امریکا میں تاریخ رقم؛ پہلا مسلم میئر منتخب
اشاعت کی تاریخ: 6th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیویارک کی سیاسی تاریخ میں ۴ نومبر ۲۰۲۵ ایک یادگار دن بن گیا۔ دنیا کے اس سب سے متنوع شہر نے ایک ایسے شخص کو منتخب کیا ہے جو صرف سیاست دان نہیں بلکہ ایک نظریہ اور تحریک کی نمائندگی کرتا ہے۔ زہران ممدانی، ایک مسلم، جنوبی ایشیائی نژاد، اصلاح پسند رہنما، جو اب نیویارک شہر کے ۱۱۱ ویں میئر بن چکے ہیں۔ انتخابات میں دو ملین سے زائد ووٹرز نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا جو ۲۰۰۱ کے بعد سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ ہے۔ یہ محض اعداد و شمار نہیں بلکہ عوام کے بدلتے رجحان کا ثبوت ہے۔ لوگ اب نسلی یا جماعتی سیاست سے ہٹ کر عوامی فلاح اور سماجی انصاف کی بنیاد پر ووٹ دینے لگے ہیں۔ پولنگ اسٹیشنوں پر نوجوانوں، مزدور طبقے اور اقلیتوں کی غیر معمولی شرکت نے ایک نئے سیاسی رجحان کو جنم دیا۔ نیویارک کے گلی کوچوں سے ایک ہی صدا بلند ہو رہی تھی: ’’ہمیں وہ قیادت چاہیے جو کرائے کم کرے، انصاف مہیا کرے، اور شہر کو صرف امیروں کا نہیں، سب کا بنائے‘‘۔
ممدانی کا مقابلہ سابق گورنر اینڈریو کومو اور ری پبلکن امیدوار کرٹس سلیوا سے تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ، ایلون مسک اور دیگر ارب پتی سرمایہ کاروں نے کومو کی حمایت کی، مگر اس انتخاب نے ایک بات ثابت کر دی: عوامی طاقت، سرمایہ دارانہ اثر سے بڑی ہے۔ ٹرمپ کی حمایت، میڈیا پر اشتہارات اور سرمایہ دار طبقے کی بھرپور پشت پناہی کے باوجود عوام نے فیصلہ اس طبقے کے حق میں کیا جو برسوں سے دباؤ میں تھا۔ ورکنگ کلاس۔ ممدانی کا ایجنڈا ’’عوام کے لیے شہر‘‘ زہران ممدانی کا منشور سادہ مگر انقلابی تھا۔ گھروں اور دفاتر کے کرائے منجمد کیے جائیں۔ مفت پبلک ٹرانسپورٹ کا آغاز کیا جائے۔ یونیورسل چائلڈ کیئر فراہم کی جائے۔ مڈل کلاس اور لوئر کلاس کے مسائل کو ترجیح دی جائے، یہ وہ نکات تھے جنہیں نیویارک کے عام شہریوں نے اپنی زندگی سے جڑا پایا۔
ممدانی نے انتخابی مہم میں نعرے نہیں، حل اور پالیسی دی۔ ان کا مؤقف تھا: ’’جب شہر کی ترقی کا بوجھ صرف غریب اٹھاتا ہے، تو وہ ترقی نہیں، استحصال کہلاتا ہے‘‘۔ زہران نے نیویارک کی کوئینز یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور نوجوانی میں ہی سماجی سرگرمیوں سے وابستہ ہو گئے۔ انہیں نیویارک کے شہری مسائل کا براہِ راست تجربہ ہے۔ وہ خود کرائے کے فلیٹ میں پلے بڑھے، اور یہی تجربہ ان کے سیاسی وژن کی بنیاد بنا۔ زہران ممدانی کی کامیابی امریکی تاریخ میں ایک نیا باب ہے۔ امریکا میں اسلاموفوبیا، نسل پرستی اور تعصبات کے دور میں، نیویارک جیسے شہر کا ایک مسلمان، جنوبی ایشیائی نژاد شخص کو منتخب کرنا اس بات کا اعلان ہے کہ جمہوریت اب شناخت سے زیادہ کارکردگی پر یقین رکھتی ہے۔ دنیا بھر کے مسلم حلقوں نے اس کامیابی پر خوشی اور فخر کا اظہار کیا۔
عالمی تجزیہ نگاروں نے کہا کہ: ’’یہ انتخابی جیت صرف نیویارک کی نہیں، پوری مسلم دنیا کی اخلاقی فتح ہے‘‘۔ ممدانی نے اپنی مہم کے دوران فلسطینیوں کی کھل کر حمایت کی۔ انہوں نے کہا تھا: ’’اگر عالمی عدالت ِ انصاف کے وارنٹ کے باوجود اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نیویارک آئے، تو میں قانون کے مطابق انہیں گرفتار کراؤں گا‘‘۔ یہ بیان امریکی مین اسٹریم سیاست کے لیے غیرمعمولی تھا۔ لیکن ممدانی نے دکھا دیا کہ انصاف پسندی، اخلاقی جرأت اور سچ بولنے کا حوصلہ بھی سیاست کا حصہ ہو سکتا ہے۔
CNN, The New York Times اور Politico نے ممدانی کی کامیابی کو “Progressive Revolution in Urban Politics” قرار دیا۔ امریکی میڈیا نے تسلیم کیا کہ ممدانی نے نیویارک کے عوام کے ذہنوں میں ایک نیا فریم ورک بنا دیا ہے —”City for People, Not for Profit”۔ کچھ دائیں بازو کے تبصرہ نگاروں نے انہیں “Left Populist” اور “Idealist” کہا، مگر حقیقت یہ ہے کہ ممدانی نے صرف خواب نہیں دکھائے بلکہ ان کے لیے پالیسی روڈ میپ بھی پیش کیا۔ اب جبکہ نیویارک کا انتظام سنبھالنا ممدانی کی ذمے داری ہے، انہیں شدید عملی مشکلات کا سامنا ہوگا: مالی وسائل کی کمی۔ ریاستی قوانین کی رکاوٹیں۔ رئیل اسٹیٹ لابی کا دباؤ۔ وفاقی حکومت کے ساتھ ہم آہنگی کے چیلنجز۔ ان چیلنجز کے باوجود ممدانی کی اخلاقی برتری اور عوامی مقبولیت انہیں ایک مضبوط پوزیشن میں رکھتی ہے۔
ان کے لیے اصل امتحان یہی ہوگا کہ وہ تحریک کو پالیسی میں کیسے ڈھالتے ہیں۔ زہران ممدانی کی کامیابی صرف امریکی سیاست نہیں، بلکہ عالمی بیانیے کی تبدیلی کی علامت ہے۔ یہ کامیابی بتاتی ہے کہ دنیا کی طاقتور معیشتوں میں بھی سماجی انصاف اور عوامی فلاح کی سیاست جگہ بنا سکتی ہے۔ برطانیہ، کینیڈا، اور فرانس میں بھی مسلم نژاد امیدواروں کی مہم کو نئی توانائی ملی ہے۔ امریکا کے اندر بھی یہ نتیجہ بتا رہا ہے کہ ریاستی اشرافیہ کے خلاف عوامی مزاحمت اب محض نعرہ نہیں، ایک حقیقت ہے۔
زہران ممدانی کی کامیابی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ جب مسلمان معاشروں میں تعلیم، سماجی خدمت، اور فکری خوداعتمادی کو بنیاد بنایا جائے تو وہ دنیا کے کسی بھی سیاسی نظام میں عزت، اثر اور قیادت حاصل کر سکتے ہیں۔
یہ جیت امت کے نوجوانوں کے لیے پیغام ہے: ’’تبدیلی کا انتظار مت کرو۔ خود وہ تبدیلی بنو جس کی تمہیں ضرورت ہے‘‘۔ زہران ممدانی کا یہ جملہ اب عالمی سطح پر مقبول ہو چکا ہے: ’’ہم شہر کو دوبارہ انسانی ہاتھوں میں لوٹا رہے ہیں، طاقت کے ایوانوں سے عوام کے دلوں تک‘‘۔ یہی وہ فلسفہ ہے جو نیویارک کی گلیوں سے اْٹھ کر دنیا بھر کے شہریوں کے ضمیر میں گونج رہا ہے۔ اور شاید یہی وہ لمحہ ہے جب امریکی خواب ایک نئے مفہوم میں زندہ ہوا۔ انصاف، برابری اور انسانی وقار کے خواب کے طور پر۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ممدانی کی کامیابی نیویارک کی نیویارک کے ممدانی کا عوام کے کے لیے
پڑھیں:
مودی، نیتن یاہو سے دشمنی، فلسطینیوں کا حمایتی، امریکی سیاست میں ہلچل مچانے والا زہران ممدانی کون؟
نیویارک: امریکی سیاست میں ایک نئی آواز کے طور پر اُبھرنے والے زہران ممدانی نے نیویارک کے میئر کے الیکشن میں شاندار کامیابی حاصل کرکے نہ صرف امریکی مسلمانوں کے لیے نیا باب کھولا بلکہ عالمی سطح پر بھی توجہ حاصل کی ہے۔
33 سالہ زہران ممدانی، یوگینڈا میں پیدا ہوئے اور ان کا پس منظر مسلم و ہندو سیکولر روایات سے جڑا ہے۔ ان کے والد محمود ممدانی مشہور اسکالر اور کتاب “گڈ مسلم، بیڈ مسلم” کے مصنف ہیں جبکہ والدہ میرا نائر معروف فلم ساز ہیں جنہوں نے مون سون ویڈنگ اور دی نیمسیک جیسی عالمی سطح پر مقبول فلمیں بنائیں۔
زہران ممدانی، فلسطین کی آزادی کے حامی اور نریندر مودی کے سخت ناقد ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران انہوں نے دو ٹوک مؤقف اختیار کیا کہ اگر وہ نیویارک کے میئر بنے تو وہ مودی سے کبھی ملاقات نہیں کریں گے۔ ان کے اس بیان نے عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے مخالف امیدوار اینڈریو کومو کو صہیونی حامیوں کی مالی مدد حاصل تھی، مگر ممدانی نے عوامی حمایت کے بل بوتے پر یہ الیکشن جیت لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’عوام نے ثابت کردیا ہے کہ طاقت ان کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
زہران کے والد محمود ممدانی کی کتاب “گڈ مسلم، بیڈ مسلم” نے مغربی سیاست میں مسلم شناخت کے بارے میں بحث چھیڑی تھی۔ انہوں نے لکھا کہ مغرب کے نزدیک ’’اچھے مسلمان‘‘ وہ ہیں جو مغربی طرزِ فکر اپنائیں، جبکہ ’’برے مسلمان‘‘ وہ جو اپنی مذہبی شناخت پر قائم رہیں۔ یہی سوچ اب زہران ممدانی کی سیاسی بصیرت میں جھلکتی ہے۔
زہران ممدانی کا کہنا ہے کہ ان کی سیاست کا مقصد مساوات، انصاف، اور محنت کش طبقے کے حقوق کا تحفظ ہے۔ انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ نیویارک کو ایسا شہر بنائیں گے جہاں ہر مذہب، نسل، اور طبقے کے لوگ برابری سے زندگی گزار سکیں۔
زہران ممدانی کے مؤقف نے امریکی سیاست میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے — ایک ایسا مسلمان رہنما جو فلسطین کے حق میں آواز اٹھاتا ہے، بھارتی وزیراعظم مودی پر تنقید کرتا ہے، اور پھر بھی امریکی عوام کی حمایت حاصل کرتا ہے۔ یہ کامیابی صرف ایک الیکشن نہیں، بلکہ ایک سیاسی انقلاب کی علامت ہے۔