عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کا نیتھن پورٹر کی قیادت میں 9 رکنی وفد چند دنوں سے پاکستان میں موجود ہے۔ وفد آئی ایم ایف اور پاکستان کے موجودہ 7 ارب ڈالر قرض پروگرام کا جائزہ لینے کے لیے مذاکرات کر رہا ہے۔

پہلے مرحلے میں تکنیکی جبکہ دوسرے مرحلے میں پالیسی سطح پر مذاکرات ہوں گے۔ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے الگ الگ مذاکرات ہوں گے۔ اقتصادی جائزہ کے یہ مذاکرات 15 مارچ تک جاری رہیں گے۔ یہ مذاکرات کامیاب ہونے کی صورت میں پاکستان کو آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط ملے گی۔ تاہم ان مذاکرات میں آئی ایم ایف کی جانب سے نئے مطالبات سامنے آئے ہیں۔

 ذرائع کے مطابق مذاکرات کے دوران آئی ایم ایف وفد مالی سال 2025-26 کے لیے بجٹ تجاویز بھی دے گا۔ آئی ایم ایف نے سرکاری افسران کے اثاثوں کی ڈیکلیئرنگ کے لیے پاکستان کو ستمبر کی ڈیڈ لائن دے دی ہے اور اس سے متعلق ڈیجیٹل پورٹل لانچ کرنے کی ہدایت کی ہے۔

یہ بھی پڑھیےآئی ایم ایف کے ایما پر سرکاری ملازمین کے گرد گھیرا تنگ

دوسری طرف حکومت نے سرکاری افسران کے اثاثوں کی ڈیکلیئرنگ کے لیے ضروری قانون سازی پر اپنی مشاورت شروع کر دی ہے اور سول سرونٹ ایکٹ میں ترمیم کا فیصلہ کیا ہے۔

ترمیم کے ذریعے سرکاری افسران کو اپنے اثاثوں کے ساتھ بیوی کے اثاثوں، گھر کے ذرائع آمدن کی معلومات بھی فراہم کرنا ہوں گی جبکہ اپنے بچوں کے تعلیمی اداروں کی معلومات بھی فراہم کرنا ہوں گی۔

 ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف وفد نے ریونیو شارٹ فال اور رائٹ سائزنگ کے حوالے سے بھی نئے مطالبات سامنے رکھے ہیں اور اخراجات میں کمی کے لیے رائٹ سائزنگ اقدامات کو جلد مکمل کرنے کو کہا ہے۔

اس کے علاوہ آئی ایم ایف وفد نے ٹیکس ریونیو کے شارٹ فال پر ایف بی آر اور وزارت خزانہ سے تشویش کا اظہار کیا ہے اور آئندہ سہ ماہی میں اس شارٹ فال کو پورا کرنے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ بڑے شہروں میں ٹیکس نیٹ سے باہر بڑے ریٹیلرز سے ٹیکس ریکوری کرکے ٹیکس ریونیو شارٹ فال کو پورا کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیےآئی ایم ایف کا وفد پاکستان پہنچ گیا، کن اہم امور پر مذاکرات ہوں گے؟

آڈیٹر جنرل اجمل گوندل نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بتایا کہ مختلف وزارتوں اور سرکاری اداروں کے 5 سے 6 لاکھ آڈٹ پیراز زیر التوا ہیں جس پر آئی ایم ایف نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور انہیں جلد نمٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔ کسی بھی سرکاری ادارے میں انٹرنل آڈٹ کا سسٹم موجود نہیں ہے، حتیٰ کہ چیف انٹرنل اکاؤنٹنٹ بھی تعینات نہیں ہیں، جس پر چیئرمین کمیٹی نے ایک ماہ میں وزارتوں اور اداروں سے جواب طلب کر لیا ہے۔

ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف وفد کے وزارت توانائی اور پیٹرولیم کے ساتھ مذاکرات ہو چکے ہیں جس میں پاور اور پٹرولیم سیکٹر کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے پاور اور پیٹرولیم سیکٹر کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے اور اصلاحات کو جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ وفد کو گیس سیکٹر کے اہداف پر عمل درآمد کی پیشرفت سے بھی آگاہ کیا گیا۔

 یہ بھی پڑھیےرضا ربانی کا آئی ایم ایف وفد کو واپس بھیجنے، وزیر خزانہ سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ

ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف وفد کو بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں ڈسکوز کی نجکاری پر پیشرفت کے حوالے سے بھی بریف کیا گیا، جبکہ اس شعبے کے سرکلر ڈیٹ کی صورتحال پر بریفنگ دی گئی۔

حکومتی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ پاور سیکٹر کے سرکلر ڈیٹ کا حصول بہت زیادہ کنٹرول میں ہے۔ گزشتہ سال دسمبر تک پاور سیکٹر کا سرکلر ڈیٹ2 ہزار384ارب روپے ہو گیا تھا جو کہ جون میں 2 ہزار393 ارب روپے تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آئی ایم ایف وفد مذاکرات معاشی اصلاحات.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف وفد مذاکرات معاشی اصلاحات آئی ایم ایف وفد ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے ئی ایم ایف وفد ا ئی ایم ایف کا مطالبہ شارٹ فال کیا ہے ہے اور کے لیے

پڑھیں:

غزہ سے پہلے مغربی کنارہ ہڑپ ہو رہا ہے

وہی ہوا جو منطقی تسلسل میں ہوتا ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) نے مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں باقاعدہ ضم کرنے کی علامتی قرار داد گذرے بدھ تیرہ کے مقابلے میں اکہتر ووٹوں سے منظور کر لی۔ اس سے دنیا کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اگر نیتن یاہو حکومت مستقبلِ قریب میں ایسا کوئی قدم اٹھاتی ہے تو پارلیمان اس کے پیچھے کھڑی ہے۔گزشتہ برس نو کے مقابلے میں اڑسٹھ ووٹوں سے دو ریاستی حل کا فارمولا مسترد کرنے کی قرار داد بھی کنیسٹ منظور کر چکی ہے۔

مغربی کنارے کو باقاعدہ ضم کرنے کی قرار داد کی مخالفت میں جو تیرہ ووٹ آئے وہ پارلیمنٹ میں عرب بلاک کے نمایندوں اور بائیں بازو بشمول لیبر ارکان نے دیے۔نام نہاد اعتدال پسند صیہونی جماعتوں ، دائیں بازو کی حکمران لیخود پارٹی اور اس کی حواری متشدد مذہبی پارٹیوں نے مقبوضہ علاقے کو اسرائیلی ریاست میں ضم کرنے سے اتفاق کیا۔

تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ مقبوضہ غربِ اردن کی فلسطینی آبادی کو ضم ہونے کی صورت میں برابر کا اسرائیلی شہری تسلیم کیا جائے گا اور ان پر موجودہ فوجی قوانین کے بجائے وہی سویلین قوانین لاگو ہوں گے جو اسرائیلی شہریوں پر لاگو ہوتے ہیں ؟ ہرگز نہیں۔

 اس کا عملی مطلب یہ ہے کہ انضمام کے بعد مسلح یہودی آبادکاروں کے حملے اور تیز ہو جائیں گے ، فلسطینیوں کی باقی ماندہ نجی زمینوں پر فوجی سنگینوں کے سائے میں ’’ دفاعی مقاصد ‘‘ کے نام پر قبضے کی رفتار بھی بڑھ جائے گی۔ان زمینوں پر نئی یہودی بستیاں بسائی جائیں گی۔یعنی ایسا ماحول پیدا کیا جائے گا کہ لاکھوں فلسطینیوں کا آخری ریلا بھی ’’ رضاکارانہ ‘‘ طور پر اپنی زمین سے نکل جائے اور جوڈیا سماریا (غربِ اردن ) ایک مکمل یہودی خطہ بن جائے۔

یہ قرار داد اسرائیلی کابینہ کے پندرہ وزرا کے بنام سرکار خط کی روشنی میں لکھی گئی۔ خط کے مطابق ’’ ایرانی شیطانی تکون ( حزب اللہ ، بشار الاسد ، یمنی ہوثی ) پر فتح کے بعد اب اندر موجود بقائی خطرے ( مقبوضہ فلسطینی ) سے بھی موثر انداز میں نمٹنے کی ضرورت ہے۔امریکا اور اسرائیل کی اسٹرٹیجک ساجھے داری اور صدر ٹرمپ کی مکمل حمائیت کے سبب یہی مناسب وقت ہے کہ آیندہ اسرائیلی نسلوں کا جغرافیائی مستقبل محفوظ کیا جائے۔ سات اکتوبر دو ہزار تئیس کے المیے نے ثابت کر دیا ہے کہ فلسطینی ریاست ہر شکل میں اسرائیل کی بقا کے لیے سنگین خطرہ ہے۔لہٰذا جوڈیا سماریا ( مقبوضہ کنارہ ) پر اسرائیل کا مکمل اختیار نافذ کیا جائے ‘‘۔

قرار داد کی علامتی اہمیت اپنی جگہ مگر عملاً اسرائیل بیشتر مقبوضہ علاقے کو پہلے ہی بتدریج ہضم کر چکا ہے۔مغربی یروشلم انیس سو اڑتالیس میں ہی اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا گیا۔فلسطینی اکثریتی مشرقی یروشلم انیس سو سڑسٹھ کی جنگ کے بعد گریٹر یروشلم میونسپلٹی کا حصہ بنا دیا گیا۔ فلسطینی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے یروشلم کے چاروں طرف آبادکار بستیوں کا جال بچھا دیا گیا۔

حالانکہ اقوامِ متحدہ نے نومبر انیس سو سینتالیس میں فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی جو قرار داد منظور کی تھی اور جس کی بنیاد پر چھ ماہ بعد اسرائیل کا وجود عمل میں آیا۔ اس قرار داد کے تحت یروشلم ایک کھلا بین الاقوامی شہر ہو گا۔مگر اسرائیلی پارلیمان نے انیس سو اسی میں متحدہ یروشلم کو اسرائیل کا تاریخی دارالحکومت قرار دے کے قصہ چکتا کر دیا۔

 اسرائیل نے شام سے انیس سو سڑسٹھ میں چھینی گئی گولان پہاڑیوں کو انیس سو اکیاسی میں باقاعدہ ضم کر لیا۔اگرچہ سلامتی کونسل نے اس اقدام کو بھی غیر قانونی قرار دیا۔مگر پہلی ٹرمپ انتظامیہ نے دو ہزار انیس میں نہ صرف گولان کو اسرائیل کا جائز حصہ مان لیا بلکہ یروشلم پر بھی اسرائیل کی حاکمیت کو قانونی تسلیم کر کے وہاں سفارت خانہ منتقل کر کے عشروں پرانی مبہم امریکی پالیسی ٹھکانے لگا دی۔

غزہ کے المئے نے نہ صرف وہاں کی پوری آبادی کو غذائی و عسکری نسل کشی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے بلکہ مغربی کنارے کی قسمت بھی سربمہر کر دی ہے۔اس بحران کے شروع ہونے کے بعد سے اب تک مغربی کنارے پر اکتیس نئی یہودی بستیوں کی آبادکاری کی منظوری دی جا چکی ہے۔مزید چالیس ہزار سے زائد فلسطینی خاندان بے گھر ہو گئے ہیں۔ سیکڑوں ایکڑ فصلیں اور باغات نذرِ آتش ہو چکے ہیں یا اجاڑے جا رہے ہیں ، لگ بھگ ایک ہزار فلسطینی شہید اور چار گنا زخمی ہو چکے ہیں۔

انیس سو چورانوے کے نام نہاد اوسلو سمجھوتے کے تحت مغربی کنارے کا ساٹھ فیصد علاقہ ایریا سی کے نام پر اسرائیل کی دفاعی ضروریات کے لیے مختص ہے۔یہاں کوئی فلسطینی باشندہ کچھ بھی تعمیر نہیں کر سکتا۔اکیس فیصد علاقہ ایریا بی کے نام سے اگرچہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے مشترکہ کنٹرول میں ہے۔ عملاً اسرائیلی فوج مسلح آباد کاروں کو آگے رکھ کے ایریا بی کو بھی مقامی آبادی سے صاف کر رہی ہے۔

اب رہ جاتا ہے انیس فیصد ایریا اے۔کہنے کو یہاں فلسطینی اتھارٹی کی اتھارٹی چلنی چاہیے۔مگر اسرائیلی فوج دھشت گردوں کے قلع قمع کے نام پر ایریا اے کے شہروں اور قصبوں میں جس وقت جہاں اور جب چاہے گھس جاتی ہے ، ناکہ بندی کرتی ہے اور برسوں سے قائم پناہ گزین کیمپوں کو بھی مکمل منہدم کر رہی ہے۔

مسجدِ اقصی کا احاطہ اگرچہ قانوناً غیر مسلموں پر بند ہے اور اس احاطے کی علامتی نگرانی اردن کے ہاتھ میں ہے۔مگر کوئی ہفتہ ایسا نہیں جاتا کہ کوئی نہ کوئی صیہونی جتھہ اس احاطے میں نہ گھسے اور نمازیوں کو بے دخل نہ ہونا پڑے۔

مسجد مسلسل فوج اور پولیس کے محاصرے میں رہتی ہے۔یعنی یروشلم سمیت مغربی کنارہ عملاً اسرائیل میں ضم ہو چکا ہے۔بس باضابطہ اعلان کی کسر ہے تاکہ عرب ممالک ، او آئی سی ، اقوامِ متحدہ اور کچھ غیر عرب ریاستیں بین الاقوامی قوانین کا علم اٹھائے پہلے کی طرح کچھ ہفتے ماتم کر سکیں۔

اگلا منصوبہ یہ ہے کہ اسرائیل کس طرح غزہ سے تمام فلسطینیوں کو زندہ یا مردہ نکالتا ہے ، جنوبی لبنان کی سرحدی پٹی پر مستقل پنجے گاڑنا ہے اور جنوبی شام کے گولان سے متصل کچھ اور علاقے ہڑپ کرنے کے عمل میں قبائلی و علاقائی خانہ جنگی کو ہوا دے کر شام کے چار ٹکڑے ( دروز ، علوی ، سنی ، کرد ) کرواتا ہے۔

 علاقے میں بس ترکی آخری طاقت رہ گیا ہے جو اسرائیل کو کبھی منہ دے سکے۔چنانچہ ان سب ہتھکنڈوں کا ہدف اگلے مرحلے میں ترکی کو تنہا کرنا ہے۔

آپ کے علم میں ہے کہ اسرائیلی بچوں کو اسکول میں کیا پڑھایا جاتا ہے ؟

’’ خدا نے دریاِ نیل تا فرات پھیلی زمین بنی اسرائیل کو ہمیشہ کے لیے بخشی ہے ‘‘۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

متعلقہ مضامین

  • غزہ سے پہلے مغربی کنارہ ہڑپ ہو رہا ہے
  • پی ٹی آئی نے 5 اگست تحریک کا پلان تیار کرلیا
  • صدر پی ٹی آئی پنجاب حماد اظہر کا سرنڈر کرنے کا فیصلہ
  • حماد اظہر نے آخر کارگھٹنے ٹیک دئیے ،سرنڈر کرنے کافیصلہ
  • کوہستان میگا اسکینڈل کے معاملے میں بڑی پیشرفت، اربوں کی ریکوری کا امکان
  • راولپنڈی: غیرت کے نام پر خاتون کے قتل کی گھناؤنی واردات، دوران تفتیش ہوش ربا انکشاف
  • آئی ایم ایف نے وزارت توانائی کا 3 سالہ مارجنل انرجی پیکج مسترد کر دیا
  • ایرانی صدر مسعود پزشکیان متوقع طور پر آئندہ ماہ پاکستان کا دورہ کریں گے، سفارتی ذرائع
  • سوات: مدرسے کے مہتمم کا بیٹا مقتول فرحان سے ناجائز مطالبات کرتا تھا، چچا
  • دکی، کوئلہ کان میں پھنسے تین کانکنوں کی تلاش جاری، ایک لاش نکال لی گئی