سینئر بھارتی اداکار گووندا کی اہلیہ سنیتا آہوجا نے طلاق کی خبروں پر لب کشائی کردی۔ 

بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق گزشتہ کئی دنوں سے گووندا اور سنیتا کی طلاق کی خبروں نے بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر تہلکہ مچا رکھا تھا اور سب ہی کو سنیتا آہوجا کے بیان کا انتظار تھا۔

گووندا نے ان خبروں کو میڈیا والوں کے بزنس کرنے کا طریقہ قرار دیتے ہوئے انہیں درگزر کردیا تھا جس کے بعد اب ان کی اہلیہ نے بیان جاری کردیا ہے۔ سنیتا آہوجا نے علیحدگی کی ان خبروں کو بےبنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم دونوں کو کوئی الگ نہیں کرسکتا‘۔

        View this post on Instagram                      

A post shared by BollywoodShaadis.

com (@bollywoodshaadis)

سنیتا آہوجا نے الگ رہنے کے بیان پر وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ’علیحدہ رہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ (گووندا) سیاست میں آئے، ہماری بیٹی بڑی ہو رہی تھی، اور پارٹی کے بہت سے کارکن ہمارے گھر آتے تھے اس لئے ہم نے اپنے گھر کے بالکل سامنے ایک دفتر کی جگہ لی تاکہ ہم اپنی شارٹس میں گھر میں آزادانہ گھوم پھر سکیں‘۔

انہوں نے مزید کہا ’اگر اس دنیا میں کوئی یہ سوچتا ہے کہ وہ مجھے اور گووندا کو الگ کر سکتا ہے، تو وہ آگے آئے اور کوشش کرے۔‘

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سنیتا ا ہوجا نے

پڑھیں:

اخباری ہاکر کا اعزاز

علی اکبر پچاس سال پہلے راولپنڈی سے فرانس پہنچے۔ انھوں نے اخبار فروخت کرنے کا پیشہ اختیارکیا اور فرانسیسی زبان پر عبور حاصل کیا۔ علی اکبر پیرس کے مضافاتی قصبے میں فرانسیسی زبان کا اخبار Lemondeفروخت کرتے ہیں۔ فرانس کی حکومت نے ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے ملک کا اعلیٰ ترین اعزاز دینے کا فیصلہ کیا۔

علی اکبر روزانہ 20 اخبار فروخت کرتے ہیں۔ علی اکبر کا کہنا ہے کہ ان کا اخبار فروخت کرنے کا خاص طریقہ ہے، بقول علی اکبر وہ خبروں سے لطیفہ بناتے ہیں۔ وہ لوگوں کے دل جیت لیتے ہیں اور جیب خالی نہیں کراتے۔ علی اکبر کے خاص گاہک ہیں جو علی اکبر کے اخبار خریدتے ہیں۔ وہاں لوگ انھیں دیکھ کر مسکراتے ہیں۔ ایک خاتون نے ایک انٹرویو میں کہا کہ علی اکبر ایک ہاکر ہی نہیں بلکہ ایک ادارہ ہیں۔

ہم ان سے اخبار ہی نہیں خریدتے بلکہ ان کے ساتھ بیٹھ کرکافی اور کیک وغیرہ بھی کھاتے ہیں۔ علی اکبر کہتے ہیں کہ انھیں اخبار کی خوشبو پسند ہے۔ Lemonde دوپہر کو شایع ہونے والا اخبار ہے۔ اس کی اوسطاً اشاعت 480,000 ہے۔ علی اکبرکہتے ہیں کہ سب کچھ ڈیجیٹل ہے مگر جو مزہ اخبار پڑھنے میں ہے وہ ڈیجیٹل پر اخبار دیکھنے میں نہیں ہے۔ علی اکبر کہتے ہیں کہ 70ء کی دہائی میں ٹیلی وژن عام ہونے سے اخبارات کی سرکولیشن متاثر ہوئی تھی، مگر پھر اخبارات کی سرکولیشن بہت بڑھ گئی تھی اور اب ڈیجیٹل ایج میں اخبارات کو سخت چیلنج کا سامنا ہے۔

پاکستان میں اخبارات کی اشاعت کم ہوگئی ہے، جو اخبارات روزانہ لاکھوں کی تعداد میں شایع ہوتے تھے، ان کی اشاعت ہزاروں میں آگئی ہے۔ اخبارات کی اشاعت متاثر ہونے سے اخبار تقسیم کرنے والے ہاکر حضرات بھی کم ہوگئے ہیں۔ کبھی کراچی شہرکی ہر شاہراہ پر اخبار کی فروخت کا اسٹال موجود تھا۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ان کی اشاعت کم ہونا شروع ہوئی تو یہ اسٹال بھی بند ہونا شروع ہوگئے اور یہ معاملہ صرف کراچی تک محدود نہیں رہا بلکہ پورے ملک میں ہاکر حضرات کا ادارہ سکڑ کر رہ گیا، اگرچہ ڈیجیٹل ایج کی بناء پر پوری دنیا میں اخبارات کی اشاعت متاثر ہوئی ہے مگر بھار ت کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں اخبارات کی اشاعت متاثر نہیں ہوئی۔ وکی پیڈیا پر ملنے والی معلومات کے مطابق ا س وقت بھارت میں مختلف زبانوں میں 10000 اخبارات شایع ہوتے ہیں اور روزانہ 42 کروڑ 50 لاکھ سے زائد افراد اخبار پڑھتے ہیں ۔

بھارت کے سب سے بڑے اخبار دینک بھاسکر کی اشاعت 43,20,000 ہے۔ دوسرے اخبار دینک جاگرن کی اشاعت 34,10,000 ہے۔ اس طرح ممبئی سے شایع ہونے والے انگریزی کے اخبار Times of Indiaکی اشاعت 18,70,000 ہے۔ اطلاعات کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2024 تک امریکا میں ایک ہزار 33 اخبارات روزانہ شایع ہوتے تھے اور امریکا میں اخبارات کی سرکولیشن 24.3 ملین کے قریب ہے۔

 اس وقت نیو یارک سے شایع ہونے والا اخبار وال اسٹریٹ جنرل امریکا میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا اخبار ہے۔ اس کی اشاعت555,200, ہے۔ دوسرے نمبر پر نیویارک ٹائمز ہے جس کی اشاعت 260,600 ہے۔ حکومت ان اخبارات کی اب بھی سرپرستی کرتی ہے۔ برطانیہ میں اخبارات کی کل اشاعت 62,60,000سے زیادہ ہے۔ لندن کے شام کو شایع ہونے والے اخبار Metroکی اشاعت 52,00,000 کے قریب ہے۔ اس طرح Daily Mail کی اشاعت 6 لاکھ سے زیادہ ہے اور Daily Mirror کی اشاعت 2 لاکھ کے قریب ہے۔ برطانیہ میں صبح کے اخبارات کی اشاعت کم ہے مگر رائے عامہ کی تشکیل میں صبح کے اخبار اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس وقت جاپان میں تمام اخبارات کی اشاعت 26 ملین سے زیادہ ہے۔

 پاکستان میں اخبارات کی اشاعت میں کمی کی مختلف وجوہات ہیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فلم اور ٹیلی وژن آنے کے بعد اخبارات کی اشاعت پرکوئی بہت بڑا فرق نہیں پڑا تھا۔ پھر اس صدی کے آغاز میں اسمارٹ فون عام ہوا۔ اس کے بعد عام آدمی کی ترجیحات بدل گئیں اور اب اخبار اورکتاب کی جگہ اسمارٹ فون نے لے لی۔ پھرگزشتہ 10 برسوں کے دوران سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز رائج ہوئے۔

اب ہر شخص کو ہر طرف سے خبرکے نام پرکوئی مواد مل جاتا ہے مگر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے 90 فیصد مواد کے مصدقہ ہونے کا سوال بہت زیادہ اہم ہے۔ ابلاغِ عامہ اور شماریات کے اساتذہ کا کہنا ہے کہ قوتِ خرید میں کمی، معاشی مشکلات بڑھنا وغیرہ اس کی بنیادی وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ اخبارکی اشاعت پر آنے والے لاگت کے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ ابلاغِ عامہ کے اساتذہ کے مطابق معاشرے میں علمی ماحول کم ہونے اور ایک مصنوعی زندگی کے معیارکی روایت قائم ہونے سے لوگ اخبار اور کتاب سے دور ہوگئے۔

 اس حقیقت پر کوئی بحث نہیں ہوسکتی کہ ترقی کا راستہ جمہوری نظام کا استحکام ہے۔ جمہوری معاشرے میں میڈیا ایک بنیادی ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔ اخبار میڈیا کا ایک ایسا ادارہ ہے جس کا تمام مواد معروضیت کے اصول پر مرتب کیا جاتا ہے اور معروضیت کی بناء پر احتساب کا فریضہ انجام دیا جاسکتا ہے۔

 اخبار میں آج بھی ایڈیٹرکا ادارہ موجود ہے۔ ایڈیٹرکا ادارہ اخبارکی درست سمت کے تعین میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اخبار کے مواد سے جو رائے عامہ ہموار ہوتی ہے، وہ حقائق سے بھرپور ہوتی ہے اور اس مواد سے جمہوری نظام مستحکم ہوتا ہے۔ نوجوان نسل کے بعض رہنما اخبار کے مقابلے میں سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ عام آدمی کے لیے سوشل میڈیا پر اپنا بیانیہ وائرل کرنا بہت آسان ہوگیا ہے۔

یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ سوشل میڈیا نے عام آدمی کو زبان دے دی ہے۔ مگر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے مواد کے حقیقت پر مبنی ہونے کی تصدیق کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رات کو سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم پر جو خبریں وائرل ہوتی ہیں وہ صبح غائب ہوجاتی ہیں۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ خبریں سچائی پر مبنی نہ ہونے کے باوجود رائے عامہ پر اثرانداز ہوتی ہیں۔

پاکستان میں سوشل میڈیا کے ذریعے معاشرے کو رجعت پسندی کی طرف دھکیلنے کے لیے ایک منصوبہ کے تحت کام ہوا ہے، مگر جب تک سوشل میڈیا پر ایڈیٹر کا ادارہ مضبوط نہیں ہوگا سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے مواد کی معروضیت پر سوالات اٹھتے رہیں گے۔ اس پوری صورت حال میں پرنٹ میڈیا کے مواد کا مصدقہ ہونا سو فیصد ہے۔ وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے استاد ڈاکٹر عرفان عزیز نے اپنی تحریر میں بیان کیا ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال اور افادیت کے باوجود، پرنٹ میڈیا، خصوصا اخبارات، آج بھی قابلِ اعتبار صحافت کا ایک ناگزیر ذریعہ ہیں۔

اخبارات نہ صرف خبروں کو ایک محفوظ شکل میں پیش کرتے ہیں بلکہ انھیں ایک ایسے سیاق و سباق اور گہرائی کے ساتھ محفوظ کرتے ہیں ۔ ان کا سخت اور مرحلہ وار ادارتی نظام اور برسوں پر محیط ساکھ انھیں ایسی درستگی اور جوابدہی فراہم کرتی ہے جس تک کئی ڈیجیٹل ذرایع نہیں پہنچ پاتے۔ محققین، پالیسی سازوں اور عام قارئین کے لیے اخبار روزمرہ معلومات کا معتبر ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ کے تسلسل کو محفوظ رکھنے والا ایک اہم دستاویزی ریکارڈ بھی ہے۔ معلومات کے اژدہام میں چھپی ہوئی تحریر آج بھی یکسوئی اور سنجیدہ مطالعے کا وہ موقع فراہم کرتی ہے جو باشعور شہریوں اور جمہوری شہری معاشرے کے لیے ضروری ہے۔

ایک نوجوان صحافی کاشف حسن کا کہنا ہے کہ آج کے دور میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا معروضی اور حقائق پر مبنی صحافت کررہے ہیں جب کہ سوشل میڈیا صحافت سے زیادہ پراپیگنڈہ ٹول کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ اخبار کی صنعت کے بنیادی مسائل کے حل کی طرف توجہ دے ۔ فرانس کی حکومت نے ایک پاکستانی نژاد ہاکر کی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے سب سے بڑا سول اعزاز دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت پاکستان کو بھی ایسے ہی اقدامات کرنے چاہئیں۔

متعلقہ مضامین

  • پہلے شوہر سے طلاق 36 سال بعد کیوں لی؟ بشریٰ انصاری کا پہلی بار بے باک انکشاف
  • کلگام آپریشن میں بھارتی افواج کی ناکامی ؛ 12 دن سے بھوکے پیاسے فوجی مٹی کھانے پر مجبور
  • محسن نقوی کے وزیراعظم بننے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں، اسحاق ڈار
  • پاکستان آئیڈل 2025 کی میزبانی کون کرے گا؟
  • گہری خاموشی کا شور
  • اخباری ہاکر کا اعزاز
  • غزہ میں اسرائیلی جارحیت پر مودی کی بھی خاموشی سنگین جرم اور بے حسی ہے؛ پریانکا گاندھی
  • غزہ پر اسرائیلی مظالم پر مودی حکومت کی خاموشی شرمناک اور مجرمانہ ہے، پریانکا گاندھی 
  • غزہ میں اسرائیلی نسل کشی پر مودی حکومت کی خاموشی شرمناک ہے، پرینکا گاندھی
  • چُپ کی عمر: دیہی خواتین اور سن یاس کے گرد پھیلی خاموشی