ٹرمپ انتظامیہ کا ویزا پابندیوں کی نئی پالیسی کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
امریکا میں غیر قانونی امیگرینٹس کے داخلے کے ذمہ دار غیر ملکی سرکاری افسران کیخلاف ٹرمپ انتظامیہ نے ویزا پابندیوں کی نئی پالیسی کا اعلان کردیا ہے۔
برطانوی خبر ایجنسی نے دعویٰ کیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے اس اقدام سے ممکنہ طور پر پاکستان اور افغانستان کے لوگ بھی متاثر ہوسکتے ہیں اور اس کا اطلاق اگلے ہفتے سے ہوگا۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کی جانب سے جاری بیان میں جن اہلکاروں کے امریکی ویزا پر پابندی کی پالیسی کااعلان کیا گیا ہے ان میں امیگریشن اور کسٹمز حکام، ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں پر تعینات اہلکار اور ایسے دیگر اہلکار شامل کیے گئے ہیں جو غیرقانونی امیگرینٹس کو امریکا بھیجنے میں سہولت کاری کرتے ہیں۔
وزیر خارجہ مارکو روبیو کا کہنا ہے کہ یہ اقدام پہلے سے موجود اُس پالیسی میں اضافہ ہے جس کا دائرہ سن دوہزار چوبیس میں بڑھایا گیا تھا اور اس میں نجی سیکٹر کے وہ افراد شامل کیے گئے تھے جولوگوں کے غیرقانونی طورپر امریکا جانے کیلیے سفری سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔
مارکو روبیو نے کہا کہ ایسے ممالک جو غیرقانونی طور پر نقل مکانی کرنیوالوں کا رستہ سمجھے جاتے ہیں انہیں جنوب مغربی سرحد سے امریکا میں داخل ہونے کی کوشش کرنیوالوں کا اپنے ممالک سے ٹرانزٹ روکنا ہوگا کیونکہ سرحدوں کا تحفظ امریکا کو مضبوط، محفوظ اور زیادہ خوشحال کرنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے دور صدارت میں سات مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں کے امریکا داخلے پر پابندی لگائی تھی اور بعض حلقوں کی جانب سے نئے اقدام کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔
نئی پابندی سے ان ہزاروں افغانوں کا مستقبل بھی دھندلا گیا ہے جنہیں امریکا میں رہائش کیلئے کلیئرنس مل چکی ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
ٹرمپ کو ایک اور جھٹکا، امریکی عدالت کا وائس آف امریکا کو بحال کرنے کا حکم
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک بار خفگی کا سامنا کرنا پڑا ہے جب امریکی عدالت نے ان کے ایک اور حکم نامے کو معطل کردیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایک وفاقی جج نے وائس آف امریکا (VOA) کو بند کرنے کے ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی حکم نامے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے عمل درآمد سے روک دیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت کی جانب سے فنڈنگ میں کٹوتیوں کے باعث وائس آف امریکا اپنی 80 سالہ تاریخ میں پہلی بار خبر رسانی سے قاصر رہا۔
جج رائس لیمبرتھ نے کہا کہ حکومت نے وائس آف امریکا کو بند کرنے کا اقدام ملازمین، صحافیوں اور دنیا بھر کے میڈیا صارفین پر پڑنے والے اثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے اُٹھایا۔
عدالت نے حکم دیا کہ وائس آف امریکا، ریڈیو فری ایشیا، اور مڈل ایسٹ براڈ کاسٹنگ نیٹ ورکس کے تمام ملازمین اور کنٹریکٹرز کو ان کے پرانے عہدوں پر بحال کیا جائے۔
جج نے یہ بھی کہا کہ حکومت نے ان اقدامات کے ذریعے انٹرنیشنل براڈکاسٹنگ ایکٹ اور کانگریس کے فنڈز مختص کرنے کے اختیار کی خلاف ورزی کی۔
وائس آف امریکا VOA کی وائٹ ہاؤس بیورو چیف اور مقدمے میں مرکزی مدعی پیٹسی وداکوسوارا نے انصاف پر مبنی فیصلے پر عدالت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ حکومت عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی۔
انہوں نے مزید کہا ہم وائس آف امریکا کو غیر قانونی طور پر خاموش کرنے کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، جب تک کہ ہم اپنے اصل مشن کی جانب واپس نہ آ جائیں۔
امریکی عدالت نے ٹرمپ حکومت کو حکم دیا ہے کہ ان اداروں کے تمام ملازمین کی نوکریوں اور فنڈنگ کو فوری طور پر بحال کرے۔
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کے حکم پر وائس آف امریکا سمیت دیگر اداروں کے 1,300 سے زائد ملازمین جن میں تقریباً 1,000 صحافی شامل تھے کو جبری چھٹی پر بھیج دیا گیا تھا۔
وائٹ ہاؤس نے ان اداروں پر " ٹرمپ مخالف" اور "انتہا پسند" ہونے کا الزام لگایا تھا۔
وائس آف امریکا نے ریڈیو نشریات سے دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے آغاز کیا تھا اور آج یہ دنیا بھر میں ایک اہم میڈیا ادارہ بن چکا ہے۔
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ طویل عرصے سے VOA اور دیگر میڈیا اداروں پر جانبداری کا الزام عائد کرتے ہوئے کڑی تنقید کا نشانہ بناتے آئے ہیں۔
اپنے دوسرے دورِ صدارت کے آغاز میں ٹرمپ نے اپنی سیاسی اتحادی کاری لیک کو VOA کا سربراہ مقرر کیا تھا جو ماضی میں 2020 کے انتخابات میں ٹرمپ کے دھاندلی کے دعووں کی حمایت کر چکی ہیں۔