Express News:
2025-09-19@00:38:35 GMT

اگر نرخ گھٹ جائے تو

اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT

حالات بڑے ٹھیک جا رہے ہیں، نگران دورکی ’’پوسٹیں‘‘ بھی خالی ہوجائیں گی، نئی پوسٹیں بھی لانچ ہوجائیں گی اوراٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کے لیے جو چھینکا ٹوٹا چکا ہے وہ بھی ہے ،مطلب یہ کہ منتخب نمایندوں کا ہردن عید اوررات شب برات ہوجائے گی، اپنے اپنے ’’منہ‘‘ بھی لقموں کے لیے دسترخوان پر بٹھادیے جائیں گے اورالیکشن کے اخراجات بھی نکل آئیں گے ، گویا راوی چناب کے ساتھ دریائے کابل، دریائے سوات، دریائے پنجکوڑہ ،باڑہ، کرم اورگومل بھی چین ہی چین لکھیں گے ۔

 صوبہ کے پی کے عرف خیر پخیر میں اس وقت نوکریوں کی جو صورت حال ،مورت حال اورمالامال ہے اسے دیکھ کر ہمیں ہندی فلم جولی بی اے ایل بی کا منظر یاد آجاتا ہے جس میں ایک بوڑھے حوالدار کی نگرانی میں ’’تھانوں‘‘ کی نیلامی ہورہی ہے ، حوالدار کسی ایک تھانے کا نام لیتا ہے تو سامنے بیٹھے ہوئے تھانیدار بولیاں لگاتے ہیں ایک لاکھ دولاکھ چار لاکھ دس لاکھ جو تھانیدار اونچی بولی لگاتا ہے تھانہ اس کا ہوجاتا ہے ۔

یہاں کوئی ایسی نیلامی توشاید نہیں ہوتی لیکن بولیاں لگتی ہیں یایوں کہیے کہ کُرتے کے نیچے اور چنری کے پیچھے یہی ہو رہا ہے، سارے منتخب نمایندے تو اتنے فارغ نہیں ہوتے ہیں، فنڈزکو ٹھکانے لگانے کے اورکام بھی تو ہوتے ہیں اس لیے نیلامی کے لیے کسی ایک کو چناجائے گا۔

پچھلے انصافی دور یا انصاف کی حکومت کے بارے میں شاید میں بتا بھی چکا ہوں کہ یہ منصب ایک میاں صاحب کے پاس تھا ،میرا بیٹا کسی پہنچ والے کے ساتھ اس کے پاس گیا تو اس نے صاف کہہ دیا کہ قیمت تو پچیس لاکھ روپے ہے ، میں صرف اتنا کرسکتا ہوں کہ اپنے حصے کے دو لاکھ چھوڑ دوں گا باقی تئیس لاکھ تو دینا پڑیں گے کہ یہ اوروں کے حصے ہیں ۔

وہ صاحب اب دنیا میں نہیں ہے، کورونا میں دوسرے جہاں ٹرانسفر ہوچکے ہیں، وہ بھی تبدیلی کی فیس دیے بغیر، لیکن اب کے تو ’’مال‘‘ بہت ہے، نگران حکومت والے پوسٹ بھی ہاتھ آگئے ہیں اورنئی فورس میں بھی کافی کھپت ہوگی تو ہماری گزارش ہے کہ نرخ ذرا نیچے لائیے ویسے بھی ڈسکاؤنٹ دینا اچھے دکانداروں کا وطیرہ ہوتا ہے ، دراصل میں نے بھی اپنے بیٹے کے لیے ایک چھوٹی موٹی نوکری خریدنی ہے اگر نرخ ذرا نیچے ہوئے تو ہم بھی کسی نہ کسی طرح جگاڑ کرلیں گے ۔

کسی نے چند نفع آور نوکریوں کے بارے میں بتایا ہے کہ پچاس لاکھ دو اور اپائنٹمنٹ لیٹر لو کسی بھی انٹرویو لسٹ بلکہ سی وی تک کی ضرورت نہیں کہ یہ بے کار کے کاغذات ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے پاس یہ بے کار کاغذات تو ہیں لیکن کام کے کاغذات پورے نہیں ہیں اوراگر نرخوں میں کچھ رعایت ہوجائے تو ہماری بھی کوئی سبیل نکل آئے اورہم بھی ایک عدد نوکری کی ’’رادھا‘‘ اپنے آنگن میں ’’نچا‘‘ سکیں گے ۔

ہم نے یہ بات متعلقہ حلقوں کے متعلقہ لوگوں میں مشتہر بھی کی ہوئی ہے کیوں کہ انٹرویو دیتے دیتے، ٹیسٹ دیتے دیتے، سی وی پھراتے پھراتے درخواستیں لکھتے لکھتے تو اس بیچارے کے پاؤں اتنے گھس گئے ہیں کہ اب نو نمبر جوتے کے بجائے پانچ نمبر کا جوتا پہننے لگا ہے ۔یہ درخواستیں انٹرویو اورسی وی دینے کا سلسلہ ہم نے اب ترک کردیا ہے کیوں کہ ایک واقف حال اوردانائے راز نے ہمیں بتایا ہے کہ یہ سب کچھ جگہ پر کرنے کے بعد محض ثواب کے لیے چلتا ہے ۔ویسے ہم نے استدعا تو کردی ہے لیکن نرخ گھٹنے کی کوئی امید نہیں ہے کیوں کہ خریداروں کی قطاریں کچھ اور بڑھ چکی ہیں بلکہ خطرہ ہے کہ نرخ کچھ اورنہ چڑھ جائیں ۔

پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے

 رکتی ہے مری طبع توہوتی ہے رواں اور

اگر ایسا ہوا تو اپنی بھینس تو گئی پانی میں۔ کیوں کہ ہمارے ایک بزرگ کا کہنا ہے کہ اگر کوئی پی ٹی آئی کے دور میں بھی محروم رہے تو اسے ’’مرحوم‘‘ ہی ہوجاناچاہیے کہ اس دور میں ایسے ایسے بھی مالا مال ہوگئے ، بے مثال ہوگئے آل ان آل ہوگئے جن کو قسمت نے بھی جواب دیا ہواتھا۔

بات آگئی تو کر ہی ڈالیں کہ آج ملک بھر کے کاغذی دانشور کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے یہ اتنے سیٹ پارٹی اوربانی کی مقبولیت کی وجہ سے لیے ہیں ، غلط کہتے ہیں جھوٹ بولتے ہیں کفر تولتے ہیں ، سب کچھ اس قبولیت عامہ کا کمال ہے کہ راتوں رات شارٹ کٹ سے ایک ہی چھلانگ میں مالدار ہونا ہے تو جا ایں جا است۔ دوسری پارٹیوں کے لوگ سالوںسے بلکہ پشتوں سے خوار ہورہے ہیں لیکن کچھ بھی نہ پاسکے اوراس میں کل آئے اوپہنچ بھی گئے ہیں۔

کتنے چیل کوے اورگدھ تھے جو راتوں رات بطخ اوربگلے ہوگئے ہیں بلکہ ہنس اور راج ہنس ۔اور راج ہنسنیاؒں بھی ہوچکی ہیں ۔پی ٹی آئی اور بانی کی دعا، برکت اورآشیرواد سے ۔ اردو، فارسی اورعربی وغیرہ میں تو ’’بانی‘‘ کے معنی کچھ اورہیں لیکن ہندی اورسنسکرت بلکہ ادھر کی پنجابی یاگورمکھی میں بانی یا وانی غیبی یاآسمانی آواز کو کہتے ہیں، جیسے آکاش بانی یاوانی۔ گوروبانی یاوانی، دیو وانی ، رشی وانی ،منی وانی ، جسے اردو فارسی میں ہاتف غیبی یاسروش کہتے ہیں

سحر زہاتف غیبم رسید مژدہ بگوش

 کہ دور’’شاہ شجاع‘‘ است می دلیر بنوش

 یعنی صبح سوبرے میں نے ہاتف غیبی سے مژدہ یاوانی سنی کہ شراب جی بھرکر، کھل کر دلیری سے پی کہ یہ شاہ شجاع کادورہے۔

اوریقیناً ہمارے ہاں بھی خوش نصیب لوگوں نے ’’بانی‘‘ کایہی مفہوم سمجھا ہے اورٹھیک سمجھا ہے کیوں کہ یہ ’’بانی‘‘ اب تک اس ملک کے ساتھ جو کچھ کر چکی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بانی کہیں اورسے اٹھی ہے کہ جب سے یہ نانی چلی ہے …کوئی بھی چیز اصول، اخلاق، قانون ، دیانت، امانت، انصاف سلامت نہیں رہے ہیں بلکہ

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہے کیوں کہ ہیں لیکن کہتے ہیں کے لیے

پڑھیں:

3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی نے ملک چھوڑ کر چلے گئے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

لاہور:3 برس میں تقریباً 30 لاکھ پاکستانی ملک کو خیرباد کہہ گئے، ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، لاقانونیت، بے روزگاری نے ملک کے نوجوانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ محکمہ پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں پاکستان سے 28 لاکھ 94 ہزار 645 افراد 15 ستمبر تک بیرون ملک چلے گئے۔بیرون ملک جانے والے پروٹیکٹر کی فیس کی مد میں 26 ارب 62 کروڑ 48 لاکھ روپے کی رقم حکومت پاکستان کو اربوں روپے ادا کر کے گئے۔ بیرون ملک جانے والوں میں ڈاکٹر، انجینئر، آئی ٹی ایکسپرٹ، اساتذہ، بینکرز، اکاو ¿نٹنٹ، آڈیٹر، ڈیزائنر، آرکیٹیکچر سمیت پلمبر، ڈرائیور، ویلڈر اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں جبکہ بہت سارے لوگ اپنی پوری فیملی کے ساتھ چلے گئے۔

پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس آفس آئے طالب علموں، بزنس مینوں، ٹیچرز، اکاو ¿نٹنٹ اور آرکیٹیکچر سمیت دیگر خواتین سے بات چیت کی گئی تو ان کا کہنا یہ تھا کہ یہاں جتنی مہنگائی ہے، اس حساب سے تنخواہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی مراعات ملتی ہیں۔ باہر جانے والے طالب علموں نے کہا یہاں پر کچھ ادارے ہیں لیکن ان کی فیس بہت زیادہ اور یہاں پر اس طرح کا سلیبس بھی نہیں جو دنیا کے دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے، یہاں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان جو باہر جا رہے ہیں اسکی وجہ یہی ہے کہ یہاں کے تعلیمی نظام پر بھی مافیا کا قبضہ ہے اور کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔

بیشتر طلبہ کا کہنا تھا کہ یہاں پر جو تعلیم حاصل کی ہے اس طرح کے مواقع نہیں ہیں اور یہاں پر کاروبار کے حالات ٹھیک نہیں ہیں، کوئی سیٹ اَپ لگانا یا کوئی کاروبار چلانا بہت مشکل ہے، طرح طرح کی مشکلات کھڑی کر دی جاتی ہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ جتنا سرمایہ ہے اس سے باہر جا کر کاروبار کیا جائے پھر اس قابل ہو جائیں تو اپنے بچوں کو اعلی تعلیم یافتہ بنا سکیں۔ خواتین کے مطابق کوئی خوشی سے اپنا گھر رشتے ناطے نہیں چھوڑتا، مجبوریاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ بڑی مشکل سے ایسے فیصلے کیے، ہم لوگوں نے جیسے تیسے زندگی گزار لی مگر اپنے بچوں کا مستقبل خراب نہیں ہونے دیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • موقع پرست اور سیلاب کی تباہی
  • اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے جرت مندانہ فیصلے کریں. عمران خان کا چیف جسٹس کو خط
  • چارلی کرک کا قتل ایک المیہ لیکن سیاسی مباحثے کو دبانا نہیں چاہیے،اوباما
  • غربت اور پابندیوں کے باوجود افغانستان میں کاسمیٹک سرجری کلینکس کی مقبولیت میں اضافہ
  • لیڈی ڈاکٹر نے نالے میں چھلانگ لگا لی، وجہ کیا بنی؟
  • ہونیاں اور انہونیاں
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • 3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر چلے گئے
  • 3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی نے ملک چھوڑ کر چلے گئے
  • انیق ناجی نے ولاگنگ سے دوری کی وجہ خود ہی بتا دی ، پنجاب حکومت پر تنقید