Express News:
2025-11-08@04:36:54 GMT

زاغوں کے تصرف میں عقابوں کا نشیمن

اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT

فیض احمد فیض نے جب اپنی مشہور نظم ’’بول‘‘ جو ان کے پہلے شعری مجموعہ ’’نقشِ فریادی‘‘ میں شامل ہے لکھی ہوگی تو یقینا اسی خلفشار، ہیجان اور اندرونی کرب سے گزرے ہوں گے جس سے آج سچ بولنے والے اور سچ لکھنے والے قلم کار دوچار ہیں، کہنے کو تو وہ کہہ گئے کہ:

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

بول زباں اب تک تیری ہے

بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے

جسم و جاں کی موت سے پہلے

بول کہ سچ زندہ ہے اب تک

بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے

لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ پاکستان پر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب سچائی کو سامنے لانے والوں کی زندگی اجیرن کر دی جائے گی لیکن فیض جانتے تھے ’’سچ کا سودا‘‘ من میں سما جائے تو لکھنے والا اور کہنے والا دونوں تلوار کی دھار پہ چلنے کو تیار ہوتے ہیں۔ سچ کا پل صراط عبورکرنا ہر ایک کا مقدر نہیں۔ فیض ناامید نہیں تھے، اسی لیے ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے رہے،کیا ان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا اور ان کے یہ اشعار مجسم سچائی بن کر سامنے آئیں گے۔

جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں

روئی کی طرح اُڑ جائیں گے

سب تاج اُچھالے جائیں گے

سب تخت گرائے جائیں گے

بس نام رہے گا اللہ کا

اور راج کرے گی خلق خدا

جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

 یہ نظم انھوں نے جنوری 1979 میں کہی تھی، اگر آج وہ زندہ ہوتے تو ایسی باغیانہ نظمیں لکھنے پر جو عوام کا شعور بیدار کر سکتی ہیں انھیں بنیاد بنا کر یقینا انھیں جیل میں ڈال دیا جاتا اور ان کے شعری مجموعے بک اسٹالز سے اٹھا کر سمندر میں پھینک دیے جاتے۔ برسر اقتدار اور طاقت ور لوگ جو جمہوریت کا مکھوٹا لگا کر جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور وڈیروں کے ساتھ ڈکٹیٹرشپ کے تحفظ اور حصول اقتدار کے لیے میدان سیاست میں کودے ہیں انھیں اندازہ ہو گیا ہے کہ سچ کی راگنی اپنا اثر ضرور دکھاتی ہے۔ بلبل کو نغمہ گانے سے کوئی نہیں روک سکتا، گلاب کی خوشبو ہو یا موتیا اور ہار سنگھار کی مسحور کن خوشبو، انھیں پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا لیکن افسوس کہ ہم آج جس دور میں سانس لے رہے ہیں اس میں تازہ ہوا کا گزر نہ ہونے کے برابر ہے۔

آج اگر اقبال، حبیب جالب اور فیض زندہ ہوتے تو انھیں پیکا ایکٹ کے تحت جیل میں ڈال دیا جاتا، خاص طور پر اقبال کے اشعار پر تو فوری طور پر انھیں اشتہاری قرار دے دیا جاتا:

اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو

کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی

اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

مولانا بھاشانی نے 1970 میں ایک جلسے کے دوران جب یہ اشعار پڑھے تو اس وقت ان پر بھی بڑا فساد برپا ہوا تھا کہ مولانا لوگوں کو تشدد پر اکسا رہے ہیں، کیا یہ اشعار آج کی صورت حال کا عکس نہیں؟ ایک طرف بلند و بالا عمارتیں، لگژری کاریں اور پُل کے دوسری طرف جھونپڑیاں، ننگے بدن پھرنے والے بھوکے بچے۔

گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن

میراث میں آئی ہے انھیں مسند ارشاد

زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن

سچ کے دیوتا کو جھوٹ اور منافقت کے دیو نے یرغمال بنا رکھا ہے، سب مفاد پرست ہاتھ باندھے اس کے سامنے ہیں۔ دروغ دیوزاد کے سر پر فرعونیت کا تاج جگمگا رہا ہے۔ اس تاج میں لگے رشوت، اقربا پروری اور کرپشن کے ہیرے غلاموں کے لیے باعث کشش ہیں اسی لیے جھوٹ، فریب، رشوت خوری اور اقربا پروری کی آبیاری نہایت اعلیٰ پیمانے پر اعلیٰ ترین اداروں کے اعلیٰ ترین عہدے داروں کی مدد سے خوب ہو رہی ہے اور پھر زرخرید غلاموں سے توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے۔ ان کا کام ہی ’’حاضر سائیں‘‘ اور ’’میرے آقا کیا حکم ہے‘‘ کہنا ہے۔ لفظوں پہ پابندی، بولنے اور لکھنے پر پابندی، یہ قلم توڑ دینے کی پابندی جیسی باتیں تسلسل سے ہو رہی ہیں وہ بھی بدترین جمہوریت کے لے پالکوں کی مرضی و منشا سے سب کچھ ہوتا آیا ہے۔

پاکستان میں کبھی جمہوریت آئی ہی نہیں، جناح صاحب اور لیاقت علی خان نے اس مملکت کے لیے کیا کیا خواب دیکھے تھے لیکن ’’جعلی جمہوریت‘‘ کا راگ الاپنے کے لیے طوطے پال لیے گئے اور انھیں سین یاد کرا دیے، قصیدہ نگاروں کی فوج ظفر موج کے باوجود چند سرپھرے کسی نہ کسی طرح سچائی کا عطر بیچتے رہیں گے۔

یہ وہ صحافی اور تجزیہ کار ہیں جو کسی نہ کسی طرح سچ بولتے تھے، سچ لکھتے تھے۔ لیکن اب ان پر بھی پابندی ہے۔ سب کے لیے ہتھکڑیاں تیار ہیں۔ آج درباری کوؤں نے مل کر راگ درباری گانا شروع کر دیا ہے۔ ارکان اسمبلی کو رشوت دینے کے لیے ان کی تنخواہیں بڑھا دی گئی ہیں تاکہ وہ کسی بھی طرح سے تنقید نہ کریں۔ قلم کاروں میں سے بڑے بڑے نام ہیں جو پے رول پر ہیں، وہ حکومت سے الگ معاوضہ لیتے ہیں۔ جب انھیں کوئی ٹارگٹ دیا جاتا ہے تو وہ پوری ’’ایمانداری‘‘ سے اپنا کام کرتے ہیں۔ اب تو سوشل میڈیا کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

ملک کی صورت حال ابتر ہے، لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے پورے پورے صفحے کے مقتدرہ کے بیانات جاری کیے جا رہے ہیں۔ ’’سب کچھ اچھا ہے، ملک ترقی پر گامزن ہے‘‘ لیکن لوگ احمق نہیں ہیں۔ وہ بین السطور سب کچھ سمجھ جاتے ہیں، مہنگائی رکنے کا نام نہیں لے رہی، بعض گھروں میں ایک وقت کھانا کھایا جا رہا ہے، پھل مہنگے ہوگئے ہیں کہ کینو سمیت دیگر پھل باہر بھیجے جا رہے ہیں۔ روپے کی قدر دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہے، ملک پریشر ککر بنتا جا رہا ہے، لوگ جانتے ہیں کہ اگر وقت پر پریشر ککر کی اسٹیم نہ نکالی جائے تو وہ پھٹ پڑتا ہے اور تباہی لاتا ہے۔ بنگلہ دیش بھی پریشرککر بن گیا تھا۔ اہل اقتدار کو سوچنا چاہیے کہ ملک کیوں تباہی کی طرف جا رہا ہے؟

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جا رہا ہے دیا جاتا رہے ہیں اور ان ہے ہیں

پڑھیں:

ممدانی کی جیت اور وہ خوشی جس پر اعتراض ہوا ؟ 

 ایک بات میں بالکل ہی نہیں سمجھ پایا کہ ظہران ممدانی کے مئیر نیویارک بننے پر بہت سے لوگوں کا خوش ہونا تو خیر ایک فطری اور قابل فہم بات ہے مگر اس خوشی پر معترض ہونے، تنقید کرنے یا طنزیہ تحریریں لکھنے کی کیا تک ہے؟ کم از کم میری تو سمجھ میں یہ بات بالکل نہیں آئی۔

سادہ سی بات ہے کہ  ایک نوجوان نے اپنی ہمت، صلاحیت، ہنر، اچھی کمپین اور کمال انداز میں متنوع سیاسی پاکٹس کو اکٹھا کر ایک کرشمہ کر دکھایا۔ نیویارک جیسے اہم شہر کا وہ میئر بن گیا۔ ہر اعتبار سے حیران کن کامیابی ہے۔ اسے سراہنا چاہیے اور خوش بھی ہوا جا سکتا ہے، مگر اس پر تنقید کیوں؟ آئیے ناقدین کے اس پورے مقدمہ کا جائزہ لیتے ہیں۔

پاکستانی کیوں خوش ہوئے؟

یہ سوال کئی جگہوں پر کیا جا رہا ہے کہ آپ پاکستانی کیوں اتنے خوش ہو رہے ہیں، دیوانے ہو رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

اس سوال کا جواب پانا کوئی مشکل کام ہے کیا؟

نیویارک کا معرکہ جیتنے والے اس فاتح  پر ایک نظر ڈالیں۔ 3،4 چیزیں  واضح ہیں۔

مسلمان سیاستدان: پہلی یہ کہ وہ مسلمان ہے، ایسا مسلمان جس نے اپنی مذہبی شناخت کو چھپانے کے بجائے اسے اپنی قوت بنایا۔ تاریخ میں پہلی بار نیویارک جیسے شہر کا میئرایک مسلمان بنا ہے، یہ کوئی کم یا معمولی بات ہے؟ کیا یہ ہم پاکستانی مسلمانوں کو اچھی نہیں لگنی چاہیے؟ یا اس پر ہم ماتم کریں، اپنے سروں میں خاک ڈالیں کہ ایک مسلمان کیسے نیویارک جیسے شہر کا میئر بن گیا؟

یہ بھی پڑھیں: میئر نیویارک ظہران ممدانی نے کیسے کرشمہ تخلیق کیا؟

پاکستانیوں کی خوشی ایک مسلمان کے مغربی معاشرے میں کامیابی پر ہے۔ جو لوگ اس پر طنز کرتے ہیں، وہ دراصل مسلم شعور کے اجتماعی احساس کو نہیں سمجھ پاتے۔ یہ مسلم شناخت کی کامیابی کی خوشی ہے۔ وہ شناخت جسے مغرب میں اکثر شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ نیویارک، لندن اور کئی دیگر یورپی شہروں میں مسلمان سیاستدان ابھر رہے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مشکل حالات اور اسلامو فوبیا کے تعصب کے باوجود مسلمان نوجوان تعلیم، خدمت اور شرافت سے مقام حاصل کر رہے ہیں۔

نیویارک میں کامیابی محض ظہران ممدانی کی نہیں، ہر اُس مسلمان کی ہے جو مغرب میں اپنی محنت اور دیانت سے تعصب کے قلعے گرا رہا ہے۔

مڈل کلاس سیاسی ورکر: دوسرا یہ کہ وہ ایک مڈل کلاس نوجوان ہے۔ اس نے بڑے سرمایہ داروں کو شکست دی ہے۔ مقابلے میں اس سے زیادہ دولت مند، بے پناہ وسائل رکھنے والے امیدوار تھے۔

امریکا بلکہ دنیا کے امیر ترین افراد جیسے ایلون مسک کھل کر اس کی مخالفت کر رہے تھے۔ ایک مڈل کلاس پولیٹکل ورکر ٹائپ شخص نےجس انداز میں اتنی بڑی کارپوریٹ ورلڈ کو عوامی قوت سےشکست دی، وہ قابل تعریف،  قابل ستائش اور نہایت حوصلہ افزا ہے۔ اس جیت پر دنیا بھر میں مڈل کلاس، لوئر مڈل کلاس حلقے کو خوشی ہوئی، انہیں حوصلہ ہوا کہ ایلون مسک جیسے متکبر کھرب پتی کو بھی ہرایا جا سکتا ہے۔

ٹرمپ اور الٹرا رائٹ ونگ کو ہرانا: ظہران ممدانی نے صدر ٹرمپ اور ان کے انتہائی الٹرا رائٹ ونگ حامیوں کی بہت طاقتور لابی کو ہرایا ہے ۔

ٹرمپ کا ایک خاص اسٹائل ہے، وہ اپنے مخالفوں کی کردار کشی کرتا ہے، انہیں کسی بری ناپسندیدہ علامت سے تشبیہہ دے کر ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ اس نے ہر ایک کے ساتھ کیا۔ ٹرمپ نے یہی ظہران ممدانی کے ساتھ بھی کیا۔ اسے کمیونسٹ کہہ کر امریکی عوام میں ڈس گریس کرنے کی کوشش کی۔ یہ کہا کہ ممدانی جیتا تو نیویارک کمیونسٹ ہوجائےگا وغیرہ۔

ٹرمپ کے رائٹ ونگ حامیوں نے ٹرمپ کے برعکس ظہران ممدانی کےخلاف اسلاموفوبیا کا ہتھیار استعمال کیا۔ جون میں جیسے ہی ممدانی نے ڈیموکریٹ پارٹی کی پرائمری جیتی، اگلے ایک ہفتے میں اس کے خلاف 7 ہزار کے قریب اسلاموفوبیا پر مبنی سوشل میڈیا پوسٹیں لگائی گئیں، ایک پوری کمپین چلی۔ ٹرمپ کے قریبی حلقے  میں موجود اور ’میک امریکا گریٹ اگین‘ یعنی ماگا تحریک کی رہنما سارہ لومر نے باقاعدہ ٹوئٹ کیا کہ اگر ظہران ممدانی جیت گیا تو نیویارک کو ’نائن الیون 2‘ دیکھنے کو ملے گا۔ ایسی فیک تصاویر پوسٹ کی گئیں جس میں ممدانی کی لمبی  ڈاڑھی تھی اور وہ کسی شدت پسند عسکریت پسند سے مشابہہ لگے۔

مزید پڑھیے: مولانا فضل الرحمان ٹھیک شاٹس نہیں کھیل پا رہے

خود ٹرمپ کے حمایت یافتہ میئر کے امیدوار اینڈریو کومو نے ٹی وی چینل پر بیٹھ کر یہ کہا کہ ممدانی تو شائدنائن الیون کے موقع پر خوشی سے جشن منانا چاہے گا۔ اگر ایک شخص نے اس پوری اسلاموفوبیا کمپین اور ان زہریلے حملے کرنےوالوں کو شکست دی ہے تو کیا اس پر خوشی ہونا فطری نہیں؟ کیا ایسا نہیں کہ ممدانی کو اسلامو فوبیا کا نشانہ اس کے مذہب کی بنیاد پر بنایا گیا؟ اگر ایسا ہے تو پھر اس کی جیت پر اس کے ہم مذہب کیوں نہ خوش ہوں؟

 پرو اسرائیل صہیونی لابی کی شکست: ظہران ممدانی نے نیویارک کی بڑی کارپوریٹ ورلڈ، اپنے ری پبلکن مخالفوں، صدر ٹرمپ اور اس کے الٹرا رائٹ ونگ کے ساتھ ساتھ  پوری صہیونی لابی کو شکست فاش دی ہے۔ یہ کوئی عام بات ہے؟

ممدانی کا فلسطین کے حوالے سے مؤقف واضح اور بڑا جرات مندانہ رہا۔ وہ اسرائیل کی ظالمانہ پالیسیوں کا اعلانیہ شدید ناقد رہا ہے۔ اس نے نتن ہاہو پر  کڑی تنقید کرتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ وہ نیویارک کے میئر کے طور پر سٹی پولیس کو اسرائیلی وزیراعظم کی گرفتاری کا حکم دےد ے گا۔ اسی وجہ سے پرواسرائیل لابی نے ڈٹ کر اور کھل کر اس کی مخالفت کی۔

اسرائیل کے پورے میڈیا نے زوردار مہم چلائی اور نیویارک کے یہودی ووٹرزکو ممدانی کے خلاف ووٹ دینے کی ترغیب دی۔ الیکشن کے بعد زرا پچھلے 2،3 دنوں کا اسرائیلی میڈیا تو دیکھ لیں۔ کئی اخبارات انگریزی میں ہیں اور وہ آسانی سے پڑھے جا سکتے ہیں۔ دیکھیں کیا صف ماتم بچھی ہے وہاں؟

ظہران ممدانی کے حوالے سے پھیلائے گئے مغالطے

پہلا مغالطہ : پاکستانیوں کا نیویارک سے کیا تعلق؟

ایک بات یہ بھی کہی گئی کہ ممدانی نیویارک سے جیتا ہے، ہم پاکستانی کیوں خوش ہیں، ہمارا نیویارک سے کیا تعلق؟

یہ وہی مخصوص ’علاقائی محدودیت‘ والا طعنہ ہے جس سے ہمارے نام نہاد سیکولر حضرات مسلم امہ کے اجتماعی احساس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب کوئی بھارتی نژاد ہندو کسی امریکی کمپنی کا سی ای او بنے تو یہی لوگ بھارتی دماغ کے گن گاتے ہیں اور پاکستان کو لعنت ملامت کرتے ہیں کہ دیکھو انڈین دماغوں نے دنیا بدل دی۔ تو پھر ایک مسلمان کے عالمی سطح پر ابھرنے پر پاکستانی کیوں خوش نہ ہوں؟

دوسرا مغالطہ: ’یہ کامیابی نیویارک کے نظام کی ہے‘

اس سے کس نے انکار کیا کہ نیویارک، لندن یا بعض دیگر شہروں کے جمہوری نظام کی وجہ سے کئی مسلمان سیاستدان ابھر کر سامنے آئے ہیں، مگر یہ کہنا کہ اس میں ان کی مسلم شناخت یا اخلاقی استقامت کا کوئی کردار نہیں، ایک فکری ناانصافی ہے۔

مزید پڑھیں: پولیس افسران کی خودکشی: اسباب، محرکات، سدباب

ایک منصفانہ نظام میں بھی ہر شخص کامیاب نہیں ہوتا۔ کامیاب وہی ہوتا ہے جو اہلیت + نظریہ + حوصلہ + اصولی مزاحمت لے کر آئے۔ ظہران نے وہی کیا۔ لہٰذا یہ صرف نظام کی نہیں، انسانی صلاحیت کی جیت بھی ہے جس پران کے ہم مذہب، ہم خیال لوگوں کا فخر کرنا فطری ہے۔

تیسرا مغالطہ: یہ خوشی قومی خود فریبی ہے

نہیں، یہ خود فریبی نہیں۔ ظہران ممدانی کی کامیابی پر پاکستانیوں کی خوشی کو ’خود فریبی‘ کہنا دراصل خود کم فہمی ہے۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں کوئی مسلمان جب انصاف، انسانیت، یا جرأت کا مظاہرہ کرتا ہے، تو امتِ مسلمہ خوش ہوتی ہے جیسے کوئی عرب یا ترک یا انڈونیشی سائنس دان عالمی ایوارڈ لے تو ہم کہتے ہیں: ’الحمدللہ ایک مسلمان نے یہ کیا‘۔

یہ اجتماعی شعور کا اظہار ہے، خود فریبی نہیں۔ خوشی کبھی سرحدوں میں قید نہیں ہوتی۔ ہم ظہران کی جیت کو ’اپنا فخر‘ اس لیے کہتے ہیں کہ مغرب میں اسلام کا نام دہشت گردی سے جوڑا گیا تھا، آج وہی نام عزت، انصاف اور اصلاح کا نشان بن رہا ہے۔

چوتھا مغالطہ: خوش ہونے کے بجائے اپنی اصلاح کریں

یہ بات درست مگر نصف سچ ہے۔ اصلاح ضروری ہے مگر خوشی منانا جرم نہیں۔ قومیں دوسروں کی کامیابی سے سیکھتی بھی ہیں، خوش بھی ہوتی ہیں۔ یہ کوئی تضاد نہیں۔ قومیں صرف اندر نہیں دیکھتیں، باہر سے بھی سیکھتی ہیں۔

ظہران ممدانی کی کامیابی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اگر مغرب انصاف پر کھڑا ہو سکتا ہے تو ہم بھی کھڑے ہو سکتے ہیں۔

بشرط یہ کہ ہم خود پر یقین کریں، اپنی جڑوں کو شرمندگی نہیں، طاقت سمجھیں۔

5واں مغالطہ: پاکستانی غیر مسلم کیوں نہیں جیت سکتا

یہ بھی ایک مغالطہ ہی ہے۔ دونوں ممالک کے الگ حالات، دستور اور کلچر ہے۔ امریکا ایک سیکولر ملک ہے وہاں ریاستی سطح پر مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں، بلکہ امریکی حکومت مذہبی بنیاد پر قائم کسی اسکول یا ادارے تک کو فنڈز نہیں دے سکتی۔ ان کا اس حوالے سے اپنا آئین، کلچر اور حساب کتاب ہے۔ ہر معاشرہ اپنی تاریخی بنیاد اور سماجی اقدار کے مطابق ریاستی ڈھانچہ رکھتا ہے۔ موازنہ اخلاقی لحاظ سے ممکن ہے، مگر ’کاپی پیسٹ‘ ممکن نہیں۔

پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے جہاں مذہب نہ صرف ریاست کا حصہ ہے بلکہ ملک میں کوئی بھی قانون قرآن وسنت کے منافی نہیں بن سکتا۔ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے،اس کی بنیاد ہی مذہبی شناخت پر ہے۔ یہاں غیر مسلم الیکشن جیت سکتا، وزیر بن سکتا ہے، اگر اسے عوام ووٹ دیں تو وہ میئر بھی بن سکتا ہے۔ کوئی پابندی نہیں۔ ہماری ہر وفاقی کابینہ میں غیر مسلم وزیر ہوا کرتے ہیں۔ پاکستان میں آئینی طور پر صرف 2 عہدے (صدر، وزیراعظم) مسلمانوں کے لیے مخصوص ہیں، جیسا کہ ہر آئیڈیالوجیکل ریاست میں ہوتا ہے۔

  ظہران ممدانی کے خلاف بعض بے بنیاد الزامات

انہی لوگوں نے ظہران ممدانی پر تنقید کرتے ہوئے کئی سازشی تھیوریز کا سہارا لیا، دانستہ طورپر بعض مبالغہ آمیز مغالطے پھیلائے۔

یہ بھی پڑھیے: پاک افغان تنازع: بنیادی نکات پر یکسو ہونا پڑے گا

اسماعیلی شیعہ ہونے کا بے بنیاد الزام: جیسے یہ کہا گیا کہ وہ اسماعیلی شیعہ ہے۔ اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا اور نہ ظہران ممدانی کی کمپین میں ایسا کچھ کہا گیا۔ وہ غالباً شیعہ تو ہے، اثنا عشری شیعہ۔ تاہم وہ ایک ماڈریٹ مسلمان ہے، کسی فرقہ ورانہ شناخت سے گریز کرنے والا۔ اس نے کبھی مسلکی بات کی نہ اس بنیاد پر سپورٹ حاصل کی۔ مزے کی بات ہے کہ ممدانی کے بدترین مخالفوں نے بھی اس بنیاد پر کمپین نہیں چلائی جو ہمارے ہاں کے سیانوں کو نظر آگئی۔

کمیونسٹ ہونے کا طعنہ: یہ بھی غلط ہے کہ ظہران ممدانی کے والد کمیونسٹ ہیں یا وہ خود کمیونسٹ ہے۔ ظہران ممدانی کے والد پروفیسر محمود ممدانی ایک معروف ایجوکیشنسٹ اور اسکالر ہیں جنہوں نے کالونیل ازم پر خاصا کام کر رکھا ہے۔ وہ نظریاتی مفکر ہیں، کمیونسٹ پارٹی کےکوئی ورکر نہیں۔

ظہران ممدانی خود کو ڈیموکریٹک سوشلسٹ کہتے ہیں۔ امریکا میں لیفٹ کے معروف سیاستدان برنی سینڈرز اس حوالے سے نامور آدمی ہیں۔ ممدانی اس حوالے سے بھی کچھ مزید ماڈریٹ ہے۔ وہ عوامی خدمتی ماڈل، ٹیکس اصلاحات، بھاری آمدنی والوں پر ٹیکس لگانے اور غریب عوام کے حقوق کے لیے بولتا ہے۔

اہلیہ عیسائی ہونے کا الزام: ایک جگہ یہ بھی پڑھا کہ ظہران ممدانی کی اہلیہ رما دواجی شامی عیسائی ہیں۔ مجھے بڑی تحقیق کے باوجود کوئی بھی ایسا حوالہ نہیں ملا۔ معلوم نہیں تنقید کرنے والوں کو کس نے بتا دیا۔ وہ خاتون شامی عرب تو ضرور ہیں، مگر اس جوڑے نے اسلامی طریقے کے مطابق نکاح کیا اور شادی ہوئی۔ راما دواجی پر اس پوری کمپین میں کسی نے یہ الزام تک نہیں لگایا۔ یعنی ایک بار پھر ظہران ممدانی کی بدترین کردار کشی کرنے والوں نے بھی وہ بات نہیں کی جو ہمارے لوگوں نے کہہ ڈالی۔

ظہران ممدانی کے ناقدین کھل کر پوزشین لیں

اس پورے پس منظر میں ظہران ممدانی کی کامیابی پر ہمارے ہاں خوش ہونے کے قوی دلائل، وجوہات، اسباب موجود ہیں۔ اس پر تنقید کرنا البتہ ناقابل فہم اور غیر منطقی ہے۔ ظہران ممدانی کے ناقد پہلے یہ طے کرلیں کہ وہ کس طرف ہیں؟

وہ اسلامو فوبیا کے حامی ہیں یا مسلم کلچر، مسلم آئیڈنٹٹی کے ساتھ؟ وہ یہ بتائیں کہ سخت گیر صہیونی لابی کے ساتھ ہیں یا پرو فلسطین موقف رکھنے والے کے حامی؟ وہ صدر ٹرمپ، ایلون مسک اور دیگر کارپوریٹ بگ گنز کے گماشتے ہیں یا پھر وہ ان جائنٹس کو ہرانے والے کے ساتھ خوش ہونا چاہیں گے؟ میرے خیال میں تنقید کرنے والوں کو کسی واضح بیانیے کے ساتھ سامنے آنا چاہیے۔

مزید پڑھیں: پاک افغان جنگ: محرکات، اسباب، وجوہات کو جانیے اور سمجھیے

حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ظہران پر طنز کرتے ہیں، وہ دراصل اپنی ہی سماجی مایوسی ظاہر کرتے ہیں۔ انہیں اس بات کا خوف ہے کہ دنیا بدل رہی ہے اور مسلمان مثبت کردار کے ذریعے عزت حاصل کر رہے ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

ڈیموکریٹک سوشلسٹ رما دواجی صدر ٹرمپ ظہران ممدانی کمیونسٹ[ ممدانی کی جیت پر پاکستانی خوش میئر نیویارک ظہران ممدانی

متعلقہ مضامین

  • ظہران ممدانی، قصہ گو سیاستدان
  • زندہ رہنا سیکھئے! (حصہ اول)
  • امریکی شہریت بھی کام نہیں آ رہی
  • پاک افغان مذاکرات
  • بھارت، امریکا تعلقات میں نیا موڑ
  • کچھ پتا نہیں طالبان سے مذاکرات پھر کب ہوں گے، عطا تارڑ
  • ممدانی کی جیت اور وہ خوشی جس پر اعتراض ہوا ؟ 
  • ’لغو‘ کیا ہے؟
  • غزہ سے سوڈان تک: ایک امت، ایک ہی درد
  • آؤٹ آف سلیبس