زیلنسکی کا استعفے کا مطالبہ کرنے والے امریکی سینیٹر کو منہ توڑ جواب
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
صحافی کے سوال پر زیلنسکی نے جواب دیا کہ میں اسے یوکرین کی شہریت دے سکتا ہوں، وہ ہمارے ملک کا شہری بن جائے پھر اس حوالے سے بات کرے کہ کسے یوکرین کا صدر ہونا چاہیے اور کسے نہیں، اس وقت اس کی بات میں دم ہو گا۔ اسلام ٹائمز۔ یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی نے استعفے کا مطالبہ کرنے والے امریکی سینیٹر کو منہ توڑ جواب دے دیا۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اوول آفس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرینی صدر زیلنسکی کے درمیان گرما گرم جملوں کا تبادلہ ہوا، جس کے بعد امریکی سینیٹر سین لنڈسے گراہم نے یوکرینی صدر سے استعفے کا مطالبہ کر دیا۔ امریکی صدر کے ساتھ ہونے والی بحث کے بعد یوکرینی صدر نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے امریکی سینیٹر سین لنڈسے گراہم کو کرارا جواب دیتے ہوئے یوکرینی شہریت دینے کی پیشکش کر دی۔
صدر زیلنسکی سے جب امریکی سینیٹر کی جانب سے استعفے کے مطالبہ سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں سین لنڈسے گراہم کو یوکرین کی شہریت دینے کی پیشکش کرتا ہوں، اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کے مطالبے میں کچھ وزن ہو تو وہ یوکرینی شہریت حاصل کر سکتے ہیں۔ یوکرینی صدر کا جواب سن کر صحافی نے ان سے ایک بار پھر پوچھا کہ اس کے باوجود کہ وہ آپ سے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں، آپ انہیں یوکرینی شہریت کی پیشکش کر رہے ہیں۔
صحافی کے سوال پر زیلنسکی نے جواب دیا کہ میں اسے یوکرین کی شہریت دے سکتا ہوں، وہ ہمارے ملک کا شہری بن جائے پھر اس حوالے سے بات کرے کہ کسے یوکرین کا صدر ہونا چاہیے اور کسے نہیں، اس وقت اس کی بات میں دم ہو گا اور میں اس کی بات پر غور بھی کروں گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یوکرین کا صدر کون ہو گا اس کا فیصلہ ایک یوکرینی ہی کر سکتا ہے اس کا فیصلہ امریکی دفتر میں نہیں ہو گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: استعفے کا مطالبہ کر امریکی سینیٹر یوکرینی صدر
پڑھیں:
’اداکار نہیں بن سکتے‘ کہنے والوں کو قہقہوں سے جواب دینے والے ورسٹائل ایکٹر محمود
بھارتی فلم انڈسٹری کے لیجنڈ اداکار اور مزاح کے بادشاہ محمود نے وہ مقام حاصل کیا جو صرف مسلسل جدوجہد، بے پناہ صبر اور خالص جذبے سے ممکن ہوتا ہے۔ جنہیں کبھی کہا گیا کہ یہ اداکار بننے کے قابل نہیں، وہی محمود ایک دن سینما اسکرین پر قہقہوں کا راج لے کر آئے اور تقریباً 300 فلموں میں اپنی موجودگی سے لوگوں کو ہنسانے والا ’کنگ آف کامیڈی‘ بن گیا۔
29 ستمبر 1932 کو ممبئی میں پیدا ہونے والے محمود علی کے والد ممتاز علی بمبئی ٹاکیز سے وابستہ تھے مگر گھر کے حالات نہایت خراب تھے۔ کم عمری میں ہی محمود کو لوکل ٹرینوں میں ٹافیاں بیچنی پڑیں۔ مگر دل میں اداکار بننے کا خواب پوری شدت سے زندہ تھا۔
ابتدائی موقع فلم ’قسمت‘ (1943) میں اشوک کمار کے بچپن کا کردار ادا کرنے کی صورت میں ملا۔ مگر یہ صرف آغاز تھا، اصل جدوجہد ابھی باقی تھی۔
ڈرائیور سے اداکار تکمحمود نے مختلف فلمی شخصیات کے لیے بطور ڈرائیور کام کیا، صرف اس لیے کہ اسٹوڈیوز تک رسائی ہو جائے۔ ایک دن فلم ’نادان‘ کے سیٹ پر قسمت نے دروازہ کھٹکھٹایا جب ایک جونیئر آرٹسٹ ڈائیلاگ بولنے میں ناکام رہا تو ہدایت کار نے وہ مکالمہ محمود کو دیا۔
انہوں نے پہلی کوشش میں ایسا ادا کیا کہ سب دنگ رہ گئے۔ انعام میں 300 روپے ملے جو اس وقت ان کی مہینے بھر کی تنخواہ سے بھی 4 گنا زیادہ تھے۔ وہیں سے فلمی سفر نے نیا رخ لیا۔
ناکامی کا سامنا اور پھر کامیابیوں کے انبارمحمود نے چھوٹے موٹے کرداروں سے شروعات کی ’دو بیگھہ زمین‘، ’سی آئی ڈی‘، ’پیاسا‘ جیسی فلموں میں نظر آئے، مگر کوئی خاص پہچان نہ بنا سکے۔ اس دوران انہیں فلم ’مس میری‘ کے لیے اسکرین ٹیسٹ سے مسترد کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ کمال امروہی جیسے فلمساز نے کہا کہ ’تم میں اداکاری کی صلاحیت نہیں ہے، اداکار کا بیٹا ہونا کافی نہیں‘۔
مگر محمود نے ہار نہیں مانی۔ ایک فلم میں اپنی سالی مینا کماری کی سفارش پر کام مل رہا تھا مگر انہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ ’میں اپنی پہچان سفارش سے نہیں، محنت سے بناؤں گا‘۔
سنہ1958 میں فلم ’پرورش‘ میں انہیں راج کپور کے بھائی کا کردار ملا، جس کے بعد ’چھوٹی بہن‘ نے ان کے لیے فلمی دروازے کھول دیے۔ ٹائمز آف انڈیا نے ان کی اداکاری کو سراہا۔ ان کو معاوضہ 6000 روپے ملا تھا جو ان وقتوں میں کسی خواب سے کم نہ تھا۔
سال1961 کی فلم ’سسرال‘ میں شوبھا کھوٹے کے ساتھ ان کی جوڑی مقبول ہوئی اور اسی سال انہوں نے بطور ہدایت کار اپنی پہلی فلم ’چھوٹے نواب‘ بنائی، جس سے آر ڈی برمن (پنچم دا) نے بطور موسیقار ڈیبیو کیا۔
اداکاری میں جدت، کرداروں میں رنگینیمحمود نے خود کو ایک جیسے کرداروں میں محدود نہیں رکھا۔ فلم ’پڑوسن‘ (1968) میں جنوبی ہند کے موسیقار کا کردار ان کی ورسٹائل اداکاری کا شاہکار تھا۔
سنہ 1970 کی فلم ’ہمجولی‘ میں انہوں نے ٹرپل رول ادا کر کے اپنی وسعت فن کا لوہا منوایا۔
محمود، صرف اداکار نہیں بلکہ ایک ادارہانہوں نے اداکاری کے ساتھ ساتھ کئی فلموں کی ہدایت کاری، پروڈکشن اور گلوکاری بھی کی۔ فلمی کیریئر میں تقریباً 300 فلمیں کیں اور 3 فلم فیئر ایوارڈز جیتے۔ محمود نہ صرف ہنسانے والا اداکار تھا بلکہ ایک پورا عہد تھا۔
23 جولائی 2004 کو محمود دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ان کی مسکراہٹ، منفرد انداز اور ناقابلِ فراموش مزاح آج بھی ہر نسل کے دلوں میں زندہ ہے۔
وہ ہر اس شخص کے لیے مثال بن گئے جو بار بار یہ سنتا ہے کہ ’تم یہ نہیں کر سکتے‘ اور پھر اپنے وہ اپنی صلاحیتیوں کا کمال دکھا کر دنیا کو غلط ثابت کر دیتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اداکار محمود بھارتی اداکار محمود لکی علی