ٹرمپ کا چینی برآمدات پر مزید 10 فیصد ٹیرف لگانے کا اعلان، چین کا شدید ردعمل
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چینی برآمدات پر 4 مارچ سے مزید 10 فیصد ٹیرف لگانے کا اعلان کردیا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو کہا کہ میکسیکو اور کینیڈین اشیاء پر 25 فیصد کے محصولات 4 مارچ سے لاگو ہوں گے، جبکہ امریکی صدر نے اسی تاریخ کو چینی درآمدات پر اضافی 10 فیصد عائد کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔
یہ بھی پڑھیےامریکا کی جانب سے چین پر 10 فیصد ٹیرف ڈیوٹی عائد کرنے سے پاکستان کو کیا فائدہ مل سکتا ہے؟
یاد رہے کہ میکسیکو، چین اور کینیڈا امریکا کے 3 بڑے تجارتی شراکت دار ہیں۔ تینوں ممالک پر بیک وقت محصولات عائد کیے جانے سے امریکی صارفین کے لیے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا، بالخصوص ایک ایسے وقت میں جب ملک میں افراط زر پہلے سے ہی بڑھ رہا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے چین سے آنے والی اشیا پر 10 فیصد کا نیا ٹیرف عائد کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ یہ امریکی صدر کی مسلسل بڑھتی ہوئی تجارتی لڑائیوں میں تازہ ترین اضافہ ہے۔
یہ بھی پڑھیےامریکی ٹیرف پالیسی کے خلاف کینیڈا، میکسیکو کا اتحاد، چین بھی کھل کر سامنے آگیا
دوسری طرف چینی وزیر تجارت نے امریکا کی طرف سے اضافی 10 فیصد ٹیرف عائد کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چینی برآمدات پر ٹرمپ کے حالیہ ٹیرف کی مخالفت کرتے ہیں۔ امید ہے کہ امریکا ایسی غلطی کرنے سے گریز کرے گا۔اور امریکا اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے راستے پر آئے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا چین چینی برآمدات ڈونلڈ ٹرمپ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا چین چینی برا مدات ڈونلڈ ٹرمپ چینی برا مدات ڈونلڈ ٹرمپ مدات پر
پڑھیں:
اسٹیٹ بینک کے فیصلے پر صدر ایف پی سی سی آئی کا شدید ردعمل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250916-06-6
کراچی (کامرس رپورٹر)صدرایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شر ح سود کو 11 فیصد پر برقرار رکھنے کے فیصلے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اس فیصلے کو ”ناقابلِ فہم” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ کاروباری ماحول، سرمایہ کاری اور مجموعی قومی معیشت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا۔صدر عاطف اکرام شیخ نے کہا کہ موجودہ معاشی حقائق، خصوصاً مہنگائی میں نمایاں کمی، شرح سود میں فوری کمی کا تقاضا کرتے ہیں۔ ان کے مطابق:”جب اگست 2025 میں حکومت کے اپنے اعدادو شمار کے مطابق مہنگائی کی شرح صرف 3 فیصد تک آ گئی ہے تو پالیسی ریٹ کو کم کر کے اصولی طور پر 6 سے 7 فیصد کے درمیان لایا جانا چاہیے تھا؛ تاکہ معیشت کو سہارا مل سکے ”۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر شرح سود میں کمی کی جاتی تو حکومت کا قرضوں کا بوجھ تقریباً 3,500 ارب روپے تک کم ہو سکتا تھا؛ جوکہ، مالیاتی دباؤ میں کمی کے لیے نہایت اہم ہے۔سینئر نائب صدر، ایف پی سی سی آئی، ثاقب فیاض مگوں نے کہا کہ بلند شرح سود پیداواری لاگت کو بڑھاتی ہے ؛جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ سنگل ڈیجٹ شرح سود کے ذریعے اشیاء سستی ہوں گی؛ عوام کو ریلیف ملے گا اور معیشت میں بہتری آئے گی۔انہوں نے کہا کہ بلند شرح سود کرنسی کی گردش کو بھی محدود کرتی ہے؛ جس سے معاشی سرگرمیوں میں جمود پیدا ہوتا ہے۔ثاقب فیاض مگوں نے مزید کہا کہ شرح سود کو موجودہ سطح پر برقرار رکھنا بزنس کانفیڈنس کو بری طرح متاثر کرے گا؛ سرمایہ کاری میں کمی لائے گا اور معیشت کی بحالی کی رفتار کو سست کر دے گا۔انہوں نے اسٹیٹ بینک سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے اور ایسی پالیسی اپنائے جوکاروبار دوست ہو؛قرضوں کی لاگت کو کم کرے؛صنعتی سرگرمیوں کو فروغ دے اور روزگار کے مواقع پیدا کرے۔نائب صدر و ریجنل چیئرمین سندھ، ایف پی سی سی آئی،عبدالمہیمن خان نے مطالبہ کیا کہ اسٹیٹ بینک شرح سود کو فوری طور پر سنگل ڈیجٹ میں لائے ؛نجی شعبے کے لیے قرضوں کی رسائی آسان بنائے اورکاروباری برادری کو پالیسی سازی میں شامل کرے۔ عبدالمہیمن خان نے واضح کیاکہ کاروباری برادری پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اس کے لیے ایک مثبت، کاروبار دوست اور حقیقت پسندانہ مالیاتی پالیسی ناگزیر ہے۔ اسٹیٹ بینک کو اب معیشت کی ضرورت کے مطابق فیصلے کرنا ہوں گے ۔