WE News:
2025-06-09@18:53:47 GMT

’امریکا فرسٹ‘ بمقابلہ ’سب سے پہلے پاکستان‘

اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT

جنرل پرویز مشرف کے دور میں ’سب سے پہلے پاکستان‘ کی اصطلاح وجود میں آئی۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ تھا کہ پاکستان کو اپنے قومی مفادات سامنے رکھنے چاہییں، ایسا کرتے ہوئے اسے اپنے ہمسایوں میں سے کسی (جیسے افغانستان میں ملا عمر کی طالبان حکومت )کو اگر قربان کرنا پڑے تو کوئی حرج نہیں۔

 اس کے ساتھ ساتھ سابق جہادی تنظیموں کے حوالے سے بھی مشرف حکومت نے یوٹرن لی ، جس پر ان میں خاصی توڑ پھوڑ بھی ہوئی اور بعض سپلنٹر گروپس الگ ہو کر بیت اللہ مسعود کے ساتھ جا ملے، انہوں نے خاصے مسائل بھی پیدا کیے اور ہمارا جانی نقصان بھی خاصا ہوا۔ اگرچہ بعد میں اندازہ ہوا کہ جنرل مشرف حکومت نے ان جہادی تنظیموں کو لوپروفائل میں جانے اور اپنی سرگرمیاں روکنے کا کہا تھا، انہیں کچلنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ تاہم شدت پسند اور بے لچک ذہن کو یہ باتیں سمجھ نہیں آتیں۔

خیر یہ سب کچھ ہوتا رہا۔ تب جنرل مشرف کی اس ’سب سے پہلے پاکستان‘ کی پالیسی پر بہت تنقید بھی ہوئی، مگر بہرحال یہ ایک منطقی کوشش تھی۔ تب کے معروضی حالات میں شاید اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ ممکن ہے کوئی سول لیڈر حکمران ہوتا تو وہ شاید اسے کچھ مزید سلیقے سے کر لیتا اور اس کے لیے عوامی بیانیہ بھی ترتیب دیتا، مگر پرویز مشرف حکومت نے جو سمجھ آیا، وہ کر ڈالا۔ آج وہ سب تاریخ بن چکا ہے، ہمارے لیے اس کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنا زیادہ آسان ہے۔

یہ بھی پڑھیں:کیا بنگلہ دیش کی ’تحریک انصاف‘ کامیاب ہو پائے گی؟

پاکستان جیسے کمزور، معاشی طور پر غیر مستحکم اور ہمہ وقت جیو پولیٹیکل سیچوئشن میں گھرے ملک کے لیے اپنے سروائیول کے لیے مسلسل سوچنا اور کوئی نہ کوئی حکمت عملی بنائے رکھنا پڑتی ہے۔ وقت نے ہمیں یہ سکھا دیا ہے کہ سب انڈے ایک ہی ٹوکری میں نہیں رکھنے چاہییں ۔

 ہمیں مغرب کے ساتھ بنا کر رکھنا ہے، جبکہ چین کے ساتھ اپنے اسٹریٹجک تعلقات بھی قائم رکھنے ہیں۔ ہمیں سعودی عرب اور امارات وغیرہ سے قریبی تعلق استوار کرنا ہے، جبکہ ایران کے خلاف کسی مہم جوئی کا حصہ بھی نہیں بننا۔ اسی طرح کی بعض اور چیزیں بھی ہیں۔

 ہمارے حکمرانوں  سے ماضی میں بہت سی غلطیاں ہوئیں، مگر ہم نے ان نزاکتوں کو کسی نہ کسی طور نبھائے رکھا۔ سپر پاورز کے ساتھ ڈیل کرتے ہوئے  کبھی ڈبل اور ٹرپل گیم تک کھیلنا پڑی۔ ہمارے ہمسائے ہم سے ناخوش رہے تب بھی ہم نے کسی نہ کسی طرح معاملات ان کے ساتھ چلائے۔

ہماری بعض خارجہ پالیسیوں پر تنقید کی جا سکتی ہے، مگر ناقدین سے اگر حل پوچھا جائے تو جواب ان کے پاس بھی نہیں۔ ہمارے ہاں لیفٹ کے لوگ یہ کہتے تھے کہ لیاقت علی خان نے پاکستان کے ابتدائی برسوں میں دورہ سوویت یونین کی دعوت مسترد کر کے امریکا کا دورہ کیا ، یہ غلطی تھی، ہمیں سوویت یونین کے ساتھ جانا چاہیے تھا۔ وقت نے ایسے دانشوروں کو غلط ہی ثابت کیا۔ وہ سوویت یونین آخر غروب ہی ہوگیا اور اس کے قریبی اتحادی خوار ہوئے۔

ویسے تو سوویت یونین کی جانب سے دورہ کی دعوت والی بھی محض کہانی ہی نکلی۔ اس دور میں روس میں متعین پاکستانی سفارت کار ایسے کسی بھی دعوے کی تائید نہیں کرتے۔ آخری تجزیے میں یہ محض ایک من گھڑت تھیوری ہی نکلی جسے ہمارے لیفٹسٹوں نے گھڑا تھا۔

 بات تاریخ کی طرف نکل گئی، آج کی طرف واپس لوٹتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے ’امریکا فرسٹ‘ کی جو تھیوری دی ہے اور جس جارحانہ انداز میں وہ اس پر عمل درآمد کر رہے ہیں، اسے دنیا بھر میں بڑی توجہ، تشویش اور غور کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے۔ ہر ملک یہ سوچ رہا ہے کہ کس طرح خود کو ٹرمپ کے غضب سے بچائے۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسے بڑے یورپی ممالک بھی واضح طور پر پریشان نظر آ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:خرابی کی جڑ آخر کہاں ہے؟

2-3 ہفتے قبل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے لیے امریکا پہنچے۔ بھارتی اپنے وزیراعظم کی فہم و فراست اور چوڑی چھاتی کے بڑے گیت گاتے ہیں، انڈین میڈیا اور وہاں کی انٹیلی جنشیا  خود کو عظیم بھارت اور نہ جانے کیا کیا کچھ قرار دیتی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے سامنے مودی جس طرح سجدہ ریز ہوئے ، گھگھیاتے ہوئے وہ ٹرمپ کی خوشامد بلکہ چاپلوسی کرتے رہے۔ ٹرمپ کے سلوگنز کی گھٹیا سی نقل کر کے اپنے انڈین سلوگنز کے ساتھ  مطابقت بنانے کی عامیانہ کوششیں کرتے نظر آئے،  وہ خاصا عبرت انگیز نظارہ تھا۔

واضح طور پر مودی کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے تھے اور ان کی سر توڑ کوشش تھی کہ کسی طرح صدر ٹرمپ کی خوشنودی حاصل کی جائے۔ وہ امریکا جانے سے پہلے امریکی مصنوعات پر ٹیرف کو نصف سے بھی کم کر گئے، اب شاید مزید کم کر دیں گے۔ بھارتی فوج امریکی اسلحے اور امریکی جنگی ٹیکنالوجی سے بالکل بے بہرہ ہے، روسی عسکری ٹیکنالوجی کا انہیں پرانا تجربہ اور گہری شناسائی ہے۔ اس کے باوجود مودی صرف امریکا کو خوش کرنے کے لیے امریکی فائٹر طیارے اور دیگر سازوسامان خریدنے کے لیے تیار ہوئے تاکہ باہمی تجارتی خسارہ کم ہوسکے۔ بھارتی نام نہاد غرور اور طنطنہ یوں وائٹ ہاؤس میں امریکی حکام کے پیروں میں رُلتے دیکھنا شاید بہت سوں کے لیے حیران کن رہا ہو۔ یہ مگر سفاک زمینی حقائق اور بے رحم سچائیوں کو ظاہر کر رہا تھا۔

   اس پس منظر میں میرے جیسےعام اخبار نویس جن کے پاس ان سائیڈ انفارمیشن تو نہیں، البتہ انٹرنیشنل افیئرز سے دلچسپی اور اسے سمجھنے کی اپنی بساط کے مطابق کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں یہ تشویش تھی کہ صدر ٹرمپ جب یوکرائن جنگ کے  معاملے کو نمٹا لیں گے تو وہ دیگر ایشوز کی طرف توجہ کریں گے، تب ان کی نظر کرم کہیں پاکستان پر نہ پڑ جائے۔ پاکستان تو اپنی ٹیکسائل ایکسپورٹس پر امریکی ٹیرف کا بھی متحمل نہیں ہوسکتا، کجا یہ کہ امریکی صدر کے اشارہ ابرو پر کام کرنے والی آئی ایم ایف اپنا پروگرام روک کر قرضہ دینے سے انکار کر دے یا امریکا پاکستان پر پابندیوں کا سوچے۔

  ایسے میں صدر ٹرمپ کے کانگریس سے اپنے طویل خطاب میں اچانک پاکستان کا شکریہ ادا کرنے اور تعریف کرنے کا امر ہمارے لیے نہایت خوشگوار حیرت لے آیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی حکام اور سیکیورٹی اداروں نے بڑی سرعت کے ساتھ کابل ایئرپورٹ پر بم دھماکے کے ماسٹر برین کو پکڑا اور پھر اسے امریکیوں کے حوالے کر کے صدر ٹرمپ کو امریکی عوام کے سامنے ایک اور پوائنٹ اسکور کرنے کا موقع دیا۔ یہ ایک شاندار اسٹروک اور بڑی اسمارٹ موو تھی۔

یہ بھی پڑھیں:احمد جاوید کا متنازع انٹرویو اور اس کا تجزیہ

   پاکستان نے بائیڈن انتظامیہ کے نہایت مایوس کن سردمہری والے 4 برسوں کے بعد نومنتخب نئے اور امریکی تاریخ کے شاید طاقتور ترین صدر کے ساتھ ایک اچھا تعلق استوار کرنے کی ابتدا کر دی ہے۔ اسے سراہنا چاہیے۔ ویل ڈن ۔

  مجھے شدید حیرت ہوئی جب سوشل میڈیا پر بعض حلقے یہ کہتے پائے جا رہے ہیں کہ مبینہ داعش کمانڈر شریف اللہ شدت پسند تنظیم کے نچلے درجے کا کارکن ہے اور پاکستان نے امریکیوں کو دھوکا دیا وغیرہ۔ یارو تنقید کی کوئی تُک اور بنیاد تو ہونی چاہیے۔ میرے جیسے تو اس میں بھی خوش ہوں گے کہ کسی نچلے درجے کے دہشتگرد کو ہائی پروفائل بنا کر امریکیوں کو تھما دیا جائے۔ اس میں ہمارا کیا نقصان ہے؟ اس کیس میں مگر صورتحال مختلف ہے۔ اطلاعات کے  مطابق خود امریکٓی خفیہ ادارے نے شریف اللہ کی خبر دی اور وہ اسے اہم گرفتاری قرار دے رہے ہیں۔ تو جو کام ہمارے دشمنوں کے کرنے کا ہے، وہ کیڑے ہم خود کیوں نکال رہے ہیں ؟

   ممکن ہے ہمارے بعض سیاسی حلقوں کوصدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستانی حکومت کی تعریف سے مایوسی ہوئی ہو۔ جنہیں یہ امید تھی کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستانی حکومت پر زیادہ جمہوری رویہ اپنانے اور سیاسی قیدیوں کے ساتھ منصفانہ ٹرائل سمیت دیگر اقدامات کرنے پر زور دے گی، انہیں ایک فوری دھچکا تو لگا ہے۔ تاہم ہمارے خیال میں ریاست کے مفادات اور ملک کی بہتری کے معاملات سیاسی پسند و ناپسند سے بالاتر ہونے چاہییں۔

    آنے والے دنوں میں پاک امریکا تعاون کم از کم ایک حوالے سے مزید بڑھے گا۔ صدر ٹرمپ افغان طالبان حکومت پر امریکی اسلحہ واپس کرنے کے لیے دباؤ بڑھائیں گے، ممکن ہے وہ بگرام بیس حوالے کرنے کا مطالبہ بھی کریں، ظاہر ہے اسے ماننا طالبان حکومت کے لیے ممکن نہیں۔ افغان حکومت کے لیے مشکلات بڑھیں گی اور انہیں پاکستان سے کسی قسم کی کوئی سپورٹ نہیں مل سکتی ۔

یہ بھی پڑھیں:کیا صدر ٹرمپ امریکا کو تنہا اور کمزور بنا رہے ہیں؟

  افغان طالبان حکومت جس دیدہ دلیری اور ڈھٹائی کے ساتھ ٹی ٹی پی کو سپورٹ کر رہی ہے، اس کے بعد انہیں پاکستان سے کسی قسم کے نرم تاثر کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ اگر امریکا نے افغانستان پر دباؤ بڑھایا تو پاکستان اور امریکا اس بارے میں ایک ہی پیج پر ہوں گے۔ افغان حکومت کی مدد بند ہوگئی تو ان کے لیے مالی مشکلات بڑھیں گی، ہزاروں سرکاری ملازمیں بیروزگار ہو جائیں گے، افغان کرنسی بھی نیچے گرے گی۔ بدقسمتی سے اس سب کچھ کی ذمہ دار افغان حکومت خود ہی ہوگی۔

  صاحبو، پاکستان نے پہلے راؤنڈ میں اسمارٹ کھیل کا مظاہرہ کیا ہے، ایک اچھا پوائنٹ اسکور کر لیا۔ کچھ مہلت اور وقت ہمیں میسر آ گیا۔ اس دوران اپنی اکانومی خاص کر ایکسپورٹس پر فوکس کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ صدر ٹرمپ کا اہم ترین اور حتمی ہدف چین ہے۔ جب امریکا چین پر کئی اطراف سے حملہ آور ہوگا تو پاکستان پر بھی شدید دباؤ آئے گا۔ پاکستان چین کے خلاف جانا افورڈ نہیں کر سکتا ، نہ وہ امریکا کی کھلی مخالفت مول لینا چاہے گا۔ وہ وقت جب آئے گا، تب بہت ہی سلیقے اور سمجھداری سے ہینڈلنگ کرنا ہوگی، تاہم اس کے لیے ابھی کچھ وقت حاصل کر لیا گیا ہے۔

’سب سے پہلے پاکستان‘ کی غیر اعلانیہ سوچ اور پالیسی کارگر ثابت ہوئی۔ ’امریکا فرسٹ‘ کی ٹرمپ ڈاکٹرائن کے ساتھ ایک لنک تو بنا لیا گیا ہے۔ بیسٹ آف وشز فار آل۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

امریکا فرسٹ انڈیا پاکستان چین ڈونلڈٹرمپ سب سے پہلے پاکستان سوشل میڈیا مودی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا فرسٹ انڈیا پاکستان چین ڈونلڈٹرمپ سب سے پہلے پاکستان سوشل میڈیا سب سے پہلے پاکستان طالبان حکومت امریکا فرسٹ رہے ہیں ٹرمپ کے کرنے کا کے ساتھ اور اس کے لیے

پڑھیں:

ایران امریکا مذاکرات، حکومتوں کا وجود امریکی خوشنودی پر منحصر 

اسلام ٹائمز: ایران کی ٹیکنالوجی کے شعبے میں نمایاں پیشرفت پر قابو نہیں پایا جاسکا اور آج اسکی طاقت کا لوہا دنیا مان رہی ہے۔ مذاکرات تو امن کے قیام کیلئے ضروری ہیں۔ مذاکرات کا دروازہ کبھی بند نہیں ہونا چاہیئے۔ مگر ایران کبھی امریکی آمرانہ فیصلوں کو قبول نہیں کریگا، کیونکہ اسکے پاس ایک شجاع اور دوراندیش قیادت موجود ہے۔ جوہری افزودگی کو روکنے کے بہانے ایران کی سائنسی پیشرفت کو کنٹرول کرنے کی کوشش نئے مسائل کا سبب بن سکتی ہے، اس لئے امریکہ کو ایران کی سرخ لکیر کو عبور نہیں کرنا چاہیئے۔ تحریر: عادل فراز

انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد امریکہ اور ایران کے درمیان مسلسل کشیدگی رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ایران میں اسلامی حکومت کا قیام تھا۔ شاہ ایران امریکہ کا حلیف اور اس کا قابل اعتماد آلۂ کار تھا، جس نے ایران میں امریکی مفادات کو تحفظ فراہم کیا تھا۔ مثال کے طور پر اسرائیل کے قیام کے بعد ایران بھی ان ملکوں میں شامل تھا، جس نے اس کے ناجائز وجود کو تسلیم کیا تھا۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران کے موقف میں واضح تبدیلی آئی اور امام خمینیؒ نے اسرائیل کے وجود کو ناجائز قرار دیتے ہوئے فلسطین کے استقلال اور قبلۂ اول کی بازیابی کے لئے آواز بلند کی۔ انہوں نے مسئلۂ فلسطین کو عالمی سطح پر منعکس کیا اور آج پوری دنیا اگر مسئلۂ فلسطین پر متوجہ ہے تو یہ امام خمینیؒ کی سیاسی بصیرت کا نتیجہ ہے۔

خطے میں موجود مزاحتمی محاذ کی تقویت میں بھی ایران کا کلیدی کردار رہا ہے، جس کا اعتراف پوری دنیا کرتی رہی ہے۔ البتہ مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور استعمار نوازی نے مسئلۂ فلسطین کے حل کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کیں۔ غزہ کی تباہی اور مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی کے لئے بھی مسلم حکمرانوں کو سبکدوش نہیں کیا جاسکتا، جو امریکہ نوازی میں انتفاضہ القدس سے بے پرواہ اسرائیلی مفادات کے تحفظ کے لئے کوشاں ہیں۔ اس کا مشاہدہ ٹرمپ کے حالیہ دورۂ مشرق وسطیٰ کے دوران بھی کیا گیا۔ مسلم حکمران ٹرمپ نوازی میں مرے جا رہے تھے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی حکومتوں کا وجود امریکی خوشنودی پر منحصر ہے، اس لئے ان سے مسئلۂ فلسطین یا عالم اسلام کے زندہ موضوعات پر کسی دلیرانہ موقف کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

ایران کے ساتھ مذاکرات کا نیا دور عمان کے تعاون سے شروع ہوا تھا۔ البتہ امریکہ کی ظاہری اور باطنی پالیسیوں میں نمایاں فرق موجود ہے۔ ظاہری طور پر ٹرمپ ایران کو دھمکا کر دنیا کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ ایران امریکہ سے خوف زدہ ہوکر مذاکرات کی میز پر آیا ہے، جبکہ باطنی طور پر ٹرمپ ایران سے تصادم نہیں چاہتا اور سفارتی طور پر ایران سے نمٹنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ایران کی حکمت عملی ہمیشہ امریکی دھمکیوں کو خاطر میں نہ لانا رہی ہے۔ مذاکرات سے پہلے اور بعد میں بھی امریکہ کے تئیں ایران کا موقف واضح ہے۔ ایران کے صدر مسعود پزشکیان اور وزیر خارجہ عباس عراقچی نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ ایران کو دھمکایا نہیں جاسکتا اور اگر ہم پر حملہ کیا گیا تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، جبکہ ٹرمپ نے زمام اقتدار سنبھالتے ہی ایران کو دھمکانا شروع کر دیا تھا کہ اگر مذاکرات نہیں ہوئے تو ایران کو فوجی کارروائی کے لئے تیار رہنا چاہیئے۔

جبکہ ٹرمپ بھی یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ ایران پر حملے کے لئے ہزار بار نہیں لاکھوں بار سوچنا پڑے گا، کیونکہ یہ حملہ نئی علاقائی جنگ کا باعث بنے گا، جس کی اجازت علاقائی ممالک بھی نہیں دیں گے۔ ایران پر حملے سے دنیا کو ناقابل بیان اقتصادی نقصان پہنچے گا، کیونکہ پہلی فرصت میں آبنائے ہرمز کو بند کر دیا جائے گا، جہاں سے دنیا کی ضرورت کا بیس فیصد تیل گذرتا ہے۔ گویا کہ ایران کے ساتھ جنگ عالمی سطح پر نئے اقتصادی بحران کا سبب بنے گی، جس کی اجازت امریکی حلیف طاقتیں بھی نہیں دیں گی۔ عالمی معیشت یوں بھی روبہ زوال ہے اور امریکہ نت نئے ٹیرف عائد کرکے اپنی ڈوبتی معیشت کو سنبھالا دینے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہے۔ ایسی ناگفتہ بہ صورت حال میں امریکہ کسی نئی جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

ایران کے ساتھ جب بھی مذاکرات شروع ہوتے ہیں تو استعماری میڈیا کے ذریعے ایران پر نفسیاتی دبائو کے لئے حملے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ سی این این سمیت تمام میڈیا اداروں نے یہ خبر نشر کی کہ اسرائیل عنقریب ایران پر حملہ کرنے والا ہے۔ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا جائے گا، جس کی تیاری اسرائیل کر رہا ہے۔ دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ جنگ کی یہ دھمکیاں صرف نفسیاتی دبائو کے لئے ہیں، جن کا ایران پر کوئی اثر ہونے والا نہیں ہے۔ ایران تو ایک مدت سے جنگ کے محاذ پر ہے۔ گو کہ ابھی ایران کے ساتھ براہ راست فوجی جنگ شروع نہیں ہوئی، مگر اقتصادی اور نفسیاتی جنگ تو انقلاب اسلامی کی کامیابی کے فوراً بعد چھیڑ دی گئی تھی۔ لہذا ایران کو استعماری طاقتوں کے خلاف لڑنے کا ایک طویل تجربہ ہے۔ اس پر رہبر انقلاب اسلامی کا امریکہ کے خلاف صریح موقف عالمی استکبار کے لئے پریشان کن ہے۔

امسال انقلاب اسلامی کے بانی امام خمینیؒ کی برسی کے موقع پر انہوں نے اپنے خطاب میں جوہری توانائی کی افزودگی پر امریکی مطالبے کو یکسر مسترد کر دیا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے امریکہ کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’امریکہ کے لئے ہمارا پیغام یہ ہے کہ ایرانی قوم کا انتخاب اس کے اختیار میں ہے۔ امریکہ کون ہوتا ہے، جو ہماری خود مختاری اور جوہری افزودگی میں رکاوٹ بن رہا ہے اور کس قانون کے تحت وہ یہ کام کر رہا ہے۔ آخر امریکہ کو دوسرے ملکوں کی جوہری صلاحیت کا تعین کرنے کی ذمہ داری کس نے دی ہے۔؟ اس کے پاس تو دنیا میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار ہیں تو اس کی قانونی یا اخلاقی حیثیت کیا ہے کہ وہ دوسروں کے جوہری پروگرام کے بارے میں رائے پیش کرے۔؟ انہوں نے امریکی جنگی جرائم اور عالمی نقض امن پر دوٹوک انداز میں بات کرتے ہوئے کہا کہ "امریکہ کس منہ سے امن کی بات کرسکتا ہے، جبکہ بیسویں صدی میں جنگوں اور بغاوتوں کو سب سے بڑا جنم دینے والا وہ خود ہے۔"

آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی چودھراہٹ پر ضرب لگاتے ہوئے کہا کہ "ایران کو امریکہ سے (جوہری پروگرام پر) اجازت کیوں لینی چاہیئے؟ کیا صہیونی حکومت اپنے جوہری ہتھیاروں اور حالیہ جاری نسل کشی کے حوالے سے ہر طرح کی نظارت سے مستثنیٰ ہے۔؟" ان کے بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ ایران نہ تو امریکی چودھراہٹ کو قبول کرتا ہے اور نہ اپنی خود مختاری میں کسی مداخلت کو برداشت کرے گا۔ ان کا یہ کہنا کہ "ایرانی قوم کی خود مختاری ان کے ہاتھ میں ہے" امریکی منصوبوں پر پانی پھیر دیتا ہے، کیونکہ امریکہ ایران کی خود مختاری پر ضرب لگانا چاہتا ہے، جس کو رہبر انقلاب نے مسترد کرتے ہوئے امریکی چودھراہٹ پر ہی سوال اٹھا دیا۔ انہوں نے ایران کے جوہری پروگرام پر بھی ایران کے موقف کو واضح کر دیا، جس کے بعد اب مذاکرات میں جوہری پروگرام کو ختم یامحدود کرنے پر کوئی بات نہیں کی جائے گی۔

جوہری افزودگی ہر ملک کا بنیادی حق ہے، جس کو امریکہ سلب نہیں کرسکتا، جبکہ امریکہ نے حالیہ مذاکرات میں ایک تجویز پیش کی ہے کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کی نگرانی میں ایران، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور امریکہ کی شراکت سے علاقائی کنسورشیم تشکیل دیا جائے۔ اس تجویز میں جو امریکہ کی طرف سے عمان کے ذریعے ایران کو موصول ہوچکی ہے، کے مطابق امریکہ نے ایرانی سرزمین پر جوہری افزودگی کو مکمل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکی تجویز، جس کو رہبر انقلاب اسلامی نے مسترد کر دیا ہے، اس کو دو حصوں میں منقسم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا حصہ ایک کنسورشیم کی تشکیل سے متعلق ہے اور دوسرا حصہ جوہری افزودگی کو روکنے سے تعلق رکھتا ہے۔ جوہری توانائی کو روک کر باہر سے کنسورشیم کے ذریعے یورینیم کو حاصل کرنے کی تجویز ایران کبھی قبول نہیں کرے گا، کیونکہ اس طرح ایران اپنے پاور پلانٹس کو چلانے کے لئے جوہری ایندھن کی فراہمی کے لئے دوسرے ملکوں پر منحصر ہو جائے گا۔

گویا کہ اس تجویز کا مقصد ایران کو خود کفیل بننے سے روکنا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ امریکہ ایران کی ترقی سے خوف زدہ ہے۔ اس کا مقصد جوہری مذاکرات کے ذریعے ایران کے جوہری افزودگی کے منصوبے کو روکنا نہیں بلکہ ایران کی ترقی اور خود کفیل بننے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنا ہے، جس کو ایرانی قیادت بخوبی سمجھ رہی ہے۔ ایران پر مسلسل بڑھتی ہوئی اقتصادی پابندیوں کا راز بھی یہی ہے۔ اس کے باوجود ایران کی ٹیکنالوجی کے شعبے میں نمایاں پیش رفت پر قابو نہیں پایا جاسکا اور آج اس کی طاقت کا لوہا دنیا مان رہی ہے۔ مذاکرات تو امن کے قیام کے لئے ضروری ہیں۔ مذاکرات کا دروازہ کبھی بند نہیں ہونا چاہیئے۔ مگر ایران کبھی امریکی آمرانہ فیصلوں کو قبول نہیں کرے گا، کیونکہ اس کے پاس ایک شجاع اور دوراندیش قیادت موجود ہے۔ جوہری افزودگی کو روکنے کے بہانے ایران کی سائنسی پیش رفت کو کنٹرول کرنے کی کوشش نئے مسائل کا سبب بن سکتی ہے، اس لئے امریکہ کو ایران کی سرخ لکیر کو عبور نہیں کرنا چاہیئے۔

متعلقہ مضامین

  • چین اور امریکا کے درمیان تجارتی مذاکرات کا نیا مرحلہ لندن میں شروع
  • بھارت غیر جانبدارانہ تحقیقات اور ٹرمپ کی مصالحت سے انکاری ہے، بلاول بھٹو
  • صدر ٹرمپ پر نفرت کا الزام لگانے والا امریکا صحافی معطل
  • کیا امریکا نے تجارتی جنگ میں فیصلہ کُن پسپائی اختیار کرلی؟
  • امریکہ میں سفارتکاری: بلاول بمقابلہ بینظیر بھٹو،ا یک تجز یہ
  • سنڈے اسپیشل : ٹو این ون اسٹوریز
  • ٹرمپ بمقابلہ مسک: ڈیموکریٹس کی حمایت کی تو سنگین نتائج کیلئے تیار رہو،امریکی صدر
  • ایران امریکا مذاکرات، حکومتوں کا وجود امریکی خوشنودی پر منحصر 
  • چین امریکا تجارتی مذاکرات پیر کو لندن میں ہوں گے
  • تحریک سے کچھ حاصل نہیں ہوگا پی ٹی آئی ہم سے بات کرے، رانا ثنااللہ