پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ ریمارکس پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہماری پاناما کینال پر قبضہ کرنے یا کینیڈا کو فتح کرنے کی کوئی توسیع پسندانہ پالیسی نہیں ہے، ہمارے جوہری ہتھیار صرف اپنے دفاع کے لیے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ سابق وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے مغرب کی منافقت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کون سے اصول ہیں جو کسی کو ایٹمی ہتھیار بنانے کا حقدار بناتے ہیں؟ رپورٹ کے مطابق مباحثہ کرنے والی باوقار سوسائٹی آکسفورڈ یونین، جو عالمی رہنماؤں کو طلبہ اور ماہرین تعلیم کے سامنے کلیدی مسائل پر بات کرنے کی دعوت دیتی ہے، میں مختلف موضوعات پر تقریر کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ انہیں امریکا کی طرف سے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر پابندی عائد کرنے پر تشویش ہے اور پوچھا کہ کسی ملک کی دفاعی صلاحیتوں کے قوانین کی وضاحت کون کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کھلی منافقت ہے، کیا ایسا ہے کہ ہر مغربی یا سفید فام ملک کو جوہری ہتھیاروں کی اجازت ہے اور دوسروں کو نہیں؟ پاکستان کا ایٹمی ہتھیاروں کا پروگرام جارحانہ نہیں ہے۔ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ ریمارکس پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہماری پاناما کینال پر قبضہ کرنے یا کینیڈا کو فتح کرنے کی کوئی توسیع پسندانہ پالیسی نہیں ہے، ہمارے جوہری ہتھیار صرف اپنے دفاع کے لیے ہیں۔ یہ تقریب ایک منقسم دنیا میں جمہوریت کے بارے میں بات کرنے کے لیے ’بےنظیر بھٹو میموریل لیکچر‘ کے عنوان سے پی پی پی کی سابق وزیر اعظم کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے منعقد کی گئی تھی۔ مرحوم بےنظیر بھٹو کا ایک پورٹریٹ ہال میں آویزاں تھا لیکن اس پوڈیم سے دور تھا جہاں بلاول نے تقریر کی تھی۔

بلاول بھٹو زرداری نے اپنی والدہ کے بارے میں تفصیل سے بات کی، جو ممتاز یونیورسٹی کی سابق طالبہ اور یونین کی پہلی ایشیائی خاتون صدر بھی تھیں۔ انہوں نے جمہوریت کے لیے ان کی قربانیوں، سیاست سے وابستگی اور ایک خاتون سیاستدان کے طور پر ان کے مقام کو سراہا جو ایک ماں بھی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میری والدہ 16 سال کی عمر میں آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کرنے آئیں اور پھر 25 سال کی عمر میں سیاست میں حصہ لینے کے لیے پاکستان چلی گئیں، وہ ایک غیر معمولی خاتون تھیں، جن کے ساتھ لوگ ذاتی طور پر تعلقات قائم کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میری ماں نے مجھے بدلہ لینا نہیں سکھایا، اسی لیے میں کہتا ہوں کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے خواتین کو قائدانہ عہدوں پر تعینات کرنے کے لیے پاکستان کی پیش رفت کے بارے میں بات کی، جس میں خاتون وزیر خارجہ، خاتون وزیر اعلیٰ اور حتیٰ کہ پارلیمنٹ کی خاتون اسپیکر بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خواتین پر عائد پابندیوں کے باوجود بے نظیر بھٹو نے پاکستان میں خواتین کے آگے آنے کی راہ ہموار کی، آج پنجاب کی وزیر اعلیٰ بھی ایک خاتون ہیں، بے نظیر بھٹو کو نشانہ بنانے کی کئی کوششیں کی گئیں لیکن وہ بلاخوف و خطر سیاست میں حصہ لیتی رہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا مستقبل ’عوام کی بالادستی، آزاد عدلیہ اور صحافت‘ سے وابستہ ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان کے عوام ایک بہتر مستقبل کا مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں، عوام ایک بہتر مستقبل کے مستحق ہیں جس کا عوام سے وعدہ کیا گیا ہے، وہ یقینی طور پر ایک اور فوجی بغاوت کے مستحق نہیں ہیں۔ ان کے لیکچر کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی کے صدر اسرار خان نے سوال و جواب کے سیشن کی میزبانی کی، جس میں چیئرمین پیپلز پارٹی سے پاکستان میں انسانی حقوق اور جمہوری اصولوں کی پامالی کو لے کر خدشات کا اظہار کیا گیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے جواب میں کہا کہ تجربہ کار جمہوریتوں میں بھی مسائل ہوتے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: بلاول بھٹو زرداری نے پیپلز پارٹی نے کہا کہ نے کے لیے انہوں نے

پڑھیں:

صدر آصف علی زرداری اتحاد، خودمختاری اور جمہوری استحکام کے علمبردار

پاکستان کے مسلسل بدلتے ہوئے سیاسی منظرنامے میں صدر آصف علی زرداری ایک ایسی بلند قامت شخصیت کے طور پر سامنے آتے ہیں جنہوں نے جمہوری استحکام، صوبائی خودمختاری اور قومی مفاہمت میں تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ ان کی 2024 میں ایوان صدر میں واپسی صرف ایک سیاسی تقرری نہیں، بلکہ اس عزم کی تجدید ہے جو وہ ہمیشہ جمہوریت، آئین اور وفاقی نظام کے لیے رکھتے آئے ہیں۔

صدر زرداری کا سیاسی سفر سہولت پر مبنی نہیں بلکہ قربانی اور استقامت سے بھرا ہوا ہے، انہوں نے گیارہ سال سے زائد سیاسی انتقام پر مبنی بغیر کسی سزا کے قید کاٹی لیکن کبھی تلخی کو اپنی پہچان نہیں بننے دیا، وہ ہمیشہ بردباری، مفاہمت اور آئینی اداروں کے احترام کے حامی رہے۔

2007 میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی المناک شہادت کے بعد جب پورا ملک سوگوار تھا تو آصف زرداری نے نہ صرف پارٹی بلکہ پورے پاکستان کو متحد رکھا، ان کے تاریخی الفاظ ’’پاکستان کھپے‘‘ نے جذبات کے بجائے وطن کی سالمیت کو ترجیح دی۔ 

یہ وہی وژن تھا جسے بینظیر بھٹو نے مفاہمت کی سیاست کے ذریعے فروغ دیا، جس کا عملی مظاہرہ چارٹر آف ڈیموکریسی (میثاقِ جمہوریت) کی صورت میں 2006 میں نواز شریف کے ساتھ کیا گیا۔

جب صدر زرداری 2008 میں صدارت کے منصب پر فائز ہوئے تو انہوں نے اسی وژن کو عملی جامہ پہنایا، ان کی قیادت میں منظور ہونے والی اٹھارہویں آئینی ترمیم محض ایک قانونی اصلاح نہیں تھی بلکہ پاکستان کے وفاقی ڈھانچے کی بحالی تھی۔ 

اس ترمیم کے ذریعے انہوں نے صدارت کے اختیارات رضاکارانہ طور پر پارلیمان کو واپس دیے اور آمریت کے دور کی آئینی بگاڑ کو درست کیا۔

اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو خودمختار کیا، نہ صرف قانون سازی کے حوالے سے بلکہ ترقیاتی اور مالیاتی منصوبہ بندی کے لحاظ سے بھی پہلی بار، صوبے اپنے وسائل اور ضروریات کے مطابق فیصلہ سازی کے قابل ہوئے، یہ صرف آئینی تقاضا نہیں تھا بلکہ حقیقی وفاقیت کی طرف عملی قدم تھا۔

صدر زرداری کا وژن صرف سیاسی نہیں معاشی میدان میں بھی انقلابی ثابت ہوا، ان کی قیادت میں زرعی شعبے کو خصوصی ترجیح دی گئی۔ 

کسان دوست پالیسیوں، بروقت بیجوں اور کھاد کی فراہمی، منصفانہ نرخوں، اور زرعی قرضوں کی فراہمی نے ملک بھر میں زرعی پیداوار میں تاریخی اضافہ کیا۔ 

ان کی پالیسیوں کے نتیجے میں صرف ایک سال کے اندر پاکستان گندم درآمد کرنے والے ملک سے گندم برآمد کرنے والا ملک بن گیا، یہ صرف ایک معیشتی کامیابی نہیں بلکہ کاشتکاروں کے اعتماد کی بحالی اور قومی غذائی سلامتی کی ضمانت تھی۔

2010 اور 2011 کے تباہ کن سیلابوں کے دوران صدر زرداری کی قیادت، نگرانی اور قومی رابطے کی صلاحیت نے ثابت کیا کہ وہ آزمائش میں بھی قوم کے ساتھ کھڑے رہنے والے لیڈر ہیں۔ 

ان سیلابوں میں لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، فصلیں اور بنیادی ڈھانچے تباہ ہوئے لیکن زرداری صاحب نے ریلیف کیمپوں، طبی امداد اور بحالی کے عمل کو ذاتی طور پر مانیٹر کیا۔ 

انہوں نے قومی اداروں، صوبائی حکومتوں اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر ریلیف کے کاموں کو مؤثر اور منظم رکھا۔

اسی دوران انہوں نے معاشرے کے محروم طبقے کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا آغاز کیا جو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سماجی تحفظ کا منصوبہ تھا۔ 

یہ پروگرام خاص طور پر خواتین کو با اختیار بنانے کے لیے تھا، جن میں سے لاکھوں کو پہلی بار شناختی کارڈ، بینک اکاؤنٹ اور مالی خودمختاری حاصل ہوئی، اس پروگرام نے صرف غربت کم نہیں کی بلکہ خواتین کی حیثیت کو بدلا اور پاکستان میں معاشرتی تبدیلی کی بنیاد رکھی۔

صدر زرداری کا طرزِ سیاست ہمیشہ بردباری، مکالمے اور جمہوری تسلسل پر مبنی رہا ہے، ان کی قیادت ٹکراؤ پر نہیں بلکہ مشترکہ قومی مفاد پر استوار ہے۔ 

انہوں نے شہید بینظیر بھٹو کی مفاہمتی سیاست کو جاری رکھا اور مخالفین کو دشمن کے بجائے مکالمہ کرنے والا فریق سمجھا۔

ان کے پہلے دورِ صدارت میں ہی پاکستان نے اپنی تاریخ کا پہلا پُرامن جمہوری انتقالِ اقتدار دیکھا، جب ایک منتخب حکومت نے اپنی مدت مکمل کر کے اگلی منتخب حکومت کو اقتدار سونپا جو صرف جمہوریت پر یقین اور آئینی عملداری کی بدولت ممکن ہوا۔

آج 2025 میں جب وہ دوبارہ ایوانِ صدر میں موجود ہیں تو ان کا وژن وہی ہے۔ وفاق کو مضبوط کرنا، صوبوں کو بااختیار بنانا، غریب اور محروم طبقات کی فلاح اور آئینی نظام کا استحکام۔ 

انہوں نے حالیہ دنوں میں بھی سیاسی قوتوں کو مکالمے کی دعوت دی ہے، تاکہ ملک کو محاذ آرائی سے بچا کر ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔

ان کی مسکراہٹ جو ہر کٹھن وقت میں برقرار رہتی ہے! صرف ذاتی مزاج کی عکاس نہیں بلکہ سیاسی بصیرت، برداشت اور یقین کی علامت ہے۔ 

وہ ایک ایسے لیڈر ہیں جو اقتدار کو ذاتی اختیار کے لیے نہیں، بلکہ آئینی اداروں، پارلیمان اور عوام کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

آج جب ہم 26 جولائی کو صدر آصف علی زرداری کی سالگرہ مناتے ہیں تو ہم صرف ایک سیاستدان کو نہیں بلکہ ایک دوراندیش رہنما کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جو وفاقی ہم آہنگی، جمہوری اقدار اور عوامی خدمت کے استعارے بن چکے ہیں۔

سالگرہ مبارک ہو، جنابِ صدر! آپ کا وژن پاکستان کو آئینی، بااختیار اور خوشحال بنانے کی راہ پر قائم رکھے۔

تحریر: شازیہ مری، مرکزی اطلاعات سیکریٹری پی پی پی-پی، ممبر قومی اسمبلی

متعلقہ مضامین

  • (سندھ بلڈنگ ) ڈی جی شاہ میر بھٹو کی کھوڑ و سسٹم پر مہربانیاں
  • صدر آصف علی زرداری اتحاد، خودمختاری اور جمہوری استحکام کے علمبردار
  • ’’ہیپی برتھ ڈے صدر زرداری‘‘،70 ویں سالگرہ پر بلاول،بختاور،آصفہ، فریال اور جیالوں کی مبارکباد
  • اسرائیل اور بھارت سے سفید چینی درآمد کرنے پر مکمل پابندی
  • آصفہ بھٹو کا سندھ انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیونٹالوجی کے اسپتالوں کا دورہ
  • امریکا میں ٹرانس جینڈر کھلاڑیوں پر پابندی سے متعلق اولمپک کمیٹی کا اہم فیصلہ
  • ترکیے نے پہلا ہائپر سونک بیلسٹک میزائل ’ٹائفون بلاک 4‘ متعارف کرادیا
  • ڈبلیو ایچ او نے حفاظتی ٹیکوں سے متعلق پاکستان کے توسیعی پروگرام کے تحت800 میں سے 748 موٹر سائیکل تقسیم کر دیں
  • صدر مملکت سے آسٹریا کی سبکدوش سفیر کی الوداعی ملاقات
  • پنجاب اسمبلی، سکولوں میں طلبہ کیلئے موبائل فون کے استعمال پر پابندی کی قرارداد جمع