حزب اور حماس کے حملوں کیوجہ سے بے گھر اور بے روزگار صیہونی، نتین یاہو کے لئے درد سر
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
صیہونی ذرائع ابلاغ تباہی کی دو وجوہات بتاتے ہیں، پہلی وجہ مخدوش اقتصادی صورتحال اور دوسری وجہ اسرائیلی فوج کی جنوبی لبنان اور مغربی کنارے میں جاری جارحیت کیوجہ سے کشیدگی اور شدید سیکورٹی خدشات ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ غزہ جنگ کے دوران حزب اللہ اور فلسطینی مزاحمتی حملوں سے بے گھر ہونے والے اسرائیلیوں میں سے ہر پانچواں صیہونی اپنی ملازمت اور روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ جس سے اسرائیل کی جنگ زدہ معیشت پر مزید منفی اثر پڑا ہے۔ زیادہ تر پناہ گزینوں نے کئی مہینے اسرائیل کے اندر عارضی گھروں میں گزارے ہیں اور حکومتی امداد حاصل کی ہے اور ان کے اخراجات نیتن یاہو حکومت کے لئے اضافی مالی بوجھ ہیں، غزہ جنگ کے لیے فوجی اخراجات پر اٹھائے جانیوالے اربوں شیکل اس کے علاوہ ہیں۔ صیہونی ریاست اسرائیل کے ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ کی دسمبر اور جنوری میں جاری کی گئی ریسرچ کے مطابق صرف 39 فیصد پناہ گزین اپنے گھروں کو لوٹے ہیں، جب کہ شمال میں زیادہ تر علاقے اب بھی تقریباً خالی ہیں۔
رپورٹس کے مطابق جنگ سے پہلے کام کرنے والوں میں سے اب 19 فیصد بے روزگار ہیں، 3 فیصد پناہ گزینوں کو ریزرو فوجیوں کے طور پرخدمات کے لیے بلایا گیا تھا، جنگ کے آغاز کے بعد سے تقریباً ایک تہائی اسرائیلی گھرانوں کی آمدنی میں نمایاں کمی آئی ہے، لبنان کی سرحد پر شمالی اسرائیل کے خاندانوں میں یہ تعداد 44 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جہاں حزب اللہ کے حملوں سے کاروبار، سیاحت اور زراعت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اسرائیل کے مرکزی بینک نے اکتوبر میں کہا تھا کہ حزب اللہ کے حملوں کے نتیجے میں شمالی اسرائیل میں اقتصادی سرگرمیوں میں سست روی نے معاشی دباؤ بڑھا دیا ہے، جب کہ اسرائیلی معیشت پہلے ہی بڑھتے ہوئے دفاعی اخراجات، تعمیرات جیسے اہم شعبوں میں مزدوروں کی نایابی اور اقتصادی ترقی میں 1 فیصد تک کمی کی وجہ سے سنگین مسائل سے دوچار ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ غاصب صیہونی ریاست نے غزہ جنگ کے آغاز پر فلسطینی مزدوروں کے لیے اپنی سرحدیں بند کر دی تھیں، جس سے فلسطینی اتھارٹی کے مالیاتی بحران میں اضافہ ہوا، جس سے صیہونی ریاست نے اپنی ٹیکس آمدنی کا ایک بڑا حصہ بھی کھو دیا ہے۔ شمالی اسرائیل کو بھی معاشی مشکلات کا سامنا ہے جہاں پناہ گزینوں کو اپنے گھروں کو واپس جانے سے روک رکھا گیا ہے۔ اسرائیل کو حزب اللہ کے ہاتھوں تباہ کی گئی شمالی بستیوں میں معمول کی زندگی بحال کرنے کے لیے آٹھ سے دس سال درکار ہیں۔ اسرائیل کو آباد کاروں کو معاوضہ دینے اور انہیں شمال میں واپس آنے اور وہاں رہنے میں مدد کے لیے بھی بھاری رقوم کی ضرورت ہے، جب کہ شمال سے فرار ہونے والے آباد کاروں کو پناہ دینے اور ان کی مدد کے لیے اربوں ڈالر پہلے ہی خرچ کیے جا چکے ہیں۔
عبری ذرائع ابلاغ کے مطابق صیہونی حکومت کی وزارت خزانہ نے شمال سے فرار ہونے والے آباد کاروں کے لیے 900 ملین ڈالر کی اضافی فنڈنگ کی منظوری دی تھی، تاکہ ان کے لیے کرائے پر لیے گئے ہوٹلوں یا اپارٹمنٹس میں ان کے زیادہ تر قیام کو پورا کیا جا سکے اور انھیں اپنی روزی روٹی کے لیے اضافی فنڈز فراہم کیے جا سکیں، کیونکہ ان میں سے دسیوں ہزار شمال میں اپنی ملازمتیں کھو چکے ہیں اور تنخواہوں کے بغیر ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران بہت سے صیہونی ذرائع ابلاغ نے شمالی بستیوں میں جنگ کی تباہ کاریوں کے بارے میں متعدد رپورٹیں شائع کی ہیں جن کی دو وجوہات بتاتے ہیں، پہلی وجہ مخدوش اقتصادی صورتحال اور دوسری وجہ اسرائیلی فوج کی جنوبی لبنان اور مغربی کنارے میں جاری جارحیت کیوجہ سے کشیدگی اور شدید سیکورٹی خدشات ہیں۔
عبری ذرائع کے مطابق شمال کے باشندوں کے لیے بڑا معاشی بحران گزشتہ جنوری سے مہنگائی کی شرح میں تقریباً 4 فیصد تک اضافے کیوجہ سے تھا۔ اس معاشی تباہی سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ صیونی رجیم کو سیکورٹی، عسکری اور اقتصادی پہلوؤں کے حوالے سے جو ضربیں لگائی گئی ہیں اس کی تلافی طویل عرصے کے بعد نہیں ہو گی۔ ہاریٹز نے متلا سیٹلمنٹ کونسل کے چیئرمین ڈیوڈ ازولے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ نیتن یاہو کی مجرمانہ حکومت کو اس کی پرواہ نہیں ہے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے، شمالی اسرائیل میں پبلک ٹرانسپورٹ ناپید ہے، کریات شمونہ اسٹیشن سے متلا تک جانے والی ٹرانسپورٹ لائن دن میں چھ سے سات بار چلتی ہے، لیکن یہ کسی اسٹیشن پر نہیں رکتی اور نہ ہی کوئی اس پر سوار ہوتا ہے، وزیر خزانہ یہاں آئے اور ایسے وعدے کیے جو ان کے جاتے ہی پانی کے بلبلے کی طرح غائب ہو گئے، اور یہ مایوس کن ہے۔
متلا سیٹلمنٹ کونسل کے سربراہ نے مزید کہا ہے کہ سموٹریچ نے متلا میں سب کچھ دیکھا، وہ گھر گھر گیا، اس نے تباہی، ویرانی اور غیر آباد شہر دیکھا اور ان چوہوں کو بھی جنہوں نے گھروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور پھر وہ یہاں سے ایسے چلا گیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ حکومت تعمیر نو اور بے گھر ہونے والوں کی واپسی کی بات کرتی ہے اور یہ سب فتح حاصل کرنے کے نام پر ہے، لیکن یہاں فتح کی کوئی شکل نہیں ہے، لیکن تباہی اور بربادی کی بہت سی تصویریں ہیں۔ غزہ جنگ کی لاگت، جس کا خود کابینہ نے 2024 کے آخر تک باضابطہ طور پر اعلان کیا تھا، تقریباً 250 بلین شیکل (67.
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: شمالی اسرائیل اسرائیل کے کے مطابق کیوجہ سے حزب اللہ جنگ کے کے لیے اور ان
پڑھیں:
غزہ میں جنگ بندی کیلئے قطر اور مصر نے نئی تجویز پیش کردی
غزہ میں جنگ بندی کیلئے قطر اور مصر نے نئی تجویز پیش کردی WhatsAppFacebookTwitter 0 22 April, 2025 سب نیوز
غزہ(آئی پی ایس) اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے قطر اور مصر کے ثالثوں نے ایک نئی تجویز پیش کردی۔
ایک سینئر فلسطینی عہدیدار نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے قطر اور مصر کے ثالثوں نے ایک نئی تجویز پیش کی ہے جس کا مقصد غزہ میں جاری جنگ کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے۔
عہدیدار کے مطابق اس تجویز میں پانچ سے سات سال کی جنگ بندی، اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی، جنگ کا باضابطہ خاتمہ اور غزہ سے اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا شامل ہے۔
اس حوالے سے حماس کا ایک اعلیٰ سطحی وفد قاہرہ پہنچ رہا ہے جس میں سیاسی کونسل کے سربراہ محمد درویش اور مرکزی مذاکرات کار خلیل الحیّہ شامل ہوں گے۔
گزشتہ ماہ جنگ بندی اس وقت ناکام ہوئی تھی جب اسرائیل نے دوبارہ غزہ پر بمباری شروع کر دی اور دونوں فریقین نے ایک دوسرے کو اس ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
اسرائیل کی جانب سے تاحال ثالثوں کی نئی تجویز پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
چند روز قبل حماس نے اسرائیل کی اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا جس میں چھ ہفتوں کی جنگ بندی کے بدلے حماس سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
ادھر اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ہفتے کے روز کہا کہ وہ حماس کی مکمل تباہی اور تمام یرغمالیوں کی واپسی سے قبل جنگ ختم نہیں کریں گے جبکہ حماس کا مؤقف ہے کہ وہ یرغمالیوں کی رہائی سے قبل جنگ کے خاتمے کی یقین دہانی چاہتی ہے۔
فلسطینی عہدیدار کے مطابق حماس نے عندیہ دیا ہے کہ وہ غزہ کی حکومت کسی ایسی فلسطینی اتھارٹی کو سونپنے پر تیار ہے جس پر قومی اور علاقائی سطح پر اتفاق ہو، خواہ وہ مغربی کنارے کی فلسطینی اتھارٹی ہو یا کوئی نیا انتظامی ادارہ۔
تاہم نیتن یاہو نے واضح کیا ہے کہ غزہ کی آئندہ حکومت میں فلسطینی اتھارٹی کا کوئی کردار نہیں ہوگا جو 2007 سے غزہ پر حکمرانی سے باہر ہے۔
فلسطینی عہدیدار کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس مرحلے پر کسی کامیابی کی پیش گوئی کرنا قبل از وقت ہے، لیکن موجودہ ثالثی کوشش “سنجیدہ” ہے اور حماس نے “غیر معمولی لچک” کا مظاہرہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں اب تک 61 ہزار 700 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں اکثریت معصوم نہتے خواتین اور بچوں کی ہے۔
دوسری جانب قاہرہ میں فلسطینی سفارتخانے نے اپنے عملے کو ہدایت دی ہے کہ وہ اپنے خاندانوں سمیت رفاہ بارڈر کے قریب واقع مصری شہر العریش منتقل ہو جائیں۔ یہ عملہ غزہ سے زخمیوں کے مصر کے اسپتالوں میں علاج اور انسانی امداد کی ترسیل کے انتظامات میں مصروف تھا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچین کیساتھ اسپیس ٹیکنالوجی سمیت دیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے کے خواہاں ہیں، وزیراعظم جامشورو: مسافر وین پہاڑی سے گر گئی، خواتین اور بچوں سمیت 16 افراد جاں بحق سپریم کورٹ: 9 مئی مقدمات میں صنم جاوید اور شیخ رشید کی بریت پر حکومت کو عدالت کا دو ٹوک پیغام اسلام آباد میں تاریخ رقم: 35 روز میں انڈر پاس کی تعمیر کا آغاز وزیراعظم کا ملک میں سرمایہ کاری کرنے والے اوورسیز پاکستانیوں کو سول ایوارڈ دینے کا اعلان پیپلز پارٹی کو منانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ تمام کینال بنانے کا فیصلہ واپس لیں، شازیہ مری نفرت انگیز مہمات نہ رکیں تو ملک میں سیاسی قتل بھی ہوسکتا ہے، اسرائیلی اپوزیشن لیڈر نے خبردار کردیاCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم