یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کی جانب سے جاری مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ یہ منصوبہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے ایک حقیقت پسندانہ راستہ دکھاتا ہے اور اگر اس پر عمل درآمد ہوجاتا ہے تو غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کے تباہ کن حالات میں بہت بہتری آئے گی۔ اسلام ٹائمز۔ یورپی ممالک فرانس، جرمنی، اٹلی اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ نے کہا ہے کہ وہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے عرب ممالک کے حمایت یافتہ منصوبے کی حمایت کرتے ہیں جس پر 53 ارب ڈالر لاگت آئے گی اور اس کے تحت فلسطینیوں کو بے گھر نہیں کیا جائے گا۔ غیر ملکی خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق فرانس، جرمنی، اٹلی اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ کی جانب سے ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا ہے۔ یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کی جانب سے جاری مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ یہ منصوبہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے ایک حقیقت پسندانہ راستہ دکھاتا ہے اور اگر اس پر عمل درآمد ہوجاتا ہے تو غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کے تباہ کن حالات میں بہت بہتری آئے گی۔

خیال رہے کہ 4 مارچ کو عرب سربراہی اجلاس میں غزہ کی تعمیر نو کے لیے مصری منصوبے کی منظوری دی گئی تھی۔ تاہم، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیل نے اس منصوبے کو مسترد کردیا تھا۔ غزہ کی تعمیر نو کیلئے عرب ممالک کے منصوبے کی حمایت کرتے ہیں، یورپی ممالک چاروں ممالک کا فلسطینی اتھارٹی کے مرکزی کردار اور اصلاحاتی ایجنڈے کے نفاذ سے اتفاق مصر کی جانب سے غزہ کے لیے پیش کردہ منصوبے کے مطابق فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس اور اسرائیل میں جنگ کے خاتمے کے بعد آزاد، پیشہ ور فلسطینی ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ایک انتظامی کمیٹی تشکیل دی جائے جو غزہ کی حکمرانی کی ذمہ داریاں سنبھالے گی۔

مصری منصوبے کے مطابق یہ کمیٹی فلسطینی اتھارٹی کی نگرانی میں عارضی مدت کے لیے انسانی امداد کی نگرانی اور غزہ کی پٹی کے معاملات کے انتظام کی ذمہ دار ہوگی۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ حماس کو نہ تو غزہ پر حکومت کرنی چاہیے اور نہ ہی اسرائیل کے لیے خطرہ بننا چاہیے جب کہ فرانس، جرمنی، اٹلی اور برطانیہ فلسطینی اتھارٹی کے مرکزی کردار اور اس کے اصلاحاتی ایجنڈے کے نفاذ کی حمایت کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ عرب ممالک نے غزہ کی پٹی پر کنٹرول حاصل کرنے اور فلسطینیوں کی جبری ہجرت سے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا منصوبہ مسترد کر دیا تھا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: غزہ کی تعمیر نو کے لیے اٹلی اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ کی جانب سے منصوبے کی کی حمایت اور اس

پڑھیں:

فلسطینی نوجوان کی غیر معمولی ہجرت ، جیٹ اسکی پر سمندر پار اٹلی پہنچ گیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اٹلی: غزہ کے 31 سالہ فلسطینی محمد ابو دخہ نے ایک طویل، پرخطر اور غیر معمولی سفر کے بعد بالآخر یورپ میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش میں اٹلی کا رخ کیا، یہ سفر ایک سال سے زائد عرصہ، ہزاروں ڈالر کے اخراجات، کئی ناکامیوں اور بالآخر ایک جیٹ اسکی کے ذریعے ممکن ہوا۔

عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق ابو دخہ نے اپنی کہانی ویڈیوز، تصاویر اور آڈیو فائلز میں دستاویزی شکل میں ریکارڈ کی جو انہوں نے  عالمی میڈیا سے شیئر کیں، جس میں بتایا کہ  وہ غزہ میں جاری تقریباً دو سالہ اسرائیل، حماس جنگ کی تباہ کاریوں سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے، جس میں مقامی حکام کے مطابق اب تک 64 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔

انہوں نے اپریل 2024 میں 5 ہزار ڈالر ادا کر کے رفح سرحد کے راستے مصر کا سفر کیا بعدازاں وہ پناہ کے لیے چین گئے لیکن ناکامی پر ملیشیا اور انڈونیشیا کے راستے دوبارہ مصر لوٹ آئے، پھر لیبیا پہنچے جہاں انسانی اسمگلروں کے ساتھ دس ناکام کوششوں کے بعد انہوں نے تقریباً 5 ہزار ڈالر میں ایک استعمال شدہ یاماہا جیٹ اسکی خریدی، اضافی 1500 ڈالر جی پی ایس، سیٹلائٹ فون اور لائف جیکٹس پر خرچ کیے۔

دو دیگر فلسطینی ساتھیوں کے ساتھ انہوں نے 12 گھنٹے کا سمندری سفر کیا، دورانِ سفر انہیں تیونس کی گشتی کشتی کا تعاقب بھی برداشت کرنا پڑا، ایندھن ختم ہونے پر 20 کلومیٹر دوری پر انہوں نے مدد طلب کی، جس کے بعد یورپی بارڈر ایجنسی فرنٹیکس کے ایک مشن کے تحت رومانیہ کی گشتی کشتی نے انہیں بچایا اور وہ 18 اگست کو لampedusa پہنچے۔

یورپی ادارے کے ترجمان کے مطابق یہ واقعہ ’’انتہائی غیر معمولی‘‘ تھا، ابو دخہ اور ان کے ساتھیوں کو اٹلی کے جزیرے سے سسلی منتقل کیا گیا مگر بعد میں وہ حکام کی نگرانی سے نکل کر جینوا سے برسلز روانہ ہو گئے اور پھر جرمنی جا پہنچے، جہاں وہ اس وقت پناہ کے درخواست گزار کے طور پر مقیم ہیں۔

ابو دخہ کا کہنا تھا کہ ان کا خاندان خان یونس کے ایک خیمہ بستی میں رہائش پذیر ہے، جہاں ان کا گھر جنگ میں تباہ ہو چکا ہے، ان کے والد نے کہا کہ وہاں اس کا انٹرنیٹ شاپ تھا اور زندگی کافی بہتر تھا مگر سب کچھ تباہ ہوگیا۔

خیال رہےکہ ابو دخہ اس وقت جرمنی کے شہر برامشے میں ایک پناہ گزین مرکز میں مقیم ہیں،  وہ چاہتے ہیں کہ اپنی بیوی اور دو بچوں کو، جن میں سے ایک کو نیورولوجیکل مرض لاحق ہے، جرمنی بلا سکیں، انہوں نے کہا کہ اسی لیے میں نے اپنی جان داؤ پر لگائی، بغیر اپنے خاندان کے زندگی کی کوئی معنویت نہیں۔
غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری اور امریکی حمایت کو مقامی عوام نے امداد کے نام پر دہشت گردی قرار دیا ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ شہری لقمۂ اجل بن رہے ہیں جبکہ اسپتال، پناہ گزین کیمپ اور بنیادی ڈھانچہ تباہی کا شکار ہیں، عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر کسی قسم کا مؤثر کردار ادا نہیں کر رہے، دوسری جانب مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور خاموشی نے مظلوم فلسطینیوں کے دکھ درد میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا اور برطانیہ کے ’جوہری معاہدے‘ میں کیا کچھ شامل ہے؟
  • یہودی تنظیم کا جرمن چانسلر پر اسرائیل کی حمایت کے لیے زور
  • دریائے سندھ پر طویل ترین پل منصوبے کی پیش رفت پر اہم اجلاس
  • پاکستان کو فنِ تعمیر کے عالمی میدان میں ایک اور اہم اعزاز حاصل
  • سعود ی عرب کی جانب سے اٹلی میں عربی لینگویج فیئر کا انعقاد
  • امریکہ اور برطانیہ کی بحیرہ احمر میں موجودگی کا کوئی جواز نہیں، یمن
  • فلسطینی نوجوان کی غیر معمولی ہجرت ، جیٹ اسکی پر سمندر پار اٹلی پہنچ گیا
  • نارڈ اسٹریم گیس پائپ لائن دھماکوں کے ملزم کی جرمنی حوالگی
  • چین نے جرمنی کو پیچھے چھوڑ دیا، پہلی بار دنیا کے 10 بڑے جدت پسند ممالک میں شامل
  • اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف فلسطین کے ساتھ ہندوستان