اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 مارچ 2025ء) برطانوی دارالحکومت لندن سے اتوار دو مارچ کی سہ پہر تک موصولہ رپورٹوں کے مطابق برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے لندن میں اس سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لیے جمع عالمی رہنماؤں کو بتایا کہ ان سب کو یورپ کی سلامتی کے لیے مل کر ایک ایسے ''نادر لمحے کو بروئے کار لانا ہو گا، جو ایک پوری نسل انسانی کو صرف ایک ہی بار‘‘ ملتا ہے۔

’ٹرمپ نے یوکرین کی امداد کم کی تو روس جیت جائے گا‘

وزیر اعظم اسٹارمر نے کہا کہ لندن میں اس عالمی اجتماع سے اچھے نتائج حاصل کرنا ''ان تمام ممالک کی سلامتی کے لیے بھی ناگزیر ہے جو یہاں موجود ہیں اور ان کے لیے بھی جو یہاں موجود نہیں۔‘‘

زیلنسکی، ماکروں اور اسٹارمر شانہ بشانہ

وسطی لندن میں اس سمٹ کے آغاز اور باقاعدہ مذاکرات سے قبل جب آفیشل فوٹوز بنائی جانے والی تھیں، اس سے قبل میزبان کے طور پر ایک میز پر درمیان میں برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر بیٹھے تھے اور ان کے ساتھ دائیں اور بائیں فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں اور یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی بھی بیٹھے ہوئے تھے۔

(جاری ہے)

’آپ تنہا نہیں‘: ٹرمپ سے تکرار کے بعد یورپ کی طرف سے زیلنسکی کی حمایت

ان تینوں رہنماؤں کا اس طرح ایک ساتھ بیٹھے ہونا دراصل ان کے درمیان آج اتوار کو قبل از دوپہر ہونے والی اس سہ فریقی مشاورت کا استعارہ بھی تھا، جس میں برطانیہ، فرانس اور یوکرین نے آپس میں اتفاق کیا کہ وہ یوکرین میں روس کی شروع کردہ جنگ کے خاتمے کے لیے ایک سیزفائر پلان پر مل کر کام کریں گے۔

اسٹارمر کے مطابق لندن، پیرس اور کییف مل کر ایک ایسا جنگ بندی منصوبہ تیار کریں گے، جو بعد میں امریکہ کو پیش کیا جائے گا۔

ٹرمپ اور زیلنسکی کی ملاقات

اتوار کے روز لندن سمٹ امریکہ میں وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں ہونے والی اس ملاقات کے صرف دو روز بعد منعقد ہو رہی ہے، جس میں یوکرینی صدر زیلنسکی صدر ٹرمپ کے مہمان تھے، مگر جس دوران ہونے والی گرما گرم بحث میں امریکی صدر نے یوکرینی ہم منصب پر شدید تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ زیلنسکی امریکہ کی طرف سے روسی یوکرینی جنگمیں کییف کی اب تک کی جانے والی مدد پر واشنگٹن کے کافی حد تک شکر گزار نہیں تھے۔

یوکرین میں روسی مداخلت کے تین سال مکمل، مغربی لیڈر کییف میں

لندن سے موصولہ تازہ رپورٹوں کے مطابق یہ سمٹ ابھی جاری ہے اور ممکن ہے کہ اس میں ایک ایسی یورپی ملٹری فورس کے قیام پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے، جو جنگ بندی کی صورت میں تعیناتی کے لیے یوکرین بھیجی جا سکے۔

برطانوی وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ایسی کوئی بھی یورپی ملٹری فورس ''خواہش مندوں کا اتحاد‘‘ ہو گی، یعنی اس میں شمولیت کے لیے کسی ملک کو مجبور نہیں کیا جائے گا۔

ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کی خواہش

لندن سمٹ کے اغراض اور برطانوی سربراہ حکومت کے طور پر یورپی سلامتی سے متعلق اپنی ترجیحات کے بارے میں کیئر اسٹارمر نے کہا کہ ان کی پوری توجہ اس بات پر ہے کہ وہ جنگ بندی کے لیے مذاکرات اور امن کی بحالی کے لیے پل کے طور پر کام کر سکیں۔

نایاب دھاتیں: امریکہ اور یوکرین معاہدہ کرنے کے قریب

اسٹارمر کا ان الفاظ کے ساتھ اشارہ امریکی اور یوکرینی صدور کی وائٹ ہاؤس میں اس حالیہ ملاقات کی طرف تھا، جو عدم اطمینان اور بدمزگی کے ساتھ قبل از وقت ہی ختم ہو گئی تھی۔

صدر ٹرمپ کی یوکرین اور نیٹو پر تنقید، روس کی طرف سے خیرمقدم

اسی لیے اسٹارمر نے کہا کہ وہ امن بات چیت کی دو روز پہلے ناکامی کو ایک ایسے موقع کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں، جس کے ذریعے ''بیان بازی کرنے کے بجائے‘‘ ڈونلڈ ٹرمپ، وولودیمیر زیلنسکی اور ایمانوئل ماکروں کو ساتھ لے کر آگے بڑھا جا سکے۔

اسٹارمر کے الفاظ میں، ''میں روسی صدر پوٹن پر تو اعتماد نہیں کرتا، لیکن میں امریکی صدر ٹرمپ پر مکمل اعتماد کرتا ہوں، خاص طور پر جب وہ کہتے ہیں کہ وہ دیرپا امن چاہتے ہیں۔‘‘

م م / ا ا (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اور یوکرین اسٹارمر نے کے طور پر کے لیے کہا کہ کی طرف

پڑھیں:

فرانس میں احتجاج کا سلسلہ جاری‘پیرس سمیت بڑے شہروں میں ٹرینیں‘اہم شاہرائیں بند

پیرس(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔18 ستمبر ۔2025 )فرانس کے دارالحکومت پیرس میں مہنگائی‘حکومتی اخراجات میں اضافے اور بیروزگاری کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اورایک لاکھ کے قریب مظاہرین پیرس میں جمع ہیں ‘ملک کی تمام بڑی ورکر یونینوں نے بھی حکومت کے بجٹ اقدامات کے خلاف ہڑتال اور مظاہروں کی کال دی ہے جس سے ملک بھر میں نقل و حمل رکاوٹیں آرہی ہیں.

(جاری ہے)

فرانسیسی نشریاتی ادارے کے مطابق مظاہرین نے پیرس کی مختلف شاہراﺅں پر آگ لگا کر ٹریفک بندکردی جبکہ ٹرین اسٹیشنوں کے راستوں پر مظاہرین اوررکاوٹیں موجود ہیں گزشتہ روزبھی 40ہزار کے قریب مظاہرین نے پیرس میں احتجاج ریکارڈکروایا تھا ‘مظاہرین صدر میکرون کے استعفے اور معاشی اصلاحات کا مطالبہ کررہے ہیں جن سے شہریوں پر معاشی دباﺅ ختم ہو.

مظاہرین کا کہنا ہے کہ حکومت اپنے اخراجات میں مسلسل اضافہ کررہی ہے جس کا بوجھ ٹیکس دہندگان کو اٹھانا پڑتا ہے ‘مظاہرین دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم ختم کرنے کا مطالبہ بھی کررہے ہیں‘رپورٹ میں بتایا گیا ہے مظاہرین دن بھر پیر س کی اہم شاہراﺅں اور عمارتوں کے باہر موجود رہتے ہیں ‘فرانس 24کے مطابق مظاہرین میں نوجوانوں کی بڑی تعداد شامل ہے جنہیں بیروزگاری کا سامنا ہے .

مظاہرین کا کہنا ہے کہ ضروریات زندگی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور حکومت عوامی مسائل سے بے نیاز اپنے اخراجات میں مسلسل اضافہ کررہی ہے . رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ دہائیوں میں فرانس میں اتنے بڑے پیمانے پر مظاہرے نہیں دیکھے گئے جو تقریبا ایک ہفتے سے جاری ہیں ‘ویک اینڈ پر مظاہرین نے پیرس سمیت مختلف شہروں میں 250 سے زیادہ ریلیوں کا اعلان کیا ہے فرانسیسی حکام کا خیال ہے کہ ان ریلیوں میں8لاکھ سے زیادہ افراد متوقع طور پر شرکت کرسکتے ہیں.

فرانس میں احتجاج کا آغاز سابق وزیراعظم باوئرکے تجویزکردہ بجٹ اقدامات پر ہوا تھا ‘احتجاج کے نتیجے میں فرانسیسی پارلیمان نے تحریک عدم اعتماد کے بعد انہیں عہدے سے ہٹادیا تھا مگر مظاہرین وزیراعظم کو عہدے سے ہٹانے کے اقدام سے مطمئن نہیں ہوئے اور انہوں نے مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھاہوا ہے نئے وزیر اعظم سبسٹین لیکورنو نے فوری طور پر چند غیرمقبول بجٹ اصلاحات کو ختم کرنے کا اعلان کیا جبکہ معاشی اصلاحات کے حوالے سے مظاہرین کے مطالبات کو مسترد کردیا گیاجن میں بے روزگاری کے خاتمے کے اقدامات، تنخواہوں اورپنشن میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ‘ طبی و رہائشی سہولیات میں اضافہ شامل ہیں گزشتہ سال فرانس کا خسارہ جی ڈی پی کے مقابلے میں 5.8 فیصد ریکارڈ کیا گیا جو کہ یورپی یونین کی تجویزکردہ حد 3 فیصد سے تقریباً دوگنا ہے، جبکہ قومی قرضہ اب 3.3 ٹریلین یورو سے زیادہ ہے، جو اقتصادی پیداوار کا تقریباً 114 فیصد ہے.

سابق وزیراعظم بائرو کا موقف تھا کہ خسارے کو کم کرنے کے لیے بجٹ میں عوامی سہولیات کی مدمیں سخت کٹوتیاں ناگزیر ہیں ان کے معاشی منصوبے کے مطابق 2026 تک اخراجات میں 44 بلین یورو کی کمی لانا تھا تاہم مظاہرین کا موقف ہے کہ حکومت اپنے اخراجات کم کرنے کی بجائے شہریوں کی میسرسہولتوں کوکم کررہی ہے جبکہ شہری ان سہولیات کے لیے بھاری ٹیکس اداکرتے ہیں.

فرانس کی ورکر یونینوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کی پالیسیاں ”بے مثال ظلم“کے مترادف ہیں جن میںمزدوروں، بے روزگاروں، پنشنرز اور بیماروں کو غیر منصفانہ طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے عوام اور یونینوں کو مطمئن کرنے کے لیے وزیر اعظم سبسٹین لیکورنو نے سابق وزرائے اعظم اوروزراءکے لیے ”تاحیات“ سہولیات ختم کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے سال 2024 میں سابق وزرائے اعظم اور وزراءکو دی گئی سہولیات کا سالانہ تخمینہ تقریباً 4.4 ملین یورو لگایا گیا تھا جبکہ اس رقم کا تقریباً نصف پولیس پر خرچ ہوا فرانس کے تمام بڑے شہروں: پیرس، لیون، مارسیلی، ٹولوز، نائس، رینس، لِل، مونٹ پیلیئر، نیمز اور پرپیگنان میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں‘پیرس میں آج مظاہرین پلیس ڈی لا باسٹیل سے ریپبلک نیشن تک مارچ کریں گے جبکہ ایک تنظیم نے پہیہ جام ہڑتال کی کال دی رکھی ہے جس کے تحت اہم شاہراﺅں اور ٹرینیوں کو بند کیا جائے گا.

پیرس کی ٹرین کمپنیوں نے مسافروں کو مفت ٹکٹ فراہم کرنے ‘ٹکٹوں کے تبادلے اور منسوخی کی پیشکش کی ہے‘رپورٹ میں بتایا گیا ہے پیرس کے مرکزی علاقوں میں نقل وحرکت ممکن نہیں ہے پولیس کی جانب سے ابتدائی دنوں میں مظاہرین کو روکنے کی کوششوں میں پرتشددمظاہروں کے بعد پولیس مظاہرین سے ٹکراﺅ سے بچاﺅ کی پالیسی اختیار کیئے ہوئے ہے‘فرانس 24نیوزکے مطابق ایئرٹریفک کنٹرولر‘ ایئرپورٹ ورکرزکی یونینوں کی مظاہروں میں شرکت کی وجہ سے فرانس کے ایئرپورٹس پر فضائی آپریشن متاثرہورہے ہیںمظاہروں کے بعد وزیر داخلہ برونو ریٹیلیو بھی مستعفی ہوگئے ہیں جبکہ حکام نے پولیس کی مددکے لیے نیم فوجی دستوں کے80ہزاراہلکاروں کو ملک بھرمیںتعینات کرنے کا عندیہ دیا ہے .

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پیرس میں مظاہرین کو روکنے کے لیے 24 بکتر بند گاڑیاں، 10 واٹر کینن اور سرویلنس ڈرونز تعینات کیئے جارہے ہیں‘رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فرانسیسی صدر نے صورتحال کو کنٹرول کرنے‘اہم شاہراﺅں‘مقامات اور عمارتوں سے مظاہرین کو ہٹانے کے لیے سخت اقدامات کی ہدایت کی ہے اور کہا ہے کہ پیرس نیز رینس، نانٹیس، ٹولوز، ڈیجون، لیون، مونٹ پیلیئر اور بورڈو جیسے بڑے شہروں میں معمولات زندگی کو بحال کرنے کے لیے کاروائیاں کی جائیں.

دوسری جانب مظاہرین نے صحافیوں سے گفتگو میں صدرمیکرون کے فوری استعفے کا مطالبہ کیا ہے انہوں نے کہا کہ صدر نے مظاہرین کو دھوکا دینے کے لیے اپنی جماعت کے ایک وزیراعظم کو ہٹاکردوسرے کو تعینات کردیا ہے ہم چہروں کی تبدیلی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں نظام کی تبدیلی کے لیے نکلے ہیں ‘مظاہرین کا کہنا ہے کہ صدرمیکرون اور ان کی جماعت معاشی بحران کے ذمہ دار ہیں لہذا وہ فوری طورپر مستعفی ہوں.

متعلقہ مضامین

  • وزیراعظم شہباز شریف برطانیہ کے 4 روزہ دورے پر لندن پہنچ گئے
  • فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے پر برطانوی وزیراعظم سے متفق نہیں ہوں، ڈونلڈ ٹرمپ
  • ٹرمپ کا دورۂ لندن؛ برطانیہ اور امریکا کا کاروباری شعبوں میں تعاون جاری رکھنے پر اتفاق
  • ٹرمپ کا دورہ لندن؛ برطانیہ اور امریکا کا کاروباری شعبوں میں تعاون جاری رکھنے پر اتفاق
  • فرانس میں احتجاج کا سلسلہ جاری‘پیرس سمیت بڑے شہروں میں ٹرینیں‘اہم شاہرائیں بند
  • ٹرمپ تاریخی دورے پر برطانیہ پہنچ گئے، شاہانہ استقبال، احتجاجی مظاہرے
  • صدر ٹرمپ سرکاری دورے پر برطانیہ پہنچ گئے، احتجاجی مظاہرے متوقع
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سرکاری دورے پر لندن پہنچ گئے، کن اہم امور پر گفتگو ہوگی؟
  • برطانیہ میں کسی کو رنگ یا پس منظر کی وجہ سے خوفزدہ نہیں ہونے دیا جائے گا: کیئر اسٹارمر
  •  روانڈا اورکانگو معدنیات کے شعبے میں امریکی ثالثی پر متفق