Islam Times:
2025-04-25@11:26:08 GMT

نسل کشی یا نسلی صفایا، اسباب، عوامل اور محرکات(2)

اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT

نسل کشی یا نسلی صفایا، اسباب، عوامل اور محرکات(2)

اسلام ٹائمز: سترہ اگست سے ڈیڑھ کروڑ انسانوں کی ہجرت کا آغاز ہوا، جن میں سے مختلف اعداد و شمار کے مطابق سرحد کے دونوں جانب 10 سے 30 لاکھ انسان راستے میں ہی موت کا شکار ہوگئے۔ باؤنڈری فورس جو حفاظت کیلئے بنائی گئی تھی، قتل میں شریک ہوگئی۔ تقریباً 93 ہزار خواتین اغوا ہوئیں، جن میں سے اکثر بازیاب نہ کروائی جا سکیں۔ جبری طور پر مذہب تبدیل کروائے گئے، اغوا شدہ خواتین کی بے حرمتی کی گئی اور یہ واقعات سرحد کی دونوں جانب ہوئے۔ دس لاکھ یا تیس لاکھ افراد کا قتل، ڈیڑھ کروڑ انسانوں کی نقل مکانی، یہ برصغیر کی تاریخ کا ایک بڑا واقعہ ہے، جسکے عوامل اور اسباب کو جاننا ازحد ضروری ہے۔ کوشش ہوگی کے کہ آئندہ کسی تحریر میں اس واقعہ کے تفصیلی عوامل اور اسباب پر بات کی جائے۔ تحریر: سید اسد عباس

سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد اپنی معروف کتاب The Punjab bloodied partition and cleansed کے دوسرے باب میں نسل کشی کا نظریہ کے زیر عنوان لکھتے ہیں: "کوئی نسلی گروپ ایسے افراد پر مشتمل ہوسکتا ہے، جو سمجھتا ہے کہ وہ ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، شاید یہ بالکل سچ نہ ہو، لیکن نام نہاد مشترکہ آباو اجداد، یکجہتی کے جذبات پیدا کرنے کا موجب ہوسکتے ہیں۔ پروفیسر صاحب کے مطابق جب معاشرے کے ایک گروہ میں مشترکہ جد، مذہب، زبان یا ایسے ہی کسی اور مشترکہ پہلو کا احساس موجود ہو تو ایسے گروہ کو بھی نسلی گروہ کہا جاسکتا ہے، جب ایسے ہی دو یا دو سے زائد گروہ جو نسلی، مذہبی، فرقہ وارانہ یا ان جیسا کوئی اور مشترکہ اصول رکھتے ہوں، باہم ایک دوسرے سے ٹکرائیں گے تو اس واقع کو نسلی تصادم کہا جائے گا۔ ڈاکٹر اشتیاق لکھتے ہیں: "نسل کشی ایک مستعمل اصطلاح ہے، جس سے مراد مخصوص آبادی کو (قتل عام یا جبری نقل مکانی یا دونوں طرح سے) نسل، مذہب، فرقے یا دیگر ایسے ہی عوامل کی بنیاد پر مخصوص علاقے سے مٹا دینا ہے۔"

نسل کشی یا نسلی صفایا بلحاظ فاعل
نسل کشی یا نسلی صفایا ریاستی مشینری کے تحت بھی ہوسکتا ہے اور حکومتی سرپرستی یا ذمہ داران کی جانب سے اغماض برتنے کے سبب ہونے والے معاشرتی تصادم کے نتیجے میں بھی۔ جو کچھ 2023ء سے 2025ء تک غزہ میں دیکھنے میں آیا، یہ ریاستی اداروں کے تحت ہونے والی نسل کشی کی مثال ہے۔ روہنگیا کے مسلمانوں کے خلاف ریاستی سرپرستی یا آشیرباد کے ساتھ نسل کشی اور نسلی صفائی کی مہم تا حال چلائی جا رہی ہے، جس میں کبھی فوج براہ راست روہینگیا مسلمانوں کو قتل کرتی ہے اور کبھی فوجی سرپرستی میں کام کرنے والے گروہ۔ نسل کشی اور نسلی صفایا کے بارے میں ہونے والی عالمی قانون سازی کے بعد سے، کسی بھی ریاست یا اس کے کسی ذمہ دار کے لیے بلاواسطہ نسل کشی یا نسلی صفایا کا ارتکاب ایک مشکل کام ہوچکا ہے۔ کئی ایک عالمی راہنماؤں کو اس جرم کے ارتکاب کے سبب سخت سزائیں سننی پڑیں۔ ان سزاؤں پر عمل درآمد نہ ہونا، مجرم کا قانون کے کٹہرے میں نہ لایا جانا، ایک الگ کہانی ہے۔ تاہم سزا ضرور سنائی گئی اور جرم کا تعین بھی کیا گیا۔

اسی سلسلے کی تازہ ترین سزا عالمی عدالت انصاف نے اسرائیلی  وزیراعظم نیتن یاہو کو غزہ میں جنگی جرائم اور نسل کشی کا مجرم ثابت ہونے پر سنائی۔ ایسی ہی سزا برما کی سابق وزیراعظم، یوگوسلاویا کے سابق صدر کو بھی سنائی گئی۔ حکومتی سرپرستی یا آشیرباد کے ساتھ نسل کشی یا نسلی صفایا ایک ایسا جرم ہے، جس کو شناخت کرنا یا اس کے ثبوت مہیا کرنا نہایت مشکل کام ہے اور اس کی مرحلہ وار پیشرفت مرحلہ وار نسل کشی اور نقل مکانی کا باعث بنتی ہے، جس کی متعدد مثالوں سے ہم آگاہ ہیں۔ ڈاکٹر اشتیاق احمد کے مطابق: "کسی بھی ملک کی ریاستی حدود میں شراکت اقتدار کے حوالے سے کسی حل تک پہنچنے میں مکمل ناکامی نیز امن و امان کی تباہی کے نتیجے میں نسل کشی یا نسلی صفائی کا عمل شروع ہوسکتا ہے۔ اگرچہ پرامن طریقے سے بھی نسلی صفائے کا عمل ہوسکتا ہے، لیکن ایسا بندوبست قابو میں نہیں رہتا بلکہ اس کے لیے دہشت، آگ لگانا، جنسی زیادتی اور دیگر انتہاء پسندانہ طریقے وسیع پیمانے پر استعمال کیے جاتے ہیں۔"

نسل کشی اور نسلی صفایا بلحاظ اعداد و شمار
نسل کشی یا نسلی صفائے کا کوئی بھی واقعہ بلحاظ جرم مختلف نہیں ہے۔ تاہم عمومی طور پر ایسے حادثات کو سنگین گردانا جاتا ہے، جس سے انسانی معاشرہ بلواسطہ یا بلا واسطہ طور پر زیادہ مثاثر ہوا ہو۔ ممکن ہے کہ کسی ایک واقعہ میں کسی خاص گروہ کے ہزار افراد کو تہ تیغ کر دیا  جائے، سو خواتین کو اغوا کر لیا جائے اور ان کا جنسی استحصال کیا جائے، جبکہ اس کے مقابل ایک واقعہ میں دس لاکھ افراد مختلف طریقوں سے قتل ہوں، ہزاروں خواتین کا جنسی استحصال کیا گیا ہو، لوگوں کے اموال پر قبضہ کیا جائے اور متاثرین کی تعداد کروڑوں میں ہو تو ہر صاحب انصاف یہی کہے گا کہ دوسرا واقعہ زیادہ سنگین ہے، کیونکہ اس میں زیادہ انسانوں کی زندگیاں متاثر ہوئی ہیں۔ اگر ہم دنیا میں ہونے والے نسل کشی اور نسلی صفائے کے واقعات کی فہرست کو دیکھیں تو ہم ان واقعات کی سنگینی کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔

افغانستان میں امیر عبدالرحمن نے افغانوں اور انگریزوں کے مابین ہونے والی دوسری جنگ کے بعد ہزارہ کو اپنے زیر قبضہ لانے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں ایک اندازے کے مطابق امیر عبدالرحمن کی افواج نے 3,20,000 ہزارہ خاندانوں کو قتل کیا یا اسیر بنایا۔ مشرقی پاکستان میں بنگالیوں بالخصوص بنگالی ہندؤوں کی نسل کشی کے بارے کم سے کم تخمینہ 3 لاکھ افراد کے قتل کا ہے۔ بنگلہ دیش میں کتنی خواتین کا جنسی استحصال ہوا، یہ ایک شرمناک باب ہے، جسے میں یہاں تحریر نہیں کرنا چاہتا، جو لوگ اس موضوع پر مزید معلومات چاہتے ہیں، وہ متعلقہ کتب سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اب تک ان کے کم سے کم 14 ہزار اور زیادہ سے زیادہ 43 ہزار افراد قتل ہوچکے ہیں۔ مختلف ممالک میں نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد تقریباً دس لاکھ ہے۔ ایک لاکھ افراد اس وقت بھی کیمپوں میں جدا کرکے رکھے گئے ہیں۔

تقسیم ہند اور پنجاب میں معاشرتی سطح پر نسل کشی
1941ء کی مردم شماری کے مطابق پنجاب کی آزاد ریاستوں کو ملا کر پورے پنجاب کی کل آبادی تین کروڑ انتالیس لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ ان میں مسلمان 53.

2 فیصد، ہندو 29.1 فیصد، سکھوں کی آبادی 14.9 فیصد جبکہ عیسائیوں کی آبادی 1.4 فیصد تھی۔ پنجاب پانچ ڈویژنز پر مشتمل تھا، جس میں لاہور ڈویژن، راولپنڈی ڈویژن، ملتان ڈویژن، جالندھر ڈویژن اور انبالہ ڈویژن شامل تھے۔ راولپنڈی ڈویژن میں اٹک، راولپنڈی، جہلم، گجرات، میانوالی اور شاہ پور کے اضلاع تھے۔ لاہور ڈویژن میں گوجرانوالہ، لاہور، شیخوپورہ، سیالکوٹ، امرتسر اور گورداسپور کے اضلاع شامل تھے۔ ملتان ڈویژن میں مینٹگمری (ساہیوال)، لائل پور(فیصل آباد)، ملتان، جھنگ، مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خان کے اضلاع تھے۔ جالندھر ڈویژن میں فیروز پور، لدھیانہ، ہوشیار پور، کانگڑہ کے اضلاع شامل تھے، جس میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد رہائش پذیر تھی۔

ہندو، سکھ اور مسلمان پنجاب کے مختلف اضلاع میں مل کر رہ رہے تھے۔ نسل، زبان اور مشترکہ ثقافت ان کے درمیان وجہ اشتراک تھی، جبکہ تمام ادیان کے ماننے والے دوسرے کے دینی جذبات اور رسومات کا بھی احترام کرتے تھے۔ ہندو اور سکھ مسلمان پیروں کے مرید تھے اور مسلمان ہندو اور سکھ ویدوں اور حکیموں سے علاج کروانے میں جھجک محسوس نہ کرتے تھے۔ ہندو کھانے کے حوالے سے احتیاط کرتے تھے، تاہم مسلمانوں سے پکانے کی اشیاء لے لیتے تھے۔ پنجاب کے مختلف ڈویژنز میں سلسلہ وار نسلی فسادات کا سلسلہ 1946ء میں شروع ہوچکا تھا، جس کے سبب بہت سے ہندو اور سکھ خانوادے پناہ گزین کیمپوں میں جانے پر مجبور ہوئے، تاہم 17 اگست 1947ء تک کسی کو کچھ معلوم نہ تھا کہ دیس تقسیم ہوگا یا حالات معمول پر آئیں گے۔ 17 اگست 1947ء کو ریڈ کلف ایوارڈ کے تحت تقسیم کا منصوبہ سامنے لایا گیا، جس سے سرحد کے دونوں جانب لاکھوں لوگوں کو معلوم ہوا کہ وہ سرحد کی غلط سمت میں موجود ہیں۔

سکھ سمجھتے تھے کہ لاہور، لائل پور، منٹگمری اور شیخوپورہ کے کچھ اضلاع مشرقی پنجاب کا حصہ بنیں گے۔ اسی طرح مسلمانوں کا خیال تھا کہ جالندھر ڈویژن کے بعض اضلاع مسلم اکثریت کے سبب پاکستان کا حصہ بنیں گے۔ سترہ اگست سے ڈیڑھ کروڑ انسانوں کی ہجرت کا آغاز ہوا، جن میں سے مختلف اعداد و شمار کے مطابق سرحد کے دونوں جانب 10 سے 30 لاکھ انسان راستے میں ہی موت کا شکار ہوگئے۔ باؤنڈری فورس جو حفاظت کے لیے بنائی گئی تھی، قتل میں شریک ہوگئی۔ تقریباً 93 ہزار خواتین اغوا ہوئیں، جن میں سے اکثر بازیاب نہ کروائی جا سکیں۔ جبری طور پر مذہب تبدیل کروائے گئے، اغوا شدہ خواتین کی بے حرمتی کی گئی اور یہ واقعات سرحد کی دونوں جانب ہوئے۔ دس لاکھ یا تیس لاکھ افراد کا قتل، ڈیڑھ کروڑ انسانوں کی نقل مکانی، یہ برصغیر کی تاریخ کا ایک بڑا واقعہ ہے، جس کے عوامل اور اسباب کو جاننا ازحد ضروری ہے۔ کوشش ہوگی کے کہ آئندہ کسی تحریر میں اس واقعہ کے تفصیلی عوامل اور اسباب پر بات کی جائے۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: نسل کشی اور نسلی عوامل اور اسباب لاکھ افراد نقل مکانی ڈویژن میں ہوسکتا ہے کے اضلاع کے مطابق دس لاکھ کے سبب

پڑھیں:

اپریل میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہری واپس اپنے ملک چلے گئے: وزارت داخلہ

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )وزارت داخلہ نے بتایا ہے کہ افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز (اے سی سی) کے ملک چھوڑنے کی حکومتی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد گزشتہ 3 ہفتوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد افغان شہری پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔
ڈان نیوز نے غیر ملکی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے حوالے سے بتایا کہ پاکستان میں حالیہ دنوں میں سینکڑوں افغان شہریوں کو اپنے سامان کے ساتھ طورخم اور چمن بارڈر عبور کرتے دیکھا گیا۔
حکومت پاکستان کی جانب سے 31 مارچ سے ان افغان شہریوں کی ملک بدری کی دوسری مہم کا آغاز کیا تھا جن کے پاس افغان سٹیزن کارڈ تھا (ایک شناختی دستاویز جو 2017 میں پاکستانی اور افغان حکومتوں نے مشترکہ طور پر جاری کی تھی)۔
دراصل یہ 2023 میں شروع کی گئی مہم کا حصہ ہے جس کا مقصد پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکیوں کی وطن واپسی تھا جس کے تحت پہلے مرحلے میں ان تمام افغان باشندوں کو ملک بدر کیا گیا جن کے پاس شناختی ثبوت موجود نہیں تھے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کی جانب سے کی جانے والی یہ ملک بدریاں افغانستان میں طالبان حکومت پر دباو¿ ڈالنے کی کوشش ہے، جنہیں اسلام آباد کی جانب سے سرحد پار حملوں میں اضافے کا ذمہ دارٹھہرایا جاتا ہے۔
وزارت داخلہ کے مطابق ’اپریل 2025 کے دوران ایک لاکھ 529 افغان شہری پاکستان سے واپس اپنے ملک جاچکے ہیں۔27 سالہ اللہ رحمٰن نے طورخم بارڈر پر اے ایف پی کے نمائندہ سے بات کرتے ہوئے کہاکہ’میں پاکستان میں پیدا ہوا اور کبھی افغانستان نہیں گیا، مجھے ڈر تھا کہ کہیں پولیس مجھے اور میرے خاندان کو ذلیل نہ کرے اور اب ہم بے بسی کے عالم میں افغانستان واپس جا رہے ہیں‘۔افغانستان کے وزیر اعظم حسن اخوند نے پاکستان کے ’یک طرفہ اقدامات‘ کی سخت مذمت کی جب کہ اس سے ایک روز قبل وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے افغان شہریوں کی واپسی کے معاملے پر کابل کا دورہ کیا تھا۔
افغان شہریوں کی اکثریت رضاکارانہ طور پر واپس جارہی ہے تاکہ زبردستی ملک بدری سے بچ سکیں لیکن اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کے مطابق صرف اپریل میں پاکستان میں 12 ہزار 948 گرفتاریاں کی گئیں جو گزشتہ پورے سال کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران لاکھوں افغان شہری اپنے ملک کی صورتحال سے فرار ہوکر پاکستان میں داخل ہوئے جبکہ 2021 میں طالبان حکومت کی واپسی کے بعد بھی لاکھوں افغان شہری پاکستان آئے۔
افغان شہریوں کی ملک بدری کی اس مہم کو وسیع پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہے کیوں کہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد افغان آبادی کی میزبانی سے اکتاہٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔
41 سالہ حجام تنویر احمد نے اے ایف پی کو بتایا کہ افغانی یہاں پناہ لینے آئے تھے لیکن پھر نوکریاں کرنے لگے، انہوں نے کاروبار کھول لئے اور پاکستانیوں سے نوکریاں چھین لیں جو پہلے ہی جدوجہد کر رہے ہیں۔دوسری جانب یو این ایچ سی آر نے کا کہنا ہے کہ ملک بدر کئے جانے والے افغان شہریوں میں نصف سے زائد بچے ہیں جب کہ سرحد عبور کرنے والوں میں خواتین اور لڑکیاں بھی شامل ہیں جو ایک ایسے ملک میں داخل ہورہی ہیں جہاں انہیں سیکنڈری تعلیم کے بعد تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے اور انہیں کئی شعبوں میں کام کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔
2023 میں واپسی کے پہلے مرحلے کے دوران دستاویزات نہ رکھنے والے لاکھوں افغانوں کو زبردستی سرحد پار بھیج دیا گیا تھا۔مارچ میں اعلان کردہ دوسرے مرحلے میں حکومت پاکستان نے 8 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کے رہائشی پرمٹ منسوخ کر دیے اور ان ہزاروں افراد کو بھی خبردار کیا جو کسی تیسرے ملک میں منتقلی کے منتظر ہیں کہ وہ اپریل کے آخر تک ملک چھوڑ دیں۔
ایک دکاندار نے اے ایف پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ افغان وہ کام کرتے ہیں جسے کرتے ہوئے پاکستانیوں کو شرمندگی محسوس ہوتی ہے، جیسے کچرا اٹھانا وغیرہ لیکن جب وہ چلے جائیں گے تو یہ کام کون کرے گا؟

عوام کو اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کی ضرورت ہے ، عمران خان

مزید :

متعلقہ مضامین

  • جب عامر خان کو تھپڑ مارنے پر 1 لاکھ روپے کا اعلان کیا گیا
  • پاکستان اسٹاک ایکسچینج : 100 انڈیکس میں 1553 پوائنٹس کی کمی
  • پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں بڑی مندی کے ساتھ کاروبار کا آغاز
  • پہلگام فالس فلیگ حملےکے پیچھے چھپے بھارتی محرکات 24 گھنٹوں میں سامنے آگئے
  • اسلحہ لائسنس کے حوالے سے حکومت کا بڑا فیصلہ
  • بھارت میں حقوق کیلیے احتجاج کرنا جرم
  • ایتھوپیا میں فاقہ کشی بدترین مرحلے میں داخل، عالمی ادارے بے بس
  • غزہ میں 6 لاکھ سے زائد بچوں کو مستقل فالج کا خطرہ
  • دریائے سندھ میں پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا
  • اپریل میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہری واپس اپنے ملک چلے گئے: وزارت داخلہ