ہیمبرگ کے صوبائی الیکشن میں وفاقی انتخابات ہارنے والی ایس پی ڈی کی جیت متوقع
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 مارچ 2025ء) ہیمبرگ جرمنی کے کُل 16 وفاقی صوبوں میں شامل ان تین ریاستوں میں سے ایک ہے، جو سٹی اسٹیٹس کہلاتی ہیں اور جن میں برلن، ہیمبرگ اور بریمن شامل ہیں۔
یورپ مضبوط قیادت اور استحکام کے لیے فریڈرش میرس کی طرف دیکھ رہا ہے
شمالی جرمنی کی اس سٹی اسٹیٹ میں آج اتوار دو مارچ کو جو علاقائی پارلیمانی انتخابات ہو رہے ہیں، ان میں عوامی رائے دہی مقامی وقت کے مطابق صبح آٹھ بجے شروع ہوئی، جو شام چھ بجے تک جاری رہے گی۔
ان انتخابات کی خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ رواں برس جرمنی کے کسی بھی وفاقی صوبے میں ہونے والے پہلے اور آخری اسٹیٹ الیکشن ہیں۔ ہیمبرگ سوشل ڈیموکریٹس کا گڑھگزشتہ ماہ کی 23 تاریخ کو یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی میں جو قومی پارلیمانی الیکشن ہوئے تھے، وہ دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے قدامت پسند یونین جماعتوں سی ڈی یو اور اس کی ہم خیال جماعت سی ایس یو نے مشترکہ طور پر جیت لیے تھے۔
(جاری ہے)
جرمنی کے حالیہ انتخابات کے نتائج: تارکین وطن برادری کی تشویش میں اضافہ
ان انتخابات میں اب تک برسراقتدار اور اس وقت نگران چانسلر کے فرائض انجام دینے والے اولاف شولس کی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اس ناکامی کے برعکس ہیمبرگ میں ہونے والے ریاستی الیکشن میں رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق توقع ہے کہ وہاں آج سوشل ڈیموکریٹک پارٹی جیت جائے گی۔
اس لیے کہ ہیمبرگ عشروں سے ایس پی ڈی کی سیاسی طاقت کا ایک بڑا مرکز رہا ہے اور وہاں اس وقت بھی سوشل ڈیموکریٹس ہی کی مخلوط حکومت ہے۔ موجودہ حکومت کا تسلسل کی امیدہیمبرگ ایک شہر ہونے کے ساتھ ساتھ چونکہ ایک سٹی اسٹیٹ بھی ہے، اس لیے برلن اور بریمن کی طرح وہاں بھی صوبائی وزیر اعلیٰ کو اصطلاحاﹰ گورننگ میئر کہا جاتا ہے۔ اس وقت ہیمبرگ میں سوشل ڈیموکریٹس نے ماحول پسندوں کی گرین پارٹی کی مدد سے ایک مخلوط حکومت قائم کر رکھی ہے، جس کے سربراہ ایس پی ڈی کے سیاست دان پیٹر چینچر ہیں۔
جرمنی میں انتخابات کے بعد حکومت سازی کے لیے جوڑ توڑ جاری
پیٹر چینچر کو امید ہے کہ آج بھی ان کی پارٹی کو اتنی عوامی حمایت مل جائے گی کہ وہ دوبارہ گرین پارٹی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنا سکیں گے۔
ہیمبرگ میں انتخابی قوانین کے حوالے سے ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ جرمنی میں وفاقی سطح پر تو عام ووٹروں کے لیے کم از کم عمر کی حد 18 برس ہے، مگر ہیمبرگ میں یہ حد دو سال کم ہے۔
وہاں 16 برس یا اس سے زائد عمر کا ہر شہری ریاستی الیکشن میں وٹ دینے کا حق دار ہے۔ اس جرمن صوبے کی آبادی تقریباﹰ 1.
رائے دہی سے قبل مکمل کیے گئے رائے عامہ کے آخری جائزوں کے مطابق ہیمبرگ میں، جہاں جرمنی کی سب سے بڑی سمندری بندرگاہ بھی ہے، آج کی ووٹنگ میں مجموعی طور پر کم از کم بھی 121 اراکین پارلیمان کا انتخاب کیا جائے گا۔
امید ہے کہ کم از کم پانچ فیصد عوامی تائید کی لازمی حد پار کر کے پانچ سیاسی جماعتیں نئے ایوان میں نمائندگی حاصل کر لیں گی۔اندازوں کے مطابق ایس پی ڈی کو تقریباﹰ 33 فیصد، قدامت پسندوں کی کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کو تقریباﹰ 18 فیصد اور ماحول پسندوں کی گرین پارٹی کو قریب 17 فیصد ووٹ ملیں گے۔ ان کے علاوہ بائیں بازو کی لیفٹ پارٹی کو تقریباﹰ 12 فیصد اور تارکین وطن کی مخالف اور انتہائی دائیں بازو کی جماعت 'متبادل برائے جرمنی‘ یا اے ایف ڈی کو نو فیصد کے قریب عوامی تائید حاصل ہو جائے گی۔
اس الیکشن میں رائے دہی کے لیے مقررہ وقت پور اہونے کے بعد عبوری سرکاری نتائج کا اعلان چند ہی گھنٹوں میں کر دیا جائے گا۔
م م / ا ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ہیمبرگ میں الیکشن میں ایس پی ڈی کے مطابق پارٹی کو کے لیے بھی ہے
پڑھیں:
کینیڈا الیکشن؛ 50 سے زائد پاکستانی بھی میدان میں
اوٹاوا (ڈیلی پاکستان آن لائن )کینیڈا میں 28 اپریل کو وفاقی الیکشن ہوں گے جس میں ریکارڈ تعداد میں پاکستانی امیدوار بھی ہیں
نجی ٹی وی ایکسپریس نیوز نے عالمی خبر رساں ادارے کے حوالے سے بتایا کہ پاکستانی نژاد کینیڈین سب سے زیادہ لبرل پارٹی آف کینیڈا کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ رہے ہیں جن کی تعداد 15 ہے۔
نیو ڈیموکریٹک پارٹی نامی سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر بھی 10 کے قریب پاکستانی نژاد امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
ایک اور سیاسی جماعت سینٹرسٹ پارٹی کے سربراہ بھی پاکستانی نژاد ہیں اور جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے بیشتر امیدواروں کا تعلق بھی پاکستان سے ہے۔سینٹرسٹ پارٹی کے سربراہ کی صاحبزادی زینب رانا بھی الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں جو گریڈ 12 کی طالبہ ہیں اور اس وقت سب سے کم عمر امیدوار ہیں۔
ان تین جماعتوں کے علاوہ گرین پارٹی آف کینیڈا سے طالبہ افرا بیگ سمیت 3 پاکستانی امیدوار بھی الیکشن لڑ رہے ہیں۔اسی طرح ایک اور جماعت کمیونسٹ پارٹی سے 1 پاکستانی نڑاد امیدوار سلمان ظفر اور پیپلز پارٹی آف کینیڈا کے نجیب بٹ بھی میدان میں اتر چکے ہیں۔جماعتی بنیادوں پر الیکشن لڑنے والوں کے ساتھ ساتھ 5 پاکستانی نڑاد امیدوار آزاد حیثیت سے بھی الیکشن لڑیں گے۔
یاد رہے کہ پاکستانی نژاد امیدواروں میں سے 5 امیدوار سلمیٰ زاہد، اقرا خالد، شفقت علی، یاسر نقوی اور سمیر زبیری ارکانِ پارلیمنٹ رہ چکے ہیں۔
پاک بھارت سٹریٹجک تصادم کا خطرہ، وہ ایک قدم جس سے حالات نارمل ہوسکتے ہیں، الجزیرہ کی رپورٹ میں مشورہ دے دیا گیا
مزید :