غزہ جنگ بندی معاہدہ: کل2 اسرائیلوں سمیت 6 یرغمالیوں کے بدلے600 فلسطینی رہا ہونگے
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
غزہ: فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ بندی معاہدے کے تحت قیدیوں کے تبادلے کا سلسلہ جاری ہے، حماس نے مزید 6 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا اعلان کیا ہے، جن میں ایلیا اسحاق کوہن، عمر شیم توف، عومر ونکرت، تال شوہام، اویرا منجستو، اور ہشام السید شامل ہیں۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کےمطابق ان 6 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے میں اسرائیل 602 فلسطینی قیدیوں کو آزاد کرے گا، رہا ہونے والے فلسطینی قیدیوں میں 50 عمر قید کی سزا پانے والے، 60 طویل المدتی قیدی، اور 47 وہ افراد شامل ہیں جو 2011 میں گیلاد شالیت کے تبادلے میں رہا ہونے کے بعد دوبارہ گرفتار کیے گئے تھے، 445 قیدی وہ ہیں جنہیں 7 اکتوبر 2023 کے بعد غزہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔
خیال رہےکہ 15 فروری 2025 کو حماس نے 3 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا تھا، جس کے بدلے میں اسرائیل نے 369 فلسطینی قیدیوں کو آزاد کیا تھا، ان قیدیوں کی رہائی خان یونس میں عمل میں آئی، جہاں فلسطینی قیدیوں کا پُرجوش استقبال کیا گیا۔
واضح رہےکہ جنگ بندی معاہدے کے تحت قیدیوں کے تبادلے کے یہ ساتواں مرحلہ ہے، جس میں دونوں فریقین مرحلہ وار قیدیوں کی رہائی پر عمل پیرا ہیں، اس معاہدے کا مقصد 15 ماہ سے جاری جنگ کا خاتمہ اور خطے میں امن و استحکام کی بحالی ہے۔
یاد رہےکہ مجموعی طور پر اب تک حماس نے 9 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا ہے جبکہ اسرائیل نے 971 فلسطینی قیدیوں کو آزاد کیا ہے آنے والے دنوں میں مزید قیدیوں کی رہائی متوقع ہے، جو معاہدے کی شرائط کے مطابق عمل میں لائی جائے گی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسرائیلی یرغمالیوں فلسطینی قیدیوں کی رہائی
پڑھیں:
ہم نے جنگبندی کے معاہدے کی تجاویز کا جواب دیدیا، حماس
فلسطین کی اس مقاومتی تحریک کی یہ سٹیٹمنٹ ایسے موقع پر سامنے آئی جب عالمی سطح پر حماس کے جواب کا انتظار کیا جا رہا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ ابھی کچھ دیر قبل فلسطین کی مقاومتی تحریک "حماس" نے غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے معاہدے کی تجاویز کا جواب دینے کی خبر دی۔ اس حوالے سے حماس نے ایک بیان جاری کیا۔ جس میں انہوں نے اعلان کیا کہ ہم نے ثالثین کو اپنی اور دیگر مقاومتی تحریکوں کی جانب سے جنگ بندی کا جواب ارسال کر دیا۔ المیادین کے مطابق، حماس نے اپنے بیان میں مجوزہ جنگ بندی کے لئے دئیے گئے جواب کی کوئی تفصیل جاری نہیں کی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ فلسطین کی اس مقاومتی تحریک کی یہ سٹیٹمنٹ ایسے موقع پر سامنے آئی جب عالمی سطح پر حماس کے جواب کا انتظار کیا جا رہا تھا اور امریکی نمائندہ برائے امور مشرق وسطیٰ "سٹیون وائٹکوف" کی نگرانی میں مذکورہ معاہدے پر بات چیت کے لیے اجلاس جاری تھا۔