اُمید سے خالی فضا:
اگر آپ ٹھنڈے دماغ اور پورے دل سے غیرجانب دار ہوکر اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو ہر طرف مایوسی اور نااُمیدی نے معاشرے میں عجیب فضاء اور ماحول پیدا کیا ہے۔ ہر انسان، خود سے، حالات سے اور معاشرے سے نالاں ہے۔ ستم ظریقی یہ ہے کہ حالات اور ماحول میں بہتری کی بجائے مزید تنزلی ہو رہی ہے۔ ایسی صورت حال میں کوئی بھی ترقی پذیر معاشرہ اور ملک ترقی کی راہ پر گام زن نہیں ہوسکتا۔ بالخصوص ایسا ملک جس کی آبادی کا 60 فی صد سے زیادہ حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہو، اگر آپ اُنہیں اپنی قدرتی صلاحیتوں کو بہتر بنانے، آگے بڑھنے کا جذبہ اور بہتر سے بہترین کی تلاش کی اُمید نہیں دیں گے تو وہ مایوسی کا شکار ہوکر اپنے حقیقی اور قدرتی فن سے آشنا نہیں ہوں گے۔ اس بکھرتے سماج میں اُمید کی شمع روشن کرنا جان جوکھم کا کام ہے۔ بطورمعلم، مصنف اور مقرر یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو جینے کی نئی اُمید دیں۔ اُمید کیسے، فرد، خاندان، اداروں اور معاشروں کی ترقی میں کردار ادا کرسکتی ہے۔ اس مضمون میں ہم یہی کچھ جاننے کی سعی کریں گے۔
اُمید کیا ہے؟
وکی پیڈیا کے مطابق اُمید (Hope) ایک رجائیت پسندانہ دماغ کی کیفیت ہے جو مثبت امکانات کی توقع پر ٹکی ہوتی ہے۔ یہ کسی شخص سے متعلق واقعات اور حالات سے متعلق ہوسکتی ہے یا دنیا سے متعلق بھی ہو سکتی ہے۔ اس کی تعریفوں میں یہ بھی ہے کہ یہ ’’اعتماد کے ساتھ توقع کا نام ہے‘‘ اور یہ ’’کسی خواہش کی انجام پذیری کا سپنا رکھنا ہے۔‘‘ اُمید کی عین ضد کے طور پر مستعمل الفاظ میں ناامیدی اور مایوسی ہیں۔
اُمید کے معنی کے لیے اردو میں آس کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں روزمرہ میں اکثر یہ جملے محاروے استعمال ہوتے ہیں۔ اُمید کا دامن نہ چھوڑیں، کبھی اُمید نہیں چھوڑنی چاہیے، ہمیشہ اچھے کی اُمید رکھنی چاہیے، اُمید پر دُنیا قائم ہے۔ میری نظر میں، اُمید ہمیں ہمت دیتی ہے، اُمید، راستہ تلاش کرنے کی جستجو دیتی ہے۔ اُمید ہمارے حالات اور نتائج نہیں بدلتی بلکہ ہمیں اپنے حالات اور نتائج کو بدلنے کی نئی سوچ اور تحریک دیتی ہے۔ اُمید کوئی مذہبی روحانی اور فلسفیانہ موضوع نہیں بلکہ یہ زندگی کو بہتر انداز میں بسر کرنے اور ذاتی و پیشہ ورانہ زندگی میں عملی نتائج حاصل کرنے کے لیے ایک ذہنی و نفسیاتی اور پروفیشنل مہارت ہے، جس کے ذریعے ہم اپنے دماغ کو منفی، ناکامی کے خوف اور حالات کے دباؤ سے آزاد کرکے ممکنہ حل کی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ اُمید، آدھا گلاس خالی کی بجائے، آدھا گلاس بھرے پر توجہ دینے کی جانب اشارہ کرتی ہے، اگر گلاس آدھا بھرا ہے، تو آپ اس کو مزید بھرنے کے لیے کوشاں ہوں گے، نہ کہ آدھا خالی دیکھ کر مایوس ہوجائیں گے، تاہم اندھی اُمید سے کنارہ کریں۔ ایسی اُمید جس کا سر پیر نہ ہو وہ خود سے دھوکا ہے۔ نااُمیدی اور مایوسی اپنے وجود اور رب سے واقفیت نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔
انسانی زندگی میں اُمید کی اہمیت
اُمید نہ ہوتی تو تم کہاں ہوتے، اگر اُمید نہ ہوتی تو میں کہاں ہوتا، اُمید نہ ہوتی تو یہ سانس کہاں ہوتی، اُمید نہ ہوتی تو یہ سوچ نہ ہوتی، اُمید کا دامن ہمیشہ تھامے رہو، کیوںکہ اُمید اندھیروں میں روشنی، مایوسی میں آس، دُکھ میں تسلی، صحرا میں بارش اور اداسیوں میں نئی رُوح کی مانند ہے۔ حالات چاہے جیسے بھی ہوں اُمید انسان کے لیے مضبوط چٹان ہے، طاقت کا سرچشمہ، زندگی کا ماخذ اور رُوح کی تازگی ہے۔ اُمید کے خلاف کوئی قاعدہ نہیں، اُمید کے خلاف کوئی فائدہ نہیں ہے۔
اُمید کی دُنیا
انسان کی زندگی کبھی بھی اُمید کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔ معروف جرید ے سائیکولوجی ٹوڈے میں، اپنے مضمونWhy Hope Matters میں پولی کیمبل (Polly Campbell) لکھتی ہیں،’’اُمید، خواہش کے اظہار میں کوئی غیرفعال مشق نہیں ہے، بلکہ یہ زندگی کے لیے ایک فعال نقطہ نظر پیدا کرتی ہے، جب ہم کچھ پانا چاہتے ہیں تو ہمارے ذہن میں اُس کا مقصد بہت واضح ہوجاتا ہے۔ البتہ یہ امر مشکل ہوسکتا ہے، لیکن ہم جہاں جانا چاہتے ہیں، اس تک پہنچنے کے لیے ہم ایک منصوبہ تیار کرلیں گے۔‘‘
اُمید کی سائنس
فوربس میگزین میں Scott Hutcheson نے اپنے ایک مضمونThe Power Of Hope میں لکھا ہے:
’’تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ جو لوگ پراُمید رہتے ہیں وہ مشکلات سے نمٹنے کے لیے بہتر طور پر تیار ہوتے ہیں کیوںکہ وہ موجودہ تناؤ کے بجائے اپنے مقاصد کے حصول کی طرف توجہ دیتے ہیں۔ اُمید ایک فعال ذہنیت پیدا کرتی ہے، جو موجودہ چیلینجوں کو ترقی کے لیے سنگ میل بنانے میں معاونت کرتی ہے۔ اُمید اور سائنس کا گہرا تعلق ہے۔ اُمید کے پیچھے بے شمار نفسیاتی اور حیاتیاتی طریقوں کا تجزیاتی دستاویزی مواد موجود ہے۔ اُمید دماغ کے اُن حصوں کے ساتھ منسلک ہوتی ہے جو دماغ کو مقصد کے مطابق رویوں کو (بشمول پریفرنٹل کارٹیکس اور ڈوپامائن) تشکیل دیتے ہیں۔ جب ہم مستقبل کے مثبت نتائج کا تصور کرتے ہیں، تو ہمارا دماغ dopamine جاری کرتا ہے، جو کہ حوصلہ افزائی اور صلے سے منسلک ایک نیورو ٹرانسمیٹر ہے۔‘‘
اُمیدوں کا جہاں
جب اُمیدوں کا جہاں ٹوٹتا ہے، تو انسان خود بھی ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ آپ اپنی اُمیدوں کے جہاں کا تعین کریں اور اسے اتنا مضبوط اور پائے دار بنائیں کہ وہ آپ کو ٹوٹنے کے بجائے، مزید آگے بڑھنے کی طاقت اور حوصلہ دے۔ اُمید کوئی معمولی چیز نہیں کہ آسانی سے ٹوٹ جائے، آپ کی اُمید کی بنیاد چٹان کی مانند مضبوط ہونی چاہیے تاکہ وہ مشکل حالات میں آپ کے لیے فولادی ڈھال بنے۔ میری زندگی کی سب سے بڑی موٹیویشن اور اُمید میری ماں، میرا جہاں ہے۔
اُمید کے نام پر خالی اور خیالی افکار کا پرچار
پاکستانی معاشرے میں سوشل میڈیا کے ذریعے اُمید کے نام پر خالی اور خیالی افکار کا پرچار بڑی مہارت سے کیا جا رہا ہے۔ نوجوان نسل کو ایسے سہانے، مصنوعی اور کھوکھلے خواب دکھائے جا رہے ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ اُمید کے نام پر ان غیرحقیقی تصورات کو فروغ دینے سے بچیں اور حقیقت پر مبنی نتائج اور عملی چیزوں کے لیے پُر امید رہیں۔
اُمید حالات سے کنارہ کشی نہیں
اکثر لوگ اس لیے اُمید کا سہارا لیتے ہیں کہ وہ اپنے موجودہ حالات سے فرار ہونا چاہتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اُمید ہمیں حالات سے کنارہ کشی کرنے کی بجائے، ان کا سامنا کرنے اور ان میں بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے منصوبہ بندی کرنے کی تلقین کرتی ہے۔ اُمید ہمیں حالات بہتر ہو جائیں گے، کے لیے عملی، دیرپا اور مسلسل ٹھوس اقدامات کرنے کی تحریک دیتی ہے۔
اُمید عمل سے ملتی ہے علم سے نہیں
وقت سے آگے اور رزق کے جبر میں انسان کبھی کبھی اپنے راستے سے بھٹک جاتا ہے۔ اگر کسی کو کچھ نہیں دے سکتے تو اُمید کا پیغام دے دیں؛ لیکن یاد رکھیں کہ ہو نہیں جائے گا کرنا پڑے گا۔ منو بھائی نے اپنی معروف پنجابی نظم میں اس نکتے کو بہت خوب صورتی سے بیان کیا ہے:
کیہ ہویا اے؟
کجھ نئیں ہویا
کیہ ہووے گا؟
کجھ نئیں ہونا
کیہ ہوسکدا اے؟
کجھ نہ کجھ ہوندا ای رہندا اے
جو تُوں چاہنا ایں، او نئیں ہونا!
ہو نئیں جاندا، کرنا پیندا اے
عشق سمندر ترنا پیندا اے
سُکھ لئی دُکھ وی جھلنا پیندا اے
حق دی خاطر لڑنا پیندا اے
جیون لئی مرنا پیندا اے
اُمید مستقبل کو نہیں حال کو بہتر بناتی ہے
زندگی اور اُمید کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہیں، مشکلات کے طوفان، خدشات کے بادل، اور خوف کا سمندر آپ کے ارادوں اور خوابوں کو جھنجوڑنے آئیں گے اور لوگ بھی آپ کو ڈرائیں گے لیکن آپ ایک بہادر سپاہی کی طرح، آخری دم تک لڑتے رہیے گا، تاکہ موت جب آپ سے ملنے آئے تو ایک فاتح سے نہ سہی ایک بہادر سپاہی سے ضرور ملے۔ اُمید وہ قوت ہے جو ہمیں جینے تک مرنے نہیں دیتی ہے۔ دُنیا میں اُمید سے بہتر اور کوئی دوا ایجاد نہیں ہوئی ہے۔ ’’اُمید کی دو خوب صورت بیٹاں ہیں، ان کے نام غصہ اور اور ہمت ہیں۔ غصہ کہ چیزیں ایسی ہی ہیں، اور ہمت یہ کہ چیزیں ایسی نہیں رہیں گی جیسی وہ ہیں۔‘‘ (سینٹ آگسٹین)
اُمید کے متعلق اپنے نقطۂ نظر کو بدلیں
اکثر زندگی میں حالات ہمارے نقطۂ نظر کی بدولت بدل جاتے ہیں۔ آپ صرف اپنی نظر اور سوچ مثبت چیزوں پر رکھیں۔ یہ دن بھی گزر جائیں گے۔ پریشان اور نااُمید ہونے سے حالات میں بہتری نہیں آتی بلکہ مزید خرابی پیدا ہوتی ہے۔ یہ وقت اپنے اندر چھپی صلاحیتوں اور خوابیوں کو تلاش کرنے کا، اپنے رب کے ساتھ تعلق مضبوط کرنے، قدرت کے قریب آنے کا، دُور ہوئے اپنوں کے پاس آنے کا، روٹھے ہوئے دوستوں کو منانے کا، زندگی کے سفر کے خوابوں کو ازسرنو سجانے کا اور خود سے خود کو ملانے کا ہوتا ہے۔ اس لیے اُمید کے متعلق اپنے نقطۂ نظر کو بدلیں۔ ’’اُمید وہ واحد مکھی ہے جو پھولوں کے بغیر شہد بناتی ہے۔‘‘ (رابرٹ انگرسول)
زندگی کے کلچر کو فروغ دیں
رندگی زندہ دلی کا نام ہے، دوسروں کو زندگی کی خوش خبری اور اُمید دینا زندگی کے مقصد اور کلچر کو فروغ دینا ہے۔ یاد رکھیں اچھے وقت میں کسی کو تسلی، اُمید اور جینے کی تلقین کرنا کوئی بڑی بات نہیں، اصل کمال تو یہ ہے کہ بحرانوں میں پھنسے، مسائل میں گھرے اور حالات کے ہاتھوں مجبور انسانوں کو بہتری کے لیے اُمید، اچھائی کی تقلید اور زندگی کی نوید دینا ہے۔ اُمید وہ طاقت ہے جو تمام تر منفی سوچوں پر قابو پانے کے لیے بہترین ذریعہ ہے۔ اس لیے ہمت نہ ہاریں، چلتے رہیں اور ثابت قدم رہیں۔ اُمید انسانی زندگی کا سب سے بڑا اور بہترین وٹامن ہے جو مشکل حالات میں انسان کی اہم دوا بن جاتا ہے۔ زندگی میں نااُمِیدی، مایوسی اور مسائل جس قدر مرضی ہوں، اُمید پر ایمان رکھنے والے ہمیشہ نئی زندگی کی خوشیوں کو منانے کے لیے جی اُٹھتے ہیں۔
دُنیا کو اُمید کی ضرورت ہے
کسی انسان کو اُمید کی طاقت اور بہتر مستقبل کی جستجو فراہم کردینا سب سے افضل انعام ہے۔ مشکلات، پریشانیوں اور نااُمیدی کے دُور میں اُمید اور ثابت قدمی کو اپنی ڈھال بنالیں۔ مایوسی نااُمیدی اور مشکل حالات میں مثبت سوچ اور اُمید کی شمع روشن رکھنے والے امن کے حقیقی پیام بر ہوتے ہیں۔ زندگی میں محبت اور اُمید کی شمعیں ضرور روشن رکھیں۔ یہ آپ کے بعد آپ کی نسلوں کو بھی روشنی اور خوشی دیتی رہتی ہیں۔ مشکل حالات میں بہتری کی اُمید نہ رکھنا؛ حالات کو مزید ابتر بنا دیتے ہیں۔ نااُمیدی میں پراُمید رہنے والے ہی بلندیوں کو پہنچتے ہیں۔ اپنے خالق سے تعلق کو مضبوط بنائیں اور توکل پر یقین بڑھائیں۔ ’’اُمید کے بغیر رہنا زندگی کو ترک کرنا ہے۔‘‘ (فیوڈور دوستوفسکی)
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
سوشل میڈیا اور ہم
انگریز نے جب ہندوستان میں اپنے قدم جما لیے اور حکمران بن بیٹھا تو چونکہ وہ اپنے دوست اور دیگر رشتے دار پیچھے چھوڑ آیا تھا تو یہ ثابت کرنے کےلیے کہ وہ بھی سماجی حیوان ہے، اس نے ہندوستان میں جم خانے اور کلب بنائے تاکہ وہ اپنے ہم رنگ، ہم نسل، ہم منصب، ہم نوالہ، ہم پیالہ کے ساتھ وقت گزار سکے اور سماجی سرگرمیاں کرسکے۔ اس کو صرف اپنے لوگوں تک محدود کرنے کےلیے اس نے باہر بورڈ لگوا دیے کہ ’’کتوں اور ہندوستانیوں‘‘ کا داخلہ ممنوع ہے۔
انگریز چلے گئے، قوم آزاد ہوگئی اور جم خانوں اور کلبوں سے بورڈ اتر گئے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ یہ بورڈ آج بھی آویزاں ہیں بس نظر نہں آتے۔ کیونکہ آج بھی صرف ایک مخصوص سماجی حیثیت کے لوگ ہی ان جم خانوں اور کلبوں میں جلوہ گر ہوتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر ان کے رشتے دار خاص طور پر وہ جو سماجی حیثیت میں اُن کے ہم پلہ نہ ہوں، اگر وہ ان سے ملنے کے خواستگار ہوں تو یہ انکار کر دیتے ہیں کہ ہم مصروف ہیں اور کلب جارہے ہیں۔ اس صورتحال میں نوٹس تو اب بھی موجود ہے لیکن اب وہ مقامی ضروریات پوری کرتے ہیں۔
جیسا کہ ہم سب جانتے ہے کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے اور اس میں سے سماجی نکال دوں تو صرف حیوان رہ جاتا ہے۔ انسان کی سماجی ضروریات کو پورا کرنے کےلیے ہر دور میں کچھ نہ کچھ نئی چیزیں اور طریقے متعارف کرائے جاتے رہے۔ موجودہ دور سماجی ذرائع ابلاغ کا ہے، بدقسمتی سے اس سماجی ذرائع ابلاغ نے ملاقات کے معنی بدل دیے ہیں۔ اب ملنا بھی آن لائن ہوگیا ہے کہ جس کے نتیجے میں ملاقات تو آن لائن ہوجاتی ہے لیکن موت تنہائی یا اکیلے میں ہوتی ہے۔
جس تواتر سے اس قسم کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے لگتا ہے کہ قوم جلد ہی اس کو بھی قبول کرلے گی اور ابھی جو تھوڑا بہت اثر ہم دیکھ رہے ہیں وہ بھی وقت کے ساتھ ختم ہوجائے گا اور ہم بالکل احساس سے عاری لوگوں کا ہجوم بنے ہوئے تو ہیں ہی بس یہ سب کچھ اور پکا ہوجائے گا۔ جب بھی کوئی نئی چیز یا طریقہ متعارف کرایا گیا تو یہ خیال رکھا گیا کہ نئی چیز یا طریقہ انسان کے تابع ہوں۔ یہ پہلی بار ہے کہ انسان اس سوشل میڈیا کا عادی بلکہ ’’غلام‘‘ بن گیا ہے۔ بے شمار ایسی تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں کہ جس میں ہم نے دیکھا کہ لوگ اس قدر سوشل میڈیا پر منہمک تھے کہ حادثے کا شکار ہوگئے لیکن کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔
ہمارا مذہب ہمیں یہ بتاتا ہے کہ تم اگر کچھ اچھا کھاتے یا پیتے ہو لیکن کسی بھی وجہ سے اسے اپنے ہمسایے کے ساتھ بانٹ نہیں سکتے تو اس کی باقیات کو باہر مت پھینکو کہ تمہارے ہمسایے کو اپنی کم مائیگی کا احساس نہ ہو۔ لیکن آج سوشل میڈیا پر کیا ہو رہا ہے، ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کی نمائش کی جاتی ہے، جیسے میں پیزا کھا رہا ہوں، میں نے حلوہ پوری کھائی اور دیگر چیزوں میں کہ میں طیران گاہ سے ملکی اور غیر ملکی سفر پر روانہ ہورہا ہوں اور لوگ کھانے کی چیزوں پر yummy اور دیگر چیزوں پر مختلف تاثرات دیتے ہیں۔ ایک اور طریقہ "like" کا ہے جس میں مختلف اشکال بھی ہیں، جیسے دل یا انگوٹھا۔ اگر فیس بک کا بٹن دلی کیفیت بتا سکتا تو دل کے ساتھ ’’چھریاں‘‘ بھی ہوتیں اور ’’انگوٹھے‘‘ کے ساتھ بقایا انگلیاں بھی ہوتیں، باقی آپ سب سمجھدار ہیں۔
خدا کےلیے ہوش کے ناخن لیجیے۔ یہ موجودہ دور کا فتنہ ہے۔ ہر دور کے اپنے فتنے ہوتے ہیں اور اگر ان فتنوں کا وقت پر سدِباب نہیں کیا گیا تو یہ قوموں کو تباہ کردیتے ہیں اور قرآن میں اس قسم کے واقعات کی بہت مثالیں ہے۔ انتہا تو یہ کہ میں نے مسجد میں داخلے کے (check in) کے پیغامات بھی پڑھے ہیں۔ اگر یہ خدا کےلیے ہے تو کیا اس کو پتہ نہیں ہے؟ ہمارا تو ایمان ہے کہ وہ دلوں کے حال جانتا ہے اور اگر لوگوں کےلیے ہیں تو پھر اسے دکھاوے کے سوا کیا نام دوں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ آخرت میں ہر چیز بشمول ہمارے اپنے اعضا ہمارے اعمال کی گواہی دیں گے، تو کہیں اس فیس بک کے چکر میں ہم کہیں فیس دکھانے کہ لائق نہ رہے اور یہ فیس بک والا like نہیں، آگے اپ کی مرضی اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔ آمین۔
آخر میں ہماری قومی ذہنیت پر ایک کہانی اور اختتام۔
ایک گھر کے دروازے پر دستک ہوئی، دروازہ کھولا تو سامنے پیزا ڈلیوری والا لڑکا کھڑا تھا۔ گھر کے مکین نے کہا کہ ہم نے تو کوئی پیزا کا آرڈر نہیں دیا ہے۔ پیزا ڈلیوری والے نے کہا کہ معلوم ہے اور یہ کہہ کر پیزا کا ڈبہ کھول کر انھیں پیزا دکھایا اور کہا کہ یہ آپ کے پڑوسیوں کا آرڈر ہے۔ انھوں نے کہا کہ آپ کو دکھا دوں کیونکہ ان کے یہاں بجلی نہیں ہے اور اس کو فیس بک پر پوسٹ نہ کرسکیں گے۔
آپ پیزا دیکھ کر جل بھن کر کباب بنیں اور چاہے تو پھر وہی جلے بھنے کباب کھا لیجئے گا اور اپنے پڑوسیوں کو پیزا سے لطف اندوز ہونے دیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔