رمضان میں صحابہؓ کی راتیں
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
صحابہ کرامؓ عام دنوں میں تہجد کی پابندی کیا کرتے تھے اور رات کا ایک حصہ اللہ کی عبادت میں گزارتے تھے، البتہ رمضان میں تقریباً پوری رات عبادت میں صرف کرتے تھے، اپنے قیام میں طویل تلاوت کیا کرتے تھے۔ ایک تہائی، نصف یا رات کا اکثر حصہ تلاوت ِ قرآن، نماز، اور ذکر واذکار واستغفار میں لگاتے تھے۔
عبداللہ بن ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم سے روایت ہے کہ: میں نے ابوذرؓ کو کہتے ہوئے سنا: ’’ہم رمضان میں قیام اللیل سے واپس ہوتے تو خادموں کو کھانا لانے میں جلدی کا کہتے کہ کہیں طلوعِ فجر نہ ہو جائے‘‘۔ (موطا امام مالک، فضائل الاوقات للبیہقی)
روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ اپنی رات کو چار حصوں میں تقسیم کرتے تھے۔ عام طور پر آدھی رات نماز میں جاگتے تھے، اور ہر چار رکعت کے درمیان وضو کی مقدار تک آرام کرتے۔ مروزی نے حسن بصریؒ سے روایت کیا ہے: ’’حضرت عمر بن خطابؓ نے حضرت اْبیؓ کو رمضان میں لوگوں کی امامت کا حکم دیا تو انھوں نے امامت کی۔ وہ ایک چوتھائی رات سوتے اور دو چوتھائی رات نماز پڑھتے، اور ایک تہائی رات باقی رہنے پر اپنی سحری اور ضرورتوں کے لیے واپس چلے جاتے‘‘۔ (مختصر قیام اللیل للمروزی)
حسن بصریؒ کہتے ہیں: ’’لوگ عمر بن خطابؓ اور عثمان بن عفانؓ کے زمانے میں رمضان میں عشا کی نماز رات کے ابتدائی ایک چوتھائی حصے میں پڑھتے، دوسرے ایک تہائی میں قیام کرتے، پھر ایک چوتھائی میں سوتے، اور اس کے بعد پھر نماز پڑھتے‘‘۔ (مختصر قیام اللیل للمروزی)
بیہقی وغیرہ نے سائب بن یزید سے روایت کیا ہے: ’’عمر بن خطابؓ کے زمانے میں صحابہ رمضان کے مہینے میں بیس رکعت نماز پڑھتے تھے، اور عثمان بن عفانؓ کے زمانے میں طویل قیام کی وجہ سے اپنے عصا پر ٹیک لگاتے تھے‘‘۔ (السنن الکبری للبیہقی، مختصر قیام اللیل)
عبدالرحمٰن بن عراک بن مالک اپنے والد سے روایت کرتے ہیں: ’’میں نے رمضان میں لوگوں کو پایا کہ وہ طویل قیام کی وجہ سے اپنے لیے رسیاں باندھتے تھے، تاکہ اس سے سہارا لیں‘‘۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)
سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ قرأت طویل کرتے تھے اور بیس رکعت پڑھتے تھے۔ مروزی نے زید بن وہبؒ سے روایت کیا ہے: ’’عبداللہ بن مسعودؓ ہم کو رمضان کے مہینے میں نماز پڑھاتے ہوئے اس وقت واپس جاتے، جب کہ ابھی رات باقی رہتی‘‘۔ اعمش کہتے ہیں: ’’وہ 20 رکعت پڑھتے تھے اور تین رکعت وتر‘‘۔ عطا کہتے ہیں: ’’میں نے ان (صحابہ) کو رمضان میں 20 رکعت اور تین رکعت وتر پڑھتے ہوئے پایا‘‘۔ (مختصر قیام اللیل)
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
شہباز، بہترین، اسٹیبلشمنٹ وزیراعظم کی صلاحیتوں سے خوش
اسلام آباد (نیوز ڈیسک)آرمی چیف کی زیر قیادت موجودہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو وزیراعظم شہباز شریف کی صلاحیتوں اور کارکردگی پر مکمل اعتماد ہے۔
ایک سینئر ذریعے نے شہباز شریف کو ’’بہترین‘‘ قرار دیا کہ انہوں نے کارکردگی، سخت محنت، انتظامی نظم و ضبط، محتاط سفارت کاری اور پاکستان کی پاور ڈائنامکس کی گہری سمجھ بوجھ سے اسٹیبلشمنٹ کا بھروسہ حاصل کیا ہے۔
ایک ذریعے کے مطابق، موجودہ منقسم سیاسی ماحول اور معاشی چیلنجز کے دور میں وزیراعظم شہباز شریف کو اسٹیبلشمنٹ پاکستان کے چیف ایگزیکٹو کے عہدے کیلئے بہترین انتخاب سمجھتی ہے۔
اسٹیبشلمنٹ کا شہباز شریف پر بھروسہ یکطرفہ نہیں۔ شہباز شریف آرمی چیف کی پیشہ ورانہ مہارت، نظم و ضبط اور قومی ویژن کی تعریف کے معاملے میں عوامی اور نجی سطح پر کھل کر بات کرتے رہے ہیں۔
کئی مرتبہ، وزیراعظم نے قوم کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں حکومت کی ’’غیر متزلزل حمایت‘‘ کا کریڈٹ آرمی چیف اور فوج کو دیا ہے۔ اگرچہ وزیراعظم کئی مرتبہ کھل کر آرمی چیف کی تعریف کر چکے ہیں لیکن ایک باخبر ذریعے کا دعویٰ ہے کہ جنرل عاصم منیر بھی فوجی حلقوں میں شہباز شریف کے بحیثیت وزیراعظم کارکردگی کی تعریف کرتے نظر آئے ہیں۔
باہمی احترام اور ستائش کا یہ غیر معمولی مظہر ایک ایسے نظام کو مستحکم رکھے ہوئے ہے جس میں تاریخی طور پر اہم طاقتور حلقے ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے نظر نہیں آتے۔
کچھ لوگ قیاس آرائیاں کرتے ہیں کہ شہباز شریف شاید اسٹیبلشمنٹ کی امیدوں پر پورا نہیں اترے، لیکن قابل بھروسہ ذرائع ایسے دعووں کی سختی تردید کرتے ہیں۔ عموماً شہبازشریف کو ایک ایسے شخص کے طور پر جانا جاتا ہے جو کام کرکے دکھاتا ہے، اور کافی عرصہ سے وہ اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ بھی رہے ہیں۔
حتیٰ کہ نوازشریف کی حکومت کا تختہ الٹنے والے جنرل پرویز مشرف بھی بہترین انتظامی کارکردگی کی وجہ سے شہبازشریف کے معترف تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ جس ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کی 2013ء تا 2017ء کی حکومت میں ان کو اقتدار سے نکال باہر کیا تھا، وہی ملٹری اسٹیبلشمنٹ شہباز شریف کو آئندہ کے اقتدار کیلئے اپنی پہلی چوائس سمجھتی تھی۔
لیکن شہباز شریف کو اس وقت جیل میں ڈال دیا گیا جب انہوں نے اپنے بڑے بھائی کا ساتھ نہ چھوڑنے کا فیصلہ سنا دیا۔ بالآخر اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کی حمایت کی اور اس کے بعد جو ہوا وہ سبھی جانتے ہیں۔
انصار عباسی
Post Views: 1