اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 مارچ 2025ء) اسرائیل کی داخلی سکیورٹی ایجنسی شِن بیت نے سات اکتوبر 2023 کو عسکریت پسند تنظیم حماس کے حملے کو روکنے میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس نے مختلف طریقے سے کام کیا ہوتا تو اسرائیل کی تاریخ کا مہلک ترین دن ٹل سکتا تھا۔

اسرائیل کی داخلی سلامتی کی ذمہ دار ایجنسی نے کہا ہے کہ اندرونی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ ''اگر شِن بیت حملے سے قبل کے سالوں اور حملے کی رات مختلف طریقے سے عمل کرتی.

.. تو اس قتل عام کو روکا جا سکتا تھا۔

‘‘

غزہ تعمیر نو کے مصری منصوبے کی عرب رہنماؤں نے توثیق کر دی

اقوام متحدہ اور عرب ممالک کی امداد روکنے پر اسرائیل کی مزمت

یہ اعتراف ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چند روز قبل ہی اسرائیلی فوج کی تحقیقات میں، حملے کے دوران اسرائیلیوں کے تحفظ میں اسی طرح کی ناکامیوں کا ذکر کیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

تحقیقات کے نتائج میں کیا کہا گیا ہے؟

شِن بیت کی تحقیقات کے نتائج کے خلاصے کے ابتدائی حصے میں اس ایجنسی کے سربراہ رونن بار نے ان ناکامیوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا، ''تنظیم کے سربراہ کی حیثیت سے، زندگی بھر میرے کندھوں پر یہ بھاری بوجھ رہے گا۔

‘‘

تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ سمجھنے کے لیے کہ اس غیر معمولی حملے کو روکا کیوں نہ جا سکا، اسرائیل کے سکیورٹی اور سیاسی عناصر کے کردار اور ان کے درمیان تعاون کی وسیع تر تحقیقات کی ضرورت ہے۔

رپورٹ کے خلاصے کے مطابق تحقیقات میں دو اہم شعبوں پر توجہ مرکوز کی گئی، پہلی ایسی براہ راست وجوہات جن کی وجہ سے شِن بیت حماس کی جانب سے فوری خطرے کو بھانپنے میں ناکام رہی اور دوسری حملے سے قبل ہونے والی پیشرفت۔

یہ بات واضح کی گئی ہے کہ ''تحقیقات میں اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ شِن بیت نے دشمن کی صلاحیتوں کو کم تر سمجھا۔‘‘

سمری میں کہا گیا ہے کہ اس کے برعکس حماس کے اس ''خطرے، اقدامات اور اِن خطرات کو گہرائی سے سمجھنے اور ان کو ختم کرنے کی خواہش موجود تھی، خاص طور پر حماس کی قیادت کو نشانہ بنا کر۔‘‘

تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ حماس کے حملے کے منصوبے کے بارے میں پہلے سے ملنے والی معلومات کو ''قابل عمل خطرہ‘‘ نہیں سمجھا گیا اور اس بات کا اندازہ لگایا گیا تھا کہ حماس مقبوضہ مغربی کنارے میں ''تشدد بھڑکانے‘‘ پر زیادہ توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔

اس کے علاوہ تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ''خاموش رہنے کی پالیسی نے حماس کو بڑے پیمانے پر فوجی صلاحیت میں اضافے کے قابل بنا دیا تھا‘‘ کیونکہ قطر سے ملنے والی مالی امداد براہ راست حماس کے عسکری دھڑے کو جاتی تھی۔

آخر میں ایجنسی نے اپنے خلاصے میں کہا، ''شِن بیت حملے کے دائرہ کار اور حماس کی طرف سے بڑے پیمانے پر کیے جانے والے حملے کے بارے میں انتباہ فراہم کرنے میں ناکام رہی‘‘ جس نے غزہ میں مہینوں تک جاری رہنے والی جنگ کو جنم دیا۔

حماس اور اس کے اتحادیوں نے سات اکتوبر 2023ء کو اسرائیل کے اندر ایک دہشت گردانہ حملہ کیا تھا۔ اسرائیلی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق حماس کے حملے کے نتیجے میں 1215 افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ حماس نے اس حملے کے دوران 251 افراد کو یرغمال بھی بنایا تھا۔

حماس کے زیر انتظام علاقے غزہ کی وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل کی جوابی کارروائی میں وہاں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے ہیں، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے تحقیقات میں اسرائیل کی حماس کے کے حملے حملے کے ش ن بیت

پڑھیں:

جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی، اسرائیلی فضائی حملے میں جنوبی لبنان میں 4 افراد ہلاک، 3 زخمی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

بیروت: اسرائیل نے جنوبی لبنان کے علاقے نبطیہ میں ڈرون حملہ کر کے چار افراد کو ہلاک اور تین کو زخمی کر دیا، جسے لبنانی حکام نے نومبر 2024 کی جنگ بندی معاہدے کی واضح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

لبنان کی وزارتِ صحت کے مطابق یہ حملہ ہفتے کی رات دوحا۔کفرمان روڈ پر اس وقت کیا گیا جب ایک گاڑی گزر رہی تھی۔ اسرائیلی ڈرون نے براہِ راست گاڑی کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں وہ مکمل طور پر تباہ ہوگئی اور اس میں سوار چار افراد موقع پر جاں بحق ہوگئے۔ حملے کے دوران ایک موٹر سائیکل پر سوار دو شہری بھی زخمی ہوئے جبکہ اطراف کی متعدد رہائشی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔

عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق متاثرہ علاقہ دوحا زیادہ تر رہائشی آبادی پر مشتمل ہے، جہاں اچانک حملے نے خوف و ہراس پھیلا دیا۔

دوسری جانب اسرائیلی فوج نے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ نشانہ بنائی گئی گاڑی میں حزب اللہ کے افسران سوار تھے۔

تاہم لبنان یا حزب اللہ کی جانب سے اس دعوے پر تاحال کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔

یاد رہے کہ اگست میں لبنانی حکومت نے ایک منصوبہ منظور کیا تھا جس کے تحت ملک میں تمام اسلحہ صرف ریاستی کنٹرول میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا، حزب اللہ نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے ہتھیار اس وقت تک نہیں ڈالے گی جب تک اسرائیل جنوبی لبنان کے پانچ زیرِ قبضہ سرحدی علاقوں سے مکمل انخلا نہیں کرتا۔

اقوامِ متحدہ کی رپورٹس کے مطابق اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیلی حملوں میں 4 ہزار سے زائد لبنانی شہری ہلاک اور 17 ہزار کے قریب زخمی ہوچکے ہیں۔

جنگ بندی کے تحت اسرائیلی فوج کو جنوری 2025 تک جنوبی لبنان سے مکمل انخلا کرنا تھا، تاہم اسرائیل نے صرف جزوی طور پر انخلا کیا اور اب بھی پانچ سرحدی چوکیوں پر فوجی موجودگی برقرار رکھے ہوئے ہے۔

خیال رہےکہ حماس کی جانب سے تو جنگ بندی کی مکمل پاسداری کی جارہی ہے لیکن اسرائیل نے اپنی دوغلی پالیسی اپناتے ہوئے 22 سال سے قید فلسطین کے معروف سیاسی رہنما مروان البرغوثی کو رہا کرنے سے انکاری ظاہر کی ہے اور اسرائیل کے متعدد وزیر اپنی انتہا پسندانہ سوچ کے سبب صبح و شام فلسطینی عوام کو دھمکیاں دے رہے ہیں جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی جارحانہ انداز اپناتے ہوئے مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی

متعلقہ مضامین

  • حماس کا اسرائیل پر اسیر کی ہلاکت کا الزام، غزہ میں امداد کی لوٹ مار کا دعویٰ بھی مسترد
  • غزہ میں ہمارے زیرِ قبضہ علاقوں میں حماس اب بھی موجود ہے: نیتن یاہو
  • جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی، اسرائیلی فضائی حملے میں جنوبی لبنان میں 4 افراد ہلاک، 3 زخمی
  • اسرائیل کی جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے خلاف حملے تیز کرنے کی دھمکی
  • غزہ سے موصول لاشیں قیدیوں کی نہیں ہیں، اسرائیل کا دعویٰ اور غزہ پر تازہ حملے
  • حماس کی جانب سے واپس کیے گئے اجسام یرغمالیوں کے نہیں،اسرائیل کا دعویٰ
  • اسرائیل نے 30 فلسطینیوں کی لاشیں واپس کردیں، غزہ پر بمباری سے مزید شہادتیں
  • اسرائیل نے 30 فلسطینی قیدیوں کی لاشیں واپس کردیں، بعض پر تشدد کے واضح آثار
  • اسرائیل کی جانب سے مزید 30 فلسطینیوں کی لاشیں غزہ انتظامیہ کے حوالے
  • غزہ میں حماس نے مزید دو یرغمالیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کر دیں