Express News:
2025-11-05@02:37:47 GMT

رمضان کی آمد مبارک!!

اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT

چند دن پہلے کہیں جاتے ہوئے گاڑی میں ریڈیو آن کیا تو اس پر بھی اسی موضوع پر بات ہو رہی تھی جس موضوع پر مجھے آج ہی ایک پوسٹ پڑھنے کا اتفاق ہوا اور میرے دماغ میں یہ بات اٹک گئی۔

رمضان کی آمد مبارک ہو، خواتین کو چاہیے کہ وہ رمضان شروع ہونے سے پہلے پہلے مہینے بھر کی تیاری کر لیا کریں، اس کی تفصیل میں سارا ذکر اس بات کا ہے کہ وہ رمضان سے پہلے سحر اور افطار کے اوقات کے لیے کیا کیا بنا کر رکھ سکتی ہیں۔ اس میں سموسے ، رول اور کباب بنانے کے ساتھ ساتھ، سادہ، قیمے اورآلو کے نیم پکے پراٹھے… پورے مہینے کے لیے تیار کر کے فریزر میں رکھ لیں اور ہر رات سونے سے پہلے اتنے پراٹھے فریزر سے نکال کر رکھ دیں جتنے کہ سحری میں تیار ہونا ہیں۔ ( تصور کریں کہ اگر کسی گھر میں آٹھ افراد نے روزہ رکھنا ہو تو) کون کون سے مشروبات کے لیے پھل بلینڈ کر کے رکھ سکتے ہیں، لیموں کا رس نکال کر ٹکڑیوں میں فریز کر لیں۔ کئی کئی کلو چنے گلا کر، روزانہ کی چاٹ کے حساب سے پیکٹ بنا کر فریزر میں رکھ لیں۔ سبزیاں باریک باریک کاٹ کر پیکٹ بنا کر پکوڑوں کے لیے فریز کر لیں۔

ہاں بیسن میں بھی تو مسالے ملا کر تیار کرنا ہو ں گے تا کہ افطار کے وقت مسالہ ملا بیسن اور کٹی ہوئی سبزی نکال کر صرف پا نی ملا کر پکوڑوں کا مسالہ تیار ہو سکے۔ ایک ماہرہ نے تو یہاں تک مشورہ دیا کہ اگر رمضان سے پہلے کسی ایک دن کو وہ چٹنیاں بنانے کے لیے مختص کردے تو وہ املی، آلو بخارا، ٹماٹر، تل اور ہرے مسالے کی چٹنیاں وہ ایک ہی دن میں پورے رمضان کے لیے بنا کر رکھ سکتی ہیں۔ حلوہ جات تیار کر کے رکھ لے، پھلوں کو کاٹ کر، پلاسٹک کی تھیلیوں میں فروٹ چاٹ کے لیے محفوظ کرکے فریزر میں رکھ دے ۔

( جانے یہ ہاتھی کے سائز کا فریزر کہاں سے آئے گا؟) لہسن پیس کر رکھ لیں، پیاز تل کر رکھ لیں، ٹماٹر پیس کر یا ابال کر رکھ لیں ، آلو بھی ٹکڑیوں میں کاٹ کر ابال کر رکھ لیں، دو ہفتے تو فرج میں بھی نکال لیں گے۔ اتنے مفید مشورے مگر ان کے لیے دو ماہ کا وقت تو چاہیے نا ۔ ساری خواتین ایسی سگھڑ کہاں ہوتی ہیں ، کچھ تو میرے جیسی بھی ہوتی ہیں۔اگر یہ ساری تیاری کی ہو گی تو خاتون خانہ کو ہر گز فکر نہ ہو گی کہ رمضان میں کام کا بوجھ بڑھ جائے گا۔ سن کر یوں لگتا ہے کہ جیسے قحط آنیوالا ہے یا ماہ رمضان سے پہلے یونہی ہے جیسی کہ کسی جنگ کی تیاری کرنا ۔

سب سے پہلا سوال تو یہی ہے کہ اگر مرد و زن دونوں پر ہی روزہ ایک ہی طرح فرض ہے اور روزے کی سختی بھی دونوں پر ایک ہی طرح ہے تو ایسا کیوں ہے کہ اضافی مشقت صرف عورتوں کے حصے میں ہو؟ اگر عورت خاتون خانہ ہے، ملازمت نہیں کرتی تو بجا، اس کے لیے گھر کے کام کار ہی ملازمت سماں ہیں اور اسے ان کا اجر بھی ملے گا۔ جو عورت اپنے گھر والوں، بچوں اور شوہر کے لیے کام کرتی ہے اور اس میں خوش بھی ہے تو اس کے لیے یقیناً اس کا اجر بھی ہے۔ ماہ رمضان میں جب کوئی عورت افطاری کے لیے کھانے کی تیاری کرتی ہے تو وہ روزے کی حالت میں ہوتی ہے، کھانا پکانے کی خوشبو سے بھوک میں ہر انسان کا جی چاہتا ہے کہ وہ کچھ چکھ سکے مگر ظاہر ہے کہ اس کی اجازت نہیں ۔ ایسے میں کھانا پکانے والی عورت اپنے نفس پر قابو پا کر گھر والوں کے لیے رنگ برنگے اور لذیذ پکوان تیار کرتی ہے ۔

اس کا اجر کئی گنا بڑھ جاتا ہے کیونکہ وہ تھک جائے یا ہمت ہار جائے تو بھی اسے اپنے گھر والو ں کی بھوک اور تکان کو سمیٹنا ہوتا ہے ۔ کاروبار یا ملازمت کرنیوالا مرد جب گھر لوٹتا ہے تو اس کے بعد اسے آرام اور راحت کی طلب ہوتی ہے، رمضان میں تو یہ نزاکت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ دفتر سے لوٹ کر ذہن سکون اور جسم بستر مانگتا ہے، نمازیں بھی بمشکل پڑھتے ہیں اور نڈھال ہو کر لیٹ جاتے ہیں، لیکن ملازمت کرنیوالی خاتون کے لیے یہ سب مختلف ہوتا ہے، اسے ایک اور دریا کے سامنا ہوتا ہے اک دریا کے پار اتر کر۔ اس کے لیے گھر کے افراد کی خدمت، بچوں کے اسکول کے کام ، یونیفارم دھونا ، ان کے ہوم ورک دیکھنا، اپنے دفترکے کام اور افطار اور سحر کی تیاری موجود ہوتی ہے۔

وہ نہ آرام کر سکتی ہے نہ آرام کی خواہش۔ مرد و زن کی برابری کا سوال نہیں مگر کیا وہ انسان بھی نہیں؟آپ کے ہاں تو سارا سال دن میں تین یا چار اوقات کے کھانے بنتے ہیں، ناشتہ، دوپہر کا کھانا، شام کی چائے اور رات کا کھانا۔ آپ کو جب کسی چیز کی کمی نہیں تو کیا وجہ ہے کہ رمضان میں آپ یوں کھانوں کھاجوں کی توقع کرتے ہیں جیسے کہ باقی سارا سال آپ کو کچھ کھانے کو نہیں ملتا۔ آج کے زمانے میں جب سائنس اور ماہرین خوراک بھی اس بات کی تعلیم کرتے ہیں کہ دن کے ایک طویل حصے میں اگر ہم اپنے معدے کو آرام کرنے کا وقت دیں، اس لیے کہ معدہ اس سارے کھائے پئے کو ہضم کر سکے جو کہ ہم دن کے وقت بنا بھوک یا بھوک سے کھاتے ہیں۔

ہمارے ہاں ہر میل ملاقات کا اصل مقصد کھانا ہی ہوتا ہے خواہ وہ خوشی کا ہو یا غمی کا۔ ہم شادیوں، عیدوں، شب براتوں ، سالگرہوں اور مختلف تقاریب پر بھی کھاتے ہیں اور کسی کی مرگ ہو یا کوئی تکلیف بیماری… تب بھی ہمیں کھانا ہوتا ہے۔ جب ہم ہر وقت اور ہر جگہ کھاتے ہیں تو کیا اس ایک مہینے میں ہم اپنے تزکیہء نفس کے لیے قربانی نہیں دے سکتے؟ اپنے حصے کا رزق یا کھانا کسی اور کو دے کر ان کے گھر کا چولہا ایک ماہ جلتا رہے ۔ کسی غریب گھرانے کو ایک ماہ کے لیے کھانا برابر اور وافر ملتا رہے۔

روزے کی اصل روح کو ہم سحری اور افطاری کے وقت کھانوں کی تہیں لگا کر ہی ماردیتے ہیں۔ ہم یہی کچھ اپنے بچوں کو بھی سکھا رہے ہیں کہ رمضان میں اگر آپ نے دن کو اپنے نفس پر قابو پایا ہے تو شام کو اس کو بے نتھے بیل کی طرح چھوڑ دیا جائے۔ بچوں کو اسی عمر سے سکھائیں اور نہ صرف رمضان بلکہ عید پر بھی انھیں قربانی کا درس دیں۔ اپنے حصے کی عیدی، اپنے حصے کا کھانا اور اپنے حصے کے کپڑوں میں سے آپ کسی غریب کی خوشی کی خاطر کچھ کریں تو اس پر دل خوش ہونا چاہیے ۔ روز مرہ کے معاملات میں اگر ہم سادگی اختیار کریں تو ہر روز کسی ایک غریب کو کھانا دیا جا سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کر رکھ لیں کی تیاری اپنے حصے ہوتا ہے سے پہلے تیار کر کے لیے

پڑھیں:

آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے: عدنان صدیقی

پاکستانی شوبز انڈسٹری کے معروف اداکار عدنان صدیقی کا کہنا ہے کہ ہمارے وقت میں والدین بچوں کو مارا کرتے تھے لیکن آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے۔

حال ہی میں اداکار نے ایک پوڈکاسٹ میں بطور مہمان شرکت کی، جہاں انہوں نے اپنے بچپن کی یادیں تازہ کیں اور بچوں کی تربیت کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا۔

انٹرویو کے دوران ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے اپنی چند عادتوں کا ذکر کیا جو بچوں کی تربیت کرتے ہوئے انہوں نے اپنے والد سے اپنائیں۔

انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ بچے وقت پر سو جایا کریں، باہر کا کھانا نہ کھائیں یا کم کھائیں۔ ایک وقت تھا میرے والد بھی مجھے ان چیزوں سے روکا کرتے تھے اور اب میں اپنے بچوں کو منع کرتا ہوں تاکہ ان میں نظم و ضبط قائم رہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہمارے والد صرف منع نہیں کرتے تھے بلکہ مارتے بھی تھے، ہمارے وقتوں میں والدین بچوں کو مارا کرتے تھے لیکن آج ایسا نہیں ہے، آج آپ اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے اور مارنا چاہیے بھی نہیں کیونکہ آج کے بچے برداشت نہیں کرسکتے۔

عدنان صدیقی کا کہنا ہے کہ بچوں کو سکھانے کے لیے ایک یا دو تھپڑ تو ٹھیک ہیں لیکن مارنا نہیں چاہیے۔ بچوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اگر وہ کسی چیز کو لے کر والدین سے جھوٹ کہہ رہے ہیں تو وہ غلط کام کر رہے ہیں، والدین سے چیزوں کو نہ چھپائیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے وقتوں میں بچوں اور والدین کے درمیان فاصلہ ہوا کرتا تھا بات نہیں ہوتی تھی لیکن آج کے بچے والدین سے کھل کر بات کرتے ہیں اور ہم بھی یہ وقت کے ساتھ ساتھ سیکھ گئے ہیں کہ مارنے کے بجائے بات کرنا زیادہ ضروری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کبھی کبھار…
  • شاہ رخ خان نے اپنی 60 ویں سالگرہ پر مداحوں سے معافی کیوں مانگی؟
  • ’تم صحیح گھر پر آئی ہو‘ سوناکشی سنہا کا ساس کے ساتھ خوشگوار رشتے کا انکشاف
  • ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (منگل) کا دن کیسا رہے گا ؟
  • چمپینزی بھی انسانوں کی طرح سوچتے ہیں، دلچسپ انکشاف
  • فلسطینیوں کو اپنے معاملات خود طے کرنے چاہئیں، حکان فیدان
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • شاہ رخ خان نے شوبز کیریئر کے آغاز میں فلموں میں کام کرنے سے انکار کیوں کیا؟
  • وزیر اعظم کی اسلام آباد بار، پنجاب بار کونسل کے انتخابات میں انڈیپینڈنٹ گروپ کی برتری پر مبارک باد
  • آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے: عدنان صدیقی