چیلنجز پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کی مارکیٹ میں رکاوٹ ہیں.ویلتھ پاک
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔27 فروری ۔2025 )پاکستان کا تیزی سے بڑھتا ہوا متوسط طبقہ اور ان کی مانگ الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت کے لیے ایک بڑی مارکیٹ کی صلاحیت فراہم کرتی ہے یہ بات ہیڈ سینٹر فار پرائیویٹ سیکٹر انگیجمنٹ سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ انجینئر احد نذیر نے ویلتھ پاک سے گفتگو کرتے ہوئے کہی انہوں نے کہاکہ پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کی مارکیٹ میں کافی ترقی کی توقع ہے، حکومت کی نیشنل الیکٹرک وہیکل پالیسی کا مقصد 2030 تک کل کاروں کی فروخت میں الیکٹرک گاڑیوں کا 30 فیصد حصہ حاصل کرنا ہے.
(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے 2030 تک اپنی گرین ہاﺅس گیسوں کے اخراج کو متوقع سطح کے 50 فیصد تک کم کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے اس عزم کا ایک اہم عنصر صاف توانائی کے ذرائع اور ٹیکنالوجیز کو فروغ دینا ہے جیسے کہ 2030 تک 30 فیصد الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت کا ہدف ہے انہوں نے کہا کہ 2019 میں متعارف کرائی گئی نیشنل الیکٹرک وہیکل پالیسی کا بنیادی ہدف الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت کو بڑھاتے ہوئے درآمد شدہ فوسل فیول پر ملک کے انحصار کو کم کرنا تھا اس پالیسی میں مختلف ترغیبات شامل ہیں جن کا مقصد الیکٹرک گاڑیوں کی خریداری کے لیے ملکی اور غیر ملکی سبسڈی کو راغب کرنا ہے اور الیکٹرک کاروں، بسوں اور موٹر سائیکلوں کے لیے روڈ ٹیکس اور رجسٹریشن فیس سے استثنی ہے. انہوں نے کہاکہ پاکستان میں 2030 تک الیکٹرک کاروں کی فروخت میں 30فیصد اور 2040 تک 90فیصدتک پہنچنے کا امکان ہے الیکٹرک دو پہیوں اور تین پہیوں کی فروخت 2030 تک 50فیصد اور 2040 تک 90فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے جبکہ بسوں کی فروخت میں 50فیصد اور 2040 تک الیکٹرک کاروں کی فروخت میں 50فیصداضافے کا امکان ہے ٹرکوں کی فروخت 2030 تک 30 فیصد اور 2040 تک 90 فیصد تک پہنچ سکتی ہے. انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پرالیکٹرک گاڑیوں کی مارکیٹ نے گزشتہ دہائی کے دوران تیزی سے ترقی دیکھی ہے، 2022 میں الیکٹرک گاڑیوں کی عالمی کاروں کی فروخت میں تقریبا 14فیصدتھی جو کہ 2015 میں صرف 2.5فیصدتھی انہوں نے کہا کہ جب کہ پاکستان کی ای وی مارکیٹ اب بھی ابھر رہی ہے اس میں تیزی سے ترقی کی کافی صلاحیت ہے جیسا کہ چین میں دیکھا گیا ہے جہاں اب گاڑیوں کی کل فروخت میں الیکٹرک گاڑیوں کا اہم حصہ ہے. ای وی کو اپنانے کے معاشی فوائد پر بات کرتے ہوئے انہوں نے وضاحت کی کہ ای وی کی منتقلی سے پاکستان کی تیل کی خاطر خواہ درآمدات کم ہو سکتی ہیںجو کہ حالیہ برسوں میں اس کے کل درآمدی بل کا تقریبا 30 فیصد بنتی ہے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر پر خاصا دباﺅپڑتا ہے الیکٹرک گاڑیوں متعدد سماجی فوائد بھی پیش کرتی ہیں انہوں نے وضاحت کی کہ الیکٹرک گاڑیوں کے چارجنگ انفراسٹرکچر کی تیاری، اسمبلی اور ترقی کے لیے انجینئرنگ، ڈیزائن، لاجسٹکس اور دیکھ بھال جیسے شعبوں میں ہنر مند لیبر کی ضرورت ہوگی. انہوںنے کہا کہ الیکٹرک گاڑیوں فضائی آلودگی کو کم کرنے میں مدد کر سکتی ہیںکیونکہ وہ ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کے برعکس صفر ٹیل پائپ کا اخراج پیدا کرتی ہیںعالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان کی ہوا کا معیار عالمی سطح پر سب سے زیادہ خراب ہے جس کی وجہ سے سانس کی بیماریاں ہوتی ہیں اور سالانہ 20 ہزار سے زائد اموات ہوتی ہیں ای وی سیکٹر کی امید افزا صلاحیت کے باوجود ان کے مطابق پاکستان کو الیکٹرک گاڑیوں کو اپنانے میں کچھ چیلنجز کا سامنا ہے . انہوں نے کہا کہ بڑی رکاوٹوں میں سے ایک مضبوط چارجنگ انفراسٹرکچر کی کمی ہے جب کہ چین ای وی چارجنگ اسٹیشنوں کے ملک گیر نیٹ ورک کے قیام کی طرف کام کر رہا ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان اس وقت اپنے اہداف کو پورا کرنے کے لیے درکار بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں پیچھے ہے انہوں نے کہا کہ کافی چارجنگ اسٹیشنوں کے بغیر خاص طور پر دیہی یا دور دراز علاقوں میں ای وی کو اپنانا محدود رہے گا اگرچہ ای وی کی قیمتیں عالمی سطح پر کم ہو رہی ہیں لیکن وہ روایتی پٹرول گاڑیوں کے مقابلے نسبتا زیادہ ہیں. انہوں نے مشاہدہ کیا کہ یہ بہت سے صارفین کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے سستی مالیاتی اختیارات کی کمی ایک اور چیلنج ہے حکومت نے ابھی تک ایک مضبوط فنانسنگ اسکیم قائم کرنا ہے جو درمیانی اور کم آمدنی والے خریداروں کے لیے الیکٹرک گاڑیوں کو مزید قابل رسائی بنائے گی انہوں نے کہا کہ ای وی کی طرف سے فراہم کردہ ایندھن کے اخراجات پر طویل مدتی بچت کے بارے میں صارفین کی بیداری ابھی تک محدود ہے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میں الیکٹرک گاڑیوں کاروں کی فروخت میں الیکٹرک گاڑیوں کی انہوں نے کہا کہ فیصد اور 2040 تک کہ پاکستان کے لیے
پڑھیں:
ایسی دنیا جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارتکاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان مشترکہ اہداف پر پیش قدمی کےلئے سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے، نائب وزیراعظم سینیٹر محمد اسحاق ڈار
نیویارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 جولائی2025ء) نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ایسی دنیا جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارت کاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان ان مشترکہ اہداف پر پیش قدمی کے لیے سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے، ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون کثیرالجہتی اور اقوام متحدہ کے ساتھ ہمارا مضبوط عہد ہے، اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج مقاصد اور اصول، خاص طور پر تنازعات کے پرامن حل اور طاقت کے استعمال یا دھمکی سے گریز، بین الاقوامی انصاف کے لیے ناگزیر ہیں، یہی رہنما اصول پاکستان کی صدارت میں منعقدہ تقریبات کےلئے کلید رہیں گے ۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کی طرف سے جاری بیان کے مطابق نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین، معزز مہماناں اور دیگر شرکا کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کی اس ماہ کی صدارت کا جشن منا تے ہوئے استقبالیہ تقریب میں آپ سب کو خوش آمدید کہنا میرے لیے انتہائی مسرت کا باعث ہے۔(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون کثیرالجہتی اور اقوام متحدہ کے ساتھ ہمارا مضبوط عہد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج مقاصد اور اصول بالخصوص تنازعات کے پرامن حل اور طاقت کے استعمال یا دھمکی سے گریز بین الاقوامی انصاف کے لیے ناگزیر ہیں، یہی رہنما اصول ہماری اس ماہ کی صدارت میں بھی سلامتی کونسل کے کام خواہ وہ مباحثے ہوں یا عملی اقدامات ہماری شراکت کو شکل دے رہے ہیں ۔ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ آج دنیا میں بڑھتی بے چینی اور تنازعات کے دور میں غیر حل شدہ تنازعات، طویل المدت تصفیہ طلب تنازعات، یکطرفہ اقدامات اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کے نتائج ہر خطے میں محسوس کئے جا رہے ہیں، ہمارا یقین ہے کہ عالمی امن و سلامتی صرف کثیرالجہتی، تنازعات کے پرامن حل، جامع مکالمے اور بین الاقوامی قانون کے احترام سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ اسی تناظر میں جیسا کہ آپ جانتے ہیں، پاکستان نے اپنی صدارت کے دوران تین ترجیحات پر توجہ مرکوز کی ہے، اول تنازعات کا پرامن حل اقوام متحدہ کے چارٹر کا بنیادی اصول ہے لیکن اسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، اعلیٰ سطحی کھلے مباحثے اور سلامتی کونسل کی متفقہ قرارداد 2788 میں اس ترجیح کی عکاسی کی گئی ہے ۔ دوم کثیرالجہتی، ہم کثیرالجہتی کو نعرے کے بجائے ایک ضرورت سمجھتے ہیں، سلامتی کونسل کو صرف ردعمل کا ایوان نہیں بلکہ روک تھام، مسائل کے حل اور اصولی قیادت کا فورم ہونا چاہیے ۔ سوم اقوام متحدہ اور علاقائی تنظیموں کے درمیان تعاون، بالخصوص اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی)جو 57 رکن ممالک کے ساتھ عالمی امن کی تعمیر میں ایک اہم شراکت دار ہے، ہم 24 جولائی کو او آئی سی کے ساتھ ہونے والے اجلاس میں اس تعاون کو مزید بڑھانے کے منتظر ہیں ۔ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ اور دنیا بھر میں امن اور ترقی کے مشترکہ مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے رکن ممالک، دوستوں اور شراکت داروں کے ساتھ فعال طور پر مصروف عمل ہے، یہ مشغولیت اور عہد صرف سلامتی کونسل تک محدود نہیں بلکہ پورے اقوام متحدہ کے نظام میں پھیلا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی اور ترقی کے عالمی مباحثے میں ایک اہم آواز ہے، چاہے وہ جنرل اسمبلی ہو، ای سی او ایس او سی ہو یا دیگر فورمز، ہم نے اقوام متحدہ کے تین ستونوں امن و سلامتی، ترقی اور انسانی حقوق کو مضبوط بنانے کی وکالت کی ہے اور عالمی ادارے کی اصلاحات کو سپورٹ کیا ہے تاکہ ہماری تنظیم کو زیادہ موثر، مضبوط اور عام اراکین کے مفادات کے لیے جوابدہ بنایا جا سکے ۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے 2026-28 کے لیے انسانی حقوق کونسل کے انتخابات میں اپنی امیدواری پیش کی ہے جو ایشیا پیسیفک گروپ کی طرف سے حمایت شدہ ہے، ہم آپ کی قیمتی حمایت کے لئے بھی پر امید ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا انسانی حقوق کونسل کے ساتھ تعلق ٹی آر یو سی ای (رواداری، احترام، عالمگیریت، اتفاق رائے اور مشغولیت) کے تصور پر مبنی ہے ۔ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ آخر میں میرا پیغام ہے کہ ایک ایسی دنیا میں جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں، ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارت کاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان ان مشترکہ اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے آپ سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔\932