سری دیوی کی محبت میں گرفتار سُپر اسٹار جو کبھی ان سے اظہار نہ کرسکا
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
بالی ووڈ کی ملکہ آنجہانی اداکارہ سری دیوی کے مداح دنیا بھر میں موجود ہیں مگر ان کے ساتھی اداکار بھی نہ صرف ان کے مداح بلکہ ان کی محبت میں بھی گرفتار رہ چکے ہیں۔
ایسے ہی ایک اداکار کے بارے میں آج ہم کو بتانے جارہے ہیں جو سری دیوی کی محبت میں گرفتار رہے تاہم کبھی ان سے اپنی محبت کا اظہار نہ کرسکے۔ یہ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے کہ اس اداکار نے سری دیوی کے ساتھ ایک فلم میں ان کے سوتیلے بیٹے کا کردار بھی ادا کیا ہے۔
یہاں بات ہورہی ہے ساؤتھ فلموں کے سُپر اسٹار رجنی کانت کی، سری دیوی نے اپنی زندگی کی ایک اہم فلم میں رجنی کانت کے ساتھ اسکرین شیئر کی ان دونوں کی جوڑی کو مداحوں کی جانب سے بھی بےحد پسند کیا گیا۔
اس فلم کی شوٹنگ کے دوران رجنی کانت کو خوبصورت ساتھی اداکارہ اور سب کے دلوں پر راج کرنے والی سری دیوی سے محبت ہو گئی اور وہ ان سے اپنی محبت کا اظہار کرنا چاہتے تھے مگر ایک واقعے کی وجہ سے وہ اس سے اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر سکے۔
مصنف اور ہدایت کار بالاچندر نے اپنے ایک پرانے انٹرویو میں اس دلچسپ واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ سری دیوی رجنی کانت سے عمر میں بہت چھوٹی تھیں اور رجنی کانت نے ہمیشہ ان کا بہت خیال رکھا۔
انہوں نے بتایا کہ دونوں کے درمیان ایک بےحد خوبصورت تعلق تھا یہی نہیں بلکہ سری دیوی نے رجنی کانت کی صحت بگڑنے پر سات دن کا اُپواس بھی رکھا تھا۔
ہدایتکار کے مطابق ایک دن جب رجنی نے سری دیوی کو سچائی بتانے کا ارادہ کیا اور وہ ان کے گھر پہنچے، تو اچانک گھر کی بتیاں بجھ گئیں، شاید لائٹ چلی گئی تھی یا کچھ اور مسئلہ تھا تاہم رجنی کانت نے اس کو ایک برا شگون سمجھا اور بغیر کچھ کہے لوٹ گئے اور پھر کبھی اپنی محبت کا اظہار نہیں کیا۔
بعد ازاں سری دیوی نے پروڈیوسر بونی کپور سے شادی کر لی اور یوں یہ ایک طرفہ محبت کی کہانی بھی ادھوری رہ گئی۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: رجنی کانت سری دیوی کا اظہار
پڑھیں:
’چاند نظر نہیں آیا کبھی وقت پر مگر ان کو دال ساری کالی نظر آ رہی ہے‘
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 17 ستمبر 2025ء ) رویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین مفتی منیب الرحمان اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کے معاملے پر رائے دینے پر تنقید کی زد میں آگئے۔ تفصیلات کے مطابق اپنے ایک بیان میں مفتی منیب الرحمان نے کہا کہ پہلے جج صاحبان پر پی سی او کے حلف یافتہ ہونے کی پھبتی کسی جاتی تھی کہ انہوں نے آئین کو پس پشت ڈال کر آمروں کی وفاداری کا حلف اٹھایا، پھر 2007ء میں عدلیہ بحالی تحریک کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بحال ہوئے اور عدلیہ کے زوال کا ایک نیا دور شروع ہوا، انہوں نے خود پی سی او حلف یافتہ حج ہونے کے باوجود دوسرے پی سی او حلف یافتہ جج صاحبان کو منصب سے فارغ کردیا، اس کے بعد بیرسٹر اعتزاز احسن کے مطابق متکبر جوں اور متشدد وکلاء کا دور شروع ہوا اور آئین کو آمر کے بجائے اپنی خواہشات اور انا کے تابع کر دیا۔(جاری ہے)
ان کا کہنا ہے کہ جج صاحبان ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ، گلزار احمد، اعجاز الاحسن، عظمت سعید شیخ، مظاہر نقوی اور منیب اختر وغیرہ نے وہ حشر بپا کیا کہ الامان والحفیظ! مارچ 2009ء میں جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے بعد عدلیہ کے تنزیل و انتشار کا سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا، بعض حجج صاحبان نے ایسے فیصلے دیئے جو آئین کو ازسر نو لکھنے کے مترادف ہیں، عدم اعتماد کی بابت پہلے فیصلہ دیا کہ سیاسی جماعت کے سر براہ کے حکم کی پابندی اُس جماعت کے ارکان پر لازم ہوگی پھر جب مصلحت بدل گئی تو فیصلہ دیا کہ سیاسی جماعت کے سر براہ کی نہیں بلکہ پارلیمانی لیڈر کے حکم کی تعمیل لازم ہوگی۔ رویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین کہتے ہیں کہ اب جسٹس طارق محمود جہانگیری کی قانون کی ڈگری کے جعلی ہونے کا مسئلہ ہے، آئین پسندی، نیز دینی منصبی اور اخلاقی حمیت کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو رضا کارانہ طور پر محاسبے کے لیے پیش کر دیتے اور خود چیف جسٹس کو لکھتے کہ تحقیقاتی کمیٹی قائم کر کے میرے کیس کا فیصلہ صادر کیجیے اور اپنی ڈگری کی اصلیت کو ثابت کر کے سرخرو ہوتے کیونکہ ” آن را که حساب پاک است از محاسبه چه باک‘ یعنی جس کا حساب درست ہے اُسے خود کو محاسبے کے لیے پیش کرنے میں کس بات کا ڈر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہچکچاہٹ بتارہی ہے کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ شاید پوری دال ہی کالی ہے، جعل سازی کو حرمت عدالت کے غلاف میں لپیٹا نہیں جاسکتا، نیز اصول پسندی اور آئین پابندی کا تقاضا ہے کہ اس کی بابت اسلام آباد ہائی کورٹ کے اُن کے ہم خیال بقیہ چارج صاحبان کا مؤقف بھی آنا چاہیئے، جوڈیشل کمیشن کا ایسے مسائل کو طویل عرصے تک پس پشت ڈالنا بھی عدل کے منافی ہے، جیسے قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کا معاملہ اب تک التوا میں ہے۔ مفتی منیب الرحمان کے اس بیان پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے تبصروں کا سلسلہ جاری ہے، اس حوالے سے کورٹ رپورٹر مریم نواز خان نے لکھا کہ چاند نظر نہیں آیا کبھی وقت پر مگر ان کو دال ساری کالی نظر آ رہی ہے، سب بولو سبحان اللہ!چاند نظر نہیں آیا کبھی وقت پر مگر ان کو دال ساری کالی نظر آ رہی ہے!
سب بولو سبحان اللہ! https://t.co/U41JkKAZL6
مفتی منیب آخری عمر میں منیب فاروق کیوں بن گئے ہیں؟
— Rizwan Ghilzai (Remembering Arshad Sharif) (@rizwanghilzai) September 17, 2025 ایک ایکس صارف انس گوندل نے سوال کیا کہ مفتی منیب الرحمان کس کی ترجمانی کر رہے ہیں؟مفتی منیب الرحمن کس کی ترجمانی کر رہے ہیں؟
— Anas Gondal (@AnasGondal19) September 17, 2025 صحافی طارق متین نے استفسار کیا کہ مفتی منیب الرحمان صاحب کو یہ ثقیل اردو اور فارسی اصطلاحات صرف عمران خان مخالفین کے حق میں ہی کیوں یاد آتی ہیں۔مفتی منیب الرحمان صاحب کو یہ ثقیل اردو اور فارسی اصطلاحات صرف عمران خان مخالفین کے حق میں ہی کیوں یاد آتی ہیں
— Tariq Mateen (@tariqmateen) September 17, 2025