بجٹ میں عمومی ٹیکس سے بچنے کیلئے برآمدکنندگان کی لابنگ جاری
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) تنخواہ دار طبقے کی ٹیکس ادائیگی نے برآمد کنندگان اور ریٹیلرز کو بڑے فرق سے پیچھے چھوڑ دیا ہے، لیکن اگلے بجٹ میں برآمد کنندگان پر عمومی ٹیکس نظام لاگو کرنے سے بچنے کے لیے لابنگ جاری ہے۔
ذرائع کے مطابق پہلے سات ماہ (جولائی تا جنوری) کے دوران، ایف بی آر نے موجودہ مالی سال میں تنخواہ دار طبقے سے 285 ارب روپے اینٹھ لیے جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں 184 ارب روپے تھے۔
ایف بی آر نے تنخواہ دار طبقے کے مختلف سلیبز پر غیرمعمولی اضافہ کیا، جس کے نتیجے میں مجموعی وصولی 100 ارب روپے بڑھ کر 285 ارب روپے تک پہنچ گئی۔
برآمد کنندگان کے معاملے میں، حکومت نے ایک مخصوص فارمولہ متعارف کروایا جس کے تحت ان پر 11 فیصد ٹیکس کی شرح نافذ کی گئی اور انہیں عمومی ٹیکس نظام سے مستثنیٰ رکھا گیا۔
اس سے پہلے برآمدی آمدنی پر سالانہ صرف 1 فیصد ٹیکس عائد کیا جاتا تھا، لیکن 25- 2024ء کے بجٹ میں ایک نیا فارمولا متعارف کروایا گیا جس کے تحت 1 فیصد پرانے طریقے سے لاگو ہوگا جبکہ برآمدات میں اضافے پر مزید 1 فیصد ٹیکس وصول کیا جائے گا۔
برآمد کنندگان نے موجودہ مالی سال کے پہلے سات مہینوں کے دوران 118 ارب روپے بطور انکم ٹیکس ادا کیے جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں 55 ارب روپے تھے۔
ریٹیلرز کے لیے، حکومت نے’تاجر دوست اسکیم‘ متعارف کروائی جس سے تقریباً 2 ملین روپے جمع ہونے کی توقع تھی۔
ایف بی آر کے اعلیٰ حکام کے مطابق، ٹیکس مشینری نے 236G اور 236H کے تحت ریٹیلرز/ ہول سیلرز پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر کے انہیں ایک طرح سے دباؤ میں رکھا جس کے نتیجے میں مزید 2.
اب آئی ایم ایف کی جائزہ مشن اسلام آباد پہنچ رہی ہے تاکہ 7 ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ سہولت (EFF) کے پہلے جائزے کے لیے مذاکرات کا آغاز کیا جا سکے، لہٰذا ہر قسم کی آمدنی کو عمومی ٹیکس نظام کے تحت لانے کی ضرورت ہے، جیسا کہ زرعی انکم ٹیکس (AIT) کے معاملے میں کیا گیا، جہاں چاروں صوبوں نے قانون سازی کی، جس کے تحت یکم جولائی 2025 سے ٹیکس کی وصولی شروع کی جائے گی۔
موجودہ مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ (جولائی تا فروری) کے دوران 604 ارب روپے سے زائد کے بڑے ٹیکس خسارے کے پیش نظر، برآمد کنندگان کی طرف سے عمومی ٹیکس نظام سے بچنے کے لیے زبردست لابنگ جاری ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: عمومی ٹیکس نظام برا مد کنندگان مالی سال کے ارب روپے کے لیے کے تحت
پڑھیں:
2024ء میں ملکی مجموعی معاشی حالات میں بہتری آئی، اسٹیٹ بینک جائزہ رپورٹ جاری
مالیاتی صورتحال میں بہتری، روپیہ اور ڈالر کی مستحکم مساوات، معاشی سرگرمی میں اضافے اور بیرونی کھاتے کے توازن میں بہتری سے ہوتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی جائزہ رپورٹ میں کہا ہے کہ ملک میں مہنگائی کا دباؤ کم ہونے سے 2024ء میں مجموعی معاشی حالات میں بہتری آئی ہے۔ بینک دولت پاکستان نے اپنی سالانہ نمائندہ اشاعت مالی استحکام کا جائزہ برائے سال 2024ء جاری کر دی ہے۔ یہ جائزہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ، 1956ء کی سیکشن 39 (3) کے تقاضوں کے مطابق تیار اور شائع کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2024ء کے دوران مجموعی معاشی حالات میں خاصی بہتری آئی۔مالیاتی صورتحال میں بہتری، روپیہ اور ڈالر کی مستحکم مساوات، معاشی سرگرمی میں اضافے اور بیرونی کھاتے کے توازن میں بہتری سے ہوتی ہے۔ مرکزی بینک کے مطابق معاشی ماحول میں تبدیلی کے ساتھ مالی منڈیوں میں اتار چڑھاؤ بھی کم ہوگیا۔
بینکاری کے شعبے نے مستحکم کارکردگی دکھائی اور اپنی مالی مضبوطی برقرار رکھی، جبکہ بینکوں کی بیلنس شیٹ میں 2024ء کے دوران 15.8 فیصد اضافہ ہوا۔ اسی طرح مالی شعبہ بینکوں، مائیکروفنانس بینکوں، ترقیاتی مالیاتی اداروں مالی مارکیٹ کے انفرا اسٹرکچر سمیت مالی شعبے کے مختلف اجزا کی کارکردگی خطرات کی جانچ کو پیش کیا گیا اور کارپوریٹ شعبے کی مالی صحت کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اثاثوں میں توسیع سرمایہ کاری اور قرضوں دونوں کی وجہ سے ہوئی، جس سے نجی شعبے کے قرضوں میں مستحکم بحالی دیکھی گئی۔