لاجسٹک صنعت کو سالانہ 36 ارب ڈالر کے نقصانات کے سامنا
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
کراچی(کامرس رپورٹر)تجارت تاحال آف لائن ہونے کے سبب پاکستان کی لاجسٹکس صنعت ہر سال تقریباً 36 بلین ڈالر کے نقصانات کا سامنا کر رہی ہے جس کی وجہ سے اس شعبے میں20سے 30لاکھ ملازمتوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے سمندری تجارت کو فروغ دینے کے لیے ماہرین اور پیشہ ور افراد نے اس امرپر تشویش کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ حقیقی وقت میں حل، بشمول پروسیسنگ، ٹریکنگ اور دیگر ڈیجیٹل سہولتیں، ترقی کے مواقع سے فائدہ اٹھانے اور ترقی یافتہ دنیا کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ حکومت کے عمل تقریباً حقیقی وقت میں تبدیل ہو چکے ہیں، پھر بھی ایک نمایاں فرق موجود ہے، کیونکہ نجی شعبے کی تقریبا 70 فیصد سرگرمیاں، بشمول فریٹ فارورڈرز اور متعلقہ خدمات فراہم کرنے والوں کی، اب بھی پُرانے اور دستی طریقوں پر انحصار کر رہی ہیں۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ صرف 40 فیصد درآمد شدہ کنٹینرز پاکستان سے برآمدات کی صورت میں واپس آتے ہیں، جو تجارتی عدم توازن کو ظاہر کرتا ہے، ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹلائزیشن پاکستان کی سرحد پار تجارت کو تبدیل کرنے کی کلید ہیں اور حکومت نے عوامی-نجی شراکت داریوں کی حمایت کی ہے تاکہ اعتماد بڑھایا جا سکے اور ملک کی تجارتی صلاحیت کو بہتر بنایا جا سکے۔اس ضمن میں ڈیجیٹل کے شعبے سے وابستہ نوجوان مرزاشاہ زیب بیگ نے کہا کہ ایسی دنیا میں جہاں ہر قوم ڈیجیٹل تبدیلی کی طرف بڑھ رہی ہے، پاکستان کو پیچھے نہیں رہنا چاہیے، بہتر انفراسٹرکچر، حکومت کی ترغیبات، اور معاون ریگولیٹری ماحول ملک کے 70 فیصد آف لائن تجارتی ماحولیاتی نظام کو ایک متحرک، عالمی سطح پر مسابقتی ڈیجیٹل معیشت میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے معروف بزنس مین اور آن لائن بزنس سے وابستہ ندیم کشتی والا نے زور دیا کہ انٹیگریٹڈ سپلائی چین ضروری ہے، ڈیجیٹلائزیشن شفافیت کی حمایت کرتا ہے اور دستی طریقوں اور کمزور حکمرانی کو ختم کرتا ہے۔ انہوں نے پاکستان سنگل ونڈو جیسے اقدامات قابل ستائش ہیں جو جدیدیت کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کر رہے ہیں، خاص طور پر پاکستان سنگل ونڈو نے 70 سے زائد حکومتی اداروں کو ڈیجیٹلائز کیا ہے، جس سے کسٹمز، لائسنسنگ اور ریگولیٹری عمل کو بہتر بنایا گیا ہے جو پہلے تجارتی آپریشنز میں رکاوٹ بن رہے تھے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
بھارت کا معاشی ترقی میں جاپان کو پیچھے چھوڑنے کا دعوی‘شہریوں کا شدید ردعمل
دہلی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 28 مئی ۔2025 )بھارتی حکومت کے ادارے پلاننگ کمیشن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر بی وی آر سبرامنیم کی جانب سے جاپان کو پیچھے چھوڑتے ہوئے انڈیا دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت بننے کے دعوی پر بھارت میں گرماگرم بحث جاری ہے. بھارتی شہریوں نے جاپان کے شہریوں کے معیار زندگی سے موازانہ کرتے ہوئے اس دعوے کے متعلق سوالات اٹھائے ہیں سوشل میڈیا پر کل پیداوار(جی ڈی پی) اور فی کس آمدنی کے حوالے سے بات کی جا رہی ہے اور یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا انڈیا واقعی دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بن چکا ہے؟.(جاری ہے)
ان دعوﺅں کے بارے میں ماہرین اقتصادیات نے جی ڈی پی کے بارے میں دعوے کرنے میں جلد بازی کی طرف اشارہ کیا ہے دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں معاشیات کے سابق پروفیسر ارون کمار نے برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ برائے نام جی ڈی پی جاپان کو پیچھے چھوڑنا آئی ایم ایف کا تخمینہ ہے اور یہ دعویٰ کرنے میں جلد بازی کی گئی ہے. ایک شہری صارف طفیل نوشاد نے”ایکس“پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ اگر ہم معیشت کے اوپر کے ایک فیصد، پانچ فیصد اور پھر 10 فیصد کو ہٹا دیں تو انڈیا کی فی کس جی ڈی پی کیا ہوگی؟ اور معیشت میں نیچے کے 50 فیصد لوگوں کی فی کس جی ڈی پی کیا ہوگی؟. ترون گوتم نامی ایک صارف نے اسی حوالے سے ایکس پر لکھا کہ حقیقت یہ ہے کہ انڈیا کی فی کس آمدنی 2800 ڈالر ہے جبکہ جاپان کی 33،138 امریکی ڈالر ہے اور اگر آپ امبانی اور اڈانی کی دولت کو ہٹا دیں تو یہ انڈیا کی فی کس آمدنی 2662 ڈالر ہو جائے گی اور 90 فیصد بھارتی شہری 25 ہزار روپے سے کم ماہانہ کماتے ہیں انڈیا کے امیر ترین ایک فیصد کے پاس ملک کی 40 فیصد سے زیادہ دولت ہے اس لیے یہ موازانہ بے معنی ہے. بہت سے ماہرین اقتصادیات فی کس جی ڈی پی یعنی فی کس آمدنی کو کسی ملک کی معاشی ترقی کا اندازہ لگانے کے لیے ایک درست معیار مانتے ہیں اور اس سلسلے میں انڈیا دنیا میں 140 ویں نمبر پر ہے پروفیسر ارون کمار کہتے ہیں کہ کبھی کبھی مذاق میں کہا جاتا ہے کہ اگر ایلون مسک اور جیف بیزوس کسی سٹیڈیم میں جاتے ہیں تو وہاں کی فی کس آمدنی اچانک بڑھ کر 10 لاکھ ڈالر ہو جائے گی کیونکہ وہ ہر سال 100 ملین سے زیادہ کماتے ہیں. انہوں نے کہا کہ ایک طرف انڈیا فی کس آمدنی کے لحاظ سے 140 ویں نمبر پر ہے اور دوسری طرف ارب پتیوں کی تعداد کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انڈیا میں امیر امیر تر ہو رہے ہیں اور غریبوں کی حالت نہیں بدل رہی ہے. انہوں نے کہاکہ فی کس آمدنی بھی حقیقی تصویر نہیں دکھاتی اور اوسط اعداد و شمار میں عدم مساوات چھپ جاتا ہے دوسری جانب ورلڈومیٹرز کے مطابق 2025 کے آخر تک جاپان کی فی کس جی ڈی پی کا تخمینہ 33,806 ڈالر لگایا گیا ہے جب کہ انڈیا کی فی کس جی ڈی پی 2,400 امریکی ڈالر کے لگ بھگ ہوگی جو کینیا، مراکش، لیبیا، ماریشس اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک سے بھی کم ہے.