اسلام آباد:

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینزکے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے انسداد دہشتگردی عدالتوں( اے ٹی سی) کے ججز کی انگریزی کے کافی مسائل ہیں۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی ۔ سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ کمانڈنگ افسرز نے ملزمان کی حوالگی کیلیے درخواستیں دیں جن کا آغاز ہی ان الفاظ سے ہوا کہ ابتدائی تفتیش میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا جرم بنتا ہے۔

یہ الفاظ اعتراف ہیں کہ تفتیش مکمل نہیں ہوئی تھی، انسداد دہشتگردی عدالت نے ملزمان کی حوالگی کیلئے جو وجوہات دیں وہ مضحکہ خیز ہیں۔ ملزمان کو تفتیش مکمل ہونے سے پہلے ہی قصوروار لکھ دیا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ راولپنڈی اور لاہور کی عدالتوں کے حکمناموں کے الفاظ بالکل ایک جیسے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریماکس دیے کہ لگتا ہے انسداد دہشتگردی عدالتوں کے ججز کی انگریزی کے کافی مسائل ہیں۔ 

آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت حوالگی تفتیش مکمل ہونے کے بعد ہی ممکن ہوگی۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ جن مقدمات میں حوالگی کی درخواستیں دی گئیں ان میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات عائد نہیں تھیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایک ایف آئی آر میں یہ دفعات عائد تھیں، جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ حوالگی والی ایف آئی آر پڑھیں اس میں الزام فوجی تنصیب کے باہر توڑپھوڑ کا ہے۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالتیں اسی لئے ہوتی ہیں کہ قانون کا غلط استعمال روکا جا سکے، احمد فراز کو گرفتار کیا گیا کہ انہوں نے شاعری کے ذریعے آرمی افسر کو اکسایا گیا، مجھ پر بھی اکسانے کا الزام لگا لیکن میں گرفتار نہیں ہوا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ہلکے پھلکے انداز میں جواب دیا کہ آپ کو اب گرفتار کروا دیتے ہیں۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ آپ ججز کے ہوتے ہوئے مجھے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ بطور وکیل کیس ہارنے کے بعد میں بار میں بہت شور کرتی تھی کہ ججز نے ٹرک ڈرائیورز کی طرح اشارہ کہیں اور کا لگایا اور گئے کہیں اور۔

میری بات کو گہرائی میں سمجھیں۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کیا آپ بھی ٹرک چلاتی ہیں؟جسٹس مسرت ہلالی نے کہا ٹرک تو میں چلا سکتی ہوں، میرے والد فریڈم فائٹر تھے، ان کی ساری عمر جیلوں میں گزری، جرگے میں انکی شاعری پڑھنے والا گرفتار ہوگیا۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا احمد فراز نے تو عدالت میں یہ کہہ دیا تھا کہ یہ نظم میری ہے ہی نہیں، جسٹس افضل ظْلہ نے کہا آپ ایسی نظم لکھ دیں جس سے فوجی کے جذبات کی ترجمانی ہو جائے، احمد فراز نے کہا تھا کہ میرے پاس تو وسائل ہی نہیں کہ اپنی نظم کی تشہیر سکوں، آج کل تو سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، احمد فراز ہوتے تو وہ یہ دفاع نہیں لے سکتے تھے۔

آپ کیس کے میرٹس پر دلائل دے رہے ہیں ،اگر آرمی ایکٹ کی دفعات کالعدم ہوئیں تو آپکے دلائل غیر متعلقہ ہوجائیں گے ۔جسٹس امین الدین خان نے کہا آپ بہت سی چیزوں کو مکس کر گئے ہیں ۔فیصل صدیقی نے کہا مجھے ریلیف چاہیے وہ کسی بھی طرح ملے ۔ مزید سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فیصل صدیقی نے کہا کہ ہیں کہ

پڑھیں:

سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ: ضمانت مسترد ہونے کے بعد ملزم کی فوری گرفتاری لازمی قرار

سپریم کورٹ نے عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ ہونے سے متعلق اہم فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ قبل از گرفتاری ضمانت مسترد ہونے کے بعد فوری گرفتاری ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ: بانجھ پن کی بنیاد پر مہر یا نان نفقہ دینے سے انکار غیر قانونی قرار

چیف جسٹس یحییٰ خان آفریدی کی سربراہی میں سنائے گئے 4 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ صرف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے سے گرفتاری نہیں روکی جا سکتی۔

عدالت نے واضح کیا کہ عبوری تحفظ کوئی خودکار عمل نہیں بلکہ اس کے لیے عدالت سے باقاعدہ اجازت لینا ضروری ہے۔

فیصلے کے مطابق ملزم زاہد خان اور دیگر کی ضمانت کی درخواست لاہور ہائی کورٹ سے مسترد ہوئی، اس کے باوجود پولیس نے 6 ماہ تک گرفتاری کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔

عدالت نے اسے انصاف کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا اور کہا کہ عدالتی احکامات پر فوری عملدرآمد انصاف کی بنیاد ہے۔

سپریم کورٹ کے مطابق آئی جی پنجاب نے پولیس کی غفلت کا اعتراف کیا اور عدالتی احکامات پر عملدرآمد کے لیے سرکلر جاری کرنے کی یقین دہانی کرائی۔

یہ بھی پڑھیں:زیر التوا اپیل، نظرثانی یا آئینی درخواست کی بنا پر فیصلے پر عملدرآمد روکا نہیں جا سکتا، سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ

 عدالت نے مزید کہا کہ پولیس کی طرف سے گرفتاری میں تاخیر کو انتظامی سہولت کا جواز نہیں بنایا جا سکتا، کیونکہ ایسی غیر قانونی تاخیر انصاف کے نظام اور عوام کے اعتماد کو مجروح کرتی ہے۔

سپریم کورٹ نے یہ بھی قرار دیا کہ اگر اپیل زیر التوا ہو تب بھی گرفتاری سے بچاؤ ممکن نہیں، جب تک عدالت کی طرف سے کوئی حکم نہ ہو۔

درخواستگزار وکیل کی جانب سے درخواست واپس لینے پر عدالت نے اپیل نمٹا دی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • امریکا پاکستان انسداد دہشت گردی ڈائیلاگ اگست میں اسلام آباد میں ہوگا: ٹیمی بروس
  • علاقائی سیاست اور باہمی تعلقات
  • عدالتی معاملات کو دو شفٹوں میں چلانے کا معاملہ زیر غور ہے: چیف جسٹس یحییٰ آفریدی
  • عدالتی نظام میں مصنوعی ذہانت کے استعمال پر غور کر رہے ہیں: چیف جسٹس پاکستان
  • عدالتوں میں 2 شفٹوں اور مصنوعی ذہانت کے اسمتعمال پر غور کیا جارہا ہے، چیف جسٹس
  • سپریم کورٹ: ضمانت مسترد ہونے کے بعد ملزم کی فوری گرفتاری لازمی قرار
  • عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ ہونے سے متعلق چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا فیصلہ جاری
  • راولپنڈی بڑی تباہی سے بچ گیا، فتنۃ الخوارج کا دہشتگرد بارودی مواد سمیت گرفتار
  • سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ: ضمانت مسترد ہونے کے بعد ملزم کی فوری گرفتاری لازمی قرار
  • ضمانت قبل ازگرفتاری مسترد ہونے کے بعد فوری گرفتاری ضروری ہے،چیف جسٹس  پاکستان  نے فیصلہ جاری کردیا