پنجاب میں چیف منسٹر پلانٹ فار پاکستان مہم کے تحت وسیع پیمانے پر شجرکاری کا آغاز
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
پنجاب میں “چیف منسٹر پلانٹ فار پاکستان” انیشیٹو کے تحت وسیع پیمانے پر شجرکاری مہم کا آغاز ہوگیا ہے جس کے تحت پنجاب میں 48,368 ایکڑ رقبے پر درخت لگائے جائیں گے۔
پنجاب کی سینیئر وزیر مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ مریم نواز کے مشن کے تحت 42.5 ملین پودے لگانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جبکہ مالی سال 2024-25 میں 8,496 ایکڑ رقبے پر 7.
انہوں نے بتایا موسم بہار کے دوران 6,637 ایکڑ زمین پر 5.966 ملین درخت لگانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اس مہم کے تحت لاہور، قصور، گوجرانوالہ، گجرات، مری، راولپنڈی، سرگودھا، مظفر گڑھ سمیت 300 سے زائد مقامات پر شجرکاری کی جا رہی ہے۔
پراجیکٹ میں سوہانجنا، چیڑ، نیم، کیکر، شیشم، سرس، بکائن، سمل، ارجن کے ساتھ ساتھ مختلف پھل دار درخت بھی شامل کیے گئے ہیں جو نہ صرف فضائی آلودگی میں کمی کا باعث بنیں گے بلکہ ماحولیاتی خوبصورتی میں بھی اضافہ کریں گے۔
یہ منصوبہ مجموعی طور پر 8,000 ملین روپے کی لاگت سے مکمل کیا جائے گا جس کے تحت جنگلات، بیلا جات، نہروں کے کنارے، سڑکوں کے اطراف، پوٹھوہار کے پہاڑی علاقے، مری اور صحرائی خطوں کو سرسبز بنانے پر کام جاری ہے۔اب تک 4,000 ایکڑ رقبے پر 2.73 ملین پودے لگائے جا چکے ہیں، اور یہ منصوبہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔
مریم اورنگزیب کا مزید کہنا تھا کہ یہ اقدامات نہ صرف ماحولیاتی تحفظ کے لیے اہم ہیں بلکہ آئندہ نسلوں کے لیے بھی ایک سرسبز اور صحت مند پنجاب کی بنیاد رکھیں گے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کے تحت
پڑھیں:
کیا پاکستان کے یہ اسٹریٹیجک منصوبے مکمل ہو سکیں گے؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 جولائی 2025ء) پاکستان نے وقتاً فوقتاً کئی بڑے اور بین الاقوامی منصوبوں پر دستخط کیے لیکن ان کا مستقبل تاحال غیر یقینی ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق اگر یہ منصوبے مکمل ہو جائیں تو نہ صرف پاکستان کی معیشت کو استحکام مل سکتا ہے بلکہ عالمی سطح پر رابطوں میں بھی بہتری آ سکتی ہے۔
تاہم گیس پائپ لائنوں، بجلی کی ترسیل اور ریلوے لائنوں جیسے یہ بڑے منصوبے مختلف وجوہات کی بنا پر التوا کا شکار ہیں۔
ان میں سے چند اہم منصوبوں کا جائزہ درج ذیل ہے۔ ازبکستان-افغانستان-پاکستان ریل منصوبہسن 2023 میں طے پانے والے اس منصوبے کا مقصد وسطی ایشیا کو پاکستان کے ذریعے یورپ سے جوڑنا ہے۔ فزیبلٹی اسٹڈی کے معاہدے پر دستخط ہو چکے ہیں لیکن اس کی تکمیل کے بارے میں ماہرین کی رائے منقسم ہے۔
(جاری ہے)
سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''یہ ایک حد سے زیادہ پُرعزم منصوبہ ہے اور بظاہر یہ عملی طور پر ممکن نظر نہیں آتا۔
اس منصوبے کے حوالے سے کئی سوالات ہیں، جیسے کہ اس کی لاگت کون برداشت کرے گا اور افغانستان کی سکیورٹی صورتحال کا کیا ہوگا، جو پہلے سے طے شدہ کئی منصوبوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔‘‘دوسری جانب معروف معاشی تجزیہ کار عابد قیوم سلہری کہتے ہیں، ''ازبکستان-افغانستان-پاکستان ریلوے منصوبہ پاکستان کو یورپ سے جوڑ سکتا ہے اور کاروباری طبقہ وسطی ایشیائی ممالک کو یورپ کے ساتھ تجارت کے لیے ایک اسٹاپ اوور کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔
‘‘وہ مزید کہتے ہیں کہ سکیورٹی خدشات کو رکاوٹ بنانے کے بجائے کام شروع کر دینا چاہیے کیونکہ حالات وقت کے ساتھ بہتر ہو سکتے ہیں۔
ترکمانستان-افغانستان-پاکستان-بھارت (تاپی) گیس پائپ لائنسن 2010 میں شروع ہونے والا یہ منصوبہ ترکمانستان سے پاکستان تک گیس کی فراہمی کے لیے تھا لیکن بھارت کے الگ ہونے اور افغانستان کی سکیورٹی صورتحال کی وجہ سے یہ تعطل کا شکار ہے۔
عابد قیوم سلہری کے مطابق سکیورٹی مسائل اس کی ناکامی کی بنیادی وجہ ہیں۔ ایران-پاکستان گیس پائپ لائنسن 2010 کے معاہدے کے تحت ایران نے اپنی سرزمین پر پائپ لائن مکمل کر لی ہے لیکن پاکستان بین الاقوامی پابندیوں کے خوف سے اپنا حصہ مکمل نہیں کر سکا۔ اس تناظر میں مفتاح اسماعیل کہتے ہیں، ''ہماری حکومت بغیر مکمل تیاری اور مناسب ہوم ورک کے جلد بازی میں معاہدے کر لیتی ہے اور یہی ان کے ناکام ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔
‘‘ کاسا-1000 منصوبہسن 2015 میں شروع ہونے والا یہ منصوبہ کرغزستان اور تاجکستان سے پن بجلی کی ترسیل کے لیے تھا لیکن اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ مفتاح اسماعیل کے مطابق پاکستان کی بڑھتی ہوئی توانائی صلاحیت کے پیش نظر یہ منصوبہ اب غیر اہم ہو سکتا ہے۔
سی پیک - ایم ایل-1 ریلوے منصوبہسن 2013 میں طے پانے والا یہ منصوبہ فنڈنگ مسائل کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے تاہم سن 2024 میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔
ماہر اقتصادیات ڈاکٹر خاقان نجیب کہتے ہیں، ''پاکستان میں میگا پراجیکٹس کی تکمیل میں چیلنجز ضرور ہیں، جن میں کمزور طرزِ حکمرانی، مالیاتی پیچیدگیاں، علاقائی سلامتی کے خدشات اور سیاسی عدم استحکام شامل ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر عمل درآمد کے نظام کو مؤثر بنایا جائے تو بروقت تکمیل ممکن ہے۔ کیا یہ منصوبے مکمل ہو سکتے ہیں؟ماہرین کا خیال ہے کہ یہ منصوبے پاکستان کی معیشت اور عالمی رابطوں کے لیے نہایت اہم ہیں لیکن ان کی تکمیل کے لیے مستقل پالیسیوں اور عزم کے ساتھ کام جاری رکھنا ہو گا۔
ڈاکٹر خاقان نجیب کے مطابق حالیہ برسوں میں ایم ایل-1 جیسے منصوبوں پر پیش رفت امید کی کرن ہے۔وہ کہتے ہیں کہ کمزور حکمرانی اور مالیاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے شفاف اور مربوط نظام کی ضرورت ہے جبکہ علاقائی تعاون بھی ضروری ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق سکیورٹی چیلنجز کو کم کرنے کے لیے افغانستان اور دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعاون بڑھانا ہو گا۔
ادارت: امتیاز احمد