Daily Ausaf:
2025-04-26@04:53:36 GMT

فٹبال !نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے

اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT

پاکستان جو کبھی ایشیا میں فٹ بال کے میدان میں اپنا ایک مقام رکھتا تھا آج اس کھیل کے زوال کی داستان بن چکا ہے۔ فٹبال جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ مقبول کھیل ہے پاکستان میں اپنی شناخت کھو چکا ہے۔ اس گرتی ہوئی صورتحال کے پیچھے کئی عوامل ہیں جن میں سب سے اہم پاکستان فٹبال فیڈریشن کی اندرونی سیاست، کرپشن ، انتظامیہ کی نااہلی، اور کھیل کے فروغ کے لیے حکومتی سطح پر عدم توجہی شامل ہیں۔ پاکستان فٹبال فیڈریشن پر براجمان چیئرمین نارملائزیشن کمیٹی ہارون ملک کی “محنت” رنگ لے آئی اور فٹبال کی عالمی تنظیم “فیفا” نے پاکستان فٹبال فیڈریشن کی رکنیت معطل کر دی۔پاکستان فٹبال فیڈریشن کی تاریخ انتظامی بحران، سیاسی مداخلت اور ذاتی مفادات کی جنگ سے بھری پڑی ہے۔ فیڈریشن کے اندر گروہ بندی، اقتدار کی کشمکش اور عہدوں کے لیے ہونے والی سازشیں فٹبال کے فروغ کے بجائے اس کے زوال کا سبب بنی ہیں۔ کئی بار فیڈریشن کے انتخابات متنازعہ رہے ۔سال کے انتخابات کے بعد دو گروپوں کے درمیان اقتدار کی جنگ نے فیڈریشن کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک گروپ نے فیڈریشن کے دفاتر پر قبضہ کر لیا جبکہ دوسرے گروپ نے عدالتوں کا رخ کیا۔ اس تنازعے کا نتیجہ یہ نکلا کہ فیفا نے پاکستان پر پابندی لگا دی جس سے ملک میں فٹبال کی سرگرمیاں تقریباً معطل ہو گئیں۔ بے بس اور اختیارات کے حوالے سے برائے نام اور کاغذی کارروائی کی حامل اور محض اجلاس اجلاس کھیلنے والی” آئی پی سی” پاکستان میں فٹبال کی تباہی اور اس کھیل کی گرتی ہوئی دیوار کو آخری دھکا لگتے دیکھنے کے بعد اب کچھ متحرک ہوئی ہے، مگر بہت دیر کر دی مہربان آتے آتے۔
پاکستان فٹبال فیڈریشن نارملائزیشن کمیٹی کے چیئرمین مبینہ طور پر خود ایک فل صدر بننا چاہتے ہیں اسی چکر میں وہ پی ایف ایف کے آئین میں یہ ترمیم کروانا چاہتے ہیں کہ فیڈریشن کے صدر کا کانگریس ممبرز سے باہر کوئی بھی الیکشن لڑ سکتا ہے کانگریس ممبران نے اس ترمیم کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔جس پر انہوں نے اپنے طور پر فیفا میں موجود اپنے رابطوں کے ذریعے اپنا کام دکھا دیا اور یہ ثابت کر دیا کہ ” نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے!
اب پھر وہی تقریباً چار سال پرانی ریہرسل دوبارہ ہو گی فیفا کو یقین دہانی کروائی جائے گی کہ کوئی حکومتی مداخلت نہیں ہوئی۔ فیفا کی طرف سے رکنیت معطلی سے چند گھنٹے قبل قومی اسمبلی کی اسٹیندنگ کمیٹی برائے آئی پی سی کا اجلاس ہوا جس میں ہارون ملک پیش ہوئے اور اپنی ساری سرگزشت بیان کی کہ سب کچھ ٹھیک کیا ہے کلبوں کی سکروٹنی،ڈسٹرکٹس کے الیکشن اور مبینہ طور پر تین خواتین ممبرز کی بطور کانگریس ممبرز تعیناتی شامل ہے،اسٹیندنگ کمیٹی میں ڈی جی پی ایس بی اور ڈپٹی ڈی جی پی ایس بی بھی شریک تھے۔ اب یہ معاملہ طول پکڑ گیا ہے۔یہ فوری حل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔اس کو حل کرنے کیلئے کوئی آگے بھی نہیں آئے گا سب اسپورٹس فیسٹیول۔۔ اسپورٹس فیسٹول کھیلنے میں مصروف ہیں۔
قارئین محترم کوئی مانے یا نہ مانے اس وقت اسپورٹس فیڈریشنز پر براجمان آرگنائزرز صرف اور صرف اپنے عہدوں کو طول دینے پر اپنی تمام مصروفیات اور رابطے برقرار رکھے ہوئے ہیں ان میں سے اگر کوئی تھوڑا بہت پیسہ بچ جائے تو اس پر کھیلوں کے فروغ” کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے یہی حقیقت اور ایک کڑوا سچ ہے۔ فیفا نے پاکستان کی رکنیت معطل تو کر دی لیکن حقیقت میں اس سے قبل بھی پی ایف ایف کی حالت معطلی والی ہی تھی کوئی ڈومیسٹک ایکٹیوٹیز نہیں تھیں۔ پی ایف ایف نارملائزیشن کمیٹی کھلاڑیوں کے کروڑوں روپے ڈکار گئی اور اب کمیٹی کی مزید موجیں لگ گئیں، اطلاعات کے مطابق فیفا موجودہ نارملائزیشن کمیٹی کی مدت میں توسیع کا فیصلہ فروری کے بعد کرے گی کہ کمیٹی کی توسیع ہو گی یا نئی کمیٹی بنے گی۔
پاکستان میں فٹبال کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ اگرچہ کچھ نوجوان کھلاڑی اور کوچز اس کھیل کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان کی کوششیں انتظامیہ کی نااہلی اور وسائل کی کمی کی وجہ سے بارآور ثابت نہیں ہو پا رہی ہیں۔ اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے پی ایف ایف کے اندرونی تنازعات کو حل کرنا ہوگا۔ فیڈریشن کو ایک مضبوط اور شفاف انتظامیہ کی ضرورت ہیجو فٹبال کے فروغ کے لیے کام کرے۔اس وقت وفاقی وزارت کھیل بھی نہ ہونے کے برابر ہے یہ وزارت آئی پی سی کی وزارت میں ضم کی گئی ہے اور مسلم لیگ کے سینئر رہنما رانا ثنا اللہ خان وزیر برائے آئی پی سی ہیں، وہ اگر چاہیں تو فٹبال سمیت دیگر کھیلوں کے معاملات کو بہتر بنا سکتے ہیں مگر ان کی ترجیحات میں شاید کھیلوں پر توجہ شامل نہیں ۔ وزارت کھیل کو فٹبال کے لیے فنڈز مختص کرنے چاہئیں اور کھیل کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ گراس روٹ لیول پر فٹبال کو فروغ دینے کے لیے اسکولوں اور کالجوں میں فٹبال ٹورنامنٹس کا انعقاد کیا جانا چاہیے۔ نوجوان کھلاڑیوں کو کوچنگ اور تربیت کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کر سکیں۔پاکستان فٹبال فیڈریشن کی جانب سے ایشین کپ کوالیفائرز سے دستبرداری کا فیصلہ پاکستان فٹبال کے لیے ایک المیہ ہے۔ یہ قدم نہ صرف قومی ٹیم کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے بلکہ اس سے پاکستان فٹبال کے مستقبل پر بھی سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان فٹبال بین الاقوامی سطح پر اپنی شناخت کھو سکتی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز مل کر اس کھیل کو بچانے اور اسے فروغ دینے کے لیے کام کریں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: نارملائزیشن کمیٹی فیڈریشن کے پی ایف ایف میں فٹبال فٹبال کے کے فروغ اس کھیل کے لیے

پڑھیں:

قومی سلامتی کمیٹی

قومی سلامتی کمیٹی کے اہم اجلاس میں پہلگام واقعے کے بعد بھارت کی آبی جارحیت اور دیگر اقدامات کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے پاکستان نے بھارت سے ہر قسم کی تجارت، واہگہ بارڈر اور فضائی حدود بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے اورکہا ہے کہ پانی روکنے کو اعلان جنگ تصورکیا جائے گا۔ کمیٹی نے بھارت کی جانب سے دی گئی درپردہ دھمکیوں کو افسوسناک قرار دیا اور کہا کہ بین الاقوامی برادری کو بھارت کی ریاستی سرپرستی میں سرحد پار قتل اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزیوں پر توجہ دینی چاہیے۔

 بلاشبہ پاکستانی سیاسی و عسکری قیادت نے بہت سوچا سمجھا رد عمل دیا ہے۔ بھارت اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ وہ ملک کے شمالی حصے میں جنگ چھیڑے گا تو اُس جنگ کا دائرہ کار وہیں تک محدود رہے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی بھی جنگ وقت، دائرہ کار اور ہتھیاروں کے استعمال کی قید سے آزاد ہوگی، اگر بھارت جنگ کرنا چاہتا ہے تو اُسے اِس جنگ کی قیمت چکانا پڑے گی اور یہی پاکستان نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ پاکستان پانی روکے جانے کے عمل کو اعلان جنگ سمجھے گا۔

بھارت آج اگر سندھ طاس معاہدے سے مُکر جاتا ہے تو اِس کے بعد بین الاقوامی معاہدات کو لے کر بھارت اپنا عالمی اعتبارکھو دے گا۔ بین الاقوامی معاہدات تو درکنارکثیر القومی معاہدات میں بھی بھارت کو قابلِ اعتبار نہیں سمجھا جائے گا۔ بلاشبہ پاکستان کا ردعمل بہت نپا تلا ہے، ملکی دفاع کے لیے پوری قوم پاک افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہوئی ہے۔

پاکستان نے بھارتی مذموم دھمکیوں سے دو درجے اوپر جا کر بھارتی فیصلوں کو ’’ ایکٹ آف وار‘‘ قرار دیا ہے۔ تجارت، فضائی حدود اور ٹرانزٹ تجارت کی بندش سے ہندوستانی معیشت پر شدید اثر پڑے گا۔ شملہ معاہدہ اور دیگر دو طرفہ معاہدوں کی تقدیر اب پاکستان کے ہاتھ میں ہے، جیسا کہ ایک ہی جھٹکے میں مودی نے پہلگام کے احمقانہ اقدام سے 1971 کی ہندوستانی سفارتی کامیابی کو ختم کردیا۔ پاکستان کے تمام سفارتی اقدامات بھی بھارتی لاپرواہی سے ایک درجے اوپر ہیں۔ NSC کا بیان پاکستان کا واضح عکاس ہے۔

بھارت کا فالس فلیگ آپریشن کا مقصد پاکستان کو بدنام کرنے کی ذہنی پسماندگی ہے۔ پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کی بلا امتیاز مذمت کرتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960 کی دہائی میں پانی کی تقسیم کے لیے عالمی بینک کی ثالثی اورگارنٹی میں سندھ طاس معاہدہ طے پایا تھا۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان دریائی آبی وسائل کی تقسیم کا ایک مستقل حل فراہم کرتا ہے اور یقینا دونوں ممالک کی معیشت اور زراعت کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت تین مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب کا پانی پاکستان کو اور تین مشرقی دریاؤں بیاس، راوی اور ستلج کا پانی بھارت کو دیا گیا تھا۔

دو دن پہلے مقبوضہ کشمیرکے علاقے پہلگام میں جب ایک لوکل علیحدگی پسند تنظیم نے مسلح کارروائی کرکے وادی میں موجود 25 سے زائد بھارتی سیاحوں کو ہلاک اور 10 کو زخمی کردیا تو بھارتی حکومت نے اس حملے کا بھی ہمیشہ کی طرح بنا تحقیق و ٹھوس ثبوت، الزام پاکستان پہ لگاتے ہوئے رد عمل کے طور پہ دونوں ممالک کے درمیان موجود سندھ طاس معاہدے کو یک طرفہ طور پہ معطل کرنے جیسا سنگین اقدام اٹھایا ہے۔

یہ اقدام نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان موجود معاہدے کی روح کے خلاف ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کی بھی صریحاً خلاف ورزی ہے اور یہ بھارت کی جانب سے پاکستان کی سالمیت پہ آبی جارحیت سے کم کچھ نہیں۔ بھارت کا یہ موقف ہے کہ وہ اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ ہونے دینے کا حق رکھتا ہے اور اپنے دریاؤں پر تعمیراتی کام اور ان کا پانی روکنے کا مجاز ہے۔

تاہم، سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کو مغربی دریاؤں پر صرف محدود تعمیرات کی اجازت ہے، جن کا مقصد صرف بجلی کی پیداوار اور معمولی ذخیرہ ہوتا ہے اور وہ بھی اس شرط پرکہ اس سے پاکستان کے پانی کے حصے پر کوئی اثر نہ پڑے۔ عالمی بینک کی گارنٹی کے تحت ہوئے سندھ طاس معاہدے کی بھارت قانونی طور اور کسی بھی صورت میں خلاف ورزی کر کے پاکستان کا پانی بند نہیں کر سکتا۔ معاہدے کی شقوں کے تحت دونوں ممالک اس بات کے پابند ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے پانی کے حقوق کا احترام کریں گے۔ بھارت کی جانب سے کسی بھی یکطرفہ اقدام کو معاہدے کے تحت چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

اس معاہدے کی نگرانی اور تنازعات کے حل کے لیے ایک مستقل انڈس کمیشن بھی قائم کیا گیا ہے، جو دونوں ممالک کے نمائندوں پر مشتمل ہے۔ تنازعہ کی صورت میں پہلے کمیشن سے رجوع کیا جاتا ہے اور اس کے بعد ضرورت پڑنے پر ثالثی یا بین الاقوامی عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان اس مسئلے پر مختلف سطحوں پر مختلف نوعیت کے اقدامات اٹھا سکتا ہے۔ سب سے پہلے تو پاکستان کو اس معاملے کو بلا تاخیر انڈس کمیشن میں اٹھانا چاہیے، اگرکمیشن کے ذریعے مسئلہ حل نہیں ہوتا جوکہ موجودہ حالات میں نا ممکن نظر آتا ہے تو پھر پاکستان کو عالمی بینک کو ثالثی کے لیے مداخلت کی درخواست کر دینی چاہیے، کیونکہ عالمی بینک ہی اس معاہدے کا گارنٹر ہے۔ دوسری جانب، پاکستان اس مسئلے کو بین الاقوامی عدالتِ انصاف یا بین الاقوامی ثالثی فورمز پر بھی لے جا سکتا ہے۔

بین الاقوامی قوانین کے تحت اگر کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے ساتھ ہوئے کسی معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے تو متاثرہ ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قانونی چارہ جوئی کے ذریعے اپنے حقوق کا تحفظ کرے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ بھارت کی خلاف ورزیوں کے ٹھوس شواہد اکٹھے کرے اور معاملے کو عالمی عدالت انصاف میں بھی لے جائے۔

اسی طرح اس ضمن میں پاکستان کے لیے سفارتی اقدامات بھی اہم ہیں۔ پاکستان اس معاملے کو اقوام متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم (OIC) اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر اٹھا کر دوست ممالک اور اتحادیوں کی جانب سے بھارت پر دباؤ بڑھا سکتا ہے کہ وہ پاکستان کی سالمیت کو خطرہ لاحق کرنے جیسے کسی اقدام سے باز رہے۔

سب سے اہم اور غور طلب نقطہ یہ ہے کہ اگر بھارت ہٹ دھرمی دکھاتے ہوئے کچھ عرصے کے لیے بھی پانی روک دیتا ہے تو ایسی صورتحال میں پاکستان جو کہ ایک زرعی ملک ہے۔ اسے اپنی زراعت کو زندہ رکھنے اور اپنی سر سبز زمینوں کو بنجر ہونے سے بچانے کے لیے ایک جامع اور موثر منصوبہ بندی اور اس پہ فوری عمل درآمد کی ضرورت آن پڑی ہے۔

اس کے علاوہ، پاکستان کی حکومت کو عوام میں اس مسئلے کی اہمیت اجاگرکرنا ہو گی تاکہ نہ صرف قومی سطح پر کالا باغ جیسے اور مزید نئے ڈیمز کے لیے یکجہتی پیدا ہو سکے اور دستیاب وسائل سے بھارتی آبی جارحیت سے روکے گئے پانی کی کمی پوری کی جا سکے بلکہ بھارت کی آبی جارحیت کے خلاف ایک موثر اور قومی ردِعمل بھی دیا جا سکے۔ بھارت کے ایسے یک طرفہ اقدامات نہ صرف پاکستان کی سالمیت کے لیے خطرہ ہیں بلکہ خطے میں امن و امان کے لیے بھی چیلنج ہیں۔ پانی کا مسئلہ دونوں ممالک کے درمیان پہلے ہی متنازع ہے اور ایسے یک طرفہ اور سنگین اقدامات خطے میں مزید کشیدگی پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔

پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں، اور ان کے درمیان کسی بھی قسم کی کشیدگی نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پوری دنیا کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ عالمی برادری فوری طور پہ بھارتی آبی جارحیت کا نوٹس لے اور ایسے سنگین اقدام کے خلاف اپنا موثر و مثبت کردار ادا کرتے ہوئے بھارت کو پابند بنائے کہ وہ سندھ طاس معاہدے کی شقوں کا احترام کرے۔اسی طرح بھارت کی جانب سے پیدا کی گئی موجودہ سنگین صورتحال میں پاکستان کو اپنی سفارتی، قانونی اور سیاسی حکمت عملی پر ازسرنو غور کرنا ہوگا۔ اب جہاں اسے ٹھوس انداز میں بھارت کے ان غیر قانونی اقدامات کے خلاف عالمی سطح پر بھرپور اور موثر مہم چلانا ہوگی۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ہندو بنیا جو زبان سمجھتا ہے اسے اسی زبان میں منہ توڑ جواب بھی دیا جائے۔ اگر اگلے کچھ دنوں میں بھارتی حکمران ہوش کے ناخن نہیں لیتے اور سندھ طاس معاہدہ بحال نہیں کرتے تو پاکستان کو بھی شملہ معاہدے سمیت دیگر معاہدے یک طرفہ طور پہ معطل کر دینے چاہئیں تا کہ ہمارا کشمیر اور جونا گڑھ پر حق قائم ہو اور ہم کھل کر ان دونوں علاقوں کے عوام کی بھارت سے علیحدگی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کے لیے مدد کر سکیں۔ دراصل جنگ کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں۔

جنگ ایک آسان چیز نہیں حتیٰ کہ امریکا جیسا ملک بھی جنگ کے لیے اتحادی تلاش کرتا ہے۔ پاکستان کے معاشی مسائل بہت زیادہ ہیں اور بھارت گو کہ ایک بڑا ملک ہے لیکن اس کے معاشی مسائل بھی کم نہیں ہیں۔ دونوں ممالک کے شدید ردعمل کے بعد فہم و فراست سے کام لیا جانا چاہیے۔ امریکا دونوں ملکوں کے درمیان مصالحت کے لیے اپنا کردار ادا کر سکتا ہے لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا رویہ بہت عجیب ہے۔ ان کا رویہ ڈرانے دھمکانے والا ہے۔

ایسی صورت میں دونوں ملکوں کو خود عملیت پسندی سے سوچنا ہوگا۔اب بال بھارتی کورٹ میں ہے لیکن جس طرح سے وہاں کے سیاست دانوں اور میڈیا نے اس معاملے پر انتہائی مبالغہ آمیز بیانیہ بنایا ہے اور ایک افراتفری کی فضا بنائی ہے، ایسی صورت میں چیزیں قابو سے باہر بھی ہو جاتی ہیں، لیکن امید کرنی چاہیے کہ دونوں ملکوں کے بیچ مزید تصادم اورکشیدگی نہیں ہو گی۔

متعلقہ مضامین

  • قومی سلامتی کمیٹی
  • شارجہ ریڈنگ فیسٹیول 2025 میں بچوں کا تخلیقی سفر: ایل ای ڈی سرکٹس سے روشنیوں کا کھیل
  • چائنا میڈیا گروپ اور بین الاقوامی ہارس رائیڈنگ فیڈریشن کے مابین تعاون
  • ایک مرتبہ پھر کھیل میں سیاست لے آیا۔پاکستان کے ساتھ کرکٹ کھیلنے سے انکار
  • کھیل میں سیاست؛ پہلگام واقعہ! “کرکٹ نہیں کھیلیں گے”
  • کھیل میں سیاست؛ پہلگام واقعہ! کرکٹ نہیں کھیلیں گے
  • کراچی کی سڑکوں پر ٹینکر کا خونی کھیل جاری، بچہ جاں بحق، خواتین سمیت 7 افراد زخمی
  • آئی پی ایل: ایک منٹ کی خاموشی، چیئرلیڈرز اور ڈی جے پرفارمنس بھی منسوخ
  • پاکستان پر الزام لگاؤ، سچ چھپاؤ اور اپنی عوام کو بیوقوف بناؤ۔۔۔۔بھارتی میڈیا کا پاکستان مخالف شیطانی پروپیگنڈے پر مبنی کھیل ایک بار پھر بے نقاب
  • اسٹیبلشمنٹ فیڈریشن کو ون یونٹ نظام نہ بنائے: لیاقت بلوچ