برطانوی اراکین پارلیمنٹ کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی مذمت
اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT
تحریک کشمیر برطانیہ اور آل پارٹیز کشمیر الائنس یو کے کے صدر فہیم کیانی نے مسئلہ کشمیر کو برطانوی پارلیمنٹ میں اجاگر کرنے پر سارہ اسمتھ کو مبارکباد پیش کی۔ اسلام ٹائمز۔ برطانوی دارلعوام میں بھارت کے غیر قانونی طور پر زیر قبضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ایک اہم مباحثہ منعقد ہوا۔ ذرائع کے مطابق برطانوی رکن پارلیمنٹ سارہ اسمتھ کی سربراہی میں منعقدہ مباحثے میں مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی تسلط کے دوران نہتے کشمیریوں پر جاری ظلم و تشدد، جبری گرفتاریوں، ماورائے عدالت قتل اور انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا گیا۔ تحریک کشمیر برطانیہ اور آل پارٹیز کشمیر الائنس یو کے کے صدر فہیم کیانی نے مسئلہ کشمیر کو برطانوی پارلیمنٹ میں اجاگر کرنے پر سارہ اسمتھ کو مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ بحث کے دوران مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے غیر قانونی تسلط کو بے نقاب کیا گیا۔ بحث کا آغاز کرتے ہوئے سارہ اسمتھ نے بھارتی قابض افواج پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی فورسز مقبوضہ علاقے میں جبری گرفتاریوں، ماورائے عدالت قتل اور انسانی حقوق کی دیگر سنگین پامالیوں میں ملوث ہیں۔
انہوں نے کہا کہ غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون، آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ اور پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے کالے قوانین کے تحت بھارتی فوجیوں کو نہتے کشمیریوں کے قتل عام اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی کھلی چھوٹ حاصل ہے۔ فہیم کیانی نے کہا کہ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورتحال پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ کے تحت بھارتی فوج کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوںپر جواب دہی سے مکمل استثنیٰ حاصل ہے جبکہ اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ میری لالورنے کہا ہے کہ حکومتوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔
عمران حسین، ایوب خان، طاہر علی، محمد اقبال، یاسمین قریشی اور دیگر سمیت برطانوی اراکین پارلیمنٹ نے اپنی حکومت پر زور دیا کہ وہ بھارت کے ساتھ اپنے تجارتی معاہدوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق میں بہتری سے مشروط کرے۔انہوں نے انسانی حقوق کے بارے میں برطانیہ کے موقف پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ہم مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے آنکھیں چراتے ہوئے انسانی حقوق کے چیمپئن ہونے کا دعوی ٰکیسے کر سکتے ہیں؟ انہوں نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا موازنہ غزہ اور یوکرین کے تنازعات سے کیا اور مغربی ممالک کے دوہرے معیار پر تنقید کی۔ انڈر سکریٹری برائے خارجہ، دولت مشترکہ اور ترقیاتی امور کیتھرین ویسٹ نے بھارت کے ساتھ تجارتی معاہدہ سمیت برطانیہ کی خارجہ پالیسی میں انسانی حقوق کے احترام کے برطانیہ کے عزم کا اعادہ کیا۔ اینڈی میکڈونلڈ، سٹیلا کریسی، جم شینن، ابتسام محمد، ہرپریت اپل، گیرتھ اسنیل، ڈیوڈ ولیمز، ڈاکٹر ایلیسن گارڈنر سمیت متعدد برطانوی ارکان پارلیمنٹ نے مباحثے میں حصہ لیا۔ وینڈی مورٹن اور پال وا نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سارہ اسمتھ بھارت کے انہوں نے کہا کہ نے کہا
پڑھیں:
طالبان، لوٹنے والے افغان شہریوں کے ’حقوق کی خلاف ورزیاں‘ کر رہے ہیں، اقوام متحدہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 جولائی 2025ء) ایران اور پاکستان کی جانب سے بڑے پیمانے پر افغان شہریوں کی ملک بدری کی مہم شروع کی گئی ہے جس کی وجہ سے لاکھوں افغانوں کو افغانستان واپس جانے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ رواں برس یعنی 2025ء میں اب تک 1.9 ملین سے زائد افراد افغان باشندے اپنے ملک لوٹے ہیں، جن میں سے زیادہ تر ایران سے لوٹنے والے افغان باشندے ہیں۔
اقوام متحدہ کی طرف سے رپورٹ کا اجراءرپورٹ کے اجراء کے ساتھ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک واپس آنے والے افراد میں خواتین اور لڑکیاں، سابق حکومت اور اس کی سکیورٹی فورسز سے وابستہ افراد، میڈیا ورکرز اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔
(جاری ہے)
پاکستان سے بے دخل ہونے والے افغان باشندے واپسی کے خواہاں
پاکستان، افغان مہاجرین کے انخلا کے معاشی اثرات
ان خلاف ورزیوں میں تشدد اور بدسلوکی، من مانی گرفتاری اور حراست اور ذاتی سلامتی کو خطرات شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) نے حال ہی میں اندازہ لگایا تھا کہ 2025 ء میں 30 لاکھ افراد افغانستان واپس جا سکتے ہیں۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی یہ رپورٹ واپس آنے والے 49 افغانوں کے انٹرویوز پر مبنی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانوں کے خلاف ان کی مخصوص پروفائل کی بنیاد پر خلاف ورزیاں کی گئی ہیں جن میں خواتین، میڈیا ورکرز اور سول سوسائٹی کے ارکان کے ساتھ ساتھ اگست 2021ء میں ختم ہونے والی سابق حکومت سے وابستہ افراد بھی شامل ہیں۔
طالبان حکومت نے اس سے قبل واپس لوٹنے والے ایسے افغان باشندوں کے ساتھ بدسلوکی کے الزامات کی تردید کی تھی اور طالبان کی شورش کے خلاف دو دہائیوں پر محیط جنگ کے دوران نیٹو افواج اور سابق حکومت کے لیے کام کرنے والوں کے خلاف عام معافی کا اعلان کیا تھا۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق فولکر ترک نے رواں ماہ کے اوائل میں ایک بیان میں کہا تھا، '' کسی کو بھی ایسے ملک میں واپس نہیں بھیجا جانا چاہیے جہاں اسے اپنی شناخت یا ذاتی تاریخ کی وجہ سے ظلم و ستم کا سامنا ہو۔
‘‘انہوں نے مزید کہا، ''افغانستان میں، یہ خواتین اور لڑکیوں کے لیے اور بھی زیادہ واضح ہے، جنہیں ایسے متعدد اقدامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو صرف ان کی جنس کی بنیاد پر ظلم و ستم کے مترادف ہیں۔‘‘
طالبان کی طرف سے خواتین کے خلاف 'امتیازی‘ سلوکگزشتہ چار برسوں کے دوران طالبان حکامکی جانب سے خواتین کو عوامی زندگی سے الگ تھلگ کر دیا گیا ہے۔
طالبان نے خواتین کے لیے یونیورسٹیوں، عوامی پارکوں، جم اور بیوٹی سیلونوں میں داخلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے، جسے اقوام متحدہ نے 'صنفی امتیاز‘ قرار دیا ہے۔طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ اسلامی قانون کی ان کی تشریح ہر ایک کے حقوق کی ضمانت دیتی ہے اور امتیازی سلوک کے الزامات 'بے بنیاد‘ ہیں۔
روس وہ واحد ملک ہے جس نے 2021ء میں ملک سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے طالبان حکومت کو تسلیم کیا ہے۔
دیگر ممالک کی طرف سے بھی افغان شہریوں کی ملک بدریہمسایہ ملک تاجکستان نے اسلام آباد اور تہران کی مثال کی پیروی کرتے ہوئے افغانوں کو ملک بدر کرنے کے ارادے کا اعلان کیا ہے۔
یو این ایچ سی آر نے اے ایف پی کو بتایا کہ آٹھ جولائی سے اب تک کم از کم 377 افراد کو ملک بدر کیا جا چکا ہے۔
جرمنی نے گزشتہ ہفتے جرائم کا ارتکاب کرنے والے 81 افغان شہریوں کو ملک بدر کیا تھا اور امریکہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ ہزاروں افغانوں کی عارضی حفاظت کا درجہ ختم کر دے گا۔
اقوام متحدہ کے مطابق وطن واپس لوٹنے والوں کی تعداد میں حالیہ اضافے نے 'کثیر سطحی انسانی حقوق کا بحران‘ پیدا کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے گزشتہ ہفتے جبری واپسی کو 'فوری طور پر روکنے‘ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
ادارت: کشور مصطفیٰ