نماز، عبادت یا مکمل طرزِ زندگی؟
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
(گزشتہ سےپیوستہ)
اب سوال یہ ہے کہ اگر نمازبرائیوں سے روکتی ہے،توپھرکچھ نمازی کیوں گناہ کرتے ہیں؟
اس کاجواب خودجرنل آف ریلیجیس سائیکالوجی (2022)کے مطابق یہ بتایاگیاہے کہ رسمی نمازیعنی بغیرسمجھے نمازپڑھنے سے دماغی مراکزمتحرک نہیں ہوتے جبکہ’’مڈیٹیونماز‘‘توجہ کے ساتھ)(اخلاقی فیصلے کرنے والادماغی حصے)کوفعال کرتی ہے۔
اورتھیراپیوٹک ماڈل ماہرین کاکہناہے کہ ’’نمازکوروزانہ مراقبہ کی طرح استعمال کیاجائے تویہ نشہ، جھوٹ،اورتشددجیسے مسائل کو بخوبی کنٹرول کرسکتی ہے‘‘۔
نمازمعاشرتی ہم آہنگی میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔نمازمسلمانوں کودن میں پانچ مرتبہ ایک جگہ جمع کرتی ہے،جومعاشرتی تعلقات کومضبوط بنانے میں مددگارثابت ہوتی ہے۔مسجدمیں باجماعت نمازاداکرنے سے افرادکے درمیان بھائی چارہ اوراتحادکو فروغ ملتاہے۔
مشہورزمانہ(یونیورسٹی آف پنسلوانیا،2019) کی عصری تحقیق اورنمازکے جدیدمطالعات سے پتہ چلاہے کہ نمازتناؤکم کرتی ہے۔
اسی طرح (جرنل آف ایتھکس،2020)کے مطابق باجماعت نمازاخلاقی فیصلہ سازی کوبہتربناتی ہے اور(سوشل سائنس ریسرچ نیٹ ورک)کی رپورٹ کے مطابق اجتماعی نماز یکجہتی کوفروغ دیتی ہے۔
نمازکے اندرسوچ سمجھ کراللہ کے ساتھ پڑھی جانے والی مناجات ذہنی سکون اوراستحکام کاذریعہ ہے۔نمازکے دوران خشوع و خضوع سے انسان کی توجہ اللہ کی طرف مبذول ہوتی ہے،جوذہنی دباؤکوکم کرنے میں مددگارثابت ہوتی ہے۔
نمازبرائیوں سے روکتی ہے اورانسان کونیکی کی طرف مائل کرتی ہے۔نمازکی پابندی سے انسان میں نظم وضبط،وقت کی پابندی اورذمہ داری کااحساس پیدا ہوتا ہے جواخلاقی تربیت میں اہم کرداراداکرتاہے اور خود پرکنٹرول کرنے کی قوت مدافعت میں اضافہ ہوتاہے۔
نماز انسان کوبرائیوں سے روکنے کاقرآن کاوعدہ سائنسی طورپربھی ثابت ہوتاہے:
جرنل آف ایتھکس(2020)کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق، جونوجوان نمازکی پابندی کرتے ہیں،ان میں غیراخلاقی فیصلے لینے کے امکانات 35فیصد کم ہوتے ہیں۔ جھوٹ اوردھوکے میں ڈرامائی کمی واقع ہوجاتی ہے
ترکی میں2021ء کی ایک تحقیق کے مطابق، نمازکے دوران کی جانے والی جسمانی حرکات(جیسے سجدہ)اعصابی نظام کو پرسکون کرتی ہیں،جس سے غصے کی شدت50فیصد تک کم ہو جاتی ہے۔نمازکے مختلف ارکان، جیسے رکوع اورسجدہ،جسمانی ورزش کابھی کام کرتے ہیں۔یہ حرکات جسم کی لچک اورخون کی گردش کوبہتربناتی ہیں۔جرنل آف فزیکل تھراپی (2020) میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق،نمازمیں کیے جانے والے سجدے گھٹنوں اورکمرکے دردکوکم کرتے ہیں،خاص طورپربڑی عمر کے افرادکوجوڑوں کے دردمیں بہت افاقہ ہورہاہے گویاحیرت انگیزطورپر نماز جدید فزیوتھراپی سے مماثلت رکھتی ہے۔
دبئی میں ہونے والی ایک سٹڈی(2022) میں دیکھاگیاکہ نمازپڑھنے والوں کابلڈپریشر غیر نمازیوں کے مقابلے میں 75فیصد زیادہ مستحکم رہتا ہے۔ نمازکے ذریعے معاشرتی مساوات کوفروغ ملتاہے۔نمازمیں سب افراد،بغیرکسی طبقاتی فرق کے،ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں،جوسماجی انصاف کی علامت ہے۔ نمازکی باقاعدہ ادائیگی سے طلبہ میں توجہ مرکوزکرنے کی صلاحیت بڑھتی ہے۔نمازکے اوقات کی پابندی سے وقت کی تنظیم اورتعلیمی کارکردگی میں بہتری آتی ہے۔
نمازکی تعلیمات میں حلال روزی کمانے اور رزق کی برکت کے لئے دعا کی جاتی ہے۔یہ معاشی سرگرمیوں میں ایمانداری اوردیانت داری کوفروغ دیتی ہے۔خاندان کے افرادکا مل کرنمازاداکرناباہمی محبت اورتعلقات کومضبوط بناتاہے۔گھرمیں نمازکی ادائیگی سے بچوں کی دینی تربیت میں مددملتی ہے۔ نمازانسان کوبرائیوں سے روکتی ہے اورمعاشرے میں اخلاقی قدروں کوفروغ دیتی ہے۔نماز کی تعلیمات پرعمل پیراہوکرمعاشرتی برائیوں کاخاتمہ ممکن ہے۔نمازکی اجتماعی شکل(جیسے جماعت یاجمعہ)معاشرے میں اتحاد کومضبوط کرتی ہے۔
امریکن سوشل ہیلتھ جرنل (2023)کی ایک رپورٹ کے مطابق،مساجدمیں باقاعدگی سے نماز پڑھنے والے افرادخاص طورپر بزرگوں اور نوجوانوں میں میں تنہائی کااحساس 40 فیصدکم پایا گیا۔یورپی ممالک میں ہونے والی ایک تحقیق(2022)میں دیکھاگیاکہ نماز کے اجتماعات نے مسلم اورغیرمسلم برادریوں کے درمیان مثبت مکالمے اوربین الثقافتی روابط کوفروغ دیاہے۔
نمازبحرانوں کے دوران ذہنی استحکام فراہم کرتی ہے۔(جرنل آف گلوبل ہیلتھ)کے ایک سروے کے مطابق2021میں کورونا وائرس کے دورمیں جن مسلمانوں نے لاک ڈاؤن کے دوران گھرپرنمازادا کی، ان میں ڈپریشن کی شرح 20%کم رہی اورجن افراد نے مسجدمیں احتیاط کے ضابطوں کے ساتھ نمازپڑھی،ان میں ڈیپریشن کی شرح59 فیصد کم رہی گویانمازنے بحرانوں کامقابلہ بھی خوب کیا۔
پاکستان میں2023ء کی ایک تحقیق میں بتایاگیاکہ غریب طبقے کے افرادجونمازپڑھتے ہیں،وہ مالی پریشانیوں کے باوجودذہنی طور پرزیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔گویانمازروحانی ترقی کابھی ایک ایسا مفیدزینہ ہے جواللہ سے قربت کاذریعہ ہے۔نمازکے ذریعے انسان اپنی خطاؤں کی معافی مانگتاہے اور روحانی سکون حاصل کرتاہے۔ نمازکی یہ تمام خصوصیات اس کی اہمیت کواجاگرکرتی ہیں اوریہ ثابت کرتی ہیں کہ نمازنہ صرف ایک عبادت ہے بلکہ معاشرتی،نفسیاتی،جسمانی اور روحانی فوائدکامجموعہ ہے۔
عالمی اداروں کی رپورٹس بھی ملاحظہ فرمالیں۔ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن2023ء کی ایک رپورٹ میں مشورہ دیاگیاہے کہ ’’نمازجیسی روحانی مشقوں کو ذہنی صحت کے پروگراموں میں شامل کیاجائے۔ یونیسکوجیسے عالمی ادارے نے تعلیمی نصاب میں نمازکی اخلاقی تعلیمات کوشامل کرنے کی سفارش کی ہے تاکہ نوجوانوں میں برداشت اور ہمدردی کو فروغ دیاجا سکے۔نمازایک عبادت، فریضہ، محبت، شکراوراللہ سے قربت کاذریعہ ہے۔ اسے صرف خوف یالالچ کی بنیاد پر نہیں بلکہ اخلاص اورمحبت کے ساتھ اداکرناچاہیے تاکہ وہ ہمارے کردار اورزندگی میں حقیقی تبدیلی لاسکے۔ہمیں چاہیے کہ ہم نہ صرف نمازپڑھیں بلکہ اس کے معانی کوبھی سمجھیں تاکہ ہماری عبادت حقیقی معنوں میں اللہ سے ہم کلامی بن سکے۔
نماز،جواسلام کادوسرارکن ہے،نہ صرف ایک روحانی عبادت ہے بلکہ اس کے معاشرتی اورنفسیاتی اثرات بھی نمایاں ہیں۔سوشل سائنسزکی تحقیقات اوراسلامی تعلیمات کی روشنی میں نمازکے مختلف پہلوؤں کاجائزہ لینے کے بعدیہ ثابت ہوگیاہے کہ میرے رب نے آقاﷺکوعرش پربلا کرنماز جیسابیش بہاقیمتی تحفہ فرش والوں کوعطاکیا۔
نمازکی فرضیت کامقصداللہ سے ربط،خودسازی اورمعاشرتی اصلاح ہے۔یہ خوف وامید،شکراور فرضیت کے درمیان توازن قائم کرتی ہے۔الفاظ کی تفہیم اس کی تاثیربڑھاتی ہے لیکن اصل کامیابی اخلاص اورحضورقلب میں ہے۔جدیدمطالعات کے مطابق،نماز ذہنی تناؤکوکم کرنے اورمثبت جذبات کوفروغ دینے میں اہم کرداراداکرتی ہے۔
ایک عالمی ادارے(جرنل آف ریلیجن اینڈ ہیلتھ 2020ء کی ایک رپورٹ کے مطابق توجہ مرکوزکرنے کی صلاحیت کے بارے میںنمازکی حرکات (مثلاًرکوع، سجدہ ) اورذکرواذکار دماغی یکسوئی کو بڑھاتے ہیں اورجولوگ باقاعدہ روزانہ نمازپڑھتے ہیں،ان میں (توجہ کی کمی) کے مسائل30فیصد کم پائے گئے ہیں۔(جرنل آف سائیکولوجیکل ریسرچ 2021) کی ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ نمازسے(تناؤکے ہارمون)کی سطح کم ہوتی ہے،جس سے ڈپریشن اوراضطراب کے خطرات 25%تک گھٹ جاتے ہیں۔اس لئے
ضروری ہے کہ نمازکوصرف عبادت تک محدودنہ رکھیں بلکہ اس کے ذریعے’’ذہنی تربیت‘‘کے لئے نمازکے الفاظ کے معنی اور مفہوم سکھائیں جائیں تاکہ اس کااخلاقی اثربڑھے۔ معاشرتی سطح پرنمازکے اجتماعات کو’’سماجی ہم آہنگی‘‘کے لئے استعمال کیاجائے ۔اس سائنسی وسماجی شواہدکی روشنی میں یہ کہاجاسکتاہے کہ نمازمحض ایک مذہبی فریضہ نہیں،بلکہ انسان کی جسمانی،نفسیاتی، اورمعاشرتی صحت کاایک ایساجامع حل ہے جوخالق کااپنی مخلوق پرایک ایسااحسانِ عظیم ہے جن کے فوائدآج عالمی سطح پر تحقیقی ادارے تسلیم کررہے ہیں ۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: رپورٹ کے مطابق کی پابندی ہے نمازکے ایک تحقیق کرتے ہیں کے دوران کرنے کی ہے نماز ہوتی ہے کے ساتھ کرتی ہے کی ایک ہے اور
پڑھیں:
ترک خاتون کی داستانِ غزہ: ’زندگی رک جاتی ہے، مگر تعلیم نہیں‘
غزہ اپنی جدید تاریخ کے سب سے المناک دور سے گزر رہا ہے۔ ایسے میں ایک ترک خاتون، جنہوں نے 24 سال اس محصور خطے میں گزارے، وہاں کی زندگی، جنگوں، ناکہ بندیوں اور ایمان کی پختگی کو یاد کرتی ہیں۔
کیفسَر یلماز جارادہ 1999 میں شادی کے بعد غزہ منتقل ہوئیں اور 2 دہائیوں سے زائد عرصے تک وہیں مقیم رہنے کے بعد اپنے آپ کو فلسطینی ہی سمجھتی ہیں۔
’میں نے غزہ کے عوام کے ساتھ جنگیں، ناکہ بندیاں اور مشکلات جھیلیں، خود کو ان ہی میں سے ایک سمجھتی ہوں، مجھے لگتا ہے میں بھی غزہ کی ہوں۔‘
یہ بھی پڑھیں: دو سالہ جنگ کے بعد ملبہ اٹھانے کا عمل شروع، 5 لاکھ سے زیادہ فلسطینی غزہ لوٹ آئے
وہ 2023 کی گرمیوں میں علاج کے لیے ترکی آئیں، اور کچھ ہی دن بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔
کیفسَر یلماز جارادہ نے بتایا کہ 2005 تک اسرائیلی آبادکار فلسطینی زمینوں پر قابض تھے اور غزہ میں ’نظر نہ آنے والے علاقوں‘ میں پرتعیش زندگی گزارتے تھے۔
ان کے پاس وسیع فارم، اسکول اور کارخانے تھے، جب کہ مقامی آبادی انتفاضہ اور شدید معاشی دباؤ میں زندگی گزار رہی تھی۔
ان کے مطابق غزہ کے عوام نے مزاحمت کرتے ہوئے قبضہ کرنے والوں کو اپنی زمین پر سکون سے رہنے نہیں دیا، اور آخرکار ایک بھی آبادکار وہاں باقی نہ رہا۔
’غزہ میں زندگی رک جاتی ہے، مگر تعلیم نہیں‘کیفسَر یلماز جارادہ کے مطابق تعلیم غزہ میں ہمیشہ اولین ترجیح رہی۔ ’’جنگ ہو یا امن، تعلیم کبھی نہیں رکتی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ اسکول کے بعد بچے عام طور پر مساجد کا رخ کرتے، جو سماجی مراکز کا کردار ادا کرتی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ غزہ سے باہر نکلنا بے حد مشکل تھا، طلبا اور مریضوں کو مہینوں پہلے نام درج کروانے اور اجازت کی فہرستوں کے انتظار میں رہنا پڑتا۔
غزہ کی زندگی بجلی اور پانی کی قلت سے جڑی ہوئی تھی، جہاں بجلی عام طور پر 4 سے 8 گھنٹے کے لیے آتی تھی اور کبھی کبھار بالکل نہیں۔
مزید پڑھیں: چین کا غزہ میں ’مستقل اور جامع‘ جنگ بندی پر زور، فلسطینیوں کے اپنے علاقے پر حق حکمرانی کی حمایت
’اگر رات کو بجلی آتی تو ہم اسی وقت کپڑے دھوتے، استری کرتے اور کھانا بناتے, 8 گھنٹے بجلی ملنا خوشی کی بات ہوتی تھی۔‘
پانی بھی 2 یا 3 دن بعد آتا، تو لوگ ٹینک بھر کر ذخیرہ کرتے۔ ان مشکلات کے باوجود طلبا نے اپنی یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کی۔
’غزہ کے عوام کی شکرگزاری اور ثابت قدمی نے ہمیں قیمتی سبق دیا۔‘
’غزہ کے لوگ کبھی نہیں کہتے، ہم ہار گئے‘کیفسَر کے مطابق، غزہ کی مشکلات نے وہاں کے لوگوں کو ٹوٹنے کے بجائے مضبوط بنایا۔
’زندگی سخت تھی، مگر اس نے انہیں طاقتور بنا دیا، ان کا ایمان پختہ ہے، وہ جلد سنبھل جاتے ہیں اور کبھی نہیں کہتے کہ ہم ختم ہو گئے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ الاقصیٰ مسجد پر حملوں نے غزہ کے عوام کو متحد کر دیا۔
مزید پڑھیں: غزہ میں اسرائیلی جارحیت جاری، الشفا اسپتال کے ڈائریکٹر کے خاندان سمیت 91 فلسطینی شہید
’انہوں نے قربانیاں دیں، کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ جنگ کیوں شروع ہوئی، بلکہ سب نے اپنی طاقت پہچانی۔‘
جارادہ کہتی ہیں کہ 2 سال گزرنے کے باوجود غزہ شکست خوردہ نہیں۔ ’اسرائیل نہ اپنے تمام قیدی واپس لا سکا، نہ غزہ پر مکمل قبضہ، اس لیے غزہ ابھی بھی سر بلند ہے۔‘
’لوگ کنویں یا سمندری پانی پر زندہ رہے‘8 اکتوبر 2023 کے بعد کے حالات یاد کرتے ہوئے جارادہ کہتی ہیں کہ بمباری اور ناکہ بندی کے دوران لوگ کنویں یا سمندری پانی پر زندہ رہے، حتیٰ کہ جنگلی پودے کھائے۔
’میرے بچے 2 ہفتے صرف پانی پر گزارہ کرتے رہے، ایک وقت ایسا بھی آیا جب ہم نے مرغیوں کا دانہ پیس کر روٹی بنائی۔‘
ان کے مطابق اسپتالوں پر حملوں سے صحت کا نظام تباہ ہو گیا، زخمیوں کو علاج نہ مل سکا، اور ہزاروں بے گھر خاندان خیموں یا ملبے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے۔
’غزہ کے لوگ دوبارہ سنبھلنا جانتے ہیں‘کیفسَر یلماز جارادہ کا کہنا ہے کہ غزہ کے معاشرے میں ’خود کو ازسرنو تعمیر کرنے کی فطری صلاحیت‘ موجود ہے۔
’جیسے ہی جنگ بندی ہوتی ہے، سب سے پہلے مساجد کی مرمت کی جاتی ہے، لوگ دوبارہ جمع ہوتے ہیں، گھر بنتے ہیں، گلیاں صاف کی جاتی ہیں اور زندگی پھر سے شروع ہو جاتی ہے۔‘
مزید پڑھیں: غزہ پر اسرائیلی حملے، ایک دن میں 57 فلسطینی جاں بحق
وہ کہتی ہیں کہ غزہ کے لوگ فیاض، شاکر اور باہمت ہیں، وہاں گزارے گئے 24 سالوں نے انہیں صبر، شکر اور یکجہتی سکھائی۔
اپنے بچوں کو غزہ میں پالنا ان کے لیے اعزاز تھا۔
’دنیا نے غزہ کے عوام کی ہمت اور وقار دیکھا ہے، دعا ہے کہ ایک دن ہم سب مل کر آزاد القدس میں نماز ادا کریں۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
القدس بمباری ترک خاتون تعلیم جنگ بندی شکست خوردہ غزہ ناکہ بندی