ڈبلیو ایچ او نے پیراسیٹامول کے استعمال اور آٹزم کے خدشے کو بے بنیاد قرار دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس متنازع بیان پر کہ دورانِ حمل پیراسیٹامول (ٹائلی نال) کے استعمال سے بچوں میں آٹزم کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، عالمی سطح پر ردِعمل سامنے آیا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت (WHO) اور یورپی میڈیسن ایجنسی (EMA) دونوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ اس حوالے سے کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں ہے۔
ترجمان عالمی ادارۂ صحت کے مطابق پیراسیٹامول کے استعمال اور آٹزم کے درمیان تعلق کے بارے میں بات ثابت شدہ نہیں ہے۔ اسی طرح یورپی میڈیسن ایجنسی نے بھی کہا ہے کہ دستیاب شواہد میں کہیں بھی یہ بات سامنے نہیں آئی کہ پیراسیٹامول آٹزم کا باعث بنتی ہے۔ ان کے مطابق دورانِ حمل اگر طبی ضرورت ہو تو ڈاکٹر کے مشورے سے پیراسیٹامول محفوظ مقدار میں استعمال کی جا سکتی ہے۔
برطانوی وزیرِ صحت نے بھی عوام کو مشورہ دیا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کے بیانات پر نہیں بلکہ اپنے معالجین اور ڈاکٹروں پر اعتماد کریں۔ یاد رہے کہ پیراسیٹامول دنیا بھر میں بخار اور درد کے علاج کے لیے عام استعمال ہونے والی دوا ہے اور امریکا میں اسے “ٹائلی نال” کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ٹرمپ نے گزشتہ روز دعویٰ کیا تھا کہ ایف ڈی اے جلد ہی ڈاکٹروں کو ہدایت دے گی کہ حاملہ خواتین کو ٹائلی نال دینے سے گریز کریں، کیونکہ ان کے مطابق یہ دوا محفوظ نہیں ہے۔ تاہم ماہرین اور عالمی ادارے اس بیان کو غیر سائنسی قرار دے رہے ہیں اور عوام کو صرف مستند طبی مشوروں پر عمل کرنے کی ہدایت کر رہے ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
ذیابیطیس — پاکستان میں مرض بڑھنے کی وجوہات
14 نومبر کا دن عالمی سطح پر یومِ ذیابیطیس کے نام سے منایا جاتا ہے، تاکہ ذیابیطیس کے بڑھتے ہوئے رجحان، اس کے اثرات اور روک تھام کے اہم اقدامات کو اجاگر کیا جائے۔
اس موقع پر عالمی ادارے اور پاکستان دونوں نے مرض کے پھیلاؤ، علاج کی رسائی اور ممکنہ احتیاطی تدابیر کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ذیابیطس ایک ایسی طبی حالت کا نام ہے، جس میں مریض کے خون میں گلوکوز کی سطح کو کنٹرول کرنے کی قدرتی صلاحیت متاثر ہوجاتی ہے، اسی وجہ سے اس بیماری کو عرف عام میں شوگر کا مرض بھی کہا جاتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ذیابیطیس کے مریضوں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔ دنیا بھر میں 537 ملین (یعنی تقریباً 54 کروڑ) افراد ذیابیطیس کے مرض کا شکار ہو چکے ہیں، جن میں سے نصف سے زائد افراد علاج نہ کروانے والے ممالک میں ہیں۔
رپورٹس بتاتی ہیں کہ بالغ افراد میں ذیابیطیس کی شرح 1990 کے بعد تقریباً دگنی ہوچکی ہے۔ جبکہ 2030 تک یہ تعداد بڑھ کر 64 کروڑ تک پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے، جس سے بیماری کی بڑھتی ہوئی شدت کا اندازہ ہوتا ہے.
بین الاقوامی ذیابیطس فیڈریشن کے مطابق نچلی اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں اس مرض کا پھیلاؤ تیز تر ہے جہاں علاج اور تشخیص کے وسائل محدود ہیں۔ پاکستان کی صورتحال مزید غیر مستحکم ہے۔
ذیابیطس کی عالمی فیڈریشن کے مطابق، پاکستان میں بالغ افراد میں ذیابیطیس کی شرح 30 فیصد سے زائد ہے اور تقریباً 34.5 ملین افراد ذیابیطیس کے مریض ہیں، اس اعتبار سے پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ شرح والا ملک ہے۔ پاکستان کا ہر چوتھا بالغ فرد اس بیماری کا شکار ہوچکا ہے۔
ایک مطالعے کے مطابق پاکستان میں ذیابیطیس کا اندازاً تناسب 14.62 فیصد ریکارڈ ہوا تھا، جبکہ پری ڈایابیٹیز (Prediabetes) کی شرح بھی 11 فیصد کے قریب ہے۔
بین الاقوامی ذیابیطس فیڈریشن کے ڈیٹا کے مطابق 2021 میں اس مرض نے 40 ہزار سے زائد پاکستانیوں کی جان لے لی تھی۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام چین اور بھارت کے بعد تیسرے نمبر پر آتا ہے۔
ذیابیطیس کے باعث دل کی بیماری، گردے کی ناکامی، بینائی کا نقصان اور ٹانگوں کی ناکارہ ہونے جیسی پیچیدگیاں عام ہیں۔ پاکستان کے اسپتالوں میں اکثر مریض بروقت تشخیص اور مناسب علاج سے محروم رہ جاتے ہیں۔
عالمی اور مقامی تحقیق کے مطابق، ذیابیطیس کی وبا کا سبب زیادہ وزن، جسمانی سرگرمی کی کمی، فاسٹ فوڈ کا بڑھتا استعمال، شہری زندگی کا مقام اور خاندانی اسباب ہیں۔ خصوصاً پاکستان میں شہری علاقوں میں یہ مسائل شدت اختیار کر رہے ہیں۔
یومِ ذیابیطیس 2025 کی تھیم کے مطابق یہ دن ’’ذیابیطیس اور خوشحالی‘‘ (Diabetes and Well-being) کے عنوان سے منایا جارہا ہے، جس میں خاص طور پر کام کی جگہ، ذہنی صحت اور جسمانی فلاح پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
اس سال پاکستان میں بھی سرکاری اور نجی اداروں نے ذیابیطیس کی تشخیص، آگاہی اور احتیاطی مہمات شروع کی ہیں تاکہ بیماری کے خاموش پھیلاؤ کو روکا جاسکے اور مریضوں کو بہتر علاج تک رسائی دی جا سکے۔