چیمپیئنز ٹرافی سے باہر ہونے کے بعد فخر زمان نے اپنی پہلی ایکس پوسٹ پر کیا کہا؟
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
چیمپیئنز ٹرافی کے افتتاحی میچ میں نیوزی لینڈ کیخلاف زخمی ہوکر ٹورنامنٹ سے باہر ہوجانیوالے پاکستان کے اوپننگ بلے باز فخر زمان نے مذکورہ میچ میں میزبان ٹیم پاکستان کی شکست کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر پہلی مرتبہ اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
فخر زمان کا کہنا ہے کہ سب سے بڑے اسٹیج پر پاکستان کی نمائندگی کرنا اس ملک کے ہر کرکٹر کا اعزاز اور خواب ہے، مجھے فخر کے ساتھ پاکستان کی نمائندگی کرنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔
https://Twitter.
’بدقسمتی سے میں اب آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی 2025 سے باہر ہوں لیکن یقیناً اللہ بہترین منصوبہ ساز ہے، موقع کے لیے مشکور ہوں۔‘
مزید پڑھیں:
ایکس پر اپنے پیغام میں فخرزمان کا کہنا ہے کہ انجری کے باعث ٹورنامنٹ سے باہر ہونے کے بعد اب وہ گھر سے پاکستانی ٹیم میں اپنے ساتھیوں کی پشت پناہی کروں گا، نیوزی لینڈ کیخلاف شکست کے حوالے سے انہوں نے لکھا کہ یہ تو صرف شروعات ہے، واپسی اس دھچکے سے زیادہ مضبوط ہوگی۔
واضح رہے کہ آئی سی سی مینز چیمپئنز ٹرافی 2025 کی ایونٹ ٹیکنیکل کمیٹی نے فخر زمان کی جگہ امام الحق کو پاکستانی اسکواڈ میں شامل کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
مزید پڑھیں:
72 ون ڈے میچز میں پاکستان کی نمائندگی کرنیوالے 29 سالہ امام الحق کو فخر زمان کی انجری کی وجہ سے باہر ہونے کے بعد متبادل کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔
کسی بھی کرکٹر کو باضابطہ طور پر اسکواڈ میں شامل کرنے سے پہلے کسی کھلاڑی کی تبدیلی کے لیے ایونٹ ٹیکنیکل کمیٹی کی منظوری درکار ہوتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امام الحق ایکس پاکستان پاکستانی اسکواڈ پوسٹ چیمپیئنز ٹرافی فخر زمان نیوزی لینڈذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امام الحق ایکس پاکستان پاکستانی اسکواڈ پوسٹ چیمپیئنز ٹرافی نیوزی لینڈ چیمپیئنز ٹرافی پاکستان کی سے باہر کے بعد
پڑھیں:
پاک افغان تعلقات عمران خان دور میں اچھے تھے، ذبیح اللہ مجاہد
سویلین حکومت تعلقات قائم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے، اسٹیبلشمنٹ اس کی اجازت نہیں دیتی،پاکستانی سرزمین پر ہونیوالے واقعات کو روکنے کا اختیار نہیں، ترجمان کا ٹی وی چینل کو انٹرویو
امارت اسلامیہ افغانستان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ پاکستانی سرزمین پر ہونیوالے واقعات کو روکنے کا اختیار نہیں۔ عمران کے دور میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اچھے تھے، خاص طور پر تجارت، ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرنے کی کوششوں اور دیگر شعبوں میں، سب کچھ آسانی سے چل رہا تھا۔ پاکستان کی سویلین حکومت افغانستان کے ساتھ باہمی مفادات کی بنیاد پر تعلقات قائم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ اس کی اجازت نہیں دیتی۔ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے مجاہد نے کہا کہ افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی ایلچی صادق خان کابل میں تھے اور انہوں نے افغان حکام سے مثبت بات چیت کی، لیکن اسی عرصے کے دوران پاکستان نے افغان سرزمین پر حملے بھی کیے۔مجاہد نے نوٹ کیا کہ پاکستان کی طرف سے ڈیورنڈ لائن کے ساتھ کراسنگ کی بندش سے دونوں طرف کے تاجروں کو بڑا نقصان ہوا ہے، اور انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایسے معاملات کو سیاست سے الگ رکھنا چاہیے، دوسری طرف پاکستانی سرزمین پر ہونیوالے واقعات روکنا ہمارا اختیار نہیں۔دریائے کنڑ پر ڈیم بننے کی خبروں پر پاکستان کی تشویش سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ افغان سرزمین پر تعمیرات اور دیگر سرگرمیاں مکمل طور پر افغانستان کا حق ہے، اگر دریائے کنڑ پر کوئی ڈیم بنایا جاتا ہے تو اس سے پاکستان کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، پانی اپنی قدرتی سمت میں بہنا جاری رہے گا، اور اسے مقررہ راستے میں ہی استعمال کیا جائے گا۔ذبیح اللہ مجاہد نے سابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے دور میں افغانستان اور پاکستان کے تعلقات پر بھی تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران کے دور میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اچھے تھے، خاص طور پر تجارت، ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرنے کی کوششوں اور دیگر شعبوں میں، سب کچھ آسانی سے چل رہا تھا۔انہوں نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ افغان سرزمین پر ہونے والی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے بارے میں کسی بھی معلومات کو امارت اسلامیہ کے ساتھ شیٔر کرے تاکہ مناسب کارروائی کی جاسکے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی فریق چاہتا ہے کہ ہم پاکستان کے اندر ہونے والے واقعات کو بھی روکیں، لیکن پاکستانی سرزمین پر ہونیوالے واقعات کو روکنا ہمارے اختیار سے باہر ہے۔ امارت اسلامیہ پاکستان میں عدم تحفظ نہیں چاہتی اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے کہ افغان سرزمین سے کوئی خطرہ پیدا نہ ہو۔افغان ترجمان نے امید ظاہر کی کہ کابل اور اسلام آباد کے درمیان مذاکرات کے اگلے دور میں دو طرفہ مسائل کے دیرپا حل تلاش کرنے کے لیے دیانتدارانہ اور ٹھوس بات چیت ہوگی۔