اسرائیلی فوج کا حماس کے خلاف 7 اکتوبر 2023 کو اپنی مکمل ناکامی کا اعتراف
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
TEL AVIV:
اسرائیل کی فوج نے اپنی ایک تحقیق میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور اس حوالے سے غلط اندازے لگائے گئے۔
غیرملکی خبرایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل فوج کی جانب سے کی گئی تحقیق کے نتائج جاری کردیے گئے ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ اس کے نتیجے میں وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کو وسیع پیمانے پر انکوائری کرنے کے مطالبے پر دباؤ پڑسکتا ہے تاکہ سیاسی فیصلہ سازی کا تعین ہو سکے، جس کے باعث حملہ کیا گیا اور غزہ میں جنگ ہوئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کئی اسرائیلی یہ سمجھتے ہیں کہ 7 اکتوبر کی غلطی فوج سے بالاتر تھی اور وہ نیتن یاہو پر الزام عائد کرتے ہیں کہ اس نے ناکام دفاعی حکمت عملی اپنائی، حکمت عملی کے تحت قطر کو نقد پیسوں کے سوٹ کیسز غزہ بھیجنے کی اجازت دی گئی اور حماس کے حریفوں کو الگ کیا گیا۔
اسرائیلی فوج کی تحقیقات کی بنیاد یہ ہے کہ خطے کی طاقت ور ترین اور جدید سہولیات سے آراستہ فوج نے حماس کے ارادوں کو غلط جانچا، اس کے طاقت کو نظرانداز کیا اور ہزاروں جنگجووں کے اچانک حملوں کی تیاری نہیں کی۔
اس سے قبل بھی اسرائیلی حکام اور ماہرین کی جانب سے حماس کے حملے سے متعلق اسی قسم کی رپورٹ مرتب کی تھی اور اسرائیلی فوج نے بھی اسی پیرائے میں نتائج اخذ کیے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے اپنی رپورٹ کی صرف سمری جاری کی ہے اور فوجی عہدیدار اس حوالے سے آگاہ کر رہے ہیں۔
ایک فوجی عہدیدار نے قواعد و ضوابط کے تحت شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے پی کو بتایا کہ 7 اکتوبر کو مکمل طور پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
انکوائری رپورٹ میں بتایا گیا کہ بڑی غلط فہمی یہ تھی کہ حماس کے بارے میں یہ خیال تھا اس کو اسرائیل کے خلاف لڑنے کے بجائے خطے میں حکومت کرنے کی خواہش ہے اور غزہ پر اس کا 2007 سے قبضہ ہے۔
اسرائیلی فوج نے کہا کہ فوج نے حماس کی صلاحیت کا غلط اندازہ لگایا، فوجی منصوبہ سازوں کا ماننا تھا کہ حماس زمینی طور پر 8 اطراف سے حملے کرسکتی ہے اور درحقیقت حماس کے پاس حملوں کے لیے 60 سے زائد راستے موجود ہیں۔
عہدیدار نے بتایا کہ خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر یہ تجزیہ کیا گیا کہ حملے کے بعد یہ ظاہر ہوتا ہے حماس پہلے تین مواقع پر بڑے حملوں کے قریب پہنچ گئی تھی لیکن نامعلوم وجوہات کی وجہ سے تاخیر کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ حملے سے چند گھنٹے قبل یہ اشارے ملے تھے کہ کچھ گڑ بڑ ہے، بشمول جب حماس کے جنگجوؤں نے اپنے فونز اسرائیلی نیٹ ورک پر منتقل کردیے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ حملے سے یہ غلط فہمی بھی دور ہوگئی کہ حماس کے پاس جنگی طور پر فیصلہ سازی کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔
اسرائیلی فوجی عہدیدار نے بتایا کہ خفیہ اطلاعات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یحییٰ سنوار 7 اکتوبر کے حملوں کے ماسٹر مائنڈ تھے اور انہوں نے یہ منصوبہ 2017 میں شروع کیا تھا تاہم بعد میں انہیں شہید کردیا گیا۔
خیال رہے کہ حماس کے 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد اسرائیل کی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ اور سینئر جنرل لیفٹننٹ جنرل ہیرزی ہیلیوی سمیت چند اعلیٰ فوجی عہدیداروں نے استعفے کا اعلان کردیا جو اگلے ماہ باقاعدہ اپنے عہدے چھوڑ دیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسرائیلی فوج فوجی عہدیدار حملوں کے کہ حماس حماس کے فوج نے
پڑھیں:
ٹرمپ کی اطلاع کے بغیر ایران پر اسرائیلی حملے کے امکانات
اسلام ٹائمز: ایک محدود اسرائیلی حملے پر تہران کے ممکنہ ردعمل کو کنٹرول کرنے اور خطے میں امریکی مفادات کو کسی ممکنہ فوجی تنازع سے دور رکھنے کیلئے جو اقدام ضروری ہے، ٹرمپ اس میں داخل ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ مختلف منظرنامے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ٹرمپ اسرائیل کی ایران مخالف دھمکیوں کو مذاکرات میں اپنی بات منوانے کیلئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے گذشتہ دنوں دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ امریکہ ہوتا کون ہے، جو ایران میں یورینیم کی افزودگی کے بارے میں یہ فیصلہ کرے کہ افزودگی ہونی چاہیئے یا نہیں۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
حالیہ دنوں میں اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے امکان کے بارے میں متعدد اطلاعات سامنے آئی ہیں اور ساتھ ہی کئی اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے یہ خبریں بھی دی ہیں کہ امریکا نے ان تنصیبات پر حملے کے منصوبے پر اسرائیل کے ساتھ تعاون بند کر دیا ہے۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا ہے کہ اسں نے نیتن یاہو سے کہا ہے کہ وہ کوئی ایسا اقدام نہ کرے، جس سے ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات میں خلل پڑے۔
کیا اسرائیل امریکہ کے علم میں لائے بغیر ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرے گا؟
یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس طرح کا واقعہ حملے کی سطح پر منحصر ہے۔ اسرائیل کی طرف سے امریکہ کے تعاون اور یہاں تک کہ اس کی عوامی یا نجی شرکت کے بغیر بڑے اور وسیع پیمانے پر حملے کا امکان بہت کم ہے۔ تاہم، اسرائیل کی طرف سے "محدود حملے" کے دو امکانات ہیں۔ پہلا، امریکہ کو بتائے یا ہم آہنگی کے بغیر اور دوسرا، دونوں فریقوں کے علم اور ہم آہنگی کے ساتھ۔ ٹرمپ نیتن یاہو کے تعلقات کے نتائج پر غور کرتے ہوئے پہلا منظر نامہ اس وقت پیش آسکتا ہے، جب نیتن یاہو کو مکمل یقین ہو جائے کہ ایران اور امریکہ ایک ایسے معاہدے پر پہنچ جائیں گے، جو اسرائیل کے نقطہ نظر سے "ناگوار" ہوگا تو وہ اس صورت حال میں خلل ڈالنے اور دوسرے طریقوں سے مایوس ہونے کے بعد حملہ کرسکتا ہے۔ یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ ’’عارضی اور جزوی‘‘ معاہدے تک پہنچنے کے بعد بھی اس طرح کے حملے کا امکان موجود ہے۔
بلاشبہ، نیتن یاہو ایسا شخص نہیں ہے، جو بغیر حساب کتاب اور صرف غیر ضروری خطرات مول لے کر حملے کا رسک لے گا۔ ٹرمپ کے رویئے اور انتقام کے بارے میں اس کی تشویش کو دیکھتے ہوئے وہ کسی بھی غیر اعلانیہ حملے کا فیصلہ نہیں کرے گا، کیونکہ اس کا نتیجہ اسے غزہ کے تناظر میں دیکھنا پڑے گا۔ غزہ کی جنگ سے نیتن یاہو کا سارا سیاسی مستقبل وابستہ ہے اور اس کا اقتدار اس جنگ سے جڑا ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ اور نیتن یاہو کے درمیان ایران کے ساتھ تصادم کی نوعیت اور دیگر مسائل کے بارے میں اختلاف رائے اور "معمولی تناؤ موجود ہے، جس کے بارے میں حقیقت سے زیادہ مبالغہ آرائی ہے، کیونکہ اس طرح کے تناؤ کا ابھی تک کوئی قابل ذکر عملی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے۔"
لیکن فی الحال ایسا لگتا ہے کہ موجودہ صورتحال میں غزہ کی صورتحال کے تناظر میں نیتن یاہو اور ٹرمپ کے درمیان ایک طرح سے سمجھوتہ اور سودے بازی کی صورت حال موجود ہے۔ ہعنی اسرائیل، ٹرمپ کی درخواست کی تعمیل کے بدلے میں ایران کے ساتھ مذاکرات میں خلل ڈالنے کے لیے کوئی اقدام نہ کرے گا اور ٹرمپ غزہ کی جنگ کو روکنے کے لیے کوئی عملی اقدام انجام نہ دے۔ اس کی ایک ٹھوس مثال وتکاف کی طرف سے جنگ بندی کے لیے پیش کیے گئے منصوبے میں دیکھی جا سکتی ہے، جو اسرائیل کے مطالبات کو مکمل طور پر پورا کرتا ہے اور یہی چیز نیتن یاہو کو فوری طور پر اس معاہدے کے خلاف کچھ اقدام سے روکے ہوئے ہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ بالآخر کوئی معاہدہ نہیں کرے گا۔ چاہے ایران کے ساتھ ہو یا دوسرے علاقائی کھلاڑیوں کے ساتھ۔ امریکہ اسرائیل کے "بڑے مفادات" کو مدنظر رکھے بغیر کوئی مستقل اقدام نہیں کرے گا۔ البتہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وٹکوف نے بظاہر ٹرمپ کی مذاکراتی پالیسی سے متاثر ہو کر ایرانی فریق کے ساتھ مذاکرات میں ایسا مبہم اور متضاد رویہ اپنایا ہے۔ غزہ پر نیتن یاہو اور ٹرمپ کے درمیان کچھ دو اور کچھ لو کا عمل اس بات کا باعث بنے گا کہ اسرائیل امریکہ کے علم میں لائے بغیر ایران کی جوہری تنصیبات پر کسی قسم کا محدود حملہ بھی نہیں کرے گا۔ مجموعی طور پر، ایران کے خلاف کسی بڑے حملے کا فیصلہ امریکی گرین لائٹ کے ساتھ ہی ممکن ہے۔
اس طرح کے مفروضے کو درست مانتے ہوئے، ممکنہ محدود حملے کو مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے ایک قسم کا دباؤ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حالیہ دنوں میں ایران پر مشترکہ حملے کے لیے واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان ہم آہنگی کے خاتمے کے بارے میں کچھ رپورٹس اور تبصرے سامنے آئے ہیں۔ ایک محدود اسرائیلی حملے پر تہران کے ممکنہ ردعمل کو کنٹرول کرنے اور خطے میں امریکی مفادات کو کسی ممکنہ فوجی تنازع سے دور رکھنے کے لیے جو اقدام ضروری ہے، ٹرمپ اس میں داخل ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مختلف منظرنامہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ٹرمپ اسرائیل کی ایران مخالف دھمکیوں کو مذاکرات میں اپنی بات منوانے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔
دوسری طرف رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے گذشتہ دنوں دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ امریکہ ہوتا کون ہے، جو ایران میں یورینیم کی افزودگی کے بارے میں یہ فیصلہ کرے کہ افزودگی ہونی چاہیئے یا نہیں۔ رہبر انقلاب کے اس موقف نے ٹرمپ کو ایک نئے مخمصے میں ڈال دیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ اب کس انداز سے نیتن یاہو کو اپنے اہداف کے لیے استعمال کرتی ہے یا نیتن یاہو ٹرمپ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ مفادات کی اس جنگ میں ضامن کوئی نہیں۔ یہ دنگل کون جیتے گا، اس کے لئے کچھ انتظار کرنا پڑے گا۔