چھ نسلوں سے جاری مزاحمت (قسط سوم)
اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT
اگست انیس سو انتیس کے یہود عرب خونی بلوے سے کم ازکم یہ ثابت ہو گیا کہ فلسطین میں مشکوک برطانوی نوآبادیاتی عزائم کے سبب ایک بڑا آتش فشاں پھٹنے کو تیار ہے۔انیس سو انتیس اور چھتیس کے درمیانی سات برس میں برطانوی نو آبادیاتی انتظامیہ سے تعلقات بگاڑے بغیر سیاسی جدوجہد پر یقین رکھنے والی روائیتی فلسطینی اشرافیہ کے ہوتے ہوئے اچانک سے ایک چھلاوہ نمودار ہوتا ہے اور سست الوجود جدوجہد کے جسد میں بجلیاں بھر کے غائب ہو جاتا ہے۔اس چھلاوے کا نام تھا عزالدین القسام۔
القسام کی پیدائش دسمبر اٹھارہ سو اکیاسی میں شامی صوبے جابلے میں ہوئی۔ان کے والد کا تعلق قادریہ صوفی سلسلے سے تھا۔ عزالدین القسام قاہرہ کی جامعہ الازہر میں اپنے وقت کے ممتاز مذہبی علما محمد عبدہ اور راشد ردہ کے شاگرد رہے۔انیس سو نو میں القسام آبائی صوبے جابلے لوٹے اور وہاں سلسلہِ قادریہ کے مدرسے میں پڑھانا شروع کیا۔ستمبر انیس سو گیارہ میں جب اٹلی نے عثمانی صوبے لیبیا پر فوج کشی کی تو القسام نے لیبیائی فدائین کی مدد کے لیے چندہ جمع کیا اور لگ بھگ ڈھائی سو رضاکاروں کی عسکری تربیت کا انتظام کیا۔مگر کچھ ہی ماہ میں عثمانی سپاہ لیبیا سے پسپا ہو گئی اور القسام کے رضاکاروں کو وہاں پہنچنے کا موقع نہ مل سکا۔
چنانچہ جو چندہ جمع ہوا اس سے ایک نئے مدرسے کی بنیاد رکھی گئی اور باقی رقم لگ بھگ ایک عشرے کے بعد انیس سو انیس میں شام پر قابض ہونے والی فرانسیسی فوج کے خلاف مزاحمتی سرگرمیوں میں صرف ہوئی۔تاہم بھرپور فرانسیسی قوت کے سامنے چند سو نفوس پر مشتمل مزاحمتی گروہ کی نہ چل سکی۔ القسام اور ان کے حامیوں نے کوہِ سیہیون کی پہاڑیوں سے چھاپہ مار کارروائیاں جاری رکھیں۔مگر فرانس نے مقامی طفیلی ملیشیاؤں کی مدد سے شام پر اپنی گرفت مضبوط تر کر لی تو عزالدین نے براستہ بیروت حیفہ پہنچ کے تدریس شروع کر دی۔
انھوں نے حیفہ کی دو مساجد کو اپنا تعلیمی مرکز بنایا۔ غریب کسانوں اور مزدوروں کے بچوں کے لیے نائیٹ اسکول قائم کرنے کا تجربہ کیا۔وہ اسکول میں داخلے کے لیے سڑکوں پر لاوارث بچے ، قحبہ گر عورتوں کے بچے اور نشے کے عادی بچوں کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر لاتے تھے۔
انیس سو بیس اور تیس کے عشرے میں جب جیوش نیشنل فنڈ نے شمالی گلیلی کے علاقے میں عرب کسانوں سے منہ مانگی قیمت پر زمینیں خریدنی شروع کیں تو بے زمین کسان شہروں کا رخ کرنے لگے جہاں روزگار کے مواقع پہلے ہی محدود تھے۔لہٰذا جمع پونجی چند ماہ میں ختم ہو جاتی اور یہ کسان بطور دہاڑی مزدور شہروں میں مارے مارے پھرتے۔
عزالدین نسبتاً خوشحال فلسطینی خاندانوں کی مدد سے ان بے زمینوں کی ہنرکاری اور تعلیم کا بندوبست کرتے۔شمالی گلیلی کے کسانوں کو عزالدین نے ترغیب دی کہ چھوٹے چھوٹے قطعات بیچنے کے بجائے یکجا کر کے کوآپریٹو سوسائٹیاں بنائیں تاکہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہ آئے۔مگر برطانوی انتظامیہ کی بدنئیتی اور یہودیوں کی جانب سے زمین کی جارحانہ خریداری جاری رہی۔چنانچہ عزالدین نے مقامی کسانوں کو دوطرفہ خطرے کے مقابلے پر قائل کرنے کے لیے دمشق کے مفتی بدرالدین التاجی الحسنی سے رجوع کیا۔مفتی بدرالدین نے فتوی دیا کہ موجودہ حالات میں برطانوی استعماری پالیسیوں اور یہودی آبادکاروں کے خلاف جدوجہد جائز ہے۔
عزالدین نے انیس سو تینتیس میں مفتیِ اعظم فلسطین امین الحسینی کو مشورہ دیا کہ جب تک سیاسی جدوجہد کو مسلح طاقت نہیں ملے گی تب تک قابضین سے کچھ نہیں منوایا جا سکتا۔ یہودی آبادکاری تب ہی رک سکتی ہے جب فلسطین کا برطانوی انتظام گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا جائے۔مگر القسام مفتی امین الحسینی کو مسلح جدوجہد کی افادیت پر قائل نہ کر سکے۔
عزالدین القسام نہ صرف فلسطینی کسانوں اور مزدوروں کو منظم کرنے کے لیے کوشاں تھے بلکہ وائی ایم سی اے کی طرز پر انھوں نے حیفہ میں ینگ مینز مسلم ایسویسی ایشن ( وائی ایم ایم اے ) کو بھی فروغ دیا تاکہ مڈل کلاس فلسطینی نوجوانوں کو جدوجہد کا حصہ بننے پر آمادہ کیا جا سکے۔وائی ایم ایم اے دراصل سیکولر اور مذہبی جھکاؤ رکھنے والے فلسطینیوں کے درمیان ایک رابطہ پل تھا۔جو مخیر فلسطینی سیکولر بورژوا استقلال پارٹی کی مدد کرتے تھے وہی فلسطینی کاز سے مخلصانہ وابستگی کے اعتراف میں القسام کی بھی مدد کر رہے تھے۔
القسام کا نظریہ یہ تھا کہ بندوق وہ اٹھائے جس کا کوئی ذاتی مفاد نہ ہو۔ جب بھی ضرورت پڑے بندوق بردار کمزور طبقات کی معاشی و سماجی مدد کے لیے بھی کمر بستہ رہے۔اسے اخلاقی طور پر بھی مضبوط ہونا چاہیے تاکہ ان بنیادی اوصاف کو دیکھ کر زیادہ سے زیادہ لوگ حصولِ آزادی کے جھنڈے تلے جمع کیے جا سکیں۔
عزالدین القسام نے ان معیارات پر پورے اترنے والوں کی جدوجہد کو موثر رخ دینے کے لیے الکف ال اسود ( بلیک ہینڈ ) کے نام سے مسلح تنظیم تشکیل دی۔ عزالدین اگرچہ سیاست اور مسلح تحریک کو ساتھ ساتھ لے کر چلنے کے حامی تھے۔مگر اسی تحریک میں شامل کچھ لوگ جن کی قیادت ابو ابراہیم الکبیر کے ہاتھ میں تھی محض فوری مسلح کارروائیوں کے قائل تھے۔الکبیر خود کو تنظیمی ڈسپلن سے بھی بالا سمجھتے تھے۔لہٰذا انھوں نے مرکزی قیادت کی تائید کے بغیر شمالی گلیلی اور یروشلم میں یہودی آبادکاروں کو نشانہ بنایا۔
ابراہیم الکبیر کی غیر منصوبہ بند اتاولی کارروائیوں کے برعکس عزالدین نے اپنے لگ بھگ آٹھ سو فدائین کی جدید مسلح و نظریاتی تربیت پر وقت صرف کیا تاکہ انھیں بڑی لڑائی کے لیے تیار کیا جا سکے۔ان کی ملیشیا نے عام یہودی شہریوں کے بجائے یہودی ملیشیاؤں اور برطانوی عسکری تنصیبات و عمارات کو ہدف بنانا شروع کیا۔ان کارروائیوں سے فلسطینی اشرافیہ سخت گھبرائی جو یہودی آبادکاروں کی تو مخالف تھی مگر برطانوی انتظامیہ سے بھی بنا کے رکھنا چاہتی تھی۔
اکتوبر انیس سو پینتیس میں جافا کی بندرگاہ پر اسلحے کی بھاری کھیپ ( پچیس مشین گنیں ، آٹھ سو رائفلیں ، چالیس ہزار گولیاں ) پکڑی گئی۔یہ اسلحہ صیہونی دہشت گرد تنظیم ہگانہ نے بلجئیم سے اسمگل کروایا تھا۔یہ خبر اونٹ کی کمر پر آخری تنکہ ثابت ہوئی۔فلسطینی قومی قیادت نے اس واردات پر برطانوی انتظامیہ کی چشم پوشی کے خلاف قومی ہڑتال کی اپیل کی۔
آٹھ نومبر کو عین ہرود کے مقام پر فلسطینی پولیس کے ایک یہودی کانسٹیبل موشے روزن فیلڈ کی لاش ملی۔حکام نے اس قتل کا ذمے دار عزالدین قسام کے گروہ کو قرار دیا۔قسام اپنے نو ساتھیوں کے ہمراہ حیفہ چھوڑ کر جنین اور نابلس کے درمیان واقع پہاڑیوں میں روپوش ہو گئے۔بیس نومبر کو ایک پولیس ٹکڑی نے انھیں شیخ زید نامی گاؤں کے قریب گھیر لیا۔قسام اور ان کے تین ساتھی لڑتے ہوئے شہید ہو گئے جب کہ پانچ دیگر زخمی حالت میں گرفتار ہو گئے۔
امریکی مورخ عبداللہ شلیفر کے مطابق قسام جس طرح لڑتے ہوئے مارے گئے۔اس کہانی کی شکل میں فلسطینیوں کو اپنا پہلا حقیقی ہیرو مل گیا۔ان کی نمازِ جنازہ تب تک کی فلسطینی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔ہر سوچ کا عرب وہاں موجود تھا۔ تابوتوں پر عراق ، سعودی عرب اور یمن کے پرچم ڈالے گئے۔کیونکہ تب تک یہی تین عرب ریاستیں آزاد تھیں۔
فلسطینی مورخ رشید خالدی لکھتے ہیں کہ قسام پہلا شخص تھا جس نے فلسطینیوں کو موقع پرست روائیتی قیادت کے متبادل کے طور پر مسلح سیاسی جدوجہد کا راستہ دکھایا۔
جب انیس سو انسٹھ میں ایک نئی فلسطینی مسلح سیاسی تنظیم تشکیل دی جا رہی تھی تو اس کا نام القسامون تجویز ہوا۔مگر پھر تمام فلسطینیوں کے لیے قابلِ قبول بنانے کے لیے الفتح کے نام پر کثرتِ رائے سے اتفاق کر لیا گیا۔قسام کا نام مختلف شکلوں میں آج تک زندہ ہے۔حماس کے فوجی بازو کا نام قسام بریگیڈ ہے۔ اسرائیل پر غزہ سے جو راکٹ برستے رہے ہیں انھیں قسام راکٹ کہا جاتا ہے۔ ( جاری ہے )
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عزالدین القسام عزالدین نے یہودی ا کے لیے کی مدد کا نام
پڑھیں:
غزہ میں اسرائیلی جارحیت ، مزید 108 فلسطینی شہید
غزہ میں اسرائیلی جارحیت ، مزید 108 فلسطینی شہید WhatsAppFacebookTwitter 0 9 June, 2025 سب نیوز
غزہ: اسرائیل کی غزہ پر وحشیانہ بمباری کا سلسلہ جاری ہے، جس کے نتیجے میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران مزید 108 فلسطینی شہید اور 393 سے زائد زخمی ہو گئے۔ عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی فضائیہ نے شمالی غزہ کے علاقے جمالیہ، جنوبی شہر رفاح سمیت مختلف علاقوں میں پناہ گزین کیمپوں اور رہائشی گھروں کو نشانہ بنایا۔
بمباری کے دوران کتائب المجاہدین کے سینئر کمانڈر اسعد ابو شریعہ بھی شہید ہو گئے۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق امدادی سرگرمیوں کے دوران شہریوں پر کی گئی اسرائیلی فائرنگ سے اب تک 115 افراد شہید ہو گئے ہیں۔
فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے 18 مارچ کو جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دوبارہ حملے شروع کیے، جس کے بعد سے اب تک 4,603 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ غزہ میں جاری حملوں کے نتیجے میں شہدا کی مجموعی تعداد بڑھ کر 54,880 تک پہنچ گئی ہے۔
غزہ میں اسپتالوں پر دباؤ شدید ہے جبکہ متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں بھی خطرات سے دوچار ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے عالمی برادری سے فوری مداخلت اور سیزفائر پر زور دیا ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراسرائیلی فوج کا غزہ تک امداد لے جانے والی کشتی پر ڈرونز سے حملہ، میڈلین کو قبضے میں لے لیا اسرائیلی فوج کا غزہ تک امداد لے جانے والی کشتی پر ڈرونز سے حملہ، میڈلین کو قبضے میں لے لیا اسلام آباد میں پہلی بار ڈرون کیمروں، عرق گلاب اور فنائل سے صفائی آپریشن، 2500 سے زائد عملہ سرگرم غزہ میں اسرائیلی جارحیت جاری، مزید 36 فلسطینی شہید ہوگئے حافظ آباد; شوہر کے سامنے خاتون سے اجتماعی زیادتی کرنے والاایک اورملزم پولیس مقابلے میں ہلاک طالبان حکومت کا عیدالاضحیٰ پر ملک چھوڑنے والے مغرب نواز افغانوں کیلئے عام معافی کا اعلان پاورڈویژن نے بجلی کے 2 میٹر لگانے پر پابندی کی خبریں جعلی قرار دے دیںCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم