Express News:
2025-04-25@11:44:10 GMT

اُمید کے پیام بر

اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT

 اُمید سے خالی فضا:

اگر آپ ٹھنڈے دماغ اور پورے دل سے غیرجانب دار ہوکر اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو ہر طرف مایوسی اور نااُمیدی نے معاشرے میں عجیب فضاء اور ماحول پیدا کیا ہے۔ ہر انسان، خود سے، حالات سے اور معاشرے سے نالاں ہے۔ ستم ظریقی یہ ہے کہ حالات اور ماحول میں بہتری کی بجائے مزید تنزلی ہو رہی ہے۔ ایسی صورت حال میں کوئی بھی ترقی پذیر معاشرہ اور ملک ترقی کی راہ پر گام زن نہیں ہوسکتا۔ بالخصوص ایسا ملک جس کی آبادی کا 60 فی صد سے زیادہ حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہو، اگر آپ اُنہیں اپنی قدرتی صلاحیتوں کو بہتر بنانے، آگے بڑھنے کا جذبہ اور بہتر سے بہترین کی تلاش کی اُمید نہیں دیں گے تو وہ مایوسی کا شکار ہوکر اپنے حقیقی اور قدرتی فن سے آشنا نہیں ہوں گے۔ اس بکھرتے سماج میں اُمید کی شمع روشن کرنا جان جوکھم کا کام ہے۔ بطورمعلم، مصنف اور مقرر یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو جینے کی نئی اُمید دیں۔ اُمید کیسے، فرد، خاندان، اداروں اور معاشروں کی ترقی میں کردار ادا کرسکتی ہے۔ اس مضمون میں ہم یہی کچھ جاننے کی سعی کریں گے۔

اُمید کیا ہے؟

وکی پیڈیا کے مطابق اُمید (Hope) ایک رجائیت پسندانہ دماغ کی کیفیت ہے جو مثبت امکانات کی توقع پر ٹکی ہوتی ہے۔ یہ کسی شخص سے متعلق واقعات اور حالات سے متعلق ہوسکتی ہے یا دنیا سے متعلق بھی ہو سکتی ہے۔ اس کی تعریفوں میں یہ بھی ہے کہ یہ ’’اعتماد کے ساتھ توقع کا نام ہے‘‘ اور یہ ’’کسی خواہش کی انجام پذیری کا سپنا رکھنا ہے۔‘‘ اُمید کی عین ضد کے طور پر مستعمل الفاظ میں ناامیدی اور مایوسی ہیں۔

اُمید کے معنی کے لیے اردو میں آس کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں روزمرہ میں اکثر یہ جملے محاروے استعمال ہوتے ہیں۔ اُمید کا دامن نہ چھوڑیں، کبھی اُمید نہیں چھوڑنی چاہیے، ہمیشہ اچھے کی اُمید رکھنی چاہیے، اُمید پر دُنیا قائم ہے۔ میری نظر میں، اُمید ہمیں ہمت دیتی ہے، اُمید، راستہ تلاش کرنے کی جستجو دیتی ہے۔ اُمید ہمارے حالات اور نتائج نہیں بدلتی بلکہ ہمیں اپنے حالات اور نتائج کو بدلنے کی نئی سوچ اور تحریک دیتی ہے۔ اُمید کوئی مذہبی روحانی اور فلسفیانہ موضوع نہیں بلکہ یہ زندگی کو بہتر انداز میں بسر کرنے اور ذاتی و پیشہ ورانہ زندگی میں عملی نتائج حاصل کرنے کے لیے ایک ذہنی و نفسیاتی اور پروفیشنل مہارت ہے، جس کے ذریعے ہم اپنے دماغ کو منفی، ناکامی کے خوف اور حالات کے دباؤ سے آزاد کرکے ممکنہ حل کی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ اُمید، آدھا گلاس خالی کی بجائے، آدھا گلاس بھرے پر توجہ دینے کی جانب اشارہ کرتی ہے، اگر گلاس آدھا بھرا ہے، تو آپ اس کو مزید بھرنے کے لیے کوشاں ہوں گے، نہ کہ آدھا خالی دیکھ کر مایوس ہوجائیں گے، تاہم اندھی اُمید سے کنارہ کریں۔ ایسی اُمید جس کا سر پیر نہ ہو وہ خود سے دھوکا ہے۔ نااُمیدی اور مایوسی اپنے وجود اور رب سے واقفیت نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔

انسانی زندگی میں اُمید کی اہمیت

اُمید نہ ہوتی تو تم کہاں ہوتے، اگر اُمید نہ ہوتی تو میں کہاں ہوتا، اُمید نہ ہوتی تو یہ سانس کہاں ہوتی، اُمید نہ ہوتی تو یہ سوچ نہ ہوتی، اُمید کا دامن ہمیشہ تھامے رہو، کیوںکہ اُمید اندھیروں میں روشنی، مایوسی میں آس، دُکھ میں تسلی، صحرا میں بارش اور اداسیوں میں نئی رُوح کی مانند ہے۔ حالات چاہے جیسے بھی ہوں اُمید انسان کے لیے مضبوط چٹان ہے، طاقت کا سرچشمہ، زندگی کا ماخذ اور رُوح کی تازگی ہے۔ اُمید کے خلاف کوئی قاعدہ نہیں، اُمید کے خلاف کوئی فائدہ نہیں ہے۔

اُمید کی دُنیا

انسان کی زندگی کبھی بھی اُمید کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔ معروف جرید ے سائیکولوجی ٹوڈے میں، اپنے مضمونWhy Hope Matters میں پولی کیمبل (Polly Campbell) لکھتی ہیں،’’اُمید، خواہش کے اظہار میں کوئی غیرفعال مشق نہیں ہے، بلکہ یہ زندگی کے لیے ایک فعال نقطہ نظر پیدا کرتی ہے، جب ہم کچھ پانا چاہتے ہیں تو ہمارے ذہن میں اُس کا مقصد بہت واضح ہوجاتا ہے۔ البتہ یہ امر مشکل ہوسکتا ہے، لیکن ہم جہاں جانا چاہتے ہیں، اس تک پہنچنے کے لیے ہم ایک منصوبہ تیار کرلیں گے۔‘‘

اُمید کی سائنس

فوربس میگزین میں Scott Hutcheson  نے اپنے ایک مضمونThe Power Of Hope میں لکھا ہے:

’’تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ جو لوگ پراُمید رہتے ہیں وہ مشکلات سے نمٹنے کے لیے بہتر طور پر تیار ہوتے ہیں کیوںکہ وہ موجودہ تناؤ کے بجائے اپنے مقاصد کے حصول کی طرف توجہ دیتے ہیں۔ اُمید ایک فعال ذہنیت پیدا کرتی ہے، جو موجودہ چیلینجوں کو ترقی کے لیے سنگ میل بنانے میں معاونت کرتی ہے۔ اُمید اور سائنس کا گہرا تعلق ہے۔ اُمید کے پیچھے بے شمار نفسیاتی اور حیاتیاتی طریقوں کا تجزیاتی دستاویزی مواد موجود ہے۔ اُمید دماغ کے اُن حصوں کے ساتھ منسلک ہوتی ہے جو دماغ کو مقصد کے مطابق رویوں کو (بشمول پریفرنٹل کارٹیکس اور ڈوپامائن) تشکیل دیتے ہیں۔ جب ہم مستقبل کے مثبت نتائج کا تصور کرتے ہیں، تو ہمارا دماغ dopamine جاری کرتا ہے، جو کہ حوصلہ افزائی اور صلے سے منسلک ایک نیورو ٹرانسمیٹر ہے۔‘‘

 اُمیدوں کا جہاں

جب اُمیدوں کا جہاں ٹوٹتا ہے، تو انسان خود بھی ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ آپ اپنی اُمیدوں کے جہاں کا تعین کریں اور اسے اتنا مضبوط اور پائے دار بنائیں کہ وہ آپ کو ٹوٹنے کے بجائے، مزید آگے بڑھنے کی طاقت اور حوصلہ دے۔ اُمید کوئی معمولی چیز نہیں کہ آسانی سے ٹوٹ جائے، آپ کی اُمید کی بنیاد چٹان کی مانند مضبوط ہونی چاہیے تاکہ وہ مشکل حالات میں آپ کے لیے فولادی ڈھال بنے۔ میری زندگی کی سب سے بڑی موٹیویشن اور اُمید میری ماں، میرا جہاں ہے۔

 اُمید کے نام پر خالی اور خیالی افکار کا پرچار

پاکستانی معاشرے میں سوشل میڈیا کے ذریعے اُمید کے نام پر خالی اور خیالی افکار کا پرچار بڑی مہارت سے کیا جا رہا ہے۔ نوجوان نسل کو ایسے سہانے، مصنوعی اور کھوکھلے خواب دکھائے جا رہے ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ اُمید کے نام پر ان غیرحقیقی تصورات کو فروغ دینے سے بچیں اور حقیقت پر مبنی نتائج اور عملی چیزوں کے لیے پُر امید رہیں۔

اُمید حالات سے کنارہ کشی نہیں

اکثر لوگ اس لیے اُمید کا سہارا لیتے ہیں کہ وہ اپنے موجودہ حالات سے فرار ہونا چاہتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اُمید ہمیں حالات سے کنارہ کشی کرنے کی بجائے، ان کا سامنا کرنے اور ان میں بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے منصوبہ بندی کرنے کی تلقین کرتی ہے۔ اُمید ہمیں حالات بہتر ہو جائیں گے، کے لیے عملی، دیرپا اور مسلسل ٹھوس اقدامات کرنے کی تحریک دیتی ہے۔

اُمید عمل سے ملتی ہے علم سے نہیں

وقت سے آگے اور رزق کے جبر میں انسان کبھی کبھی اپنے راستے سے بھٹک جاتا ہے۔ اگر کسی کو کچھ نہیں دے سکتے تو اُمید کا پیغام دے دیں؛ لیکن یاد رکھیں کہ ہو نہیں جائے گا کرنا پڑے گا۔ منو بھائی نے اپنی معروف پنجابی نظم میں اس نکتے کو بہت خوب صورتی سے بیان کیا ہے:

کیہ ہویا اے؟

کجھ نئیں ہویا

کیہ ہووے گا؟

کجھ نئیں ہونا

کیہ ہوسکدا اے؟

کجھ نہ کجھ ہوندا ای رہندا اے

جو تُوں چاہنا ایں، او نئیں ہونا!

ہو نئیں جاندا، کرنا پیندا اے

عشق سمندر ترنا پیندا اے

سُکھ لئی دُکھ وی جھلنا پیندا اے

حق دی خاطر لڑنا پیندا اے

جیون لئی مرنا پیندا اے

اُمید مستقبل کو نہیں حال کو بہتر بناتی ہے

زندگی اور اُمید کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہیں، مشکلات کے طوفان، خدشات کے بادل، اور خوف کا سمندر آپ کے ارادوں اور خوابوں کو جھنجوڑنے آئیں گے اور لوگ بھی آپ کو ڈرائیں گے لیکن آپ ایک بہادر سپاہی کی طرح، آخری دم تک لڑتے رہیے گا، تاکہ موت جب آپ سے ملنے آئے تو ایک فاتح سے نہ سہی ایک بہادر سپاہی سے ضرور ملے۔ اُمید وہ قوت ہے جو ہمیں جینے تک مرنے نہیں دیتی ہے۔ دُنیا میں اُمید سے بہتر اور کوئی دوا ایجاد نہیں ہوئی ہے۔ ’’اُمید کی دو خوب صورت بیٹاں ہیں، ان کے نام غصہ اور اور ہمت ہیں۔ غصہ کہ چیزیں ایسی ہی ہیں، اور ہمت یہ کہ چیزیں ایسی نہیں رہیں گی جیسی وہ ہیں۔‘‘ (سینٹ آگسٹین)

اُمید کے متعلق اپنے نقطۂ نظر کو بدلیں

 اکثر زندگی میں حالات ہمارے نقطۂ نظر کی بدولت بدل جاتے ہیں۔ آپ صرف اپنی نظر اور سوچ مثبت چیزوں پر رکھیں۔ یہ دن بھی گزر جائیں گے۔ پریشان اور نااُمید ہونے سے حالات میں بہتری نہیں آتی بلکہ مزید خرابی پیدا ہوتی ہے۔ یہ وقت اپنے اندر چھپی صلاحیتوں اور خوابیوں کو تلاش کرنے کا، اپنے رب کے ساتھ تعلق مضبوط کرنے، قدرت کے قریب آنے کا، دُور ہوئے اپنوں کے پاس آنے کا، روٹھے ہوئے دوستوں کو منانے کا، زندگی کے سفر کے خوابوں کو ازسرنو سجانے کا اور خود سے خود کو ملانے کا ہوتا ہے۔ اس لیے اُمید کے متعلق اپنے نقطۂ نظر کو بدلیں۔ ’’اُمید وہ واحد مکھی ہے جو پھولوں کے بغیر شہد بناتی ہے۔‘‘ (رابرٹ انگرسول)

زندگی کے کلچر کو فروغ دیں

رندگی زندہ دلی کا نام ہے، دوسروں کو زندگی کی خوش خبری اور اُمید دینا زندگی کے مقصد اور کلچر کو فروغ دینا ہے۔ یاد رکھیں اچھے وقت میں کسی کو تسلی، اُمید اور جینے کی تلقین کرنا کوئی بڑی بات نہیں، اصل کمال تو یہ ہے کہ بحرانوں میں پھنسے، مسائل میں گھرے اور حالات کے ہاتھوں مجبور انسانوں کو بہتری کے لیے اُمید، اچھائی کی تقلید اور زندگی کی نوید دینا ہے۔ اُمید وہ طاقت ہے جو تمام تر منفی سوچوں پر قابو پانے کے لیے بہترین ذریعہ ہے۔ اس لیے ہمت نہ ہاریں، چلتے رہیں اور ثابت قدم رہیں۔ اُمید انسانی زندگی کا سب سے بڑا اور بہترین وٹامن ہے جو مشکل حالات میں انسان کی اہم دوا بن جاتا ہے۔ زندگی میں نااُمِیدی، مایوسی اور مسائل جس قدر مرضی ہوں، اُمید پر ایمان رکھنے والے ہمیشہ نئی زندگی کی خوشیوں کو منانے کے لیے جی اُٹھتے ہیں۔

دُنیا کو اُمید کی ضرورت ہے

 کسی انسان کو اُمید کی طاقت اور بہتر مستقبل کی جستجو فراہم کردینا سب سے افضل انعام ہے۔ مشکلات، پریشانیوں اور نااُمیدی کے دُور میں اُمید اور ثابت قدمی کو اپنی ڈھال بنالیں۔ مایوسی نااُمیدی اور مشکل حالات میں مثبت سوچ اور اُمید کی شمع روشن رکھنے والے امن کے حقیقی پیام بر ہوتے ہیں۔ زندگی میں محبت اور اُمید کی شمعیں ضرور روشن رکھیں۔ یہ آپ کے بعد آپ کی نسلوں کو بھی روشنی اور خوشی دیتی رہتی ہیں۔ مشکل حالات میں بہتری کی اُمید نہ رکھنا؛ حالات کو مزید ابتر بنا دیتے ہیں۔ نااُمیدی میں پراُمید رہنے والے ہی بلندیوں کو پہنچتے ہیں۔ اپنے خالق سے تعلق کو مضبوط بنائیں اور توکل پر یقین بڑھائیں۔ ’’اُمید کے بغیر رہنا زندگی کو ترک کرنا ہے۔‘‘ (فیوڈور دوستوفسکی)

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

پیپلز پارٹی 17 سال سے حکومت کر رہی ہے، کراچی کے حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے، شاہد خاقان عباسی

عوام پاکستان پارٹی کے کنوینیر،سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ کراچی کے موجودہ حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے، پیپلز پارٹی 17 سال سے سندھ میں حکومت کر رہی ہے، کیا پیپلز پارٹی کے لوگ پانی کے مسائل حل نہیں کر سکتے؟ کراچی سے باہر نکلیں گے تو سمجھ آئے گا کہ کراچی کتنا محروم ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کراچی کی تقریب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

آئی بی اے کراچی مین کیمپس میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے ساتھ طلبہ کا ایک خصوصی سوال و جواب کے سیشن کا انعقاد کیا گیا جس میں طلبہ کو پاکستان کے موجودہ چیلنجز، قیادت، گورننس، اور ملکی مستقبل کی سمت پر کھل کر سوالات کرنے اور خیالات کا اظہار کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔

یہ تقریب آئی بی اے کے اسکول آف اکنامکس اینڈ سوشل سائنسز کے زیر اہتمام منعقد کی گئی، جس کی نظامت معروف ماہر تعلیم اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ایس اکبر زیدی نے کی۔

سیشن میں ملکی سیاسی صورتحال، گورننس کی کمزوریاں، اور اصلاحات کی ضرورت جیسے موضوعات پر کھل کر گفتگو ہوئی۔

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے دریائے سندھ کی نئی کینالز کے منصوبے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کینالز کا مسئلہ آج کا نہیں، میں نومبر میں سکھر آیا تھا، تب بھی لوگ بات کر رہے تھے، وفاقی حکومت آج تک واضح نہیں کر سکی کہ کینالز سندھ کے پانی پر کیا اثر ڈالیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ عوام کے اندر شدید بے چینی ہے، سڑکیں بند ہیں، مگر نہ میڈیا رپورٹ کر رہا ہے نہ مسئلے کے حل کی کوئی سنجیدہ کوشش ہو رہی ہے، اج پیپلز پارٹی وفاق کے اندر حکومت کا حصہ ہے تو کس طرح اپنے اپ کو اسے لا تعلق کر سکتے ہیں۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اس پارٹی کا کام ہے کہ وہ سینٹ کے اندر قومی اسمبلی میں اس سلسلے کے اندر ایشو پر کلئرٹی قائم کریں وضاحت ہو کہ یہ ایشو ہے کیا اس کے اثرات ملک کے عوام پر ملک کی کسان پر کیا اثر پڑھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ سی سی آئی کی میٹنگ فوری بلائی جائے تاکہ اس حساس معاملے پر شفافیت لائی جا سکے۔ جتنی دیر کریں گے، اتنا شک و شبہ بڑھے گا اور صوبوں کے درمیان خلا ہوگا، جو ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا ہندوستان اکثر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے بجائے پاکستان پہ الزام لگاکرسیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، جب کہ اصل مسائل کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔

انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں حالیہ واقعے کو ایک بہت بڑا سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا تقریباً 26 سے زائد جانیں ضائع ہوئیں نہتے لوگوں پر حملے کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی۔

انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات صرف ہندوستان تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کے اندر بھی اس نوعیت کے مسائل موجود ہیں۔ اس کی پاکستانی مذمت ہی کر سکتا ہے۔ 

انہوں نے کرپشن پر گفتگو کرتے ہوئے کہا 25 سال ہو گئے، نیب کے مطابق لگتا ہے کہ سب سیاست دان پاک دامن ہیں سیاستدانوں اور سرکاری ملازمین سے سوال ہونا چاہیے کہ وہ اپنے اخراجات کیسے پورے کرتے ہیں؟ یہ سوال پوری دنیا پوچھتی ہے کرپشن کو ختم کیلئے واحد راستہ ہے۔

مہنگائی اور کسانوں کے مسائل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کسان تباہ ہو رہا ہے، گندم اٹھانے والا کوئی نہیں، اور حکومت نے قیمت 2200 سے 4000 تک پہنچا دی تھی، پاکستان اس کا بوجھ برداشت کرتا ہے کسان ناکام تو ملک کی معیشت بھی ناکام ہوگی کسان کا کوئی نہیں سوچتا۔ 

انہوں نے مسنگ پرسنز کے مسئلے کو بھی اجاگر کیا اور کہا کہ کمیشن آج تک ان افراد کو ڈاکیومنٹ نہیں کر سکا، اور حکومت حقائق عوام سے چھپا رہی ہے۔

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے زور دیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ عوام کے سامنے تمام سچ لایا جائے۔ یہ ہمارا قومی فرض ہے کہ حقائق کو سامنے لائیں، تاکہ ایک جمہوری معاشرے کی بنیاد مضبوط ہو سکے۔حکمران اج ہمارے وہ حکمران ہیں جو عوام کے اندر جا نہیں سکتے جو ان کو ڈیٹا دیا جاتا ہے اس کی بنیاد پہ بات کرنی شروع کردیتے ہیں جبکہ مسنگ پرسنز کے ڈیٹا کو ڈاکیومنٹ کیا جانا چاہیے۔

طلبہ سے سوال جواب کے سیشن کے دوران عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی نے کہا ہم آج بھی جمہوری اقدار کو اپنانے میں ناکام ہیں، سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک فورم پر بیٹھ کر کھلے مکالمے کرنے چاہئیں تاکہ قومی معاملات بند کمروں کی بجائے عوامی سطح پر شفاف انداز میں حل ہوسکیں۔

انہوں نے کراچی کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کراچی کے موجودہ حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی 17 سال سے سندھ میں حکومت کر رہی ہے، کیا پیپلز پارٹی کے لوگ پانی کے مسائل حل نہیں کر سکتے؟ کراچی سے باہر نکلیں گے تو سمجھ آئے گا کہ کراچی کتنا محروم ہے، بلدیہ ٹاؤن میں لوگ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں مگر وہاں پانی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی ایک انوکھا شہر ہے، جہاں رات 1 سے 5 بجے تک بجلی سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہے جب تک کراچی ترقی نہیں کرے گا، ملک بھی ترقی نہیں کرے گا۔

انہوں نے کہا ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں اگر سنجیدہ اصلاحات کریں تو پاکستان بہتری کی طرف جا سکتا ہے، لیکن بدقسمتی سے وہ عوام کے بنیادی مسائل پر کام نہیں کرتیں۔

شاہد خاقان نے کہا کہ آج ہر اپوزیشن جماعت کے پاس کہیں نہ کہیں حکومت ہے، مگر کوئی بھی رول ماڈل نہیں بن رہا۔

انہوں نے کہا  وزیر اعظم بننا بانی پی ٹی آئی کی پہلی نوکری تھی، جسے سمجھنے میں وقت لگا۔ جیل میں سب سے زیادہ سوچنے اور سیکھنے کا وقت ملتا ہے، بانی پی ٹی آئی کے لیے آج ریفلیکٹ کرنے کا وقت ہےاگر خیبرپختونخوا حکومت منرلز کی لیزز پبلک کر دے تو سب حیران ہو جائیں گے۔

انہوں نے کہا پاکستان میں 23 سال بعد الیکشن ہوئے، ہم نے نتیجہ نہ مانا اور ملک ٹوٹ گیا، ہر الیکشن میں کسی کو ہروایا گیا اور کسی کو جتوایا گیا، میں نے 10 الیکشن لڑے ہیں، ہر ایک میں مختلف حالات رہے۔

انہوں نے وزرا پر زور دیا کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں کیونکہ ہر مسئلہ صرف وزیر اعظم کے پاس لے جانا درست حکمرانی کی نشانی نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • کومل عزیز کا انکشاف، شادی میری زندگی کا سب سے بڑا خوف ہے
  • کومل عزیز کی زندگی کا سب سے بڑا خوف کیا ہے، اداکارہ نے بتا دیا
  • پی ٹی آئی رہنما کا موجودہ حالات پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ
  • شکی مزاج شریکِ حیات کے ساتھ زندگی عذاب
  • ایک تاریخی دستاویز۔۔۔۔۔۔ ماہنامہ پیام اسلام آباد کا "ختم نبوت نمبر"
  • بھارت پاکستان میں حالات خراب کرے گا، ہمیں اب چوکنا رہنا پڑے گا، عبدالباسط
  • پیپلز پارٹی 17 سال سے حکومت کر رہی ہے، کراچی کے حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے:شاہد خاقان عباسی
  • پیپلز پارٹی 17 سال سے حکومت کر رہی ہے، کراچی کے حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے، شاہد خاقان عباسی
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • ’تارک مہتا کا الٹا چشمہ‘ کے اداکار نے زندگی کا خاتمہ کر لیا