حالات بڑے ٹھیک جا رہے ہیں، نگران دورکی ’’پوسٹیں‘‘ بھی خالی ہوجائیں گی، نئی پوسٹیں بھی لانچ ہوجائیں گی اوراٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کے لیے جو چھینکا ٹوٹا چکا ہے وہ بھی ہے ،مطلب یہ کہ منتخب نمایندوں کا ہردن عید اوررات شب برات ہوجائے گی، اپنے اپنے ’’منہ‘‘ بھی لقموں کے لیے دسترخوان پر بٹھادیے جائیں گے اورالیکشن کے اخراجات بھی نکل آئیں گے ، گویا راوی چناب کے ساتھ دریائے کابل، دریائے سوات، دریائے پنجکوڑہ ،باڑہ، کرم اورگومل بھی چین ہی چین لکھیں گے ۔
صوبہ کے پی کے عرف خیر پخیر میں اس وقت نوکریوں کی جو صورت حال ،مورت حال اورمالامال ہے اسے دیکھ کر ہمیں ہندی فلم جولی بی اے ایل بی کا منظر یاد آجاتا ہے جس میں ایک بوڑھے حوالدار کی نگرانی میں ’’تھانوں‘‘ کی نیلامی ہورہی ہے ، حوالدار کسی ایک تھانے کا نام لیتا ہے تو سامنے بیٹھے ہوئے تھانیدار بولیاں لگاتے ہیں ایک لاکھ دولاکھ چار لاکھ دس لاکھ جو تھانیدار اونچی بولی لگاتا ہے تھانہ اس کا ہوجاتا ہے ۔
یہاں کوئی ایسی نیلامی توشاید نہیں ہوتی لیکن بولیاں لگتی ہیں یایوں کہیے کہ کُرتے کے نیچے اور چنری کے پیچھے یہی ہو رہا ہے، سارے منتخب نمایندے تو اتنے فارغ نہیں ہوتے ہیں، فنڈزکو ٹھکانے لگانے کے اورکام بھی تو ہوتے ہیں اس لیے نیلامی کے لیے کسی ایک کو چناجائے گا۔
پچھلے انصافی دور یا انصاف کی حکومت کے بارے میں شاید میں بتا بھی چکا ہوں کہ یہ منصب ایک میاں صاحب کے پاس تھا ،میرا بیٹا کسی پہنچ والے کے ساتھ اس کے پاس گیا تو اس نے صاف کہہ دیا کہ قیمت تو پچیس لاکھ روپے ہے ، میں صرف اتنا کرسکتا ہوں کہ اپنے حصے کے دو لاکھ چھوڑ دوں گا باقی تئیس لاکھ تو دینا پڑیں گے کہ یہ اوروں کے حصے ہیں ۔
وہ صاحب اب دنیا میں نہیں ہے، کورونا میں دوسرے جہاں ٹرانسفر ہوچکے ہیں، وہ بھی تبدیلی کی فیس دیے بغیر، لیکن اب کے تو ’’مال‘‘ بہت ہے، نگران حکومت والے پوسٹ بھی ہاتھ آگئے ہیں اورنئی فورس میں بھی کافی کھپت ہوگی تو ہماری گزارش ہے کہ نرخ ذرا نیچے لائیے ویسے بھی ڈسکاؤنٹ دینا اچھے دکانداروں کا وطیرہ ہوتا ہے ، دراصل میں نے بھی اپنے بیٹے کے لیے ایک چھوٹی موٹی نوکری خریدنی ہے اگر نرخ ذرا نیچے ہوئے تو ہم بھی کسی نہ کسی طرح جگاڑ کرلیں گے ۔
کسی نے چند نفع آور نوکریوں کے بارے میں بتایا ہے کہ پچاس لاکھ دو اور اپائنٹمنٹ لیٹر لو کسی بھی انٹرویو لسٹ بلکہ سی وی تک کی ضرورت نہیں کہ یہ بے کار کے کاغذات ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے پاس یہ بے کار کاغذات تو ہیں لیکن کام کے کاغذات پورے نہیں ہیں اوراگر نرخوں میں کچھ رعایت ہوجائے تو ہماری بھی کوئی سبیل نکل آئے اورہم بھی ایک عدد نوکری کی ’’رادھا‘‘ اپنے آنگن میں ’’نچا‘‘ سکیں گے ۔
ہم نے یہ بات متعلقہ حلقوں کے متعلقہ لوگوں میں مشتہر بھی کی ہوئی ہے کیوں کہ انٹرویو دیتے دیتے، ٹیسٹ دیتے دیتے، سی وی پھراتے پھراتے درخواستیں لکھتے لکھتے تو اس بیچارے کے پاؤں اتنے گھس گئے ہیں کہ اب نو نمبر جوتے کے بجائے پانچ نمبر کا جوتا پہننے لگا ہے ۔یہ درخواستیں انٹرویو اورسی وی دینے کا سلسلہ ہم نے اب ترک کردیا ہے کیوں کہ ایک واقف حال اوردانائے راز نے ہمیں بتایا ہے کہ یہ سب کچھ جگہ پر کرنے کے بعد محض ثواب کے لیے چلتا ہے ۔ویسے ہم نے استدعا تو کردی ہے لیکن نرخ گھٹنے کی کوئی امید نہیں ہے کیوں کہ خریداروں کی قطاریں کچھ اور بڑھ چکی ہیں بلکہ خطرہ ہے کہ نرخ کچھ اورنہ چڑھ جائیں ۔
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے مری طبع توہوتی ہے رواں اور
اگر ایسا ہوا تو اپنی بھینس تو گئی پانی میں۔ کیوں کہ ہمارے ایک بزرگ کا کہنا ہے کہ اگر کوئی پی ٹی آئی کے دور میں بھی محروم رہے تو اسے ’’مرحوم‘‘ ہی ہوجاناچاہیے کہ اس دور میں ایسے ایسے بھی مالا مال ہوگئے ، بے مثال ہوگئے آل ان آل ہوگئے جن کو قسمت نے بھی جواب دیا ہواتھا۔
بات آگئی تو کر ہی ڈالیں کہ آج ملک بھر کے کاغذی دانشور کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے یہ اتنے سیٹ پارٹی اوربانی کی مقبولیت کی وجہ سے لیے ہیں ، غلط کہتے ہیں جھوٹ بولتے ہیں کفر تولتے ہیں ، سب کچھ اس قبولیت عامہ کا کمال ہے کہ راتوں رات شارٹ کٹ سے ایک ہی چھلانگ میں مالدار ہونا ہے تو جا ایں جا است۔ دوسری پارٹیوں کے لوگ سالوںسے بلکہ پشتوں سے خوار ہورہے ہیں لیکن کچھ بھی نہ پاسکے اوراس میں کل آئے اوپہنچ بھی گئے ہیں۔
کتنے چیل کوے اورگدھ تھے جو راتوں رات بطخ اوربگلے ہوگئے ہیں بلکہ ہنس اور راج ہنس ۔اور راج ہنسنیاؒں بھی ہوچکی ہیں ۔پی ٹی آئی اور بانی کی دعا، برکت اورآشیرواد سے ۔ اردو، فارسی اورعربی وغیرہ میں تو ’’بانی‘‘ کے معنی کچھ اورہیں لیکن ہندی اورسنسکرت بلکہ ادھر کی پنجابی یاگورمکھی میں بانی یا وانی غیبی یاآسمانی آواز کو کہتے ہیں، جیسے آکاش بانی یاوانی۔ گوروبانی یاوانی، دیو وانی ، رشی وانی ،منی وانی ، جسے اردو فارسی میں ہاتف غیبی یاسروش کہتے ہیں
سحر زہاتف غیبم رسید مژدہ بگوش
کہ دور’’شاہ شجاع‘‘ است می دلیر بنوش
یعنی صبح سوبرے میں نے ہاتف غیبی سے مژدہ یاوانی سنی کہ شراب جی بھرکر، کھل کر دلیری سے پی کہ یہ شاہ شجاع کادورہے۔
اوریقیناً ہمارے ہاں بھی خوش نصیب لوگوں نے ’’بانی‘‘ کایہی مفہوم سمجھا ہے اورٹھیک سمجھا ہے کیوں کہ یہ ’’بانی‘‘ اب تک اس ملک کے ساتھ جو کچھ کر چکی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بانی کہیں اورسے اٹھی ہے کہ جب سے یہ نانی چلی ہے …کوئی بھی چیز اصول، اخلاق، قانون ، دیانت، امانت، انصاف سلامت نہیں رہے ہیں بلکہ
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہے کیوں کہ ہیں لیکن کہتے ہیں کے لیے
پڑھیں:
پاکستان نے اب اسکور بورڈ پر کچھ رنز بنالیا ہے لیکن ماضی کی غلطیوں سے بچنا ہوگا، وزیرخزانہ
WASHINGTON:وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے معاشی اصلاحات، مالی استحکام اور ماحولیاتی عزم کی تجدید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے اب اسکور بورڈ پر کچھ رنز بنالیا ہے لیکن ماضی کی غلطیوں سے بچنا ہوگا۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے واشنگٹن ڈی سی میں عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف)-ورلڈ بینک کے اجلاس کے موقع پر اٹلانٹک کونسل کے جیو اکنامکس سینٹر میں "2025 اور اس کے بعد پاکستانی معیشت کو درپیش چیلنجز اور مواقع" کے موضوع پر گفتگو کی۔
انہوں نے پاکستان کی معاشی صورت حال، اصلاحاتی منصوبوں اور حکومتی ترجیحات پر کھل کر اظہار خیال کیا اور عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ مثبت شراکت داری کی اہمیت پر زور دیا۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں پاکستان نے معاشی استحکام کی جانب اہم پیش رفت کی ہے، زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ، مہنگائی میں کمی، کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری اور مالی خسارے میں کمی کو اہم کامیابیاں قرار دیا۔
انہوں نے واضح کیا کہ یہ صرف پہلا قدم ہے، اصل مقصد پائیدار ترقی اور اصلاحات کا تسلسل ہے
کرکٹ کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اب "اسکور بورڈ پر کچھ رنز بنا لیے ہیں" لیکن ماضی کی غلطیوں سے بچنا ہوگا۔
مالیاتی نظم و ضبط کے حوالے سے وزیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ میں توازن قائم رکھتے ہوئے عوامی فلاح اور ترقیاتی اخراجات کے لیے گنجائش پیدا کرنا ضروری ہے، رواں مالی سال میں ٹیکس ریونیو میں 29 فیصد اضافہ ہوا ہے اور ٹیکس کا جی ڈی پی تناسب 10.6 فیصد تک پہنچنے کی امید ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قرضوں کی مؤثر مینجمنٹ سے تقریباً 10 کھرب روپے کی بچت ہوئی ہے، جبکہ پالیسی ریٹس میں کمی سے مالی گنجائش بڑھی ہے۔
انہوں نے صوبوں کے ساتھ قومی مالیاتی معاہدے کے تحت شراکت داری کو فروغ دینے پر بھی زور دیا اور پاکستان میں پہلی مرتبہ زرعی آمدن پر ٹیکس لگانے کو ایک تاریخی پیش رفت قرار دیا۔
ریونیو اصلاحات کے مؤثر نفاذ پر بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے ڈیجیٹل نظام اور نفاذ کی اہمیت پر زور دیا اور پاکستان کی بھاری بھر کم انفارمل معیشت اور لگ بھگ 90 کھرب روپے مالیت کے نوٹوں کی گردش کو ایک بڑا چیلنج قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ریٹیل، رئیل اسٹیٹ، زراعت اور ہول سیل جیسے شعبوں کو باقاعدہ بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی پر مبنی آڈٹ، ٹریک اینڈ ٹریس اور فیس لیس کسٹمز استعمال کیے جا رہے ہیں۔
وزیرخزانہ نے ایف بی آر میں اصلاحات کے لیے افراد، طریقہ کار اور ٹیکنالوجی میں بہتری کی ضرورت پر زور دیا۔
محمد اورنگزیب نے اپنی گفتگو میں آبادی میں اضافے اور ماحولیاتی تبدیلی کو بھی پاکستان کے لیے بڑے چیلنجز قرار دیا اور بتایا کہ حکومت صوبوں کے ساتھ مل کر خاندانی منصوبہ بندی، ماں اور بچے کی صحت اور خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم پر جامع حکمتِ عملی پر کام کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بچوں کی نشوونما متاثر ہونے کی بڑی وجہ بھی منصوبہ بندی کا فقدان ہے، جس سے انسانی وسائل پر منفی اثر پڑتا ہے، ان کا زور صرف مسائل کی نشان دہی نہیں بلکہ عملی اور مقامی سطح پر مؤثر حل پر ہے اور انہوں نے اس ضمن میں بنگلہ دیش کے ماڈل سے سیکھنے کی بات کی۔
وزیر خزانہ نے ماحولیاتی بہتری کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کی سرمایہ کاری اور شفاف منصوبوں کی تیاری کو ناگزیر قرار دیا۔
انہوں نے ایشیائی ترقیاتی بینک کے 500 ملین ڈالر، ورلڈ بینک کے دس سالہ شراکتی فریم ورک اور آئی ایم ایف کے ساتھ 1.3 ارب ڈالر کے نئے پروگرام کو مثبت پیش رفت قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک کے تحت پاکستان گرین ٹیکسونومی فریم ورک تیار کر رہا ہے جس کے ذریعے گرین بانڈز، گرین سکوکس اور پہلا پانڈا بانڈ متعارف کرایا جائے گا، جس کی رقم اقوام متحدہ کے ترقیاتی اہداف کے مطابق استعمال کی جائے گی۔
عالمی سطح پر بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے بریٹن ووڈز جیسے مالیاتی اداروں میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا تاکہ ترقی پذیر ممالک کی ضروریات بہتر طریقے سے پوری ہو سکیں۔
انہوں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی قیادت کو سراہا اور زور دیا کہ عالمی سطح پر ایک ایسا پلیٹ فارم قائم کیا جائے جو رعایتی فنانس کے بہاؤ کو منظم کر سکے۔
وزیر خزانہ نے ادارہ جاتی احتساب کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے پاکستان کی جانب سے اصلاحات، عملی اقدامات اور عالمی شراکت داری کے عزم کا اعادہ کیا۔