واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔27 فروری ۔2025 )امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی کابینہ کے پہلے اجلاس سے چند گھنٹے قبل اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اعلان کیا کہ گروپ ایلون مسک سے بہت خوش ہے نیویارک ٹائمز کے مطابق جب ٹرمپ کابینہ کا پہلا اجلاس شروع ہوا، تو ایسا لگ رہا تھا کہ کابینہ کے ارکان کا کام یہ ثابت کرنا تھا کہ وہ واقعی ایلون سے خوش ہیں اپنے نام کے کارڈ کے ساتھ وزرا خاموشی سے بیٹھے ہوئے تھے، وہ خاموشی سے سنتے رہے جب دنیا کے امیر ترین شخص نے ان پر تنقید کی اور خسارے کے حجم پر سرزنش کی، ایبولا کی روک تھام کی کوشش کو عارضی طور پر منسوخ کرنے کا اعتراف کیا اور یہ دعوی کیا کہ وہ سب ان کے مشن کے لیے اہم ہیں.

(جاری ہے)

ایلون مسک نے کہا کہ میں آپ سب کی حمایت کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں ایک رپورٹر نے اس معاملے کے بارے میں سوال کیا تو ٹرمپ یہ نے سوال اپنے وزرا سے کیا ٹرمپ نے سوال کیا کہ کوئی ایلون سے ناخوش ہے؟ اگر آپ ناخوش ہیں تو ہم اسے یہاں سے نکال دیں گے کیا کوئی ناخوش ہے؟کوئی بھی ناخوش نہیں تھا اس پر میز کے چاروں طرف لوگوں کا قہقہ گونج اٹھا. سیکرٹری آف کامرس ہاروڈ لوتنک مسکرائے اور آہستہ تالیاں بجائیں سمال بزنس ایڈمنسٹریٹر کیلی لوفلر نے بھی تالیاں بجائیں جبکہ وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ایک مرتبہ تالی بجائی اور مسک کی طرف مسکرا کر دیکھا یہ اجلاس شاید ایسا پہلا اجلاس تھا جس میں احترام کا مظاہرہ صدر کے لیے نہیں بلکہ ایک ٹیکنالوجی کمپنی کے ایک ایگزیکٹیو کے لیے کیا گیا تھا.

ایلون مسک کابینہ کے وزیر نہیں ہیں وہ ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی (ڈوج) کے رسمی سربراہ بھی نہیں ہیں لیکن وہ اس اجلاس میں سب سے نمایاں شخصیت تھے اور یہ واضح ہو گیا کہ ٹرمپ اپنی کابینہ سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ مسک کی پیروی کریں. ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ احکامات پر عمل کریں گے اس موقع پر مسک نے اعلان کیا یہ گروپ اب تک بہترین کابینہ ہے اور پھر وفاقی ملازمین کے لیے اپنی ہدایت کے بارے میں وضاحت دینے لگے انہوں نے کہا کہ یہ ٹرمپ ہی تھے جنہوں نے انہیں مزید جارحانہ ہونے کی ترغیب دی بحث کے آخر میں کابینہ کے وزیروں کے لیے پیغام واضح تھا کہ مسک کے حکم کو صدر کا حکم سمجھنا چاہیے اور سب کو اس پر خوش ہونا چاہیے.

ایلون مسک اور ڈوج پر تقریبا 15 منٹ تک توجہ مرکوز کرنے کے بعد ٹرمپ نے کابینہ کی توجہ اپنی کامیابیوں پر دلائی جو انہوں نے گزشتہ چند ہفتوں میں حاصل کیں کابینہ تقریبا ایک گھنٹے سے زیادہ تک خاموشی سے بیٹھی رہی جبکہ ٹرمپ نے صحافیوں کے سوالات کے جواب بھی دئیے.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کابینہ کے ایلون مسک ناخوش ہے کے لیے

پڑھیں:

پاکستان کرکٹ زندہ باد

کراچی:

’’ ہیلو، میچ دیکھ رہے ہو ٹی وی پر، اگر نہیں تو دیکھو کتنا کراؤڈ ہے،ٹکٹ تو مل ہی نہیں رہے تھے ، بچے، جوان، بوڑھے سب ہی قذافی اسٹیڈیم میں کھیل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، مگر تم لوگ تو کہتے ہو پاکستان میں کرکٹ ختم ہو گئی، اس کا حال بھی ہاکی والا ہو جائے گا،لوگ اب کرکٹ میں دلچسپی ہی نہیں لیتے۔ 

اگر ایسا ہے تو لاہور کا اسٹیڈیم کیوں بھرا ہوا ہے؟ راولپنڈی میں ہاؤس فل کیوں تھا؟ میری بات یاد رکھنا کرکٹ پاکستانیوں کے ڈی این اے میں شامل ہے، اسے کوئی نہیں نکال سکتا۔ 

اگر کسی بچے کا امتحان میں رزلٹ اچھا نہ آئے تو گھر والے ناراض تو ہوتے ہیں مگر اسے ڈس اون نہیں کر دیتے، اگر اس وقت برا بھلا ہی کہتے رہیں تو وہ آئندہ بھی ڈفر ہی رہے گا لیکن حوصلہ افزائی کریں تو بہتری کے بہت زیادہ چانسز ہوتے ہیں، اس لیے اپنی ٹیم کو سپورٹ کیا کرو۔ 

تم میڈیا والوں اور سابق کرکٹرز کا بس چلے تو ملکی کرکٹ بند ہی کرا دو لیکن یہ یاد رکھنا کہ اسپورٹس میڈیا ،چینلز اور سابق کرکٹرز کی بھی اب تک روزی روٹی اسی کھیل کی وجہ سے ہے، اگر یہ بند تو یہ سب کیا کریں گے؟

بات سمجھے یا نہیں، اگر نہیں تو میں واٹس ایپ پر اس میچ میں موجود کراؤڈ کی ویڈیو بھیجوں گا وہ دیکھ لینا،پاکستان میں کرکٹ کبھی ختم نہیں ہو سکتی، پاکستان کرکٹ زندہ باد ‘‘ ۔

اکثر اسٹیڈیم میں موجود دوست کالز کر کے میچ پر ہی تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان واقف کار بزرگ کا فون الگ ہی بات کیلیے آیا، وہ میرے کالمز پڑھتے ہیں، چند ماہ قبل کسی سے نمبر لے کر فون کرنے لگے تو رابطہ قائم ہو گیا، میں نے ان کی باتیں سنیں تو کافی حد تک درست لگیں۔ 

ہم نے جنوبی افریقہ کو ٹی ٹوئنٹی سیریز میں ہرا دیا، واقعی خوشی کی بات ہے لیکن اگر گزشتہ چند برسوں کا جائزہ لیں تو ٹیم کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی ہے،خاص طور پر بڑے ایونٹس میں تو ہم بہت پیچھے رہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسا لگنے لگا کہ خدانخواستہ اب ملکی کرکٹ اختتام کے قریب ہے، کوئی بہتری نہیں آ سکتی،لوگوں نے کرکٹ میں دلچسپی لینا ختم کر دی ہے۔ 

البتہ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو یہ سوچ ٹھیک نہیں لگتی، اب بھی یہ پاکستان کا سب سے مقبول کھیل ہے، اربوں روپے اسپانسر شپ سے مل جاتے ہیں، کرکٹرز بھی کروڑپتی بن چکے، اگر ملک میں کرکٹ کا شوق نہیں ہوتا تو کوئی اسپانسر کیوں سامنے آتا؟

ٹیم کے کھیل میں بہتری لانے کیلیے کوششیں لازمی ہیں لیکن ساتھ ہمیں بھی اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہمیں نجم سیٹھی یا ذکا اشرف پسند نہیں تھے تو ان کے دور میں کرکٹ تباہ ہوتی نظر آتی تھی، آج محسن نقوی کو جو لوگ پسند نہیں کرتے وہ انھیں قصور وار قرار دیتے ہیں۔ 

اگر حقیقت دیکھیں تو ہماری کرکٹ ان کے چیئرمین بننے سے پہلے بھی ایسی ہی تھی، پہلے ہم کون سے ورلڈکپ جیت رہے تھے، ہم کو کپتان پسند نہیں ہے تو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، سب کو اپنا چیئرمین بورڈ، کپتان اور کھلاڑی چاہیئں، ایسا نہ ہو تو انھیں کچھ اچھا نہیں لگتا۔

یقینی طور پر سلمان علی آغا کو بطور کھلاڑی اور کپتان بہتری لانے کی ضرورت ہے لیکن جب وہ نہیں تھے تو کیا ایک، دو مواقع کے سوا ہم بھارت کو ہمیشہ ہرا دیتے تھے؟

مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں لوگوں کی ذہن سازی آسان ہو چکی، پہلے روایتی میڈیا پھر بھی تھوڑا بہت خیال کرتا تھااب تو چند ہزار یا لاکھ روپے دو اور اپنے بندے کی کیمپئن چلوا لو، پہلے پوری ٹیم پر ایک ’’ سایا ‘‘ چھایا ہوا تھا، اس کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا تھا، نئے کھلاڑیوں کی انٹری بند تھی۔ 

پھر برطانیہ سے آنے والی ایک کہانی نے ’’ سائے ‘‘ کو دھندلا کر دیا لیکن سوشل میڈیا تو برقرار ہے ناں وہاں کام جاری ہے، آپ یہ دیکھیں کہ علی ترین سالانہ ایک ارب 8 کروڑ روپے کی پی ایس ایل فرنچائز فیس سے تنگ آکر ری بڈنگ میں جانا چاہتے ہیں۔

لیکن سوشل میڈیا پر سادہ لوح افراد کو یہ بیانیہ سنایا گیا کہ وہ تو ہیرو ہے، ملتان سلطانز کا اونر ہونے کے باوجود لیگ کی خامیوں کو اجاگر کیا اس لیے زیرعتاب آ گیا۔ 

یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ یہ ’’ ہیرو ‘‘ اس سے پہلے کیوں چپ تھا،ویلوایشن سے قبل کیوں یہ یاد آیا،اسی طرح محمد رضوان کو اب اگر ون ڈے میں کپتانی سے ہٹایا گیا تو یہ خبریں پھیلا دی گئیں کہ چونکہ اس نے 2 سال پہلے پی ایس ایل میں سیروگیٹ کمپنیز کی تشہیر سے انکار کیا تو انتقامی کارروائی کی گئی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا والوں نے اسے سچ بھی مان لیا، کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ بھائی واقعہ تو برسوں پہلے ہوا تھا اب کیوں سزا دی گئی اور اسے ٹیم سے تونکالا بھی نہیں گیا، یا اب تو پی ایس ایل نہ ہی پاکستانی کرکٹ کی کوئی سیروگیٹ کمپنی اسپانسر ہے، پھر کیوں کسی کو رضوان سے مسئلہ ہے؟

پی سی بی والے میرے چاچا یا ماما نہیں لگتے، میں کسی کی حمایت نہیں کر رہا لیکن آپ ہی بتائیں کہ گولیمار کراچی میں اگر ایک سابق کپتان کا سیروگیٹ کمپنی کی تشہیر والا بل بورڈ لگا ہے تو اس سے پی سی بی کا کیا تعلق۔ 

خیر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چیئرمین محسن نقوی ہوں یا نجم سیٹھی، کپتان سلمان علی آغا ہو یا بابر اعظم اس سے فرق نہیں پڑتا، اصل بات پاکستان اور پاکستان کرکٹ ٹیم ہے، اسے دیکھیں، شخصیات کی پسند نا پسندیدگی کو چھوڑ کر جو خامیاں ہیں انھیں ٹھیک کرنے میں مدد دیں۔

میں بھی اکثر جوش میں آ کر سخت باتیں کر جاتا ہوں لیکن پھر یہی خیال آتا ہے کہ اس کھیل کی وجہ سے ہی میں نے دنیا دیکھی، میرا ذریعہ معاش بھی یہی ہے، اگر کبھی اس پر برا وقت آیا تو مجھے ساتھ چھوڑنا چاہیے یا اپنے طور پر جو مدد ہو وہ کرنی چاہیے؟

ہم سب کو بھی ایسا ہی سوچنے کی ضرورت ہے، ابھی ہم ایک سیریز جیت گئے، ممکن ہے کل پھر کوئی ہار جائیں لیکن اس سے ملک میں کرکٹ ختم تو نہیں ہو گی، ٹیلنٹ کم کیوں مل رہا ہے؟ بہتری کیسے آئے گی؟

ہمیں ان امور پر سوچنا چاہیے، اگر ایسا کیا اور بورڈ نے بھی ساتھ دیا تو یقین مانیے مسائل حل ہو جائیں گے لیکن ہم جذباتی قوم ہیں، یادداشت بھی کمزور ہے، دوسروں کو کیا کہیں ہو سکتا ہے میں خود کل کوئی میچ ہارنے پر ڈنڈا (قلم یا مائیک) لے کر کھلاڑیوں اور بورڈ کے پیچھے پڑ جاؤں، یہ اجتماعی مسئلہ ہے جس دن حل ہوا یقینی طور پر معاملات درست ہونے لگیں گے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

متعلقہ مضامین

  • چین نے کرپشن کے الزام میں دو سابق سینئر عہدیداروں کو پارٹی سے نکال دیا
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • کندھ کوٹ: سندھ یونائٹیڈ پارٹی کے تحت ورکرز کنونشن کا انعقاد
  • خیبرپختونخوا میں کرکٹ کا زیادہ ٹیلنٹ موجود ہے، شعیب ملک
  • 1947 میں گلگت کے لوگوں نے خود آزادی لیکر پاکستان کیساتھ الحاق کیا، صدر مملکت
  • گلگت بلتستان میرا گھر ہے، یہاں کے عوام نے اپنی مرضی سے 1947 میں پاکستان کا انتخاب کیا، صدر آصف زرداری
  • وزیراعظم شہباز شریف کا چترال میں یونیورسٹی، اسپتال اور گیس سہولت فراہم کرنے کا اعلان
  • پی ٹی آئی کی نئی حکومت کے نئے وزیروں نے حلف لے لیا
  • خیبر پختونخوا کابینہ میں شامل 10 وزراء نے حلف اٹھا لیا