مصطفیٰ عامر کے اغوا اور قتل کیس میں جمعرات کو اس وقت ایک اہم پیش رفت ہوئی جب گواہ غلام مصطفیٰ نے ملزم ارمغان کو گواہی میں شناخت کرلیا۔ پولیس کی جانب سے ملزمان ارمغان اور شیراز کو سٹی کورٹ میں پیش کیا گیا۔ اس موقعے پر کمراہ عدالت میں ملزم ارمغان نے اپنے ساتھی شیراز کو ہدایت کی وہ ڈٹا رہے اور خوفزدہ نہ ہو جس پر شیراز نے اس سے کہا کہ اس نے کوئی بیان نہیں دیا۔

یہ بھی پڑھیں: مصطفیٰ عامر قتل کیس، کیا ارمغان بھی منظر سے غائب ہونے کے بعد بری ہوجائے گا؟

گواہ غلام مصطفیٰ ولد عابد نے عدالت کو بتایا کہ وہ حیدرآباد کا رہائشی ہے اور اسے ڈیفنس میں بنگلہ نمبر 35 کام پر رکھا گیا تھا۔ گواہ نے کہا کہ ’اس میں اوپر والے فلور پر باس رہتے تھے جن کا نام ارمغان ہے، میں وہاں صفائی کا کام کرتا تھا،  نیو ایئر کو 2 بجے کال آئی مجھے گھر بلایا تھا جس پر میں نے منع کردیا۔ اگلے روز یکم جنوری کو ہم 3 بجے بنگلے پر گئے تھے، گھر بکھرا ہوا تھا 30 سے 40 لوگ آئے ہوئے تھے، ہمارا کھانا بھی باس آن لائن منگواتے تھے ہم نیچے رہتے تھے، جب کام ہوتا تھا تو باس ہمیں بلاتے تھے، گھر کا گیٹ ریموٹ سے کھلتا تھا، ہمیں باہر جانے کی بھی اجازت نہیں تھی‘۔

گواہ نے بتایا کہ 6 جنوری کو رات 9 بجے بلیک ٹراؤزر پہنے ایک لڑکا آیا جو اوپر چلاگیا‘۔ عدالت نے  استفسار کیا کہ لڑکا دیکھنے میں کیسا تھا جس پر گواہ نے بتایا کہ وہ دبلا پتلا تھا اور وہ اوپر چلا گیا اور کچھ دیر بعد گالم گلوچ کی آواز آئی، کچھ دیر بعد  فائرنگ کی آواز بھی آئی، باس نے کیمرے پر دیکھ کر ہمیں اوپر بلایا، ہمیں کمرے میں رہنے کا کہا گیا اور کہا کہ ڈرو نہیں۔ تھوڑی دیر بعد باس نے اوپر بلایا اور کہا کہ کپڑا اور شاور لے کر آؤ، میں اوپر چلا گیا جہاں باس کے پاس ایک لڑکا تھا جو چھوٹے قد کا اور چشمہ لگایا ہوا تھا، ہم سے باس نے خون صاف کروایا، خون صاف کرکے رات ایک بجے ہم کھانا کھانے بیٹھ گئے، جب میں نے رات ایک بجے دیکھا تو جو لڑکا آیا تھا اس کی گاڑی تھی اور نہ ہی وہ خود موجود تھا۔ ہم اپنے کمرے میں جاکر لیٹ گئے لیکن نیند نہیں آرہی تھی فجر تک جاگتے رہے، فجر میں نیند آئی ہمیں، ایک بجے دن اٹھے تو زور زور کھڑکیاں اور دروازہ پیٹا جا رہا تھا۔ گیٹ کھولا تو 2 لوگ موجود تھے ایک چشمے والا اور ایک ہمارا باس جنہوں نے ہم سے پوچھا کہ گیٹ کیوں بند کیا تھا تو میں نے کہا کہ مجھے لگا آپ سو گئے ہیں، باس نے کہا ٹھیک ہے نیچے جاکر آرام کرو کوئی مسئلہ نہیں ہے، اسی دن باس نے ہم دونوں کو اوپر بلایا، باس نے کہاکہ یہ نشان ٹھیک سے صاف نہیں ہوئے ٹھیک سے صاف کرو اور وہ ٹراؤزر موجود نہیں تھا، ہمارے باس نے ایک سے 2 دن بعد ہمیں چھٹی دے دی تھی، پھر ہمیں باس نے 3 تاریخ کو کال کی تھی، ہمیں اوپر جانے کی اجازت نہیں تھی۔

مزید پڑھیے: مصطفیٰ عامر قتل کیس: ارمغان کو پولیس نے کیسے گرفتار کیا؟ رپورٹ عدالت میں جمع

گواہ نے بتایا کہ 5 فروری کو پولیس کا چھاپہ پڑا اوپر سے فائرنگ ہورہی تھی اور ہم اپنے روم میں تھے، آمنے سامنے فائرنگ ہورہی تھی، فائرنگ میں 2 افراد زخمی ہوگئے تھے، ہم اس وقت چھپ کر باہر نکلے اور چلے گئے تھے، 10 تاریخ کو آئے سامان کے لیے کپڑوں کے لیے پولیس نے ہمیں پکڑ لیا، پولیس نے ہم سے پوچھ گچھ کی اور ہم نے سب بتادیا کہ ایسا واقعہ ہوا، پولیس اسی رات ہمیں بنگلے پر لے کر گئی ہے، موقع واردات پر پولیس کو خون کے نشانات بتائے، قالین میں 2 دھاگے تھے بلیک اور وائٹ، قالین ہٹایا تو خون کے نشانات موجود تھے، پولیس نے وہاں سیمپل لیے اور ہمیں اسی رات تھانے لے کر گئے پھر پولیس نے ہم سے نمبر لے کر ہمیں چھوڑ دیا، اس کے بعد پولیس نے ہمیں کال کرکے بلایا اور آج میں یہاں موجود ہوں۔

عدالت نے گواہ کا بیان قلمبند کرلیا گواہ نے انگلی کے اشارے سے ملزمان ارمغان کو شناخت کرتے ہوئے کہا کہ  ارمغان باس ہے اور دوسرا چشمے والا لڑکا ہے۔

دوسرے گواہ نے بھی ارمغان اور شیراز کو شناخت کرلیا

دوسرے گواہ زوہیب نے بھی ملزمان ارمغان اور شیراز کو شناخت کرلیا۔

گواہ نے اپنے بیان میں کہا کہ میرا نام زوہیب ہے اور عمر 17 سال ہے، میں باس ارمغان کے پاس کام کرتا ہوں،  میں باس کے گھر کام پر لگا تھا ہم سے کہا گیا تھا وہاں فیملی ہے لیکن وہاں فیملی نہیں تھی، یکم جنوری کو کام پر آیا تھا، گھر میں بہت کچرا اور گھر بکھرا ہوا تھا، ہمیں انہوں نے روم دیا ہوا تھا، ہم صفائی کرنے کے بعد وہاں چلے جاتےتھے اور ہمیں اوپر جانے کی اجازت نہیں تھی، جو بھی کوئی دوست آتا یا کوئی اور آتا تھا ہمیں اس سے ملنے کی اجازت نہیں تھی، روم میں ہی اپنا زیادہ تر وقت گزارتے تھے۔

مزید پڑھیں: مصطفیٰ عامر قتل: تشدد اور زندہ جلانے سے پہلے مبینہ قاتل کی فلمی ولن جیسی حرکتیں

زوہیب نے بتایا کہ 5 جنوری کو میں کپڑے نے دھوئے اور استری کرنے کے بعد  کپڑے اوپر لے گیا وہاں پر لڑکی بھی بیٹھی ہوئی تھی، کپڑے رکھ کر میں نیچے آگیا، 6 جنوری کو بلیک گاڑی آئی جس میں مصطفیٰ نامی شخص تھا، جب وہ اندر آیا تو ہم نے جاتے ہوئے دیکھا اس نے چہرا ڈھانپ رکھا تھا اور ٹوپی والی شرٹ پہنی تھی وہ اوپر چلاگیا، اوپر جانے ہے بعد گالم گلوچ کی، کچھ دیر بعد 2 سے 3 فائر کی آواز آئیں، جیسے فائر کی آواز سنی ہم مین گیٹ کی طرف بڑھے، باس نے ہمیں کیمرے میں دیکھ کر تسلی دی کہ کوئی ایسی بات نہیں ہے، باس نے کہا کہ جاکر اپنے روم میں سو جاؤ، تھوڑی دیر بعد باس نے اوپر بلایا اور پانی کی بوتل منگوائی پینے کے لیے اور ہم سے کپڑے اور شاور منگوایا، ہم سے کہا کہ یہ خون صاف کرو اور روم میں جاکر آرام کرو، چھوٹے قد کا لڑکا چشمہ لگایا ہوا ساتھ تھا سامنے آئے گا تو پہنچان لوں گا، رات کو ایک بجے کھانے کے لیے اٹھے تو سناٹا تھا اور ہمیں لگا کہ باس سو گئے ہیں، ہم نے چاول کھائے اور تمام دروازوں پر کنڈی لگائی اور سو گئے۔

گواہ کے مطابق کنڈی لگانے کے بعد باہر دیکھا تو کالے رنگ کی گاڑی جو آئی تھی وہ موجود نہیں تھی، اگلے دن ظہر کی نماز کے لیے 1:30بجے اٹھا تو روم کی کھڑکی زور زور سے پیٹنے کی آوزیں آرہی تھیں ہم ڈر گئے، جب میں نے دروازہ پر دیکھا تو باس اور چشمے والا لڑکا موجود تھے، یہ دونوں اوپر چلے گئے میں واپس روم میں آگیا، بعد میں باس نے دوبارہ بلا کر اوپر کی صفائی کروائی، وہاں پر ایک ٹراؤزر بھی تھا اس کو  ہم نے تھیلی میں ڈال کر رکھ دیا، باس نے ہمیں چھٹی دے دی تھی 3 تاریخ  کو حیدر آباد سے واپس آیا اور گھر کے کام میں لگ گیا، 8 تاریخ کو پولیس مقابلہ ہوا میں وہاں موجود تھا، فائرنگ ہورہی تھی ہم وہاں سے چھپ کر نکل گئے۔

اس نے کہا کہ ہمیں 10 تاریخ کو پولیس نے پکڑا اور جائے وقوعہ پر لے گئے۔ ہم نے جہاں سے خون صاف کیا تھا اس کی نشاندہی کرائی، کارپیٹ ہٹایا تو وہاں خون کے نشانات موجود تھے پولیس نے وہاں سے سیمپل لیے جہاں جہاں خون کے نشان تھے پولیس نے قالین کا وہ حصہ کاٹا اور لفافے میں رکھ لیا، پولیس نے ہمارا بیان لیا اور ہمیں چھوڑ دیا بعد میں 25 تاریخ کو بلایا تھا۔

عدالت نے  گواہ سے استفسار کیا کہ کیا ملزمان یہاں موجود ہیں؟ گواہ نے اشارہ کرکے بتایا کہ ارمغان باس ہیں اور دوسرا لڑکا چشمے والا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: مصطفیٰ قتل کیس: منشیات کی خریدوفروخت میں بین الاقوامی ڈرگ چین کے ملوث ہونے کا انکشاف

وکیل ملزم عابد زمان کا کہنا تھا کہ یہاں چشمے والا کوئی لڑکا نہیں ہے۔ گواہ نے بتایا کہ میں اسے پہچانتا ہوں یہ ہی ہے وہ۔ عدالت نے گواہ کا بیان ریکارڈ کرلیا۔

چشم دید گواہان کے بیانات کے بعد ملزم ارمغان کا گواہ زوہیب اور تفتیشی افسر کو انگوٹھے کے ذریعے ’تھمبس اپ‘ کا نشان بنایا اور کمرہ عدالت میں تفتیشی افسر اور گواہ پر ہنستا رہا۔

ملزم ارمغان کی کورٹ روم میں علی عباس اعوان ایڈووکیٹ سے گفتگو ہوئی جس میں اس کا کہنا تھا کہ پولیس دشمن بنی ہوئی ہے، پولیس سامنے بٹھا کرجھوٹے بیان میڈیا پرچلارہی ہے، ڈکیتی ہوئی تھی اس میں بہت سارے وکلا بھی ملوث ہیں۔

ملزم ارمغان نے قریب بیٹھےملزم شیراز سے بھی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مضبوط رہنا ڈرنا نہیں اس پر شیراز نے جواب دیا کہ میں نےکوئی بیان نہیں دیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ارمغان اور شیراز مصطفیٰ عامر قتل کیس مصطفیٰ قتل کے گواہان مصطفیٰ کا مبینہ قاتل ارمغان.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ارمغان اور شیراز مصطفی عامر قتل کیس ارمغان اور شیراز اجازت نہیں تھی پولیس نے ہم چشمے والا موجود تھے نے کہا کہ اس نے کہا اور ہمیں تاریخ کو کو پولیس عامر قتل شیراز کو میں اوپر عدالت نے جنوری کو ہوا تھا کی آواز خون صاف ایک بجے قتل کیس کے لیے اور ہم خون کے کے بعد ہے اور

پڑھیں:

عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، اب جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سپریم کورٹ 

سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر حکومت پنجاب کی اپیلیں نمٹا دیں جب کہ دوران سماعت جسٹس ہاشم کاکڑ  نے ریمارکس دیے ہیں کہ ملزم کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی کے جسمانی ریمانڈ کے لیے دائر حکومت پنجاب کی اپیلوں پر سماعت کے دوران کہا کہ پنجاب حکومت چاہے تو ٹرائل کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے، بانی پی ٹی آئی کے وکلا دراخواست دائر ہونے پر مخالفت کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

جسٹس ہاشم کاکڑ  نے ریمارکس دیے کہ ملزم کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی  نے کہا کہ ملزم کے فوٹو گرامیٹک، پولی گرافک، وائس میچنگ ٹیسٹ کرانے ہیں۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ درخواست میں استدعا ٹیسٹ کرانے کی نہیں، جسمانی ریمانڈ کی تھی۔

جسٹس صلاح الدین پنور نے کہا کہ  کسی عام قتل کیس میں تو ایسے ٹیسٹ کبھی نہیں کرائے گئے، توقع ہے عام آدمی کے مقدمات میں بھی حکومت ایسے ہی ایفیشنسی دکھائے گی۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ڈیڑھ سال بعد جسمانی ریمانڈ کیوں یاد آیا، اسپیشل پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی  نے مؤقف اپنایا کہ ملزم بانی پی ٹی آئی نے تعاون نہیں کیا۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ جیل میں زیر حراست ملزم سے مزید کیسا تعاون چاہیے، میرا ہی ایک فیصلہ ہے کہ ایک ہزار سے زائد سپلیمنٹری چلان بھی پیش ہو سکتے ہیں، ٹرائل کورٹ سے اجازت لیکر ٹیسٹ کروا لیں۔

جسٹس صلاح الدین پہنور نے کہا کہ استغاثہ قتل کے عام مقدمات میں اتنی متحرک کیوں نہیں ہوتی۔

اسپیشل پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی نے استدلال کیا کہ 14 جولائی 2024 کو ٹیم بانی پی ٹی آئی سے تفتیش کرنے جیل گئی لیکن ملزم نے انکار کردیا، ریکارڈ میں بانی پی ٹی آئی کے فیس بک، ٹیوٹر اور اسٹاگرام پر ایسے پیغامات ہیں جن میں کیا گیا اگر بانی پی ٹی کی گرفتاری ہوئی تو احتجاج ہوگا۔

جسٹس صلاح الدین پہنور نے کہا کہ  اگر یہ سارے بیانات یو ایس بی میں ہیں تو جاکر فرانزک ٹیسٹ کروائیں، اسپیشل پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی نے مؤقف اپنایا کہ ہم صرف یہ چاہتے ہیں ہمارے ساتھ تعاون کیا جائے۔

عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ  اب پانی سر سے گزر چکا ہے، 26 گواہان کے بیانات قلمبند ہو چکے ہیں۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ اگر ہم نے کوئی آبزرویشن دیدی تو ٹرائل متاثر ہوگا، ہم استغاثہ اور ملزم کے وکیل کی باہمی رضامندی سے حکمنامہ لکھوا دیتے ہیں۔

زوالفقار نقوی نے کہا کہ  میں اسپیشل پراسیکیوٹر ہوں، میرے اختیارات محدود ہیں، میں ہدایات لیے بغیر رضامندی کا اظہار نہیں کر سکتا۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ چلیں ہم ایسے ہی آرڈر دے دیتے ہیں، ہم چھوٹے صوبوں سے آئے ہوئے ججز ہیں، ہمارے دل بہت صاف ہوتے ہیں،  پانچ دن پہلے ایک فوجداری کیس سنا، 
نامزد ملزم کی اپیل 2017 میں ابتدائی سماعت کیلئے منظور ہوئی۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ کیس میں نامزد ملزم سات سال تک ڈیتھ سیل میں رہا جسے باعزت بری کیا گیا، تین ماہ کے وقت میں فوجداری کیسز ختم کر دیں گے۔

عدالت نے اپنے حکمنامے میں کہا کہ  بانی پی ٹی آئی کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر کی گئی اپیلیں دو بنیادوں پر نمٹائی جاتی ہیں، استغاثہ بانی پی ٹی آئی کے پولی گرافک ٹیسٹ، فوٹو گرافک ٹیسٹ اور وائس میچنگ ٹیسٹ کیلئے ٹرائل کورٹ سے رجوع کرنے میں آزاد ہے۔

حکمنامہ کے مطابق بانی پی ٹی کی قانونی ٹیم ٹرائل کورٹ میں ایسی درخواست آنے پر لیگل اور فیکچویل اعتراض اٹھا سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • لاہور : ویمن پولیس اسٹیشن کی ایس ایچ او ڈاکوؤں کی ساتھی نکلی
  • بھارت ہمیشہ خود ہی مدعی، خود ہی گواہ اور جج بن جاتا ہے
  • مصطفی عامر قتل کیس؛ مرکزی ملزم ارمغان منی لانڈرنگ کیس میں جیل روانہ
  • عمران کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا: سپریم کورٹ
  • ہمیں تیار رہنا چاہیے بھارت کوئی بھی حرکت کرسکتا ہے،سابق سفیر عبدالباسط
  • بھارت پاکستان میں حالات خراب کرے گا، ہمیں اب چوکنا رہنا پڑے گا، عبدالباسط
  • عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سپریم کورٹ
  • عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، اب جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سپریم کورٹ 
  • عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر اپیلیں نمٹادی گئیں
  • سپریم کورٹ نے عمران خان کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق اپیلیں نمٹا دیں