امریکہ کے لیے انڈو پیسیفک ترک کرنا 'ناممکن' ہے، تائیوان
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 مارچ 2025ء) تائیوان کے وزیر دفاع ویلنگٹن کو نے پیر کے روز کہا کہ امریکہ ہند بحرالکاہل خطے کو "چھوڑنے والا نہیں ہے" جو اس کے "بنیادی قومی مفادات" کا ایک اہم جز ہے۔
گزشتہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے یوکرینی ہم منصب وولودیمیر زیلنسکی کے درمیان براہ راست ٹیلیویژن پر نشر ہونے والے تنازعے نے اس کے اتحادی تائیوان میں بھی امریکہ کی سلامتی کے عزم کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے۔
ویلنگٹن کو سے جب ایک بریفنگ کے دوران صحافیوں نے سوال کیا کہ کیا امریکہ اب بھی تائیوان کے لیے ایک قابل اعتماد سکیورٹی پارٹنر ہے؟ تو اس پر انہوں نے کہا، "ہم نے واقعی تیزی سے بدلتی ہوئی اور مشکل بین الاقوامی صورتحال کو دیکھا ہے اور گہرائی سے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم صرف اقدار کے بارے میں ہی بات نہیں کر سکتے بلکہ قومی مفادات کے بارے میں کر سکتے ہیں۔
(جاری ہے)
"چین کی تائیوان کے لیے گروپ ٹور دوبارہ شروع کرنے کی تیاری
انہوں نے مزید کہا، "لہذا ہمیں یہ پوچھنا چاہیے: آبنائے تائیوان اور بحیرہ جنوبی چین میں جمود سمیت ہند-بحرالکاہل کے خطے میں امن اور استحکام کو برقرار رکھنا، کیا یہ امریکہ کا بنیادی قومی مفاد ہے؟"
پھر انہوں نے اپنے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا، "میرے خیال میں امریکہ کے لیے انڈو پیسیفک سے پیچھے ہٹنا ناممکن ہے، کیونکہ یہ اس کا بنیادی قومی مفاد ہے۔
"تائیوان سے دوبارہ اتحاد کو کوئی نہیں روک سکتا، چینی صدر
تائیوان کا فوجی اخراجات میں اضافے کا فیصلہویلنگٹن کو نے کہا کہ جزیرہ تائیوان "تیزی سے بدلتی ہوئی بین الاقوامی صورتحال اور مخالفین کی طرف سے بڑھتے ہوئے خطرات" کے پیش نظر فوجی اخراجات کو بڑھانے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ تاہم انہوں نے اس کی کوئی تفصیل یا اعداد و شمار نہیں بتائے۔
منگل کے روز ہی تائیوان کے صدارتی دفتر نے کہا کہ تائیوان کی حکومت تائیوان سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ کمپنی لمیٹڈ (ٹی ایس ایم سی) کو امریکہ تک وسعت دینے میں اس کی مدد کرے گی اور اس کی "جدید ترین" ٹیکنالوجیز کو گھر میں ہی رکھا جائے گا۔
تائیوان کے آس پاس درجنوں چینی طیاروں اور جہازوں کی مشقیں
ٹرمپ نے عالمی سیمی کنڈکٹر چپ انڈسٹری پر تسلط پر تائیوان کو بار بار تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور انہوں نے تائیوان کو اپنے دفاعی اخراجات کو اپنی جی ڈی پی کے 10 فیصد تک بڑھانے کا مشورہ دیا ہے۔
تائیوان اس وقت اپنی جی ڈی پی کا 2.45 فیصد ہی اپنی فوج پر خرچ کرتا ہے۔ امریکہ تائیوان تعلقات
چین کے حملے کے مسلسل خطرے کے پیش نظر امریکہ تائیوان کا سب سے اہم حفاظتی پشت پناہ ہے۔
تائیوان کے ارد گرد چین کی تازہ جنگی مشقیں شروع
چین کہتا ہے کہ تائیوان اس کی سرزمین کا ہی ایک حصہ ہے اور اس نے اپنی سرحدوں کو دوبارہ تشکیل دینے کے لیے طاقت کے استعمال کو بھی مسترد نہیں کیا ہے۔
سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں، امریکہ نے تائیوان کے لیے لاکھوں ڈالر کی دفاعی امداد کی منظوری دی تھی۔ واشنگٹن کے تائی پے کے ساتھ سرکاری سفارتی تعلقات نہ ہونے کے باوجود بھی اس کا سب سے مضبوط اتحادی رہا ہے۔ تاہم یہ نئے صدر کے ساتھ بدل بھی سکتا ہے۔
روس اور چین کی مشترکہ بحری اور فضائی مشقیں
ابھی پچھلے ہفتے ہی ٹرمپ نے چین پر حملہ کرنے کی صورت میں تائیوان کے دفاع کا عہد کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف، روئٹرز)
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے تائیوان کے انہوں نے کے لیے
پڑھیں:
اسرائیل کے خلاف 7 نکاتی پلان، عملی منشور
پاکستان نے دوحہ میں ہونے والے ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس کی تیاری کے وزارتی اجلاس میں اسرائیل کے خلاف 7 نکاتی پلان پیش کردیا۔ سات نکاتی پلان میں اسرائیل کا احتساب، جنگی جرائم کے لیے اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرانا، اسرائیل کی اقوام متحدہ کی رکنیت معطل کرنا، رکن ممالک کی طرف سے تعزیری اقدامات کا نفاذ، غزہ میں بلا روک ٹوک انسانی رسائی کو یقینی بنانا، دو ریاستی حل کے لیے حقیقی سیاسی عمل کو زندہ کرنا اور عرب اسلامی ٹاسک فورس کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔
درحقیقت، یہ واقعہ ایک چیلنج ہے کہ عالمی قوانین، ریاستوں کی خود مختاری اور سفارتی عزت و وقارکی حفاظت کے لیے ہم کس قدر متحد ہو سکتے ہیں۔ قطر پر اسرائیلی فضائی حملہ محض ایک فوجی کارروائی نہیں، بلکہ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے منشورکی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس نے یہ بھی ثابت کیا کہ مڈل ایسٹ کی تمام ریاستوں کی سالمیت خطرے میں ہے، حتیٰ کہ وہ ثالثی اور امن مذاکرات کی میزبانی ہی کیوں نہ کر رہی ہوں۔
پاکستان کی حکمتِ عملی، خاص طور پر نائب وزیر اعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کا سات نکاتی پلان، اس پسِ منظر میں نہایت اہم ہے۔ یہ منصوبہ محض ردعمل نہیں، بلکہ ایک مرکزی سیاسی عزم ہے کہ غیر قانونی حملوں کے خلاف مسلم دنیا نہ صرف بیانیہ تشکیل دے بلکہ عملی اقدامات اٹھائے۔ احتساب، اسرائیل کی اقوام متحدہ کی رکنیت کی معطلی، جنگی جرائم پر مقدمات ، یہ تمام مطالبات ایسے ہیں جو فلسطینی مظلومیت کے تناظر میں مسلم ریاستوں کی اخلاقی اور سیاسی ذمے داری کا حصہ ہیں۔ عملی امکانات کا جائزہ لیا جائے تو کئی سوالات جنم لیتے ہیں، متحدہ ردعمل کہاں تک ممکن ہے؟ کون سی ریاستیں اپنے قومی مفادات کو عبور کر کے مسلم اتحاد کا حصہ بنیں گی؟ اقتصادی پابندیاں لگانا، سفارتی تعلقات محدود کرنا، یا حتیٰ کہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کی رکنیت معطل کرنا، یہ تمام اقدامات چیلنجز کے حامل ہیں۔ قوت عمل کی کمی، علاقائی اختلافات، حصول مفاداتِ طاقت، یہ عوامل اکثر ایسے اقدامات کو کمزور یا متزلزل بنا دیتے ہیں۔
غزہ میں انسانی رسائی یقینی بنانا ایک فوری ضرورت ہے۔ انسانیت کو تحفظ کی ضرورت ہے، بنیادی امداد، طبی سہولیات، پناہ گزینوں کا تحفظ یہ وہ حقائق ہیں جنھیں چشمِ تصور سے نہیں دیکھا جائے گا، لیکن یہ رسائی کیسے ممکن بنے گی؟ انسانی تنظیموں، اقوام متحدہ اور علاقائی ریاستوں کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ رکاوٹیں دور ہوں، راستے کھلیں اور امدادی کام محفوظ اور بلاخوف جاری رہیں۔دو ریاستی حل کا اعادہ کرنا، اور اسے حقیقی سیاسی سطح پر زندہ کرنا، ایمنسٹریٹیو اور سفارتی محاذوں پر ایک مستقل عزم درکار ہے۔ یہ حل صرف میز پر قراردادیں نہیں بلکہ زمین پر اقدامات، مذاکرات، ریاستی حدود، القدس کی حیثیت اور فلسطینی ریاست کا تسلیم شدہ جغرافیہ ہونے چاہیے۔ بین الاقوامی ثالثی کی ضرورت ہے، جس میں غیر جانبدار ممالک کا کردار ہو، اقوام متحدہ کا دائرہ کار ہو اور عرب دنیا سمیت اسلامی تعاون تنظیم کا تعاون ہو۔
عرب اسلامی ٹاسک فورس کا تصور اہم ہے، مگر اس کی افادیت کا انحصار اس کی تشکیل، اختیارات، مستحکم رہنمائی اور مشترکہ سیاسی عزم پر ہو گا۔ کیا یہ فورس صرف قانونی و سفارتی رد عمل کا مرکز ہوگی یا اس کے پاس کوئی عملی صلاحیت ہو گی جیسے مخصوص پابندیاں نافذ کرنا، جنگ بندی کا مطالبہ کرنا یا حتیٰ کہ عالمی فورمز پر اسرائیل کی کارکردگی کو شہری قانون کے دائرے میں لانا؟ یہ فیصلہ اورکام کرنے کی صلاحیت ہونا چاہیے، تاکہ اس کا وجود محض علامتی نہ ہو۔
پاکستان کے لیے یہ صورتحال موقع بھی ہے اور ذمے داری بھی۔ پاکستان عملی سطح پر ایک مخلص، موثر اور متوازن کردار ادا کرے۔ مسلم ممالک کے ساتھ مل کر بین الاقوامی قانونی و سفارتی محاذ تشکیل دے، انسانی امداد فراہم کرنے والوں کے کردار میں تعاون کرے اور عالمی برادری کے سامنے یہ موقف پیش کرے کہ امن اور انصاف کے اصول غیر متزلزل ہیں۔ پاکستان کی حکومت کو چاہیے کہ اس منصوبے کی ترجمانی داخلی استحکام کے ساتھ کرے۔
عوامی رائے کی توقعات کو پورا کرنا ہو گا، میڈیا اور دانشورانہ حلقوں میں بحث و مباحثہ ہو، تاکہ حکومتی اقدامات مستحکم ہوں۔ داخلی اقتصادی مشکلات، خارجہ دباؤ اور علاقائی سیاست کے تقاضے حکومت کو محتاط بنا سکتے ہیں، مگر یہ وقت پسپائی کا نہیں، بلکہ عزمِ عملی کا ہے۔اب اقوام متحدہ کے امن مشن کی سالمیت خطرے میں ہے، سفارتکاری کی روشنی مدھم ہو رہی ہے اور انسانی المیے کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے، اگر اسلامی دنیا متحد ہو، مسلم قیادت عزم دکھائے، اگر عالمی قوانین کا اطلاق ہو، اگر انسانی حق اور ریاستِ فلسطین کا مطالبہ واضح اور مسلسل ہو، تو یہ لمحہ تاریخ میں ایک تبدیلی کا نکتہ بن سکتا ہے۔
آج قطر پر حملہ، ایک خود مختار ریاست کی خود مختاری پر حملہ ہے اور یہ لمحہ ہے کہ شعور، اتحاد اور اخلاقی طاقت اپنی قوت کا مظاہرہ کرے۔ یہ عملی عزم کا وقت ہے، ایسی پالیسیاں جن کی بنیاد عدالت، انصاف اور انسانیت ہو۔ ایسی پالیسی جس سے نہ صرف فلسطینیوں کے حق کا تحفظ ہو، بلکہ بین الاقوامی امن وپائیداری کو بھی کوئی گزند نہ پہنچے۔چین کے مندوب نے کہا کہ اسرائیلی حملے نے جاری سفارت کاری کو متاثر کیا ہے۔ خصوصاً جب امریکا نے 7 ستمبر کو جنگ بندی کی تجویز پیش کی تھی جسے اسرائیل نے قبول کیا۔ محض دو دن بعد اس تجویز پر بات چیت کرنے والی حماس کی ٹیم کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ بد نیتی، غیر ذمے داری اور دانستہ طور پر مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کا عمل ہے جو قابلِ مذمت ہے۔پاکستان کا سات نکاتی منصوبہ اگر ایک عملی منشور بن جائے تو مسلم امن کی راہ میں نئے دریچے کھل سکتے ہیں۔
وہ دن اگرچہ دور نہیں کہ عالمی طاقتیں بھی جان لیں گی کہ ریاستوں کے وقار، قانونِ بین الاقوامی کی حکمرانی اور انسانیت کی آواز کوئی مفاہمت نہیں کرتی،کوئی سودے بازی نہیں ہوتی۔ واشنگٹن کی اسرائیل کے ساتھ ترجیحی و جانبدارانہ پالیسی نے خطے میں اس کے مفادات کو نقصان پہنچایا ہے اور اس کے دوست ممالک کو ناراض کیا ہے۔ دوحہ میں موجود حماس کے رہنماء غزہ میں جنگ بندی کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز کا جائزہ لے رہے تھے، اسی دوران صیہونی رجیم نے تمام سفارتی قوانین کو روندتے ہوئے ان پر حملہ کر دیا۔
اب مسلم حکمرانوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ انھوں نے اب تک امریکا سے اربوں ڈالر کا اسلحہ اور جدید ترین فوجی سازوسامان خریدا ہے اور امریکا کو اپنے ملک میں فوجی اڈے فراہم کیے ہیں جن کا واحد مقصد ان کی قومی سلامتی کی حفاظت اور دفاع کرنا تھا لیکن حالیہ اسرائیلی حملے میں نہ تو امریکا اور نہ ہی برطانیہ نے ان کا ساتھ دیا اور نہ اسرائیل کو روکا ہے ۔ کیا وجہ ہے کہ قطر میں امریکا کا جدید ترین میزائل ڈیفنس سسٹم سویا رہا اور اسرائیلی میزائل دارالحکومت دوحہ پر گرتے رہے؟ کیا اب وہ وقت نہیں آیا کہ مسلم حکمران خطے سے متعلق اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں اور دوست اور دشمن کی حقیقی پہچان حاصل کریں۔
اب سوال یہ نہیں کہ اسرائیل کے خلاف کیا کہا جائے، سوال یہ ہے کہ کیا کیا جائے؟ اگر مسلم دنیا واقعی اسرائیلی جارحیت سے تنگ آ چکی ہے اور وہ فلسطینیوں کو انصاف دلانا چاہتی ہے، اگر وہ اپنی خود مختاری کی حفاظت کرنا چاہتی ہے، تو اب وقت ہے کہ بیانات سے آگے بڑھ کر اقدامات کیے جائیں۔ اقتصادی پابندیاں، سفارتی دباؤ، بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمات، اقوام متحدہ میں قراردادیں، انسانی امداد کی ترسیل، یہ سب کام کرنے کے ہیں اور یہ سب ایک دن میں نہیں ہوں گے، اس کے لیے مستقل مزاجی، اتفاق رائے، اور سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔
اس وقت اسرائیل کی جارحیت صرف فلسطینیوں کے لیے خطرہ نہیں بلکہ پورے مشرق وسطیٰ اور مسلم دنیا کے لیے ایک انتباہ ہے۔ اگر آج قطر جیسے پرامن اور سفارتی کردار ادا کرنے والے ملک کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے، تو کل کوئی اور ملک بھی اس فہرست میں ہو سکتا ہے۔ یہی آج کا سوال ہے کہ اب اگلا نشانہ کون سا اسلامی ملک ہو گا۔اس لیے ضروری ہے کہ تمام مسلم ممالک اس حملے کو ایک سنگین خطرہ سمجھیں اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔
یہ موقع ہے کہ مسلم دنیا عملی اقدامات کر کے دنیا کو دکھائے کہ ظلم کے خلاف ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ پاکستان نے پہل کر دی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ باقی دنیا، خصوصاً مسلم ممالک، اس پہل کا ساتھ دیتے ہیں یا نہیں۔ اگر آج ہم متحد ہو گئے، تو کل فلسطین آزاد ہو گا۔ لیکن اگر آج بھی ہم صرف مذمتی قراردادیں منظور کر کے، بیانات دے کر اور کانفرنسیں منعقد کر کے مطمئن ہو گئے، تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔