (HTIS) نے خریدی، جبکہ دوسری کھیپ، جو 10 لاکھ ڈالر سے زائد کی تھی، ”Promsintez“ نامی کمپنی نے وصول کی۔ دونوں کمپنیاں روس کے جنوبی علاقے سمارا اوبلاست میں واقع ہیں، جو قازقستان کی سرحد کے قریب ہے۔
ایچ ٹی آئی ایس نے اپنی ویب سائٹ پر اعتراف کیا ہے کہ وہ دھماکہ خیز مواد کی تیاری کرتی ہے جو زمین دوز اور زمینی تعمیراتی منصوبوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کمپنی کا دعویٰ ہے کہ یہ اسپین کی کمپنی ”Maxam“ کی ذیلی کمپنی ہے، جس پر امریکی سرمایہ دار ادارہ ”Rhone Capital“ کا کنٹرول ہے۔
بھارت کی جانب سے بھیجی گئی یہ خطرناک دھماکہ خیز اشیاء صرف فیکٹریوں میں نہیں، بلکہ عام شہریوں کی جانیں لینے والے ہتھیاروں میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ یوکرینی حکام کے مطابق Promsintez جیسی کمپنیاں بھارت کے ساتھ مسلسل تعاون کر رہی ہیں، جس کے نتیجے میں روس کی دفاعی پیداوار مسلسل جاری ہے۔
حالانکہ امریکہ نے بارہا خبردار کیا ہے کہ جو بھی ملک یا کمپنی روسی فوجی صنعت سے وابستہ ہو گا، اس پر پابندیاں لگ سکتی ہیں، لیکن بھارت کے خلاف کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ ماہرین کے مطابق امریکہ بھارت سے نجی سطح پر بات چیت تو کرتا ہے، مگر پابندیوں سے گریز کرتا ہے تاکہ چین کے خلاف بھارت کو ساتھ رکھا جا سکے۔
بھارتی وزارتِ خارجہ نے اس حوالے سے روایتی بیان جاری کیا کہ ’ہم دوہری نوعیت کی اشیاء کا برآمدی نظام عالمی قوانین کے تحت چلاتے ہیں‘۔ مگر یہ وضاحت ایسے وقت میں دی گئی جب عالمی برادری کی آنکھوں کے سامنے بھارت روسی فوج کو مہلک مواد فراہم کر رہا ہے۔
Post Views: 3