پاکستان کی ٹرانس جینڈر کمیونٹی اور تدفین کے مسائل
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 فروری 2025ء) متعدد ٹرانس جینڈرز کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کا کہنا تھا کہ ان کا دکھ اس وقت مزید بڑھ جاتا ہے، جب ان کے ساتھی موت کے بعد باعزت تدفین سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کے بقول ٹرانس جینڈرز کو عام قبرستانوں میں جگہ نہ ملنے، نماز جنازہ پڑھانے کے لیے کسی مذہبی شخصیت کے دستیاب نہ ہونے اور ان کی آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے عام سٹاف کا عدم تعاون جیسے مسائل مشکلات کا باعث بن رہے ہیں۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی سرگرم رکن ریم شریف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دنیا چھوڑ جانے والے ٹرانس جینڈرز کی تدفین کے دوران پیش آنے والے مسائل کے حل کے لیے معاشرتی رویوں میں بہتری اور عوام میں شعور کی بیداری ناگزیر ہے تاکہ ٹرانس جینڈرز کو عزت و وقار کے ساتھ سپردِ خاک کرنے میں کوئی رکاوٹ درپیش نہ ہو۔
(جاری ہے)
موت کے بعد لاوارث؟راولپنڈی میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے ایک رہنما ببلی ملک نے بتایا کہ خونی رشتہ دار اکثر اپنے ٹرانس جینڈر بچوں کی ذمہ داری لینے سے انکاری ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی تدفین کی ذمہ داری ان کے منتخب کردہ ٹرانس جینڈر خاندانوں پر آ جاتی ہے۔
ببلی ملک کے مطابق زندگی میں لاتعلقی برتنے والے یہ خاندان اپنے ٹرانس جینڈر رشتہ داروں کے جنازے میں شرکت سے بھی کتراتے ہیں اور بعض اوقات معاشرے میں بدنامی کے خوف سے مرنے کے بعد پہچاننے سے بھی انکار کر دیتے ہیں، ''سماجی دباؤ اور بدنامی کے خوف سے ٹرانس جینڈرز کے جنازے گھروں میں رکھنے سے گریز کیا جاتا ہےکیونکہ لوگ سوالات اٹھاتے ہیں۔
‘‘ٹرانس جینڈرز کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ریم شریف نے پشاور کے اقبال پلازہ میں پیش آنے والے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ کرک سے تعلق رکھنے والے ایک ٹرانس جینڈر، جس کا فرضی نام کومل تھا، کو گزشتہ سال قتل کر دیا گیا تھا۔ تاہم اس کا جنازہ پڑھانے کے لیے کوئی بھی مقامی عالم تیار نہ تھا۔
خیبر پختونخوا میں سات سال میں سوا سو سے زائد ٹرانس جینڈر افراد قتل
بالآخر شام ڈھلنے کے بعد خطیر رقم دے کر ایک صاحب کو جنازہ پڑھانے پر آمادہ کیا گیا، '' دیکھیے ہمارے معاشرے میں کسی ٹرانس جینڈر پر ہاتھ اٹھانا یا اسے تشدد کا نشانہ بنانا تو ایک عام سی بات سمجھا جاتا ہے لیکن اس دکھ کا اندازہ لگانا آسان نہیں ہے، جب کسی کے پیارے کی میت کی تدفین ایک بڑا چیلنج بن جائے۔
یہ صورت حال اس وقت تو بہت ہی سنگین صورت اختیار کر جاتی ہے، جب مرنے والے ٹرانس جینڈر کے والدین یا قریبی رشتہ داروں کا کوئی اتا پتا نہ ہو اور اس کی شناختی دستاویزات بھی دستیاب نہ ہوں۔‘‘اسلام آباد میں انسانی حقوق کی کارکن ندیم کشش کے مطابق ٹرانس جینڈرز کی شناخت والدین سے نہ جڑنے کے باعث اکثر ان کی قبروں پر نام کی تختی نہیں لگائی جاتی، جس سے ان کی پہچان اور یاد دونوں مٹ جاتے ہیں۔
ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے لیے علیحدہ قبرستان؟ایک درجن کے قریب ٹرانس جینڈرز سے ہونے والی بات چیت سے اندازہ ہوا کہ پاکستان میں ان کے لیے کوئی مخصوص قبرستان موجود نہیں ہے تاہم بعض ٹرانس جینڈر اپنے روحانی پیشواؤں کے درباروں یا مزاروں کے قریب دفنائے جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ببلی ملک کے مطابق پاکستان میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی نے کبھی علیحدہ قبرستان کا مطالبہ نہیں کیا اور ایسا ہونا بھی نہیں چاہیے، کیونکہ اس طرح مزید تفریق جنم لے گی۔
ان کے بقول معاشرے میں ٹرانس جینڈرز کے حوالے سے رویے مختلف ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ شعور اور قبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ببلی ملک نے راولپنڈی کے مائی ٹیڈی نامی ٹرانس جینڈر کی تدفین کا واقعہ بیان کیا، جس میں تنازع پیدا ہوا مگر شاہ پیارے قبرستان کے منتظمین نے انہیں دربار کے قریب دفنائے جانے کی اجازت دے دی، یہ کہہ کر کہ وہ بھی مسلمان ہے۔
صنفی شناخت کا مسئلہریم کا کہنا ہے کہ ٹرانس جینڈر ہونا صرف صنفی شناخت کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ سماجی قبولیت اور محدود روزگار کے مواقع سے بھی جڑا ہے۔ ان کے مطابق ٹرانس جینڈرز کو امتیازی سلوک اور تنقید کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن ملازمت کے بہتر مواقع فراہم کرنے سے ان کی سماجی حیثیت میں بہتری آ سکتی ہے۔
سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل قبلہ ایاز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو عمومی طور پر تحقیر آمیز رویے اور شدید جنسی استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ معاشرتی رکاوٹوں کے باعث ان کی اکثر رات کے وقت خاموشی سے تدفین کر دی جاتی ہے۔
پاکستان میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے حوالے سے حتمی اور قابل اعتماد اعداوشمار میسر نہیں ہیں۔ پاکستان کے سرکاری حلقوں کا اصرار ہے کہ یہ تعداد اکیس سے بائیس ہزار کے قریب ہے تاہم آزاد تجزیہ نگار اس تعداد سے متفق نہیں ہیں۔ ان کے بقول یہ سرکاری اعداد و شمار ممکنہ طور پر حقیقی تعداد کی مکمل عکاسی نہیں کرتے، کیونکہ معاشرتی دباؤ اور دیگر عوامل کی وجہ سے بہت سے ٹرانس جینڈرز اپنی شناخت ظاہر نہیں کرتے۔
پاکستان سن 2009 میں ٹرانس جینڈرز کو تیسری جنس کے طور پر تسلیم کر چکا ہے اور سن 2018 میں ٹرانس جینڈرز کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی بھی کی گئی تھی۔ تاہم مبصرین کی رائے کے مطابق اس قانون کے مؤثر نفاذ کے لیے مزید عملی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ یہ محض کاغذی کارروائی کی حد تک محدود نہ رہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ٹرانس جینڈر کمیونٹی ٹرانس جینڈرز کو ٹرانس جینڈرز کے پاکستان میں بتایا کہ ببلی ملک کے مطابق کی تدفین کے قریب نے والے کے بعد سے بھی کے لیے
پڑھیں:
امریکی ویزا فیس میں اضافہ، غیر ملکیوں کو کن مسائل کا سامنا کرنا ہوگا؟
امریکا کا سفر کرنے کے خواہش مند یوگنڈا کے شہریوں کو جلد ہی ویزا کے لیے بھاری لاگت کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ نئی امریکی امیگریشن قانون سازی کے تحت بیشتر نان امیگرنٹ ویزوں پر 250 ڈالر کی ’ویزا انٹیگریٹی فیس‘ لاگو کر دی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:امریکی ویزا کے لیے سوشل میڈیا کی جانچ پڑتال: ’پرائیویسی ہر شخص کا بنیادی حق ہے‘
یہ فیس اس نئے قانون کا حصہ ہے جسے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’ون بگ بیوٹی فل بل‘(BBB) ،کا نام دیا ہے۔
یہ قانون 4 جولائی 2025 کو نافذ کیا گیا اور توقع ہے کہ یہ اکتوبر 2025 یا ابتدائی 2026 میں مکمل طور پر لاگو ہو جائے گا، جب امریکا کا نیا مالی سال شروع ہوتا ہے۔
یہ اضافی فیس تقریباً تمام عارضی ویزا اقسام پر لاگو ہو گی، جن میں سیاحتی (B1/B2)، تعلیمی (F، M)، تبادلہ پروگرام (J)، عارضی ملازمین (H)، اور ان کے زیر کفالت افراد شامل ہیں۔
سفارتی پاسپورٹ رکھنے والے اور ویزا ویور پروگرام (جس میں یوگنڈا شامل نہیں) کے تحت سفر کرنے والے افراد اس فیس سے مستثنیٰ ہوں گے۔
فیصلے کے اثرات اور اخراجات کی تفصیلموجودہ شرح تبادلہ (1 امریکی ڈالر = تقریباً 3,820 شِلنگ) کے مطابق، 250 ڈالر کی فیس یوگنڈا کے تقریباً 955,000 شِلنگ بنتی ہے، جو کہ یوگنڈا کی کم از کم ماہانہ اجرت سے 5 گنا زیادہ ہے اور موجودہ ویزا فیس (185 ڈالر) سے بھی تقریباً دُگنی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:غزہ کا دورہ کرنے والے امریکی ویزا درخواست گزاروں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس دیکھنے کا حکم
اس طرح ایک یوگنڈا کے شہری کو ویزا درخواست کے لیے مجموعی طور پر 1.66 ملین شِلنگ ادا کرنا ہوں گے، جس میں سفری اور دستاویزی اخراجات شامل نہیں۔
امریکی حکومت کے مطابق اس فیس کا مقصد ویزا کی شرائط کی بہتر نگرانی، غیر قانونی قیام اور ملازمتوں کے خلاف کارروائیوں کی مالی معاونت کرنا ہے۔
یہ فیس اس شرط پر قابلِ واپسی ہو گی کہ درخواست گزار امریکی ویزا کی تمام شرائط، بشمول مدت ختم ہونے سے قبل واپسی، پوری کریں۔
تنقید اور مخالفتناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ویزا شفافیت سے زیادہ ایک روک تھام کی حکمت عملی ہے۔
ایک تبصرہ نگار کے مطابق یہ دیانت دار مسافروں، طلبہ اور پیشہ ور افراد کو سزا دینے کے مترادف ہے اور تارکین وطن کے خلاف نفرت کو بڑھاوا دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:جعلی دستاویزات پر امریکی ویزا کے حصول کی کوشش ناکام، 3 ملزمان گرفتار
ان کا کہنا تھا کہ امریکا دیواروں اور درختوں سے نہیں بلکہ تارکین وطن سے بنا تھا۔ یہ انٹیگریٹی نہیں، اخراج ہے۔
طلبہ سب سے زیادہ متاثریہ اضافی فیس ان یوگنڈا کے خاندانوں کے لیے خاص طور پر بوجھ کا باعث بنے گی جو اپنے بچوں کو امریکی جامعات میں تعلیم کے لیے بھیجتے ہیں۔
مثلاً F-1 اسٹوڈنٹ ویزا کے لیے اب صرف ویزا فیس میں 1.6 ملین شِلنگ سے زائد لاگت آئے گی، جب کہ اس میں SEVIS فیس، ٹیوشن ڈپازٹ، اور میڈیکل انشورنس جیسے اضافی اخراجات شامل نہیں۔
یوگنڈا کے ایک والد ڈینیئل کیرابو کا کہنا ہے کہ امریکا میں تعلیم پہلے ہی مہنگی ہے، اب تو کلاس میں قدم رکھنے سے پہلے ہی والدین کو لاکھوں خرچ کرنا ہوں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا امریکی ویزا طلبہ مسافر یوگنڈا