رمضان اور تلاوتِ قرآن
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
مفتی محمد عبدالمغنی مظاہری
رمضان المبارک کا یہ بھی حق ہے کہ اس ماہ ِمقدس میں قرآنِ مقدس کی تلاوت کثرت سے کی جائے، قرآن مجید میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ رمضان ہی کے مبارک مہینہ میں قرآن کریم نازل کیا گیا ہے اس لیے اس مہینے میں کثرت سے تلاوت کا اہتمام ہونا چاہیے، خود سرکارِ دوعالمؐ سے بھی خاص طور پر اس ماہ میں قرآن پاک کی تلاوت اور اس کے دور کا اہتمام منقول ومروی ہے۔ سیدنا عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرمؐ لوگوں میں سب سے زیادہ نیکیوں میں پہل کرنے والے تھے اور رمضان المبارک میں یہ وصف اور یہ شوق زیادہ بڑھ جایا کرتا تھا۔ جبرئیل علیہ السلام رمضان المبارک کی ہر رات میں سرکارِ دوعالمؐ کی خدمت میں تشریف لاتے اور سرکار ان کو قرآنِ پاک سناتے اور جب جبریل علیہ السلام حاضر ہوتے تو آپؐ نیکیوں میں تیز ہواؤں سے بھی زیادہ تیز رفتار ہو جاتے تھے۔ (بخاری ومسلم) بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ ہرسال رمضان المبارک میں رسول اکرمؐ قرآن پاک جبریل علیہ السلام کو سناتے تھے اور جبریل علیہ السلام نبی اکرمؐ کو سناتے تھے اور جس سال رسول اکرمؐ دنیا سے پردہ فرما گئے دو مرتبہ قرآن پاک سنائے ہیں۔
ان روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان شریف میں خاص طور پر قرآن پاک کی تلاوت کی مقدار بڑھا دینی چاہیے، اور مہینوں سے زیادہ اس ماہ میں قرآن کی تلاوت ہونی چاہیے، تلاوت کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کا استماع بھی ہونا چاہے، سماعت قرآن میں بھی ثواب ہے، سرکارِ دوعالمؐ بھی سماعت ِقرآن کا اہتمام فرماتے تھے۔ نیز یہ بھی منقول ہے کہ ایک بار آپؐ نے سیدنا عبداللہ ابن مسعودؓ سے فرمایا کہ تم مجھے قرآن سناؤ تو انہوں نے حیرت سے پوچھا کہ یارسول اللہ! میں آپ کو قرآن سناؤں جب کہ قرآن آپؐ پر نازل ہوا ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ میں سننا چاہتا ہوں تم مجھے سناؤ، انہو ں نے تعمیل حکم میں سورۂ نساء کی تلاوت شروع کی پڑھتے پڑھتے جب اس آیت پر پہنچے فَکَیفَ اِذَا جِئنَا … الخ آپؐ نے فرمایا بس کرو، سیدنا عبداللہ ابن مسعودؓ نے نظر اٹھا کر دیکھا کہ سرکارِدوعالمؐ کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور آپؐ رو رہے تھے۔ (بخاری ومسلم)
صحابہ کرامؓ بھی صرف قرآن پاک سننے اور سنانے کے لیے بھی جمع ہوکر بیٹھتے تھے۔ سیدنا ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ میں مسجد نبوی میں ضعفاء ومہاجرین کی ایک مجلس میں شریک ہوا جس میں شریک صحابہ کرامؓ کے بدن پر لباس بھی برابر نہیں تھا، اس میں ایک قاری صحابی قرآن مجید سنا رہے تھے کہ اس دوران رسول اکرمؐ تشریف لائے اور کھڑے ہوگئے تو قاری صاحب نے قرأت روک دی، نبیؐ نے سلام فرمایا اور پوچھا کہ تم لوگ کیا کر رہے ہو؟ تو انہوں نے جواب دیا: ہم اللہ کی کتاب سن رہے ہیں۔ تو نبی اکرمؐ نے فرمایا: اللہ کا شکر ہے کہ میری امت میں ایسے لوگ بھی ہیں جن میں بیٹھنے کا مجھے حکم دیا گیا ہے، یہ کہہ کر آپؐ صحابہ کرامؓ کے درمیان بیٹھ گئے اور پھر فرمایا: اے ضعفاء و مہاجرین! تم کو خوشخبری ہے قیامت کے دن بڑے نور کی؛ پھر فرمایا: اور تم عام مالداروں سے آدھا دن یعنی پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہوگے۔
اور یہ استماع تلاوت اور سماعت قرآن کسی رسم کے التزام اور رواج کی تابعداری کے بغیر ہو اور اعلان واشتہار کے بغیر ہو اور یہ کہ اس طرح کا استماع اور سماعت رمضان ہی کی کوئی خصوصیت نہیں بلکہ سال بھر کی عبادات اور معمولات میں سے ہے، جب بھی موقع ہو نہایت سادگی اور اخلاص کے ساتھ سننے کا شوق وذوق رکھنے والے حضرات اپنے سے جمع ہوکر تجوید کے ساتھ تلاوت کرنے والے قاری صاحب سے یا ایسے ہی خواتین کسی قاریہ سے تلاوت سننا چاہیں تو سن سکتے ہیں اور اس طرح سننے میں اجر وثواب بھی ہے اور دلوں کا نکھار بھی ہے اور یہ کہ اس طرح کا استماع اور سماعت رمضان ہی کی کوئی خصوصیت نہیں بلکہ سال بھر کی عبادات اور معمولات میں سے ہے، باقی ہمارے زمانے میں سماعت قرآن کے حلقے جو رمضان کے ساتھ مخصوص ومتعین ہوگئے ہیں وہ محض رسمی ورواجی بن گئے ہیں، جس میں خلاف ادب خلاف احتیاط اور خلاف سنت بلکہ مکروہ وناجائز اور حرام اعمال کا ارتکاب بھی ہونے لگا ہے جو ’’نیکی برباد گناہ لازم‘‘ کے مصداق ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: رمضان المبارک علیہ السلام رسول اکرم قرا ن پاک کی تلاوت کے ساتھ تھے اور اور یہ
پڑھیں:
عیدالاضحیٰ۔۔۔ سر تسلیم خم کرنے کا عہد
اسلام ایک ضابطۂ حیات ہے، ایسا مکمل ضابطۂ حیات جو ہماری زندگی کا نصب العین ہونا چاہیے۔ اس کے احکامات پر عمل پیرا ہونے میں ہی نجات اخروی کے ساتھ دنیوی آسودگی اور اطمینان کا سامان بھی ہے۔ اسلام صرف رسومات کا ہی دین نہیں ہے، بل کہ اس نے انسانی حقوق کی پاسداری پر انتہائی زور دیا ہے، اور یہ کہہ کر انسانی حقوق کی ادائی کو مقدم کیا ہے کہ رب تعالٰی اپنے حقوق تو معاف فرما دے گا لیکن انسانوں کے حقوق کی بازپرس ضرور ہوگی۔
عید قرباں بھی احکامات خداوندی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے حقوق انسانی کی پاس داری کا نام ہے۔ ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے: ’’اﷲ تعالیٰ کو ہرگز ان کے گوشت پہنچتے ہیں نہ خون۔ ہاں تمہاری پرہیزگاری اس تک باریاب ہوتی ہے۔‘‘
ذوالحجہ، حرمت والے مہینوں میں سے ہے۔ سورۂ الفجر میں اﷲ تعالیٰ نے دس راتوں کی قسم کھائی ہے اور ان دس راتوں سے مراد ذوالحجّہ کے ابتدائی دس ایام ہیں۔ ان دنوں میں اﷲ تعالی نے اپنا خاص ذکر کرنے کا حکم دیا ہے ان دنوں میں کیے جانے والے نیک اعمال اﷲ تعالٰی کو بہت زیادہ محبوب ہیں حتٰی کہ جہاد فی سبیل اﷲ جیسا افضل عمل بھی ان دنوں میں کیے گئے اعمال سے بڑھ کر نہیں ہے۔
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’کسی بھی دن کیا ہوا عمل اﷲ تعالیٰ کو ان دنوں (کے عمل) سے زیادہ محبوب نہیں ہے۔‘‘ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے سوال کیا: اے اﷲ کے رسول ﷺ! کیا جہاد فی سبیل اﷲ بھی نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جہاد فی سبیل اﷲ بھی نہیں، مگر وہ شخص جو اپنی جان و مال کے ساتھ نکلے اور کچھ واپس لے کر نہ آئے۔‘‘ (سنن بی داؤد)
اسلام، دین فطرت اور انسانیت کے لیے پیغام محبت و الفت ہے۔ اسلام کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ بنی آدم ایک دوسرے سے جُڑے رہیں اور ملت واحد بن جائیں۔ حضور اکرم ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اہل مدینہ سال میں دو دن خوشی کے بہ طور عید منایا کرتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: یہ کون سے دن ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا: جاہلیت میں ہم لوگ ان دنوں میں خوشیاں منایا کرتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اﷲ تعالیٰ نے ان کے بدلے ان سے بہتر دو دن تمہیں دیے ہیں، عیدالفطر اور عیدالضحٰی۔‘‘
رسول کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’کوئی دن اﷲ تعالی کے ہاں ان دس دنوں سے زیادہ عظمت والا نہیں اور نہ ہی کسی دن کا عمل اﷲ تعالیٰ کو ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب ہے پس تم ان دس دنوں میں کثرت سے تحلیل، تکبیر اور تحمید کہا کرو۔‘‘ (مسند احمد)
اسلامی تہوار لہو و لعب اور ہنگامہ آرائی کے لیے نہیں، بل کہ دوسری اقوام سے اس اعتبار سے منفرد ہیں کہ وہ فرحت و نشاط کا ذریعہ بھی ہیں اور وحدت و اجتماعات اور ایثار، قربانی اور اجتماعی عبادات کا منبع بھی۔ سرور دو عالم ﷺ کے فرمان مبارک کا مفہوم ہے: ’’جس نے عیدین کی رات (شب عیدالفطر اور شب عیدالضحٰی) قیام کیا اس دن اس کا دل نہیں مَرے گا۔ جس دن لوگوں کے دل مَرجائیں گے۔‘‘ (ابن ماجہ)
عید اس کی نہیں جس نے نئے کپڑے پہن لیے، بل کہ حقیقت میں تو عید اس کی ہے جو عذاب الہٰی سے ڈر گیا۔ سیدنا عمر فاروق اعظمؓ کے دورخلافت میں لوگ عید کے روز کاشانۂ خلافت پر حاضر ہوئے تو دیکھا کہ امیرالمؤمنین دروازہ بند کرکے زار و قطار رو رہے ہیں۔ لوگوں نے حیرت زدہ ہوکر دریافت کیا: یاامیرالمؤمنینؓ! آج تو عید کا دن ہے اور آپ خوشی کی جگہ رو رہے ہیں؟ سیدنا فاروق اعظمؓ نے فرمایا: اے لوگو! یہ دن عید کا بھی ہے اور وعید کا بھی۔
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’اﷲ تعالی کے نزدیک سب سے زیادہ فضیلت والے دن یوم النحر اور یوم القر ہیں۔ یہ اہل ایمان کے لیے نیکیاں کرکے اجر و ثواب حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے۔ ان دنوں میں کثرت کے ساتھ تحلیل (لاالہ الااﷲ) تکبیر (اﷲ اکبر) تحمید (الحمدﷲ) پڑھنا بہت اجر کا باعث ہے۔‘‘ (صحیح ابن حبان)
قربانی دین اسلام کے شعائر میں سے ہے۔ یہ ایک ایسا فریضہ ہے جو بارگاہِ رب العزت میں انتہائی مقبول ہے کیوں کہ قربانی کے ذریعے اﷲ تعالیٰ کے حضور بندہ اپنی جان و مال کا نذرانہ پیش کرکے درحقیقت اپنے جذبۂ عبودیت کا اظہار کرتا ہے، جو اﷲ تعالیٰ کو بہت پسند ہے کیوں کہ توحید باری تعالیٰ کا سب سے بڑا تقاضا یہی ہے کہ انسان کی محبت کا محور صرف ذات باری تعالیٰ ہو۔
اس کی جان نثاری، اس کی عبادت غرض کہ اس کا ہر فعل اﷲ تعالیٰ کی خوش نُودی کے لیے اسی طرح انسان کے مال و جان کی قربانی بھی صرف اﷲ تعالیٰ کے لیے ہو۔ اسلام کے نظام عبادت میں ہر لحظہ قربانی کا جذبہ پایا جاتا ہے، جیسے نماز اور روزہ انسانی ہمت اور طاقت کی قربانی ہے۔ زکوٰۃ، انسان کے مال و زر کی قربانی ہے۔ حج بیت اﷲ، انسان کی ہمت اور مال و زر کی قربانی ہے۔ حقوق اﷲ اور حقوق العباد میں بہت سے تقاضے ایسے ہیں جو انسانی قربانی کے مترادف ہیں۔
اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جو لاکھوں نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان میں سے ایک عظیم نعمت عید قربان بھی ہے۔ مسلمان اس عید کے تین ایام میں مخصوص جانوروں کو ذبح کرکے اﷲ تعالیٰ کے حضور بہ طور ہدیہ پیش کرتے ہیں۔ قربانی کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ قرآن مجید کی مختلف آیات مقدسہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی امتِ محمدیؐ سے قبل امتوں پر بھی لازم تھی۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے ہابیل اور قابیل اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانیوں کا تذکرہ قرآن حکیم میں روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ ’’اﷲ تعالیٰ کو ہرگز ان کے گوشت پہنچتے ہیں نہ ان کے خون۔ ہاں تمہاری پرہیزگاری اس تک باریاب ہوتی ہے۔‘‘
اسلام میں قربانی کی بے پناہ فضیلت ہے کیوں کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو اﷲ کریم کی بارگاہ میں بہت زیادہ قبولیت کا درجہ رکھتا ہے۔ اسی بنا پر قربانی کی ضرورت و اہمیت کتاب و سنت میں بہت تاکید کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔ کیوں کہ اسلامی معاشرے میں تعمیری طور پر قربانی کے بے شمار فوائد ہیں۔ قربانی کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ انسانی افکار میں جذبۂ ادائے اطاعت پیدا کیا جائے۔ اسی عظیم جذبے کے تحت انسان کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ سال میں ایک مرتبہ اﷲ تعالیٰ کی رضا اور خوش نودی کے لیے جانوروں کو قربان کرے، جس سے اس میں حکم خداوندی پر عمل پیرا رہنے کی قوت برقرار رہے۔
حضرت زید ابن ارقمؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریمؐ سے دریافت کیا گیا کہ، یارسول اﷲ ﷺ! یہ قربانیاں کیسی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنّت ہے۔ آپ ﷺ سے پوچھا گیا ہمارے لیے ان میں کیا اجر ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ہے۔ آپ ﷺ سے پوچھا گیا اور خون کے بدلے میں ؟ آپؐ نے فرمایا: ہر خون کے قطرے کے بدلے میں ایک نیکی ہے۔
10ذوالحجہ، کو یوم النحر یعنی قربانی کا دن کہتے ہیں۔ اس دن اﷲ تعالی کی رضا و خوش نودی حاصل کرنے کے لیے بہ قدر استطاعت قربانی کرنا اور اس فرض کی ادائی میں ریاکاری اور فخر و تکبّر سے بچنے کا اہتمام کرنے کی بہت قدر و منزلت ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اﷲ کو قر بانی کا گوشت اور لہو نہیں پہنچتا بل کہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘
سورۂ الانعام میں ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’کہہ دیجیے! میری نماز، اور قربانی، اور میری زندگی اور موت سب کی سب اﷲ رب العالمین کے لیے ہے۔‘‘
تمام نیکیوں کی طرح عید قربان کا بھی ایک خاص مقصد ہے اور وہ یہ ہے کہ اﷲ کی راہ میں مخلص ہوکر جانور کا ذبح کرنا۔ رسول اﷲ ﷺ نے اس حوالے سے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اﷲ تعالیٰ کو تمہارے جانور کا نہ تو لہو پہنچتا ہے اور نہ ہی گوشت پہنچتا ہے، بل کہ صرف اور صرف تمہارا اخلاص اﷲ تعالیٰ کو پہنچتا ہے۔
حضور اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ میں 10 سال قیام کے دوران ایک مرتبہ بھی قربانی ترک نہیں کی۔ باوجود اس کہ آپ ﷺ کے گھر میں بہ وجہ قلت طعام کئی کئی مہینے چولہا نہیں جلتا تھا۔ قربانی کی اہمیت کا اندازہ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی اس حدیث مقدس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو آدمی قربانی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو، پھر بھی قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ میں داخل نہ ہو۔‘‘
عید قرباں کا اصل پیغام اطاعت رب میں اپنی جاں سے بھی گزر جانا ہے۔ عید قرباں کو اس کی اصل روح کو سمجھتے اور اس پر عمل کرتے ہوئے منائیے۔ اسے نمود و نمائش بنانے سے احتراز کیجیے اور اپنے ہر عمل میں صرف رضائے الہی کے حصول کو مدنظر رکھیے۔ عید قرباں پر اپنے ڈیپ فریزر مت بھریے بل کہ نادار اور ضرورت مند مخلوق کے لیے ایثار کیجیے جو ان نعمتوں کے لیے سال بھر ترستے رہتے ہیں۔