ملٹری کورٹس کیس؛ ٹرائل یہاں ہو یا وہاں ہو کیا فرق پڑتا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
اسلام آباد:
ملٹری کورٹس کیس میں انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کل تل ملتوی کر دی گئی، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ٹرائل یہاں ہو یا وہاں ہو کیا فرق پڑتا ہے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے ملٹری کورٹس کیس کی سماعت کی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ ملٹری کورٹ سے کتنے لوگ رہا ہوئے؟ سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ 105 کل ملزمان تھے جس میں سے 20 ملزمان رہا ہوئے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 20 پہلے ہوئے تھے پھر 19 رہا ہوئے اس وقت جیلوں میں 66 ملزمان ہیں۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ امریکا میں رواج ہے کہ دلائل کے اختتام پر دونوں پارٹیز کو پروپوز ججمنٹ کا حق دیا جاتا ہے، اگر یہ کہتے ہیں کہ کورٹ مارشل کرنا ہے اس کا بھی متبادل ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ جرم کسی نے بھی کیا ہو سزا تو ہونی چاہیے، ٹرائل یہاں ہو یا وہاں ہو کیا فرق پڑتا ہے۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ ٹرائل میں زمین آسمان کا فرق ہے، ایک ٹرائل آزاد ہے اور دوسرا ملٹری میں ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سارے فورم موجود ہیں اور سارے فورمز قابل احترام ہیں۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ 8 تھری اے میں ایف بی علی نے کہا تھا آپ قانون کو چیلنج نہیں کر سکتے، جہاں دفاع پاکستان کو خطرہ ہو وہاں سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہو سکتا ہے، نو مئی واقعات میں کیسز توڑ پھوڑ کے ہیں۔
فیصل صدیقی نے دلائل مکمل کیے تو سابق سپریم کورٹ بار عہدیداران کے وکیل عابد زبیری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی تھی، شفاف کا حق ملے گا۔
سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جسٹس جمال خان مندوخیل ملٹری کورٹس کیس فیصل صدیقی نے ملٹری کورٹ نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
فیصلہ کرلیں سول نظام ناکام ہو چکا، سب کیسز فوجی عدالت بھیج دیں، جج آئینی بینچ
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا ہے کہ یہ پالیسی فیصلہ بھی کر لیں سول نظام ناکام ہو چکا سب کیسز فوجی عدالت بھیج دیں۔
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ میں نے تین نکات پر دلائل دینے ہیں۔
اٹارنی جزل نے کہا کہ نو مئی کے واقعات پر وزرات دفاع کے وکیل خواجہ حارث بھی دلائل دے چکے ہیں، میں بھی اس معاملے پر کچھ تفصیل عدالت کے سامنے رکھوں گا۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے دلائل کا دوسرا حصہ مرکزی کیس کی سماعت کے دوران کروائی جانے والی یقین دہانیوں پر ہوگا دلائل کا تیسرا نکتہ اپیل کے حق سے متعلق ہو گا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ملٹری ٹرائل کا سامنا کرنے والوں کو اپیل کا حق دینے کا معاملہ پالیسی میٹر ہے، اس پر ہدایات لے کر ہی گذارشات عدالت کے سامنے رکھ سکتا ہوں،
انہوں نے کہا کہ پہلے سندھ کنال کا معاملہ زیر بحث رہا، اب بھارت نے جو کچھ کیا اس پر سب کی توجہ ہے، عالمی عدالت انصاف آج روانگی تھی لیکن منسوخ کر دی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ نے جو کرنا ہے کرے وہ ان کا پالیسی کا معاملہ ہے، ہم نے صرف اس کیس کی حد تک معاملے کو دیکھنا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں نے تو صرف گذارشات رکھی ہیں آگے وقت دینا یا نا دینا عدالت نے طے کرنا ہے، ملٹری ایکٹ میں شقیں 1967 سے موجود ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یہ پالیسی فیصلہ بھی کر لیں سول نظام ناکام ہو چکا سب کیسز فوجی عدالت بھیج دیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ دلائل میں کتنا وقت درکار ہو گا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ 45 منٹ میں دلائل مکمل کر لوں گا۔
کیس کی سماعت 5 مئی تک ملتوی کر دی گئی۔