زاغوں کے تصرف میں عقابوں کا نشیمن
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
فیض احمد فیض نے جب اپنی مشہور نظم ’’بول‘‘ جو ان کے پہلے شعری مجموعہ ’’نقشِ فریادی‘‘ میں شامل ہے لکھی ہوگی تو یقینا اسی خلفشار، ہیجان اور اندرونی کرب سے گزرے ہوں گے جس سے آج سچ بولنے والے اور سچ لکھنے والے قلم کار دوچار ہیں، کہنے کو تو وہ کہہ گئے کہ:
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و جاں کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ پاکستان پر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب سچائی کو سامنے لانے والوں کی زندگی اجیرن کر دی جائے گی لیکن فیض جانتے تھے ’’سچ کا سودا‘‘ من میں سما جائے تو لکھنے والا اور کہنے والا دونوں تلوار کی دھار پہ چلنے کو تیار ہوتے ہیں۔ سچ کا پل صراط عبورکرنا ہر ایک کا مقدر نہیں۔ فیض ناامید نہیں تھے، اسی لیے ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے رہے،کیا ان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا اور ان کے یہ اشعار مجسم سچائی بن کر سامنے آئیں گے۔
جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں
روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
سب تاج اُچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
یہ نظم انھوں نے جنوری 1979 میں کہی تھی، اگر آج وہ زندہ ہوتے تو ایسی باغیانہ نظمیں لکھنے پر جو عوام کا شعور بیدار کر سکتی ہیں انھیں بنیاد بنا کر یقینا انھیں جیل میں ڈال دیا جاتا اور ان کے شعری مجموعے بک اسٹالز سے اٹھا کر سمندر میں پھینک دیے جاتے۔ برسر اقتدار اور طاقت ور لوگ جو جمہوریت کا مکھوٹا لگا کر جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور وڈیروں کے ساتھ ڈکٹیٹرشپ کے تحفظ اور حصول اقتدار کے لیے میدان سیاست میں کودے ہیں انھیں اندازہ ہو گیا ہے کہ سچ کی راگنی اپنا اثر ضرور دکھاتی ہے۔ بلبل کو نغمہ گانے سے کوئی نہیں روک سکتا، گلاب کی خوشبو ہو یا موتیا اور ہار سنگھار کی مسحور کن خوشبو، انھیں پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا لیکن افسوس کہ ہم آج جس دور میں سانس لے رہے ہیں اس میں تازہ ہوا کا گزر نہ ہونے کے برابر ہے۔
آج اگر اقبال، حبیب جالب اور فیض زندہ ہوتے تو انھیں پیکا ایکٹ کے تحت جیل میں ڈال دیا جاتا، خاص طور پر اقبال کے اشعار پر تو فوری طور پر انھیں اشتہاری قرار دے دیا جاتا:
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
مولانا بھاشانی نے 1970 میں ایک جلسے کے دوران جب یہ اشعار پڑھے تو اس وقت ان پر بھی بڑا فساد برپا ہوا تھا کہ مولانا لوگوں کو تشدد پر اکسا رہے ہیں، کیا یہ اشعار آج کی صورت حال کا عکس نہیں؟ ایک طرف بلند و بالا عمارتیں، لگژری کاریں اور پُل کے دوسری طرف جھونپڑیاں، ننگے بدن پھرنے والے بھوکے بچے۔
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
میراث میں آئی ہے انھیں مسند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
سچ کے دیوتا کو جھوٹ اور منافقت کے دیو نے یرغمال بنا رکھا ہے، سب مفاد پرست ہاتھ باندھے اس کے سامنے ہیں۔ دروغ دیوزاد کے سر پر فرعونیت کا تاج جگمگا رہا ہے۔ اس تاج میں لگے رشوت، اقربا پروری اور کرپشن کے ہیرے غلاموں کے لیے باعث کشش ہیں اسی لیے جھوٹ، فریب، رشوت خوری اور اقربا پروری کی آبیاری نہایت اعلیٰ پیمانے پر اعلیٰ ترین اداروں کے اعلیٰ ترین عہدے داروں کی مدد سے خوب ہو رہی ہے اور پھر زرخرید غلاموں سے توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے۔ ان کا کام ہی ’’حاضر سائیں‘‘ اور ’’میرے آقا کیا حکم ہے‘‘ کہنا ہے۔ لفظوں پہ پابندی، بولنے اور لکھنے پر پابندی، یہ قلم توڑ دینے کی پابندی جیسی باتیں تسلسل سے ہو رہی ہیں وہ بھی بدترین جمہوریت کے لے پالکوں کی مرضی و منشا سے سب کچھ ہوتا آیا ہے۔
پاکستان میں کبھی جمہوریت آئی ہی نہیں، جناح صاحب اور لیاقت علی خان نے اس مملکت کے لیے کیا کیا خواب دیکھے تھے لیکن ’’جعلی جمہوریت‘‘ کا راگ الاپنے کے لیے طوطے پال لیے گئے اور انھیں سین یاد کرا دیے، قصیدہ نگاروں کی فوج ظفر موج کے باوجود چند سرپھرے کسی نہ کسی طرح سچائی کا عطر بیچتے رہیں گے۔
یہ وہ صحافی اور تجزیہ کار ہیں جو کسی نہ کسی طرح سچ بولتے تھے، سچ لکھتے تھے۔ لیکن اب ان پر بھی پابندی ہے۔ سب کے لیے ہتھکڑیاں تیار ہیں۔ آج درباری کوؤں نے مل کر راگ درباری گانا شروع کر دیا ہے۔ ارکان اسمبلی کو رشوت دینے کے لیے ان کی تنخواہیں بڑھا دی گئی ہیں تاکہ وہ کسی بھی طرح سے تنقید نہ کریں۔ قلم کاروں میں سے بڑے بڑے نام ہیں جو پے رول پر ہیں، وہ حکومت سے الگ معاوضہ لیتے ہیں۔ جب انھیں کوئی ٹارگٹ دیا جاتا ہے تو وہ پوری ’’ایمانداری‘‘ سے اپنا کام کرتے ہیں۔ اب تو سوشل میڈیا کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
ملک کی صورت حال ابتر ہے، لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے پورے پورے صفحے کے مقتدرہ کے بیانات جاری کیے جا رہے ہیں۔ ’’سب کچھ اچھا ہے، ملک ترقی پر گامزن ہے‘‘ لیکن لوگ احمق نہیں ہیں۔ وہ بین السطور سب کچھ سمجھ جاتے ہیں، مہنگائی رکنے کا نام نہیں لے رہی، بعض گھروں میں ایک وقت کھانا کھایا جا رہا ہے، پھل مہنگے ہوگئے ہیں کہ کینو سمیت دیگر پھل باہر بھیجے جا رہے ہیں۔ روپے کی قدر دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہے، ملک پریشر ککر بنتا جا رہا ہے، لوگ جانتے ہیں کہ اگر وقت پر پریشر ککر کی اسٹیم نہ نکالی جائے تو وہ پھٹ پڑتا ہے اور تباہی لاتا ہے۔ بنگلہ دیش بھی پریشرککر بن گیا تھا۔ اہل اقتدار کو سوچنا چاہیے کہ ملک کیوں تباہی کی طرف جا رہا ہے؟
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جا رہا ہے دیا جاتا رہے ہیں اور ان ہے ہیں
پڑھیں:
بدامنی کی انتہا
قومی اسمبلی کے رکن اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید شاہ نے اعتراف کیا ہے کہ سندھ میں امن و امان کا مسئلہ ہے، اسٹریٹ کرائمز بڑھنے سے لوگ پریشان ہیں جس پر کام کرنے کی بے حد ضرورت ہے۔
سندھ بچاؤ کمیٹی اور جی ڈی اے کے سیکریٹری صفدر عباسی اور سیکریٹری اطلاعات سردار عبدالرحیم نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ سندھ میں امن و امان کی صورت حال انتہائی خراب ہو چکی ہے اور سندھ بھر میں قبائلی خونریزی ہو رہی ہے اور پولیس کو سیاسی بنا دیا گیا ہے، جس کے باعث سندھ میں ہر طرف خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔
یہ دو بیانات سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی اور حکومت مخالف گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے رہنماؤں کے ہیں جب کہ سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے اپوزیشن لیڈر علی خورشیدی سمیت ایم کیو ایم اور جے یو آئی سندھ کے اہم رہنما بھی سندھ میں بدامنی پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں جب کہ کراچی کی مختلف چھوٹی جماعتوں اور تنظیموں اور پی ٹی آئی کے صوبائی عہدیدار بھی سندھ میں امن و امان کی صورت حال، اغوا اور دیگر بڑھتے جرائم کو تشویش ناک قرار دیتے آ رہے ہیں مگر سندھ حکومت کے ذمے داروں کو سندھ میں بدامنی نظر نہیں آ رہی اور حکمران اور پی پی رہنما ہر معاملے پر بیان بازی کرتے ہیں مگر پی پی رہنما خورشید شاہ جن کا تعلق سکھر سے ہے کے علاوہ کسی کو سندھ میں تشویش ناک بدامنی پر لب کشائی کی توفیق نہیں ہوتی اور وہ تصویر کا صرف ایک رخ پیش کرتے ہیں یا سندھ میں امن و امان کی صورت حال کو مسئلہ ہی نہیں سمجھتے اور نہ حکمرانوں کی اس اہم مسئلے پر توجہ ہے بلکہ یہ سب سندھ میں امن و امان کی حالت کو اپوزیشن کا گمراہ کن پروپیگنڈا سمجھتے ہیں۔
سندھ میں حکمران پارٹی کے علاوہ تمام سیاسی پارٹیاں بدامنی روکنے اور امن کی بحالی کا مطالبہ کرتی آرہی ہیں جس پر اب پی پی میں سے بھی آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں جو ان کی تعمیری سوچ کی عکاس ہیں۔ سندھ کی ایسی متعدد شاہراہیں ہیں جہاں رات کے اندھیرے میں سفر ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ ملک کے دیگر صوبوں کے علاوہ اندرون سندھ سے بھی بڑی تعداد میں بسیں اور مال بردار ہزاروں کی تعداد میں اندرون سندھ سے گزر کر کراچی آتے اور کراچی سے ملک بھر میں جاتے ہیں۔ گزشتہ ماہ اندرون سندھ پنجاب سے کراچی آنے والے قربانی کے جانوروں کے ٹرکوں کو روکا گیا اور ان سے ہزاروں روپے بھتہ وصول کرکے انھیں جانے کا راستہ دیا گیا جس کی وجہ سے منڈی میں پہلے جانور کم تھا جو جلد فروخت ہو گیا اور عیدالاضحی کے قریب جانور کراچی لائے گئے جس سے تاجروں نے جانور مہنگے کر دیے اور منہ مانگے داموں قربانی کے جانور فروخت کیے اور وجوہات میں راستے میں دیا جانے والا بھتہ جو پولیس نے بھی وصول کیا بتایا۔ ملک بھر سے مال برداری اور روزانہ ہزاروں کی تعداد میں کراچی آمد ٹرینوں سے زیادہ ٹرکوں، ٹرالروں اور مسافر بسوں کے ذریعے ممکن ہوتی ہے اور وہ بدامنی کے حالات میں خود کو غیر محفوظ سمجھ کر سفرکرتے ہیں۔
جن اضلاع میں سندھ کے کچے کے علاقے ہیں وہاں چھپے ڈاکوؤں کے خلاف سندھ پولیس اپنا آپریشن بھی جاری رکھے ہوئے ہے جس میں اتنی کامیابی نہیں ہوئی کہ سندھ کی شاہراؤں کو محفوظ قرار دیا جا سکے۔پی پی رہنما کے قریب بدامنی اور اسٹریٹ کرائم کے باعث لوگ پریشان ہیں جب کہ جی ڈی اے کے رہنماؤں کے مطابق سندھ میں قبائل کے درمیان جاری خونریزی سے مسلسل ہلاکتیں اور تصادم نہیں رک پا رہے ہیں اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں سندھ کی پولیس اس لیے نہیں روک پائی کہ وہ سیاسی بنا دی گئی اور وزیروں، ارکان اسمبلی اور عہدیداروں نے اپنے من پسند افسر تعینات کرا رکھے ہیں جن کے ذریعے مخالفین پر مقدمات بنوائے جاتے ہیں۔
سندھ کے زیادہ تر قبائلی رہنما، مختلف قومیتوں کے سردار، بااثر اور بڑے وڈیرے پیپلز پارٹی میں شامل ہیں جس کے باوجود قبائلی جھگڑے ختم نہیں ہو رہے اور بعض بااثر افراد قبائلی جھگڑے ختم کرانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں مگر آئے دن کسی نہ کسی علاقے میں پھر جھگڑوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور جانی نقصان معمول بن چکا ہے۔سندھ حکومت نہ کچے کے ڈاکوؤں کا خاتمہ کر سکی اور نہ قبائلی جھگڑے روک پائی جب کہ کراچی کے علاوہ سندھ کے اندرونی علاقوں میں جرائم اور اسٹریٹ کرائم پر بھی قابو نہیں پایا جا رہا جس سے سندھ حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھ رہے ہیں جب کہ کراچی تو لگتا ہے کہ سندھ حکومت کے کنٹرول سے نکل چکا اور کراچی پولیس مکمل ناکام ہو چکی جس پر شہریوں نے خود ڈاکوؤں کو پکڑنا اور ان پر تشدد شروع کر دیا ہے اور وہ خود ہی مایوس ہو کر قانون کو ہاتھ میں لینے لگے ہیں۔