Express News:
2025-04-26@02:37:33 GMT

ٹرمپ کی روس سے مفاہمت… چال یا حقیقت

اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT

کیا اب دنیا میں دائمی امن کا بول بالا ہونے والا ہے؟ اور بڑی طاقتوں کی باہمی جنگ اب ہمیشہ کے لیے ختم ہونے والی ہے؟ لگتا ہے اب ایسا ہی ہونے والا ہے کیونکہ امریکا جیسی اس وقت کی سپر پاور اور مضبوط فوجی طاقت جنگ سے گریزکی پالیسی اپنانے پر مائل نظر آتی ہے۔

دنیا میں اس وقت جدید فوجی ساز و سامان سے لیس تین ہی ممالک ہیں جن کے آپس میں ٹکراؤ سے دنیا پہلی اور دوسری عالمی جنگوں سے زیادہ تباہ و برباد ہو سکتی ہے۔ یہ تباہی اس لیے زیادہ خوفناک ہوگی کیونکہ اب پہلے سے کہیں زیادہ مہلک ہتھیار تیار ہو چکے ہیں۔

دنیا میں پہلے جو دو خوفناک عالمی جنگیں ہو چکی ہیں، وہ اس وقت کی بڑی طاقتوں کے درمیان باہمی چپقلش کا نتیجہ تھیں، ان دونوں جنگوں نے سوائے تباہی و بربادی کے انسانوں کو کچھ نہیں دیا۔

اسے قدرت کا کرشمہ ہی کہیے کہ اس نے انسانوں کو مزید جنگوں کی تباہی و بربادی سے بچانے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ذہن میں یہ بات ڈال دی ہے کہ دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی تباہی سے بچایا جائے۔

کیا کوئی پہلے سوچ بھی سکتا تھا کہ کوئی امریکی صدر اپنے ملک کے دشمن نمبر ایک روس کی اقوام متحدہ میں حمایت کرے اور اپنے پرانے اتحادیوں کی پیش کردہ قرارداد سے روس کو جارح ملک کہنے کے الفاظ کو حذف کرا دے۔

پھر اپنے اتحادی یورپی ممالک کو یوکرینی صدر زیلنسکی کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرنے اور روس کے خلاف اس کی کسی بھی قسم کی مدد کرنے سے منع کرے۔ گزشتہ دنوں زیلنسکی بڑی امیدوں کے ساتھ ٹرمپ سے ملنے گئے تھے کہ وہ دل کھول کر روس کے خلاف بول کر اور اپنے قیمتی نایاب معدنی ذخائر کا امریکا سے معاہدہ کر کے ٹرمپ سے نہ صرف خوب داد و تحسین وصول کریں گے بلکہ اپنے ملک کے لیے امریکی حمایت اور جدید اسلحے کے ساتھ ہی مالی امداد بھی حاصل کرلیں گے۔

مگر ہوا یہ کہ زیلنسکی کی تمام حسرتیں دل ہی میں گھٹ کر رہ گئیں۔ یوکرینی نایاب معدنیات پر سمجھوتہ ہوتا تو کجا نہ انھیں کسی قسم کی امداد کی پیش کش کی گئی اور نہ ان کی پذیرائی کی گئی بلکہ ٹرمپ اور ان کے نائب صدر نے انھیں ایسی کھری کھری سنائیں کہ وہ روس کے خلاف ساری ہی شکایتیں بھول گئے اور غصے میں اٹھ کر واپس چلے گئے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے پوتن کے خلاف بات کرنے پر انھیں اوول آفس سے باہر نکال دیا تھا۔

اب زیلنسکی کی اس توہین کے بعد بعض یورپی ممالک جن میں برطانیہ اور فرانس پیش پیش ہیں اسے سہارا دے رہے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم نے لندن میں اس سے خود بھی ملاقات کی ہے اور بادشاہ چارلس سے بھی ملاقات کرائی ہے جو ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ برطانوی وزیر اعظم نے زیلنسکی کو ہر طرح کی مدد کرنے کی پیش کش کی ہے۔

انھوں نے یوکرین میں اپنے 20 ہزار فوجی بھی بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ فرانس اور جرمنی بھی زیلنسکی کی مدد کرنے کے لیے تیار ہیں تاہم ان ممالک کا زیلنسکی کی مدد کرنا ٹرمپ کی نئی پالیسی کے خلاف ہے۔ جرمنی، برطانیہ اور فرانس صدر ٹرمپ کی زیلنسکی کی مدد نہ کرنے اور روس کی حمایت کرنے کو یورپ کے لیے خطرناک قرار دے رہے ہیں۔

ان کا موقف ہے کہ یوکرین پر روسی قبضے کے بعد یورپی ممالک روسی جارحیت کا نشانہ بن سکتے ہیں مگر انھیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کی حفاظت کی ذمے داری امریکا نے اٹھائی ہوئی ہے۔

دوسری جنگ عظیم میں امریکا کی طاقت کے بل بوتے پر ہی یورپ نے ہٹلر کے خلاف جنگ جیتی تھی، اب صدر ٹرمپ نے واضح طور پر اعلان کر دیا ہے کہ وہ یورپی ممالک کے دفاع کا خرچ برداشت نہیں کرسکتے، اب انھیں یا تو اس خرچ میں حصہ ڈالنا چاہیے یا پھر اپنی حفاظت کا خود انتظام کرنا چاہیے۔

صدر ٹرمپ اس وقت امریکی اخراجات کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ یو ایس ایڈ جیسی برسوں سے غریب ممالک کے لیے جاری امداد کو بھی بند کرچکے ہیں۔ وہ ملک میں کئی اداروں میں ملازمین کی چھانٹی بھی کر رہے ہیں۔

اس طرح انھیں یورپ کی سیکیورٹی پر خرچ ہونے والی رقم بھی بھاری پڑ رہی ہے۔ وہ رفتہ رفتہ نیٹو کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ زیلنسکی نے یورپی ممالک سے گہرے تعلقات قائم کر لیے ہیں تاکہ وہ اسے نیٹو کا ممبر بننے میں مدد کریں مگر یہ دراصل روس کے ساتھ یوکرین کے معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی کیونکہ روس نے اپنی تمام یورپ سے ملحق ریاستوں کو اس شرط پر آزادی دی تھی کہ وہ نیٹو کا ممبر نہیں بنیں گی مگر زیلنسکی اس معاہدے کی خلاف ورزی کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

تاہم امریکی پالیسی کی وجہ سے یوکرین کبھی بھی نیٹو کا ممبر نہیں بن سکے گا۔ زیلنسکی نے کمال ہوشیاری سے یورپ کے تمام ممتاز ممالک سے اس لیے تعلقات قائم کر لیے ہیں تاکہ اسے نیٹو کی ممبر شپ حاصل ہو جائے اور پھر نیٹو کی افواج اسے روسی حملوں سے بچا سکے۔ دراصل زیلنسکی کو قابل رحم بنانے والے سابق صدر بائیڈن تھے، انھوں نے روس کے خلاف یوکرین کی بھاری مالی امداد کی تھی، ساتھ ہی جدید اسلحہ بھی دیا تھا۔

اب بائیڈن کی اس دریا دلی پر ٹرمپ نے سخت ایکشن لیا ہے اور زیلنسکی سے امریکی امدادی رقم واپس کرنے کا مطالبہ کیا ہے جس کے بدلے میں زیلنسکی نے اپنے نایاب معدنی ذخائر کو امریکا کے حوالے کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

زیلنسکی صدر ٹرمپ سے اپنے مذاکرات کی ناکامی کے بعد بہت پریشان ہیں، وہ بائیڈن کے مقابلے میں ٹرمپ کو یورپ کا دشمن کہہ رہے ہیں مگر بات یورپ کی نہیں بلکہ یوکرین کی ہے جو روس سے کیے گئے اپنے معاہدے کو توڑنے کے در پے ہے۔

ٹرمپ زیلنسکی کو مشورہ دے چکے ہیں کہ وہ روس سے صلح کر لے، ورنہ وہ پورا یوکرین ہی کھو دیں گے مگر زیلنسکی اس خوش فہمی میں ہیں کہ وہ روس سے جنگ جاری رکھ کر اپنے مقبوضہ علاقے واپس لے لیں گے اور یوکرین کی آزادی کو کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ زیلنسکی کی ہمت بڑھانے میں برطانوی حکومت کا اہم کردار ہے۔

سابقہ برطانوی حکومتوں کا رویہ بھی منافقانہ رہا ہے۔ جرمنی سے دوسری جنگ عظیم میں امریکا کے ملوث ہونے کا سبب بھی اس وقت کی برطانوی حکومت تھی اب روس سے جنگ جاری رکھنے اور ٹرمپ کو اپنی امن پالیسی کو چھوڑ کر روس اور چین سے دشمنی جاری رکھنے کا خواہاں ہے مگر لگتا ہے ٹرمپ اب دنیا سے جنگ و جدل کو ختم کرانے کا ارادہ کر چکے ہیں۔

وہ غزہ کی جنگ کو پہلے ہی ختم کرا چکے ہیں اور امید ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام کو بھی ممکن بنا کر رہیں اور اس سلسلے میں نیتن یاہو کی تمام شیطانی چالوں کو خاک میں ملا دیں گے۔ پوری دنیا صدر ٹرمپ کے اس امن پسندانہ نئے رجحان کو سراہ رہی ہے اور ایک امن پسند دنیا کے خواب کی تعبیر کا سہرا صدر ٹرمپ کے سر بندھنے کے لیے وقت کا انتظار کر رہی ہے۔

دوسری جانب کچھ لوگ ٹرمپ کی یکایک امن پسندی اختیار کرنے کو ان کی ایک چال قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق وہ دراصل روس کو ضرورت سے زیادہ فیور دے کر اس کے چین کے ساتھ تعلقات کو خراب کرنے کی چال چل رہے ہیں مگر یہ ناممکن لگتا ہے کہ روس اور چین کے باہمی تعلقات خراب ہو سکیں۔ ٹرمپ سے پہلے سابق صدر رچرڈ نکسن بھی چین سے دوستی کرکے اس کے روس سے تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کر چکے ہیں مگر ان کی چال کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: یورپی ممالک روس کے خلاف زیلنسکی کی ہیں مگر چکے ہیں کے ساتھ رہے ہیں کرنے کی ٹرمپ کی کے لیے کی مدد

پڑھیں:

ٹرمپ کو ایک اور جھٹکا، امریکی عدالت کا وائس آف امریکا کو بحال کرنے کا حکم

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک بار خفگی کا سامنا کرنا پڑا ہے جب امریکی عدالت نے ان کے ایک اور حکم نامے کو معطل کردیا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایک وفاقی جج نے وائس آف امریکا (VOA) کو بند کرنے کے ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی حکم نامے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے عمل درآمد سے روک دیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت کی جانب سے فنڈنگ میں کٹوتیوں کے باعث وائس آف امریکا اپنی 80 سالہ تاریخ میں پہلی بار خبر رسانی سے قاصر رہا۔

جج رائس لیمبرتھ نے کہا کہ حکومت نے وائس آف امریکا کو بند کرنے کا اقدام ملازمین، صحافیوں اور دنیا بھر کے میڈیا صارفین پر پڑنے والے اثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے اُٹھایا۔

عدالت نے حکم دیا کہ وائس آف امریکا، ریڈیو فری ایشیا، اور مڈل ایسٹ براڈ کاسٹنگ نیٹ ورکس کے تمام ملازمین اور کنٹریکٹرز کو ان کے پرانے عہدوں پر بحال کیا جائے۔

جج نے یہ بھی کہا کہ حکومت نے ان اقدامات کے ذریعے انٹرنیشنل براڈکاسٹنگ ایکٹ اور کانگریس کے فنڈز مختص کرنے کے اختیار کی خلاف ورزی کی۔

وائس آف امریکا VOA کی وائٹ ہاؤس بیورو چیف اور مقدمے میں مرکزی مدعی پیٹسی وداکوسوارا نے انصاف پر مبنی فیصلے پر عدالت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ حکومت عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی۔

انہوں نے مزید کہا ہم وائس آف امریکا کو غیر قانونی طور پر خاموش کرنے کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، جب تک کہ ہم اپنے اصل مشن کی جانب واپس نہ آ جائیں۔

امریکی عدالت نے ٹرمپ حکومت کو حکم دیا ہے کہ ان اداروں کے تمام ملازمین کی نوکریوں اور فنڈنگ کو فوری طور پر بحال کرے۔

یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کے حکم پر وائس آف امریکا سمیت دیگر اداروں کے 1,300 سے زائد ملازمین جن میں تقریباً 1,000 صحافی شامل تھے کو جبری چھٹی پر بھیج دیا گیا تھا۔

وائٹ ہاؤس نے ان اداروں پر " ٹرمپ مخالف" اور "انتہا پسند" ہونے کا الزام لگایا تھا۔

وائس آف امریکا نے ریڈیو نشریات سے دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے آغاز کیا تھا اور آج یہ دنیا بھر میں ایک اہم میڈیا ادارہ بن چکا ہے۔

یاد رہے کہ صدر ٹرمپ طویل عرصے سے VOA اور دیگر میڈیا اداروں پر جانبداری کا الزام عائد کرتے ہوئے کڑی تنقید کا نشانہ بناتے آئے ہیں۔

اپنے دوسرے دورِ صدارت کے آغاز میں ٹرمپ نے اپنی سیاسی اتحادی کاری لیک کو VOA کا سربراہ مقرر کیا تھا جو ماضی میں 2020 کے انتخابات میں ٹرمپ کے دھاندلی کے دعووں کی حمایت کر چکی ہیں۔

 

 

متعلقہ مضامین

  • روس نے امریکی پرزوں والا شمالی کورین میزائل استعمال کیا ہے، صدر زیلنسکی
  • ایران، انڈیا اور پاکستان کے درمیان مفاہمت کروانے کیلئے تیار ہے، سید عباس عراقچی
  • بالواسطہ مذاکرات میں پیشرفت امریکہ کی حقیقت پسندی پر منحصر ہے، ایران
  • کییف پر حملوں کے بعد ٹرمپ کی پوٹن پر تنقید
  • یوکرین جنگ: زیلنسکی امن معاہدے میں رخنہ ڈال رہے ہیں، ٹرمپ
  • غیر ملکی بینکوں سے 1 ارب ڈالر قرض کے لیے مفاہمت طے
  • سی ڈی اے کے مالیاتی نظام کو مزید شفاف اور کیس لیس بنانے کیلئے اکاونٹس کنٹرولر جنرل کیساتھ مفاہمت کی یادداشت پر دستخط
  • ٹرمپ کو ایک اور جھٹکا، امریکی عدالت کا وائس آف امریکا کو بحال کرنے کا حکم
  • روس کے ڈرون طیارے بنانے کے کارخانے میں چینی شہری کام کر رہے ہیں. زیلنسکی کا الزام
  • یوکرین روس کیساتھ براہ راست بات چیت کیلئے تیار ہے: صدر زیلنسکی