لاہور:

لاہور ہائیکورٹ نے اسکولز کی چھٹی کے دوران سروس روڈ کو ون وے کرنے اور خلاف ورزی پر 10 ہزار روپے جرمانے کا حکم دے دیا۔

عدالت نے مزید ہدایت دی کہ ایک کیمرہ نصب کر کے مانیٹرنگ کی جائے اور خلاف ورزی پر فوری جرمانے کیے جائیں۔

لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس شاہد کریم نے اسموگ کے تدارک کے حوالے سے شہری ہارون فاروق کی درخواستوں پر سماعت کی۔

ممبر جوڈیشل کمیشن نے دوران سماعت بتایا کہ عدالت نے حکم دیا تھا کہ اسکولز ڈراپ لائنز بنائیں لیکن ایل ڈی اے نے سکولز کو نوٹس جاری کر کے خاموشی اختیار کر لی ہے۔ 

عدالت نے ہدایت کی کہ چیف ٹاؤن پلانر کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا جائے۔ وکیل ایل ڈی اے نے کہا کہ چار کنال والے اسکولز کو ڈراپ لائنز بنانے کے احکامات دیے جا رہے ہیں۔

جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ اسکولوں کی چھٹی کے وقت ایک مکمل ٹریفک پلان ہونا چاہیے۔ اسکول انتظامیہ کے ساتھ بیٹھ کر معلوم کیا جائے کہ ان کے چھٹی کے اوقات کیا ہیں۔

عدالت نے تجویز دی کہ اگر ایل ڈی اے اسکولز کی چھٹی کے وقت ٹریفک کو ون وے کر دے تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ سی ٹی او کے ساتھ بیٹھ کر ٹریفک پلان بنائیں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ پوری دنیا میں لوگ ایک جیسے ہیں، لیکن فرق صرف قانون کے نفاذ کا ہوتا ہے۔ اگر شہریوں کو معلوم ہو کہ قانون کی خلاف ورزی پر سزا ہو گی تو صورتحال بہتر ہو جائے گی۔ عدالت نے اسکولز کے لیے پارکنگ کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ چیف ٹاؤن پلانر کو اس حوالے سے ٹھوس منصوبے کے ساتھ آنا چاہیے۔

لاہور کے نالوں کو کور کرنے کے حوالے سے واسا کے وکیل نے بتایا کہ پورے لاہور کے نالوں کو کور کرنے کا پی سی ون تیار ہو چکا ہے۔ تاہم انہوں نے نشاندہی کی کہ یہ نالے برسات کے دوران شہر کو بچاتے ہیں، اس لیے انہیں مکمل طور پر کور کرنا مشکل ہوگا۔

ممبر جوڈیشل کمیشن نے ٹریفک وارڈنز کے لیے ہیلتھ الاؤنس کی منظوری پر بھی زور دیا۔ ممبر جوڈیشل کمیشن نے کہا کہ ماحولیاتی آلودگی سے سب سے زیادہ ٹریفک وارڈنز متاثر ہوتے ہیں اور اگر ان کی صحت بہتر ہو گی تو وہ بہتر کام کر سکیں گے جس عدالت نے کہا ہم ہیلتھ الاؤنس کی سمری منظور کرنے کی ہدایت جاری کردیں گے۔

جسٹس شاہد کریم نے لاہور کی بہتری میں مختلف اداروں کے کردار کو سراہا اور پی ایچ اے کو میاواکی جنگلات لگانے پر شاباش دی۔ عدالت نے سٹی ٹریفک پولیس کو میچز کے دوران ٹریفک کا بہترین انتظام کرنے پر بھی داد دی۔

وکیل ایل ڈی اے نے عدالت کو بتایا کہ کراچی سے آئے کچھ مہمان لاہور کی ترقی دیکھ کر حیران رہ گئے۔ میں نے انہیں بتایا کہ آپ کے پاس کورٹ نہیں ہے ورنہ کراچی بھی بہتر ہوتا۔ عدالت نے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی چھٹی کے کے دوران عدالت نے بتایا کہ نے کہا کہا کہ

پڑھیں:

ریاست کو شہریوں کی جان بچانے کیلئے ہر ممکن قدم اٹھانے کا جذبہ دکھانا ہو گا: لاہور ہائیکورٹ

 لاہور (خبر نگار) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا  فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے آئی جی پنجاب کو درخواستگزار کو فوری طور پر پولیس پروٹیکشن دینے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ اگر کسی شہری کی جان کو خطرہ ہو تو اسے پولیس پروٹیکشن اس کا حق ہے۔ 10صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین میں شہریوں کی جان کا تخفظ مشروط نہیں بلکہ اسے ہر قیمت پر بچانا ہے۔ قرآن پاک میں بھی ہے کہ جس نے ایک جان بچائی اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔ ریاست کو اپنے شہریوں کی جان بچانے کے لئے ہر ممکن قدم اٹھانے کا جذبہ دکھانا ہوگا۔ درخواست گزار کے مطابق وہ قتل کے متعدد کیسز میں بطور گواہ ہے۔ درخواستگزار کے مطابق وہ اپنی بہن اور بہنوئی کے قتل کا سٹار گواہ ہے۔ درخواستگزار کے مطابق مقدمے میں نامزد ایک ملزم کا  پولیس مقابلہ ہو گیا، مقتول کی فیملی اسے دھمکیاں دے رہی ہے۔ آئی جی پنجاب نے رپورٹ جمع کرائی کہ ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی نے درخواستگزار کو دو پرائیوٹ گارڈ رکھنے کی تجویز دی، ہوم ڈیپارٹمنٹ پالیسی 2018 کی تحت پولیس پروٹیکشن کی 16مختلف کیٹگریز بنائی گئی ہیں، جن میں وزیر اعظم، چیف جسٹس، چیف جسٹس ہائیکورٹ، بیوروکریٹس سمیت دیگر شامل ہیں، پالیسی کے پیرا چار میں معروف شخصیات کو پولیس پروٹیکشن دینے کا ذکر ہے۔ آئی جی پولیس مستند رپورٹ پر 30 روز تک پولیس پروٹیکشن دے سکتا ہے، غیر ملکیوں اور اہم شخصیات کو سکیورٹی دینے کیلئے پنجاب سپشل پروٹیکشنز یونٹ ایکٹ 2016 لایا گیا۔ پولیس آرڈر 2002 شہریوں کی جان، مال اور آزادی کے تحفظ کی ذمہ داری واضح کرتا ہے، آرٹیکل 4 کے تحت ہر پولیس افسر پر شہریوں کے تحفظ کی قانونی ذمہ داری عائد ہے، اضافی پولیس کی تعیناتی صوبائی پولیس افسر کی منظوری سے مشروط ہوگی۔ درخواست گزار کاروباری ہونے کے ناطے سنگین دھمکیوں کے پیش نظر پولیس تحفظ کا حق رکھتا تھا، ایف آئی آرز میں گواہ ہونے کے باعث اسے پنجاب وِٹنس پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے تحت بھی تحفظ دیا جا سکتا تھا، پنجاب کے تمام قوانین اور پالیسیز شہری کے تحفظ کے حق کی ضمانت دیتے ہیں۔ درخواست گزار کو پولیس تحفظ سے محروم کرنا غیر مناسب ہے۔ پولیس کسی شہری کو جان کے خطرے کی صورت میں خود تحفظ فراہم کرنے کی مجاز ہے۔ ڈی آئی سی کی رپورٹ محض سفارشاتی حیثیت رکھتی ہے، حتمی اختیار پولیس کو حاصل ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی کا پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2025 کے لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ
  • ریاست کو شہریوں کی جان بچانے کیلئے ہر ممکن قدم اٹھانے کا جذبہ دکھانا ہو گا: لاہور ہائیکورٹ
  • لاہور،ہائیکورٹ روڈ پر بار کونسل کے انتخابات کے سلسلے میں ٹریفک جام ہے
  • عدالت کو مطمئن کرنے تک ای چالان کے جرمانے معطل کیے جائیں، سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر
  • کراچی کا ای چالان سسٹم سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج ،جرمانے معطلی پٹیشن
  • ’لاہور میں جرمانہ 200، کراچی میں 5000‘، شہری ای چالان کیخلاف سندھ ہائیکورٹ پہنچ گیا
  • ای چالان کیخلاف سندھ ہائیکورٹ میں ایک اور درخواست دائر
  • پنجاب بار کونسل کی 75 نشستوں کیلئے پولنگ جاری
  • لاہور ہائیکورٹ، ڈکی بھائی کی جوئے کی ایپ پروموشن کیش میں ضمانت کی درخواست
  • اسلام آباد ہائیکورٹ: غیر قانونی گیسٹ ہاؤسز اور ہاسٹلز کیخلاف سی ڈی اے کو کارروائی کی اجازت