تحرین نابینا کمزوری بننے نہیں ہیںاصل روشنی آنکھوں میں نہیں، بلکہ دل اور دماغ میں ہوتی ہے
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
دہم جماعت کی تحرین نابینا ہے۔ مگر اس کمی کو اس نے کبھی اپنی کمزوری بننے نہیں دیا۔ بریل لیپی کے ذریعے قرا?ن کریم مکمل کیا، جو ایک عظیم کارنامہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ عالمہ کا کورس بھی کر رہی ہے۔ حوصلے کی طرح اس کے خواب بھی بلند ہیں۔تحرین کی سب سے بڑی خوبی اس کی محنت، استقامت اور عزم ہے۔ ان کہنا ہے کہ اصل روشنی آنکھوں میں نہیں، بلکہ دل اور دماغ میں ہوتی ہے۔ کچھ لوگ ظاہری بینائی سے محروم ہوتے ہیں، لیکن ان کی بصیرت اور ہمت انہیں دوسروں سے ممتاز کر دیتی ہے۔ میری شاگرد تحرین بھی ایسی ہی ایک غیر معمولی اور باصلاحیت بچی ہے، جس نے اپنی نابینائی کو کبھی رکاوٹ نہیں بننے دیا، بلکہ اسے اپنی طاقت بنا کر ایک مثال قائم کی ہے۔
پیدائش اور پہلا امتحان
تحرین اپنے گھر میں پیدا ہونے والی پہلی بچی تھی، ایک ایسی خوشی جو پورے خاندان کے لئے کسی نعمت سے کم نہ تھی۔ لیکن جب وہ چھ ماہ کی ہوئی، تو ماں نے محسوس کیا کہ وہ کھلونوں کو نہیں چھوتی، روشنی اور رنگوں پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرتی۔ ماں کے دل میں بیچینی نے جگہ لے لی۔ والدین نے فوراً ڈاکٹر سے رجوع کیا، اور جب معائنہ ہوا، تو حقیقت کھل کر سامنے آگئی… تحرین کی آنکھوں میں روشنی نہیں تھی۔
یہ خبر والدین کے لئے کسی قیامت سے کم نہ تھی۔ وہ کیسے مان لیتے کہ ان کی ننھی سی گڑیا اس دنیا کے رنگوں سے محروم ہے؟ ماں باپ کے دل پر کیا بیتی ہوگی؟ دادا دادی نے کس کرب سے یہ حقیقت قبول کی ہوگی؟ امید اور بے یقینی کے بیچ، دعا اور ا?نسوو?ں کے درمیان، وہ بس ایک ہی سوال کر رہے تھے… کیا تحرین کی دنیا ہمیشہ تاریکی میں رہے گی؟
روشنی کی کرن… تحرین کی کہانی
لیکن قدرت نے تحرین کی قسمت میں مایوسی نہیں لکھی تھی۔ وہ بچپن ہی سے اپنی نابینائی کے باوجود روشنی کی کرن تھی، جو صرف ا?گے بڑھنے کے لئے ا?ئی تھی۔ اس کے خاندان میں اس کے والدین کے علاوہ اور دو بھائی اور دو بہنیں تھے، اور ان سب کے پورے خاندان میں پندرہ لڑکیاں تھیں، لیکن بیٹی کی پرورش میں کسی کے ماتھے پر شکن تک نہ ا?ئی۔ ہر بیٹی کی خواہش کو پورا کیا جاتا، ہر خواب کو حقیقت میں بدلنے کی کوشش کی جاتی۔ یہی وہ ماحول تھا جس نے تحرین کو حوصلہ اور خوداعتمادی دی۔
ایک یادگار ملاقات
ایک دن جب میں تحرین کے گھر گئی، تو اس کے والدین، دادا دادی اور گھر کی سبھی بچیوں نے نہایت محبت اور گرمجوشی سے میرا استقبال کیا۔ خاص طور پر تحرین نے جس انداز میں میری مہمان نوازی کی، وہ میرے دل کو چھو گیا۔ ان کے گھر کا ماحول علمی اور اخلاقی اقدار سے بھرپور تھا۔ تحرین تین سال قبل میرے اسکول، چاند سلطانہ ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج، احمدنگر میں داخل ہوئی تھی۔ ابتدا ہی سے اس نے اپنی ذہانت اور محنت سے سبھی کو حیران کر دیا۔ وہ نہ صرف اپنے ہم جماعت طلبہ بلکہ اساتذہ کے دلوں میں بھی جگہ بنا چکی ہے۔ ہر شخص اس کی عزت کرتا ہے اور اس کے روشن مستقبل کے لئے دعاگو ہے۔
اس نے بریل لیپی کے ذریعے قرا?ن کریم مکمل کیا، جو ایک عظیم کارنامہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ عالمہ کا کورس بھی کر رہی ہے اور ساتھ ہی مہاراشٹر بورڈ کے تحت دہم کا امتحان بھی دے رہی ہے۔ اسکول میں امتحانات کے دوران اس نے رائٹر (لکھنے میں مددگار) کے ذریعے نہایت عمدہ پرچے حل کئے اور اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔
یوٹیوب چینل: علم اور حوصلے کی آواز تحرین نہ صرف کتابوں کی دنیا میں مہارت رکھتی ہے، بلکہ وہ جدید ٹیکنالوجی سے بھی پوری طرح جڑی ہوئی ہے۔ اس نے اپنا ایک یوٹیوب چینل بنایا ہے، جہاں وہ اپنی زندگی کے تجربات، تعلیمی رہنمائی اور نابینا افراد کے لئے مفید معلومات شیئر کرے گی ان شاء اللہ۔ اس کے چینل کا مقصد معلومات فراہم کرنا اور یہ ثابت کرنا ہے کہ نابینائی کسی بھی خواب کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
سید مودودیؒ: اسلامی فکر، سیاسی نظریہ اور پاکستان کا سیاسی شعور
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251101-03-3
ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی
عالم ِ اسلام کی فکری و سیاسی تاریخ میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا نام ایک ایسے مفکر، مصلح اور مجاہد ِ قلم کے طور پر روشن ہے جس نے بیسویں صدی کی اسلامی تحریکات کو نہ صرف فکری سمت عطا کی بلکہ مسلمانانِ برصغیر کے سیاسی شعور کو ایک منظم نظریاتی بنیاد فراہم کی۔ مولانا مودودیؒ کے افکار صرف مذہبی تعلیمات تک محدود نہیں بلکہ وہ ایک جامع اسلامی نظامِ حیات، ریاست، معیشت، عدل، اور سیاست کے معمار کے طور پر سامنے آئے۔ مولانا مودودیؒ نے اپنی فکری جدوجہد کا آغاز ایسے زمانے میں کیا جب برصغیر سیاسی غلامی، فکری انتشار اور تہذیبی زوال کا شکار تھا۔ 1920ء کی دہائی میں مغربی فلسفہ، قومیت، جمہوریت، لادینیت، اور سرمایہ داری کے نظریات مسلمانوں کے ذہن و فکر پر چھا رہے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب یورپ نے پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد سیاسی سامراجیت اور فکری الحاد کے ذریعے دنیا پر اپنی فکری بالادستی قائم کر لی تھی۔ ایسے میں مولانا مودودیؒ نے قرآن و سنت کی روشنی میں ایک جامع فکری نظام پیش کیا، جس کی بنیاد اس اصول پر رکھی گئی کہ: ’’اسلام صرف عبادت یا مذہب نہیں، بلکہ ایک مکمل تہذیبی و سیاسی نظامِ زندگی ہے‘‘۔
مولانا مودودیؒ نے اسلامی ریاست کا تصور محض مذہبی حکومت کے طور پر نہیں بلکہ خلافت ِ الٰہیہ کے تصور کے ساتھ پیش کیا۔ ان کے نزدیک حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے، اور ریاست کا کام محض اس حاکمیت کو زمین پر نافذ کرنا ہے۔ یہ تصور جدید جمہوریت سے مختلف ہے، کیونکہ جمہوریت میں اقتدار عوام کا ہوتا ہے، جب کہ مولانا کے نزدیک اقتدار شرعی اصولوں کے تابع ایک امانت ہے۔ ان کی کتاب ’’اسلامی ریاست‘‘ اور ’’خلافت و ملوکیت‘‘ میں یہ تصور انتہائی وضاحت سے بیان ہوا کہ اسلام میں اقتدار ذاتی مفاد نہیں بلکہ اجتماعی امانت ہے۔ یہی نظریہ بعد میں مصر، ترکی، ایران، سوڈان اور دیگر مسلم ممالک کی اسلامی تحریکوں کی فکری اساس بنا۔
قیامِ پاکستان سے قبل مولانا مودودیؒ نے مسلم لیگ کی سیاست پر تنقیدی نظر رکھی۔ ان کا خیال تھا کہ محض قومیت یا جغرافیہ کی بنیاد پر اسلام کی نشاۃِ ثانیہ ممکن نہیں۔ تاہم قیامِ پاکستان کے بعد انہوں نے اس نوخیز ریاست کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے کے لیے بھرپور فکری و سیاسی جدوجہد کی۔ 1941ء میں قائم ہونے والی جماعت ِ اسلامی ان کے نظریاتی وژن کی عملی تعبیر تھی جو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلا منظم نظریاتی سیاسی پلیٹ فارم ثابت ہوئی۔ 1953ء کی تحریک ِ ختم ِ نبوت اور 1974ء میں اس مسئلے کے آئینی حل تک جماعت ِ اسلامی اور مولانا مودودیؒ کے فکری اثرات نمایاں رہے۔ انہوں نے آئین سازی کے عمل میں بھی اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کا آئین اسلامی شریعت کے مطابق ہو، اور بالآخر 1973ء کے آئین میں قرآن و سنت کو بالادست قانون تسلیم کرنے کی دفعات اسی فکری دباؤ کا نتیجہ تھیں۔
آج کے دور میں جب عالمی سیاست نیولبرل ازم، سرمایہ داری، اور عسکری بالادستی کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے، مولانا مودودیؒ کے افکار ایک متبادل فکری ماڈل کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسلام صرف مذہبی اخلاقیات کا نظام نہیں بلکہ عالمی عدل و امن کا ضامن سیاسی و معاشی نظام بھی ہے۔ مغربی دنیا کے کئی مفکرین مثلاً John Esposito, Wilfred Cantwell Smith اور Olivier Roy نے اپنے تجزیات میں اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ مودودیؒ کے پیش کردہ ’’اسلامک آئیڈیالوجی‘‘ نے بیسویں صدی کے سیاسی فلسفے میں اسلامی انقلابی شعور کی نئی لہر پیدا کی۔
آج جب پاکستان میں سیاست مصلحت، کرپشن، اور ذاتی مفاد کے گرد گھوم رہی ہے، مولانا مودودیؒ کے نظریات اصول پسندی، عدل، احتساب، اور اسلامی طرزِ حکمرانی کی یاد دلاتے ہیں۔ ان کے نزدیک سیاست کا مقصد اقتدار نہیں بلکہ اصلاحِ معاشرہ اور اقامت ِ دین ہے۔ یہی فلسفہ آج کے نوجوانوں، دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کے لیے راہِ عمل ہے۔ ان کی فکر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ عسکری طاقت پر انحصار کے بجائے فکری استحکام کو قوموں کی اصل قوت سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ علم، اخلاق، تنظیم اور کردار کو امت ِ مسلمہ کی ترقی کا بنیادی ستون قرار دیتے رہے۔
مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اسلام کو محض مذہبی عقیدہ نہیں بلکہ زندگی کے ہمہ گیر نظام کے طور پر پیش کیا۔ ان کا فکری ماڈل آج بھی پاکستان اور امت ِ مسلمہ کے لیے رہنمائی کا سرچشمہ ہے بشرطیکہ ہم ان کے افکار کو محض کتابوں میں محفوظ رکھنے کے بجائے عملی سیاست، معیشت اور قانون سازی میں نافذ کریں۔ ’’اگر اسلام کو واقعی نظامِ حیات کے طور پر اپنایا جائے تو دنیا میں عدل، امن، مساوات اور انسانیت کا سنہری دور واپس آ سکتا ہے‘‘۔ مولانا مودودیؒ کا پیغام آج بھی زندہ ہے اور ہر اس ذہن کو جھنجھوڑتا ہے جو سمجھتا ہے کہ دین اور سیاست ایک دوسرے سے الگ ہیں۔