زاغوں کے تصرف میں عقابوں کا نشیمن
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
فیض احمد فیض نے جب اپنی مشہور نظم ’’بول‘‘ جو ان کے پہلے شعری مجموعہ ’’نقشِ فریادی‘‘ میں شامل ہے لکھی ہوگی تو یقینا اسی خلفشار، ہیجان اور اندرونی کرب سے گزرے ہوں گے جس سے آج سچ بولنے والے اور سچ لکھنے والے قلم کار دوچار ہیں، کہنے کو تو وہ کہہ گئے کہ:
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و جاں کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ پاکستان پر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب سچائی کو سامنے لانے والوں کی زندگی اجیرن کر دی جائے گی لیکن فیض جانتے تھے ’’سچ کا سودا‘‘ من میں سما جائے تو لکھنے والا اور کہنے والا دونوں تلوار کی دھار پہ چلنے کو تیار ہوتے ہیں۔ سچ کا پل صراط عبورکرنا ہر ایک کا مقدر نہیں۔ فیض ناامید نہیں تھے، اسی لیے ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے رہے،کیا ان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا اور ان کے یہ اشعار مجسم سچائی بن کر سامنے آئیں گے۔
جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں
روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
سب تاج اُچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
یہ نظم انھوں نے جنوری 1979 میں کہی تھی، اگر آج وہ زندہ ہوتے تو ایسی باغیانہ نظمیں لکھنے پر جو عوام کا شعور بیدار کر سکتی ہیں انھیں بنیاد بنا کر یقینا انھیں جیل میں ڈال دیا جاتا اور ان کے شعری مجموعے بک اسٹالز سے اٹھا کر سمندر میں پھینک دیے جاتے۔ برسر اقتدار اور طاقت ور لوگ جو جمہوریت کا مکھوٹا لگا کر جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور وڈیروں کے ساتھ ڈکٹیٹرشپ کے تحفظ اور حصول اقتدار کے لیے میدان سیاست میں کودے ہیں انھیں اندازہ ہو گیا ہے کہ سچ کی راگنی اپنا اثر ضرور دکھاتی ہے۔ بلبل کو نغمہ گانے سے کوئی نہیں روک سکتا، گلاب کی خوشبو ہو یا موتیا اور ہار سنگھار کی مسحور کن خوشبو، انھیں پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا لیکن افسوس کہ ہم آج جس دور میں سانس لے رہے ہیں اس میں تازہ ہوا کا گزر نہ ہونے کے برابر ہے۔
آج اگر اقبال، حبیب جالب اور فیض زندہ ہوتے تو انھیں پیکا ایکٹ کے تحت جیل میں ڈال دیا جاتا، خاص طور پر اقبال کے اشعار پر تو فوری طور پر انھیں اشتہاری قرار دے دیا جاتا:
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
مولانا بھاشانی نے 1970 میں ایک جلسے کے دوران جب یہ اشعار پڑھے تو اس وقت ان پر بھی بڑا فساد برپا ہوا تھا کہ مولانا لوگوں کو تشدد پر اکسا رہے ہیں، کیا یہ اشعار آج کی صورت حال کا عکس نہیں؟ ایک طرف بلند و بالا عمارتیں، لگژری کاریں اور پُل کے دوسری طرف جھونپڑیاں، ننگے بدن پھرنے والے بھوکے بچے۔
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
میراث میں آئی ہے انھیں مسند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
سچ کے دیوتا کو جھوٹ اور منافقت کے دیو نے یرغمال بنا رکھا ہے، سب مفاد پرست ہاتھ باندھے اس کے سامنے ہیں۔ دروغ دیوزاد کے سر پر فرعونیت کا تاج جگمگا رہا ہے۔ اس تاج میں لگے رشوت، اقربا پروری اور کرپشن کے ہیرے غلاموں کے لیے باعث کشش ہیں اسی لیے جھوٹ، فریب، رشوت خوری اور اقربا پروری کی آبیاری نہایت اعلیٰ پیمانے پر اعلیٰ ترین اداروں کے اعلیٰ ترین عہدے داروں کی مدد سے خوب ہو رہی ہے اور پھر زرخرید غلاموں سے توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے۔ ان کا کام ہی ’’حاضر سائیں‘‘ اور ’’میرے آقا کیا حکم ہے‘‘ کہنا ہے۔ لفظوں پہ پابندی، بولنے اور لکھنے پر پابندی، یہ قلم توڑ دینے کی پابندی جیسی باتیں تسلسل سے ہو رہی ہیں وہ بھی بدترین جمہوریت کے لے پالکوں کی مرضی و منشا سے سب کچھ ہوتا آیا ہے۔
پاکستان میں کبھی جمہوریت آئی ہی نہیں، جناح صاحب اور لیاقت علی خان نے اس مملکت کے لیے کیا کیا خواب دیکھے تھے لیکن ’’جعلی جمہوریت‘‘ کا راگ الاپنے کے لیے طوطے پال لیے گئے اور انھیں سین یاد کرا دیے، قصیدہ نگاروں کی فوج ظفر موج کے باوجود چند سرپھرے کسی نہ کسی طرح سچائی کا عطر بیچتے رہیں گے۔
یہ وہ صحافی اور تجزیہ کار ہیں جو کسی نہ کسی طرح سچ بولتے تھے، سچ لکھتے تھے۔ لیکن اب ان پر بھی پابندی ہے۔ سب کے لیے ہتھکڑیاں تیار ہیں۔ آج درباری کوؤں نے مل کر راگ درباری گانا شروع کر دیا ہے۔ ارکان اسمبلی کو رشوت دینے کے لیے ان کی تنخواہیں بڑھا دی گئی ہیں تاکہ وہ کسی بھی طرح سے تنقید نہ کریں۔ قلم کاروں میں سے بڑے بڑے نام ہیں جو پے رول پر ہیں، وہ حکومت سے الگ معاوضہ لیتے ہیں۔ جب انھیں کوئی ٹارگٹ دیا جاتا ہے تو وہ پوری ’’ایمانداری‘‘ سے اپنا کام کرتے ہیں۔ اب تو سوشل میڈیا کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
ملک کی صورت حال ابتر ہے، لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے پورے پورے صفحے کے مقتدرہ کے بیانات جاری کیے جا رہے ہیں۔ ’’سب کچھ اچھا ہے، ملک ترقی پر گامزن ہے‘‘ لیکن لوگ احمق نہیں ہیں۔ وہ بین السطور سب کچھ سمجھ جاتے ہیں، مہنگائی رکنے کا نام نہیں لے رہی، بعض گھروں میں ایک وقت کھانا کھایا جا رہا ہے، پھل مہنگے ہوگئے ہیں کہ کینو سمیت دیگر پھل باہر بھیجے جا رہے ہیں۔ روپے کی قدر دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہے، ملک پریشر ککر بنتا جا رہا ہے، لوگ جانتے ہیں کہ اگر وقت پر پریشر ککر کی اسٹیم نہ نکالی جائے تو وہ پھٹ پڑتا ہے اور تباہی لاتا ہے۔ بنگلہ دیش بھی پریشرککر بن گیا تھا۔ اہل اقتدار کو سوچنا چاہیے کہ ملک کیوں تباہی کی طرف جا رہا ہے؟
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جا رہا ہے دیا جاتا رہے ہیں اور ان ہے ہیں
پڑھیں:
جرثوموں سے جینوم تک
یورپ کی تاریخ میں چھٹی صدی ایک ایسا باب ہے جس پر خون کے دھبے اور کرب کی گہری لکیریں کھنچی ہوئی ہیں۔ بازنطینی سلطنت کے تخت پر شہنشاہ جسٹینین اوّل بیٹھا تھا، جسے اپنے قوانین، عظیم تعمیراتی منصوبوں اور سیاسی بصیرت کے باعث ’’عظیم جسٹینیں‘‘ کہا جاتا ہے، لیکن اسی کے دور میں ایک ایسا ناگہانی حملہ ہوا جس نے سلطنت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، اور انسانیت کی اجتماعی یادداشت پر ایک ان مٹ داغ چھوڑ دیا۔ یہ حملہ کسی دشمن فوج کا نہیں بلکہ ایک چھوٹے سے جرثومے کا تھا، جس نے لاکھوں انسانوں کو نگل لیا۔ یہ وہی طاعون ہے جسے بعد میں ’’جسٹینینک پلیگ‘‘ کہا گیا۔
جدید سائنسی تحقیق نے گذشتہ برسوں میں انسانی ہڈیوں اور دانتوں سے ڈی این اے نکال کر یہ ثابت کیا کہ اس وقت کی وبا کا اصل سبب یَرسینیا پیسٹس نامی بیکٹیریا تھا۔ یہی وہ مائیکروب ہے جس نے بعد میں چودھویں صدی میں ’’سیاہ موت‘‘ کی شکل میں یورپ کی آدھی آبادی کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا۔ لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ چھٹی صدی کا طاعون بھی اسی کی ایک قریبی شکل تھا، جسے اب جراثیمیات اور جینومکس کی روشنی میں بہتر طور پر سمجھا جا رہا ہے۔
جب ہم پرانی انسانی ہڈیوں کے دانتوں سے ڈی این اے نکال کر خردبینی اور جینیاتی مطالعہ کرتے ہیں، تو یہ ہمیں محض بیکٹیریا کا پتا نہیں دیتے بلکہ پورے ایک عہد کی جھلک دکھاتے ہیں۔ اس طاعون کی ابتدا مصر سے بتائی جاتی ہے جہاں اناج کے جہاز بحیرۂ روم کے راستے قسطنطنیہ لائے جاتے تھے۔ انہی جہازوں میں موجود چوہے اور ان پر پلنے والے پسو اس مرض کے پھیلاؤ کا ذریعہ بنے۔ یوں سلطنت کے قلب میں موت نے اپنا خیمہ گاڑ دیا۔ تاریخ داں پروکوپیئس لکھتا ہے کہ لاشیں اتنی زیادہ ہوگئیں کہ قبرستان ناکافی ہوگئے اور لاشوں کو سمندر میں پھینکنا پڑا۔ شہروں کی گلیاں سنسان ہو گئیں، کاروبار بند ہوگیا اور لوگوں کے دلوں میں یہ یقین بیٹھ گیا کہ یہ خدا کا قہر ہے۔
قدیم دنیا میں طاعون کو ایک مذہبی یا ماورائی عذاب سمجھا جاتا تھا۔ بازنطینی مذہبی حلقے اسے انسانوں کے گناہوں کی سزا قرار دیتے تھے۔ چرچ میں دعاؤں، جلوسوں اور قربانیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ لیکن بیکٹیریا کو ان سب سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ وہ انسانی خون میں اپنا کھیل جاری رکھے ہوئے تھا۔ جدید تحقیق یہ بتاتی ہے کہ محض قسطنطنیہ میں ہی اس وبا کے دوران روزانہ دس ہزار کے قریب لوگ مرجاتے تھے۔ اندازہ ہے کہ اس کے نتیجے میں سلطنت کی ایک تہائی سے نصف آبادی لقمۂ اجل بنی۔
یہ صرف انسانی سانحہ نہیں تھا بلکہ سیاسی اور معاشی زلزلہ بھی تھا۔ سلطنتِ روم مشرقی سرحدوں پر فارسیوں کے ساتھ جنگوں میں مصروف تھی۔ لیکن فوج کی بڑی تعداد وبا سے مر گئی، ٹیکس وصولی کا نظام ٹوٹ گیا اور معیشت بکھر گئی۔ جسٹینین جس سلطنت کو دوبارہ متحد کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا، وہ خواب بھی طاعون کی مار سے بکھر گئے۔ بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ اگر یہ طاعون نہ آتا تو شاید بازنطینی سلطنت مغرب میں بھی اپنی کھوئی ہوئی زمینیں واپس لے کر ایک نئی رومن امپائر کھڑا کرلیتی۔
اب ذرا اس کا تقابل سیاہ موت سے کریں جو آٹھ سو برس بعد آئی۔ وہ بھی اسی بیکٹیریا کا تحفہ تھی اور یورپ میں ساٹھ ملین انسانوں کو نگل گئی۔ لیکن جسٹینینک طاعون کو اکثر لوگ بھول جاتے ہیں، حالاںکہ اس کی تباہ کاری کم نہ تھی۔ جدید سائنسی مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ دونوں وبائیں ایک ہی جرثومے کی مختلف شکلیں تھیں، لیکن وقت اور حالات کے فرق نے ان کے اثرات کو مختلف کردیا۔
آج جب ہم کووِڈ–19 جیسی وباؤں کا سامنا کرتے ہیں، تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ وبائیں محض طبی مسئلہ نہیں بلکہ تہذیبی اور معاشی بحران بھی ہوتی ہیں۔ اگرچہ آج کے انسان کے پاس ویکسین، اینٹی بایوٹکس اور جدید سائنس ہے، لیکن پھر بھی ایک وائرس نے پوری دنیا کو دو سال تک جامد کر کے رکھ دیا۔ ذرا سوچیے، اس وقت کے انسانوں کے پاس یہ سب سہولتیں کہاں تھیں؟ ان کے لیے بیماری ایک ماورائی خوف سے بڑھ کر کچھ نہ تھی۔
یہی وجہ ہے کہ جسٹینینک طاعون نہ صرف ایک وبا تھی بلکہ انسانی شعور کی آزمائش بھی تھی۔ اس نے یہ سکھایا کہ چھوٹے سے جرثومے کے آگے عظیم ترین سلطنتیں بھی بے بس ہیں۔ فلسفیانہ سطح پر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ تاریخ کا دھارا بعض اوقات بیماریوں کے باعث پلٹ جاتا ہے۔ اگر یہ طاعون نہ آتا تو شاید اسلام کا عروج، یورپ کی نشاۃ ثانیہ، یا بعد کے سیاسی نقشے مختلف ہوتے، کیوںکہ سلطنتوں کے کم زور ہونے سے نئی طاقتوں کو ابھرنے کا موقع ملا۔
جراثیمیات کی حالیہ دریافتوں نے ہمیں یہ موقع دیا ہے کہ ہم محض اندازوں پر نہیں بلکہ شواہد کی بنیاد پر بات کریں۔ جب کسی قبر سے نکالے گئے دانت سے ڈی این اے کا تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ وہاں واقعی یَرسینیا پیسٹس موجود تھا تو یہ گویا وقت کی قید کو توڑ کر ہمیں اس دور میں لے جاتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہڈیاں بولتی نہیں، لیکن ان کے اندر محفوظ جینیاتی کوڈ ہمیں وہ کہانی سنا دیتا ہے جو کتابوں میں نہیں ملتی۔
اس سب کے باوجود، انسانی تاریخ میں وبائیں صرف موت کی علامت نہیں بلکہ نئی زندگی کی بنیاد بھی رہی ہیں۔ سیاہ موت کے بعد یورپ میں مزدوروں کی قلت نے جاگیرداری نظام کو ہلا دیا، شہروں کی اہمیت بڑھی، اور بالآخر جدید معیشت کی طرف سفر شروع ہوا۔ اسی طرح جسٹینینک طاعون کے بعد بازنطینی سلطنت کی کم زوری نے نئے سیاسی و مذہبی دھاروں کو جنم دیا۔ یوں تاریخ کے یہ اندھیرے لمحے دراصل نئی صبحوں کی تیاری بھی ثابت ہوئے۔
آج کا انسان اگرچہ سائنس میں بہت آگے ہے لیکن پھر بھی کم زور ہے۔ کرونا نے ہمیں یاد دلایا کہ ایک نادیدہ جرثومہ عالمی طاقتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ اس تناظر میں جسٹینینک طاعون کی کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ انسانی غرور، عظیم عمارتیں اور طاقتور سلطنتیں سب عارضی ہیں۔ اصل طاقت فطرت کے اس نظام میں ہے جو بار بار ہمیں عاجزی سکھاتا ہے۔
اسی عاجزی میں شاید بقا کا راز ہے، کیوںکہ جب ہم اپنی کم زوری کو مان کر سائنس اور شعور کی روشنی میں آگے بڑھتے ہیں تو نئی راہیں کھلتی ہیں۔ اور اگر ہم اسے نظرانداز کریں تو تاریخ ایک بار پھر ہمیں اپنے سخت ترین امتحان میں ڈال دیتی ہے۔
اگرچہ انسانی تاریخ میں وبائیں ہمیشہ سے خوف اور تحفظ کے درمیان جھولتی رہی ہیں۔ کبھی طاعون، کبھی چیچک اور کبھی انفلوئنزا نے لاکھوں زندگیاں نگل لیں، مگر جدید سائنس نے ایک ہتھیار فراہم کیا جس نے بیماریوں کے خلاف انسان کو مضبوط کیا۔ یہ ہتھیار ہے ویکسین۔ جب دنیا پر کووِڈ 19 کی وبا ٹوٹ پڑی تو ابتدائی دنوں میں خوف کی لہر نے ہر دل کو گھیر لیا۔ لاکھوں اموات اور صحت کے بگڑتے ہوئے عالمی نظام کے بعد ایک ہی امید باقی تھی کہ کوئی مؤثر ویکسین دریافت ہو۔ خوش قسمتی سے سائنس دانوں نے محض ایک سال کے اندر وہ کر دکھایا جو پہلے دہائیوں میں ہوتا تھا۔ ویکسین کی تیاری ایک بڑی سائنسی کام یابی تھی، مگر ساتھ ہی دنیا بھر میں ایک سوال گونجنے لگا: کیا یہ ویکسین واقعی محفوظ ہے؟ اور کیا یہ بات درست ہے کہ ویکسین لگوانے والے افراد جلد مرجائیں گے؟
یہ سوال صرف عام لوگوں تک محدود نہیں رہا بلکہ سوشل میڈیا، یوٹیوب چینلز اور حتیٰ کہ بعض نام نہاد ماہرین نے بھی اس پر شکوک و شبہات پھیلائے۔ یہ تاثر دیا گیا کہ کووِڈ ویکسین انسانی جینز کو بدل دے گی، یا چند سال میں لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل دے گی، لیکن کیا حقیقت واقعی یہی ہے؟ اس سوال کا جواب صرف سائنسی اعدادوشمار اور معتبر اداروں کی تحقیق سے ہی دیا جا سکتا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے مطابق اب تک دنیا میں ویکسین کی اربوں خوراکیں دی جاچکی ہیں، اگر یہ دعویٰ درست ہوتا کہ ویکسین لگوانے والے جلد مرجاتے ہیں تو اربوں انسانوں میں غیرمعمولی اموات کے واقعات صاف دکھائی دیتے۔ حقیقت اس کے برعکس نکلی۔ ویکسین کے بعد کئی ملکوں میں اموات کی شرح کم ہوئی اور اسپتالوں میں داخلے گھٹ گئے۔ برطانیہ کے سرکاری ادارے Office for National Statistics نے دو سال کے اعدادوشمار شائع کیے جن کے مطابق ویکسین لگوانے والے افراد میں کووِڈ سے مرنے کا امکان بہت کم رہا، جب کہ نان کووِڈ وجوہات سے اموات کی شرح بھی ویکسین لگوانے والوں میں زیادہ نہیں پائی گئی۔ بعض صورتوں میں یہ شرح کم نکلی، جسے ماہرین healthy vaccinee effect کہتے ہیں یعنی عام طور پر صحت مند لوگ زیادہ شرح سے ویکسین لگواتے ہیں، اس لیے ان کی بقا بھی زیادہ ہوتی ہے۔
امریکا میں CDC اور اس کے تحت Vaccine Safety Datalink جیسے بڑے سیفٹی پروگرامز نے لاکھوں مریضوں کے اعدادوشمار پر مسلسل نگرانی کی۔ وہاں بھی یہی ثابت ہوا کہ ویکسین کے بعد all-cause mortality یعنی مجموعی اموات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ البتہ چند نایاب اثرات کی نشان دہی ضرور کی گئی جن میں خاص طور پر مایوکارڈائٹس (دل کی جھلی کی سوزش) اور بلڈ کلاٹ کے چند کیسز شامل ہیں، مگر ان کی شرح اتنی کم تھی کہ لاکھوں افراد میں بہ مشکل چند افراد متاثر ہوئے۔
اسرائیل میں Clalit Health Services نے 17 لاکھ افراد پر ایک وسیع مطالعہ کیا جس کے نتائجNew England Journal of Medicine میں شائع ہوئے۔ اس تحقیق نے واضح کیا کہ اگرچہ ویکسین کے بعد نوجوان مردوں میں مایوکارڈائٹس کے کیسز کچھ زیادہ دیکھے گئے، لیکن یہ زیادہ تر ہلکے تھے اور علاج کے بعد مریض صحت یاب ہوگئے۔ دوسری طرف خود کووِڈ انفیکشن سے مایوکارڈائٹس اور دیگر پیچیدگیوں کا خطرہ کہیں زیادہ تھا۔ گویا ویکسین کا خطرہ انفیکشن کے خطرے کے مقابلے میں نہایت کم تھا۔
اسی طرح ناروے، ڈنمارک، سویڈن اور فن لینڈ میں 2 کروڑ 30 لاکھ افراد پر مبنی تحقیق نے بھی یہی نتیجہ دیا۔ JAMA Cardiology میں شائع ہونے والی اس رپورٹ نے بتایا کہ نوجوان مردوں میں mRNA ویکسین کے بعد فی 100,000 افراد میں 4 سے 7 کیسز مایوکارڈائٹس کے سامنے آئے۔ یہ تناسب سائنسی زبان میں ’’انتہائی کم‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ ان میں زیادہ تر مریض مکمل صحت یاب ہوگئے۔
برطانوی طبی جریدے BMJ نے بھی ڈنمارک کے اعداد و شمار پر مبنی تحقیق شائع کی جس میں یہی بات سامنے آئی کہ ویکسین کے بعد مایوکارڈائٹس کا امکان کچھ بڑھتا ہے مگر مجموعی طور پر یہ شرح انتہائی محدود ہے۔ درحقیقت کووِڈ انفیکشن کے بعد دل کے مسائل کا خطرہ کئی گنا زیادہ تھا۔ اسی طرح NEJM میں انگلینڈ کے ڈیٹا پر شائع شدہ رپورٹ کے مطابق ویکسین لگوانے والوں میں کووِڈ سے اموات کا خطرہ 90 فی صد تک کم ہوا، جب کہ بوسٹر ڈوز کے بعد یہ تحفظ اور بھی بڑھ گیا۔
ان تمام رپورٹس کو دیکھتے ہوئے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ویکسین نے انسانی جانیں بچائیں اور جلد موت کا باعث نہیں بنی۔ اگر یہ ویکسین نقصان دہ ہوتیں تو دنیا بھر کے سیفٹی سسٹمز فوراً الرٹ جاری کرتے اور ان کا استعمال روک دیا جاتا، جیسا کہ ماضی میں کئی ادویات اور ویکسینز کے ساتھ ہو چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ویکسینز کے فوائد نے نقصانات کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا۔
یہاں یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ افواہیں کیوں پھیلتی ہیں؟ وبا کے ابتدائی دنوں میں خوف اور غیریقینی ماحول نے لوگوں کو ہر بات پر شک کرنے پر مجبور کیا۔ سوشل میڈیا نے ان افواہوں کو تیزی سے پھیلایا۔ بعض حلقوں نے اس سے مالی فائدہ اٹھایا، بعض نے اپنی سیاسی یا نظریاتی مہم چلائی، مگر سائنس حقائق پر کھڑی ہے، اور حقائق یہی بتاتے ہیں کہ ویکسین کے بعد اربوں لوگ آج بھی عام زندگی گزار رہے ہیں۔
ہاں، اس میں شک نہیں کہ ویکسین کے نایاب مضر اثرات ہیں، جیسے ہر دوا اور ہر علاج کے ہوتے ہیں، مگر طبی دنیا ہمیشہ ’’خطرے اور فائدے‘‘ کا موازنہ کرتی ہے۔ جب لاکھوں زندگیاں بچانے کا فائدہ چند نایاب کیسز کے خطرے سے کہیں زیادہ ہو تو فی صلہ بالکل واضح ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارۂ صحت، CDC، EMA، اور دیگر اداروں نے بارہا کہا کہ ویکسین کے فوائد نقصانات سے کہیں زیادہ ہیں۔
اب ذرا اس معاملے کا ایک اور پہلو دیکھتے ہیںExcess Mortality یعنی اضافی اموات۔ بعض لوگوں نے کہا کہ 2021 اور 2022 میں کئی ممالک میں اضافی اموات ہوئیں، اس کا سبب ویکسین ہیں۔ لیکن تحقیقی رپورٹس نے بتایا کہ یہ اضافی اموات وبا کی لہروں، اسپتالوں کے دباؤ، غیرکووِڈ امراض کے علاج میں تاخیر اور دیگر سماجی و طبی مسائل کے باعث تھیں۔ اس کا ویکسین سے کوئی براہِ راست تعلق ثابت نہیں ہوا۔
مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ کووِڈ ویکسینز پر اٹھنے والے اعتراضات اور ’’جلد موت‘‘ کے دعوے سائنسی بنیادوں سے محروم ہیں۔ اربوں افراد میں ان کے استعمال کے بعد اگر واقعی یہ بات درست ہوتی تو اس کے اثرات دنیا کو چھپائے نہیں چھپ سکتے تھے۔ ویکسین نے لاکھوں افراد کی زندگیاں بچائیں اور صحت کے نظام کو سہارا دیا۔ اس کے باوجود ہمیں چاہیے کہ ہم ان نایاب مضر اثرات کی سائنسی نگرانی جاری رکھیں تاکہ مستقبل میں مزید بہتر اور محفوظ ویکسینز تیار ہو سکیں۔
آخر میں یہ بات ذہن نشین رہے کہ صحت اور بیماری کے فیصلے افواہوں اور سازشی نظریات پر نہیں بلکہ تحقیق اور سائنس پر ہونے چاہییں۔ کووِڈ ویکسین نے ثابت کیا ہے کہ سائنس انسانیت کی خدمت میں کتنی اہم ہے۔ یہ کہنا کہ ویکسین لگوانے والے جلد مرجائیں گے، محض ایک خوف ناک افواہ ہے جسے وقت اور تحقیق دونوں نے رد کردیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنہوں نے ویکسین لگوائی، ان کے زندہ رہنے اور صحت مند رہنے کے امکانات کہیں زیادہ ہیں۔