WE News:
2025-06-09@09:55:18 GMT

افطار و سحر میں بہترین خوراک، مصنوعی ذہانت کیا بتاتی ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT

افطار و سحر میں بہترین خوراک، مصنوعی ذہانت کیا بتاتی ہے؟

چیٹ بوٹس جہاں زندگی کے مختلف معاملات میں انسان کو مشورے دیتا ہے وہیں اسے رمضان المبارک میں کھانوں کے انتخاب کے حوالے سے بھی خوب پتا ہے۔

اس حوالے سے جب چیٹ جی پی ٹی سے رہنمائی لینے کی کوشش کی گئی ہے تو اس نے خاصے مفید مشورے دیے۔

یہ بھی پڑھیں: چنے افطاری کا اہم حصہ، جانیے ان کے ان گنت فوائد

چیٹ جی پی ٹی کا جواب یہ تھا کہ رمضان کے مہینے میں ان کھانوں پر توجہ مرکوز کرنا ضروری ہے جو توانائی، ہائیڈریشن اور غذائیت فراہم کرتے ہیں اور ساتھ ہی اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ وہ روزے کے اوقات میں جسم کو سہارا دینے کے لیے متوازن اور صحت مند ہوں۔

سحری

جسم کو دن بھر متحرک رکھنے کے لیے سحری میں متوازن غذا ہونی چاہیے۔ یہ ضروری ہے کہ ایسی غذاؤں کو شامل کیا جائےجو توانائی فراہم کرتی ہیں، آہستہ آہستہ ہضم ہوتی ہیں اور پیاس کی تکلیف سے بچنے کے لیے ہائیڈریشن کو برقرار رکھتی ہیں۔

پیچیدہ کاربوہائیڈریٹس: غذائیں جیسے کہ سارا اناج (جیسے جئی، بھورے چاول اور پوری گندم کی روٹی) پائیدار توانائی فراہم کرتے ہیں۔ یہ کھانے آہستہ آہستہ ہضم ہوتے ہیں جو دوپہر کی توانائی کی کمی سے بچنے میں مدد کرتے ہیں۔

پروٹین: دبلی پتلی پروٹین کی فہرست میں انڈے، یونانی دہی، کاٹیج پنیر، یا پھلیاں (دال اور چنے) شامل ہیں۔ پروٹین جسم کو زیادہ دیر تک بھرے رکھنے میں مدد کرتا ہے۔

مزید پڑھیے: گولا بجا کر سحری اور افطار کا اعلان، ڈی آئی خان کی دلچسپ ویڈیو وائرل

صحت مند چکنائی: ایوکاڈو، گری دار میوے، یا زیتون صحت مند چکنائی کے ذرائع کا تیل شامل کر سکتے ہیں۔ یہ چربی آپ کو مکمل محسوس کرنے اور مستقل توانائی فراہم کرنے میں مدد کرتی ہیں۔

فائبر: سبزیاں، پھل اور اناج فائبر کے اچھے ذرائع ہیں جو ہاضمے میں مدد کرتے ہیں اور قبض کو روکتے ہیں۔

ہائیڈریشن: آپ کو وقفے وقفے سے زیادہ مقدار میں پانی پینا چاہیے۔ ایسے مشروبات سے پرہیز کریں جن میں کیفین ہو کیونکہ وہ پانی کی کمی کا باعث بن سکتے ہیں۔ ناریل کا پانی یا جڑی بوٹیوں والی چائے اچھے متبادل ہیں۔

دلیا گری دار میوے، بیج اور بیر کے ساتھ سب سے اوپر۔

ایواکاڈو اور ابلے ہوئے انڈے کے ساتھ پوری گندم کی روٹی۔

لیموں یا پودینہ کے ٹکڑے کے ساتھ ایک کپ پانی۔

افطاری

ایک طویل دن کے روزے کے بعد یہ ضروری ہے کہ ایسا ناشتہ کھائیں جو توانائی بھرے اور جسم کو ری ہائیڈریٹ کرنے میں مدد کرے۔

کھجوریں: کھجوریں روایتی طور پر روزہ افطار کرنے کے لیے کھائی جاتی ہیں اور یہ فوری توانائی کا بہترین ذریعہ ہیں۔ وہ قدرتی شکر، فائبر اور ضروری معدنیات جیسے پوٹاشیم اور میگنیشیم فراہم کرتی ہیں۔

ہائیڈریشن: آپ پانی یا ناریل کا پانی پی سکتے ہیں تاکہ ری ہائیڈریشن ہو۔ لیکن میٹھے مشروبات یا سافٹ ڈرنکس سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ یہ کم بلڈ شوگر کا باعث بن سکتے ہیں۔

سبزیاں: ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ آدھی پلیٹ سبزیوں سے بھریں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ آپ کو کافی وٹامن اور معدنیات ملیں۔ آپ کچے اور پکے دونوں آپشنز کو شامل کرنے کی بھی کوشش کر سکتے ہیں۔

پروٹین: دبلے پتلے گوشت (چکن، مچھلی) یا پودوں کے پروٹین (ٹوفو، پھلیاں) شامل کریں۔ پروٹین پٹھوں کے ٹشو کو دوبارہ بنانے اور توانائی کی سطح کو برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے۔

کاربوہائیڈریٹس: ان میں پیچیدہ کاربوہائیڈریٹس جیسے سارا اناج (براؤن رائس، کوئنو، اور پوری گندم کا پاستا) اور نشاستہ دار سبزیاں (شکریا آلو) شامل ہیں۔

صحت مند چکنائی: ان میں تھوڑی مقدار میں گری دار میوے، بیج، یا زیتون کا تیل شامل ہوتا ہے تاکہ خلیے کے کام کو سپورٹ کیا جا سکے۔

تلی ہوئی کھانوں سے پرہیز کریں: ماہرین تلی ہوئی کھانوں سے پرہیز کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں، جو بدہضمی اور وزن میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔

افطار کے لیے کھجور اور ایک گلاس پانی۔

گرل شدہ چکن یا دال کا سوپ۔

زیتون کے تیل کی ڈریسنگ کے ساتھ مخلوط سلاد کی سائیڈ ڈش۔

بھورے چاول یا کوئنو گرل سبزیاں

افطاری اور سحری کے درمیان

ماہرین افطاری کے کئی گھنٹے بعد ہلکا کھانا کھانے کا مشورہ دیتے ہیں، لیکن اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ اسنیکس کو شکر یا چکنائی کی زیادتی کے بغیر صحت بخش ہونا چاہیے۔

گری دار میوے اور بیج: یہ پروٹین، صحت مند چکنائی اور فائبر کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔

مزید پڑھیں: مصر: رمضان میں گھروں اور شاہراہوں پر فانوس کیوں چھا جاتے ہیں؟

تازہ پھل جیسے سیب، کیلے، بیر اور تربوز جسم کو ہائیڈریٹ کرنے اور وٹامنز اور معدنیات فراہم کرنے کے لیے فائدہ مند ہیں۔

آپ دہی کو شہد اور کچھ پھلوں کے ساتھ کھا سکتے ہیں یا اضافی پروٹین اور کیلشیم کے لیے چند گری دار میوے چھڑک سکتے ہیں۔

پھلوں، پتوں والی سبزیوں اور پروٹین (مثال کے طور پر، پروٹین پاؤڈر یا دہی) سے جوس تیار کیا جا سکتا ہے۔

مزید تجاویز

شوگر والی غذاؤں سے پرہیز کریں: ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ اپنی مٹھائیوں کا استعمال کم کریں جن میں شوگر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے کیونکہ یہ خون میں شوگر میں تیزی سے اضافے کا سبب بن سکتی ہیں۔

جسمانی سرگرمی کو برقرار رکھیں: ہلکی جسمانی سرگرمی، جیسے افطاری کے بعد چہل قدمی، ہاضمہ کو بہتر بنانے اور مجموعی صحت کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتی ہے۔

سحری، افطار اور اسنیکس کے لیے متوازن انداز اپنانا صحت اور توانائی کو برقرار رکھتے ہوئے رمضان کے دوران آپ کو بہترین محسوس کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔

شوگر والی غذاؤں سے پرہیز کریں: ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ اپنی مٹھائیوں کا استعمال کم کریں جن میں شوگر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے کیونکہ یہ خون میں شوگر میں تیزی سے اضافے کا سبب بن سکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: اس ماہ رمضان طویل ترین روزہ کس ملک میں رکھا جا رہا ہے؟

جسمانی سرگرمی کو برقرار رکھیں: ہلکی جسمانی سرگرمی، جیسے افطاری کے بعد چہل قدمی، ہاضمہ کو بہتر بنانے اور مجموعی صحت کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتی ہے۔

سحری، افطار اور اسنیکس کے لیے متوازن انداز اپنانے سے صحت اور توانائی کو برقرار رکھا جاسکتا ہے اور اس طرح انسان کو بہتر محسوس کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اطار و سحر کی خوراک چیٹ جی پی ٹی رمضان المبارک صحت بخش غذائیں مفید غذائیں.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اطار و سحر کی خوراک چیٹ جی پی ٹی رمضان المبارک مفید غذائیں صحت مند چکنائی سے پرہیز کریں کو بہتر بنانے کو برقرار میں شوگر کرتے ہیں سکتے ہیں ہیں اور کے ساتھ جسم کو ہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

تم ہمارے جیسے کیسے ہو سکتے ہو؟

اونچ نیچ
آفتاب احمد خانزادہ
۔۔

ٹالسٹائی کا خیال تھا کہ گذشتہ دو صدیوں کے اندر اخلاقی ترقی ہوئی ہے لیکن حکومتیں بری طرح سے غیر اخلاقی ثابت ہوئی ہیں چنانچہ اس کے نزدیک دنیا کے مظلوم عوام کے مسائل کا واحد حل یہ ہی ہے کہ ان کے اندر وہ اخلاقی جرأ ت پیدا ہوجائے جس سے وہ ظالموں کے استحصال کا عدم تشدد کے ذریعے مقابلہ کرسکیں ۔ وہ کہتا ہے ” یہ دنیا نہ ہنسی مذاق کی جگہ ہے اور نہ دارو رسن کی وادی ہے اور نہ ہی کسی ابدی دنیا کا پیش خیمہ ہے ہماری دنیا خود ایک ابدی حقیقت ہے یہ دنیا خوبصورت اور دلکش ہے ہمیں اسے زیادہ حسین و دلفریب بنانا چاہیے ان لوگوں کے لیے جو ہمارے ساتھ زندہ ہیں اور ان لوگوں کے لیے جو ہمارے بعد زندہ رہیں گے”۔ ستمبر 1860 میں ایک انگلستان کے عظیم ناول نگار چالس ڈکنس نے یکایک فیصلہ کیا کہ اسے اپنے ماضی سے تمام رشتے منقطع کر لینا چاہیے اور پھر اس نے اپنے بچوں کی موجودگی میں سارے خطوط اور دوسرے کاغذات نذر آتش کر دیئے ۔ ڈکنس کو ”زمانہ ” کی اہمیت کا غیر معمولی احساس تھا۔ زندگی کی جدوجہد میں انسانی فطرت کے جو نمونے ڈکنس نے پیش کیے ہیں وہ شیکسپیئر کے علاوہ کسی دوسرے انگریزادیب کے یہاں مفقود ہیں۔اس نے انسانی زندگی کے تمام اہم پہلوئوں پر غور وفکر کیا۔ اس کاناول Great Expectationایسے افراد کی داستا ن ہے جنہوں نے خود کو سماج اور روز مرہ زندگی سے قطع تعلق کرکے اپنی زندگی عذاب بنا رکھی ہے ۔ Miss Havishamاپنی نامرادیوں اور محرومیوں کا بدلہ سماج سے لینا چاہتی ہے لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خو دتنہا رہ جاتی ہے اور ایذا رسانی اس کی فطرت بن جاتی ہے ڈکنس کے زمانے میں قدیم روایتی قدریں تیزی سے ختم ہورہی تھیں اور لوگ نہ صرف قدیم بستیوں سے اجڑنے لگے تھے بلکہ صنعتی انقلاب اور مشینی تہذیب کے طفیل مرد، عورت اور بچے ”غیر انسان ” ہوتے جارہے تھے اس ماحول میں انسان محض ”چیز ” بنتا جارہا تھا ۔ اس ناول میں کردار وں کی اہم خصو صیت یہ ہے کہ وہ اس عجیب و غریب دنیا میں جینے پر مجبور ہیں ۔ وہ ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے بلکہ خود کلامی کے سہارے زندہ رہتے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سماجی حالات نے ان کی آواز چھین لی ہے پریشان حال اور پر ا گندہ خیال انسان اپنی چھوٹی سی دنیا الگ بسائے ہوئے ہیں مکانات اپنے اپنے طور بنتے اور گرتے رہتے ہیں کسی کو کسی سے کوئی سروکار نہیں۔
ڈکنس اپنے سماج کے گہرے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ ” انسان کے درمیان جنگ زرگری ہی ساری تباہی کی جڑ ہے زرپرستی اور زر کی ہوس نے اگر سماج کے بالا ئی طبقے کو دولت او ر فراغت بخشی ہے تو دوسری جانب غربا کے لیے گھٹن ، تنہائی اور پریشانی کا سامان فراہم کیا ہے مزے کی بات یہ ہے کہ دولت جمع کرنے کی جدوجہد میں اہل زر بھی محفوظ نہیں رہتے اور خود ان کی زندگی بھی عذاب ہوکر رہ جاتی ہے ۔ شیکسپیئر اپنے ڈرامے King Learمیں دکھاتاہے کہ جب تک بادشاہ لیئر پاگل نہیں ہوجاتا زندگی کی ماہیت کو نہیں سمجھتا اور گلوسٹر کو زندگی کی حقیقت اور اس وقت تک نظر نہیں آتی جب تک وہ اندھا نہیں ہوجاتا ۔ سارتر کہتا ہے زندگی چپکنے والی غلاظت ہے جو بہتے بہتے جم گئی ہے جبکہ کیرک گرد کہتا تھا ” میں کبھی بھی بچہ نہیں تھا میں کبھی بھی جوان نہیں ہوا میں کبھی بھی زندہ نہیں رہا میں کبھی بھی کسی انسان سے محبت نہیں کر سکا زندگی کس قدر کھوکھلی اور لغوہے کوئی کسی کو دفن کرتاہے کوئی میت کے ساتھ جاتا ہے کوئی قبر میں تین بیلچے مٹی کے پھینکتا ہے آخر ستر برس کی عمر کب تک ساتھ دے گی کیوں نہ اس زندگی کا فوری طورپر خاتمہ کردیاجائے کیوں نہ آدمی قبرستان میں ڈیرے ڈال دے کیوں نہ قبر میں گھس جائے ”۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان کے 95 فیصد انسانوں کے یہ ہی احساسات و جذبات ہیں کہو کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان کے 95فیصد انسانوں کی یہ ہی سو چ ہے کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ آج ہم Great Expectationکے کردار نہیں بن کے رہ گئے ہیں کیا یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ آج 95 فیصد پاکستانی سارتر کی بات سے متفق ہیں کہ زندگی چپکنے والی غلاظت ہے آج چند سو کو چھوڑ کر کوئی ایک پاکستانی دکھا دو جو دل سے ہنستا ہو جسے کوئی غم نہ ہو کوئی فکر یا پریشانی نہ ہو ۔ جو چین سے سو تا ہے جو پیٹ بھر کے روٹی کھا تا ہو ۔ خدا کے واسطے کسی ایک شخص کا پتہ بتادو جوروز اپنی قبر نہ کھو دتا ہو جس کے اندر ننگی چیخیں نہ چیختی ہوں جو روز نہ مرتا ہو اور روز نہ جیتا ہو ۔ اس وقت اپنے آپ کو پیٹنے کا دل چاہتا ہے ماتم کرنے کا جی کرتا ہے ۔ جب امیرو کبیر ، محلوں او ر اونچے اونچے تختوں پر بیٹھے موٹے موٹے پیٹ والے یہ بکوا س کرتے ہیں کہ ملک ترقی کررہا ہے ملک سے غربت کا خاتمہ ہورہا ہے خو شحالی آرہی ہے ، مہنگائی کم ہورہی ہے لوگوں کا سکون لوٹ رہا ہے ارے کوئی ان اندھوں ، بہروں اور کانوں کو ملک کی گندی اورغلاظت سے بھری بستیاں دکھا دے ۔ خون تھوکتے انسان دکھا دے اپنے آپ کو پیٹتی بہنوں ، اور بیٹیوں کو دکھا دے بھوکے سوتے بچوں کو دکھا دے۔ تڑپتی بلکتی سسکتی مائوں کو دکھا دے ۔ خدارا کوئی تو اٹھے جوان اندھوں، بہروں اور کانوں کو ملک کی بستیوں میں لے جائے ۔ جہاں انسان تڑپ اور بلک رہے ہیں ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے امیروں ، بااختیاروں ، سرمایہ داروں ، جاگیرداروں اور حکمرانوں تم ہم 95 فیصد انسانوں سے بالکل الگ ہوتم اور ہم کیسے ایک ہوسکتے ہیں جب کہ تم ہمارے غموں ، دکھوں اور تکلیفوں کو محسوس ہی نہیں کرسکتے تم تمہارے جیسے کیسے ہوسکتے ہو۔ تم ہمارے اپنے کیسے ہوسکتے ہو ۔ تمہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ غربت ، افلاس کس بلاکا نام ہیں فاقوں کی تکلیف کیسی ہوتی ہے۔ بیروزگاری کا غم جسم کو کیسے کاٹتا ہے ۔ اپنے جسم سے نکلنے والا خون دیکھ کر کیسے دل تڑپتا ہے ۔ چھوٹی چھوٹی خواہشوں اور امیدوں کے قتل عام پر کیسے دل روتا ہے ۔ نہیں بالکل نہیں تم اور ہم الگ الگ ہیں اس لیے یہ ڈھکو سلے بازی بند کرو یہ ڈرامہ بازی اب نہیں چلے گی یہ منافقت اب ناقابل برداشت ہوچکی ہے کیونکہ تمہارا پاکستان الگ ہے اور ہمارا پاکستان الگ ہے ۔ تمہارے خون کارنگ الگ ہے اورہمارے خون کا رنگ الگ ہے تمہارے جسم الگ ہیں اور ہمارے جسم الگ ہیں ہمارے سارے المیوں ، ساری ذلالتوں ، سارے غموں اور دکھوں کے تم ہی ذمہ دار ہو۔ ہم صرف تمہاری ہی وجہ سے چیزیں بن کے رہ گئے ہیں ۔جب سکندر اعظم 325قبل از مسیح میں شمالی مغربی ہندوستان میں گھو ما تو اس نے پنجاب میں اور اس کے آس پاس مقامی باشندوں کے ساتھ ساری لڑائیاں جیت لیں لیکن وہ اس قابل نہ ہوسکا کہ اپنے سپاہیوں میں اتنا جو ش و خروش پیدا کرسکے کہ و ہ طاقتور شاہی نند ا خاندان پر حملہ کرسکیں ۔ جو مشرقی ہندوستان کے شہر پٹالی پترا ، ( جو اب پٹنہ کہلا تا ہے ) اور جو ہندوستان کے بیشتر حصے پر حکومت کرتا تھا تاہم سکندر اعظم خاموشی سے یونان واپس جانے کے لیے تیا ر نہیں تھا ایک روز پر جو ش مباحثے میں دنیا کے فاتح نے جین فلسفیوں کے ایک گروہ سے پو چھا کہ وہ اس کی طرف توجہ دینے کو کیوں نظر انداز کر رہے ہیں اس سوال کا جواب اس نے یہ پایا ”بادشاہ سکندر ہر شخص صرف زمین کے اتنے ہی حصے کا مالک ہوسکتا ہے جتنے پر ہم کھڑے ہوئے ہیں آپ بھی ہم میں سے باقی سب کی طرح ایک انسان ہو سوائے اس کے آپ ہر وقت مصروف رہتے ہو اور کسی اچھائی کے لیے نہیں ۔ اپنے گھر سے اتنے میل ہامیل دور سفر کررہے ہو اپنے لیے اور دوسروں کے لیے ایک پریشانی کا باعث ہو، آپ جلد ہی مر جائو گے اور تب آپ صرف اس قدر زمین کے مالک ہوگے جو آپ کو اپنے اندر چھپا نے کے لیے کافی ہوگی ”۔ میر ے ملک کے امیروں ، بااختیاروں ، طاقتوروں ، حکمرانوںیہ ہی بات تمہارے سو چنے کی بھی ہے کہ تم اپنے لیے اور دوسروں کے لیے پر یشانی کا باعث ہو۔ آج نہیںتو کل تمہیں مر ہی جانا ہے اور اس وقت تم صرف اتنی ہی زمین کے مالک ہوگے جو تمہیں اپنے اندر چھپانے کے لیے کافی ہوگی ۔ باقی تمہاری ساری دولت ساری چیزوں کے مزے دوسرے لے رہے ہونگے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • طالب علم جس نے شمسی توانائی سے چلنے والی گاڑی تیار کرلی
  • مریم نواز خود متحرک! عید پر مختصر وقت میں بہترین صفائی کا ریکارڈ قائم
  • مختصر وقت میں صفائی کے بہترین ریکارڈ پر عوام خوش ہے، مریم نواز
  • وزیراعلیٰ مریم نواز خود متحرک، عید پر مختصر وقت میں بہترین صفائی کا ریکارڈ قائم
  • تم ہمارے جیسے کیسے ہو سکتے ہو؟
  • پاکستانی سائنسدانوں نے اے آئی جیو سائنس کے حوالے سے اہم اعزاز حاصل کرلیے
  • عاصم منیر فیلڈ مارشل بننے کے حقدار، ان کی بہترین حکمت عملی نے فتح دلوائی: نوازشریف
  • کراچی، عیدالاضحیٰ پر مصنوعی مہنگائی کی روایت برقرار، اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ
  • کراچی؛ عید پر مصنوعی مہنگائی کی روایت برقرار، متعدد اشیا کی قیمتوں میں اضافہ
  • عالمی برادری فلسطینیوں کیلئے خوراک، مالی و طبی امداد فراہم کرے، جنیوا اجلاس میں پاکستان کا مطالبہ