کوئٹہ، فلسطین فاؤنڈیشن کیجانب سے یکجہتی فلسطین کانفرنس کا انعقاد
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مختلف سیاسی و سماجی شخصیات نے عوام سے اپیل کی کہ رمضان المبارک کے مہینہ میں سحر اور افطار کے دستر خوان کو ایسی تمام کمپنیوں کی مصنوعات سے پاک رکھا جائے جو براہ راست یا بلا واسطہ امریکہ اور اسرائیل کی مدد کر رہی ہیں اور اس مدد سے غزہ و لبنان میں معصوم انسانوں کی نسل کشی جاری ہے۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطین فاؤنڈیشن بلوچستان کے زیر اہتمام ماہ رمضان المبارک ماہ فلسطین مہم کے تحت کوئٹہ پریس کلب میں علامہ مقصود علی ڈومکی کی زیر صدارت یکجہتی فلسطین کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ کانفرس میں مختلف مسالک کے علمائے کرام سمیت سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے با اثر اور سرکردہ خواتین و حضرات اور مدارس و دیگر اداروں کے طلباء و طالبات نے شرکت کیں۔ کانفرنس سے نیشنل پارٹی کے مرکزی ترجمان علی احمد لانگو، جماعت اسلامی بلوچستان کے صوبائی رہنماء ڈاکٹر عطاء الرحمٰن، بلوچستان نیشنل پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے رکن اور بی ایس او کے سابق چیئرمین واحد بلوچ، مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے صوبائی صدر علامہ سید ظفر عباس شمسی، علامہ سہیل اکبر شیرازی، علامہ شیخ ولایت حسین جعفری، جمعیت اتحاد العلماء بلوچستان کے صوبائی صدر مولانا عبدالکبیر شاکر، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری کبیر افغان، سابق سینیٹر بزرگ بلوچ رہنماء میر مہیم خان بلوچ، پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی نائب صدر ایڈوکیٹ خورشید کاکڑ، عالم خان کاکڑ، جمعیت اہل حدیث بلوچستان کے صوبائی امیر مولانا سید عتیق الرحمٰن، مرکزی مسلم لیگ کے صوبائی رہنماء محمد ادریس مغل، جمعیت علماء اسلام کے رہنماء مفتی سنزر سعید، مرکزی جامع مسجد کے نائب خطیب مفتی احسان الحق حقانی اور الخدمت فاؤنڈیشن بلوچستان کے صوبائی صدر انجینئر جمیل احمد کرد نے خطاب کیا۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ گذشتہ چند سالوں میں امریکہ اور اسرائیل نے غزہ اور فلسطین میں ظلم و بربریت کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ آج پوری دنیا اسرائیل کا سفاک چہرہ دیکھ چکی ہے۔ حقوق انسانی اور حقوق اطفال و نسواں کہ جھوٹے دعویداروں نے جس طرح غزہ میں معصوم انسانوں خواتین اور بچوں کا قتل عام کیا۔ اس نے امریکہ اور اسرائیل کا مکروہ چہرہ پوری دنیا کے سامنے عیاں کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے قدس کی آزادی کے لئے اپنے جوانوں اور بزرگوں کے خون کا نذرانہ راہ خدا میں پیش کیا ہے۔ ہم اس موقع پر شہدائے یوم القدس کوئٹہ کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں، جنہوں نے تحریک آزادی بیت المقدس کے لئے اپنے پاکیزہ خون کا نذرانہ پیش کیا۔ یکجہتی فلسطین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام نے ہمیشہ فلسطینیوں کا ساتھ دیا ہے اور اب ماہ رمضان المبارک کے ہماری ذمہ داری ہے کہ امریکی و اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کو جاری رکھ کر فلسطینی عوام کے دکھ درد کو کم کرنے میں مدد کریں۔
کانفرنس میں شریک تمام طبقات نے عوام سے اپیل کی کہ رمضان المبارک کے مہینہ میں سحر اور افطار کے دستر خوان کو ایسی تمام کمپنیوں کی مصنوعات سے پاک رکھا جائے جو براہ راست یا بلا واسطہ امریکہ اور اسرائیل کی مدد کر رہی ہیں اور اس مدد سے غزہ و لبنان میں معصوم انسانوں کی نسل کشی جاری ہے۔ رہنماؤں نے کہا کہ ملک بھر کے تمام طبقات رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس منائیں گے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ فلسطینیوں سے یکجہتی کے لئے یوم القدس کو سرکاری سطح پر منانے کا اعلان کیا جائے۔ مقررین کا کہنا تھا کہ امریکہ دنیا کے مسائل کی جڑ ہے۔ پاکستان میں جاری دہشت گردی کی لہر ہو یا پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازش ہو امریکی حکومت ہمیشہ سے پاکستان کو نقصان پہنچانے میں سرفہرست رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت غزہ میں نسل کشی کے بعد اب غزہ والوں کی سیاسی نسل کشی کرنا چاہتی ہے، لیکن دنیا یہ بات جان لے کہ فلسطین پورے کا پورا فلسطینیوں کا ہے اور اسرائیل ایک غاصب اور ناجائز ریاست ہے۔ مقررین نے کہا کہ ہم پاکستانی ہیں اور بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کے نظریہ پر ایمان رکھتے ہیں اور کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی کہ غاصب اسرائیل کے لئے نرم رویہ رکھے۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ فلسطینی عوام کی مالی، سیاسی و اخلاقی مدد جاری رکھیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: بلوچستان کے صوبائی امریکہ اور اسرائیل رمضان المبارک کے کانفرنس سے نے کہا کہ انہوں نے ہیں اور کے لئے
پڑھیں:
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف فلسطین کے ساتھ ہندوستان
ڈاکٹر سلیم خان
اسرائیل کے وزیر اعظم نے قطر میں حملہ کرکے ہمام الحیہ سمیت پانچ لوگوں کو شہید تو کردیا مگر اپنے مقصد کی حصولیابی میں ناکام رہا کیونکہ اس کا اصل ہدف تو حماس رہنما خلیل الحیہ تھے جو اپنے ساتھیوں سمیت زندہ بچ گئے لیکن اس حماقت نے نیتن یاہو سمیت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو رسوا کردیا ۔ سوال یہ ہے کہ آخرنیتن یاہو پر اچانک اس خودکش حملے کا جنون کیوں سوار ہوا؟ اسرائیل کے اندر ہونے والے احتجاج کا دباؤ کے علاوہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے پہلے دن 9ستمبر کو اس حرکت کے لیے منتخب کیا گیا ۔امسال کے اجلاس میں اقوام متحدہ کے تمام 193رکن ممالک کی نمائندگی ہو رہی ہے جنہیں ایک ملک، ایک ووٹ” کی بنیاد پر برابر کا حق حاصل ہے ۔جنرل اسمبلی کے علاوہ سلامتی کونسل میں سبھی اراکین کو قراردادوں پر ووٹ دینے کے یکساں اختیارات حاصل نہیں ہے اور سب برابر بھی نہیں ہیں۔ چند مستقل ارکان ممالک کے پاس ویٹو کا حق ہے جس استعمال کرکے وہ سارے لوگوں کی آواز دبا دیتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے اجلاس کا اس سال موضوع ہے :بہتر ساتھ:امن، ترقی اور انسانی حقوق کے لیے 80 سال اور اس سے بھی زیادہ۔یہ غیر معمولی اجلاس 29 ستمبر تک جاری رہے گا۔12 ستمبر کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کے دو ریاستی حل کے لیے ‘نیویارک ڈیکلیئریشن’ کی منظوری دی تاکہ ‘مقررہ مدت کے اندر، ٹھوس، ناقابل واپسی اقدامات’ کیے جاسکیں ۔اجلاس میں اس قراراداد کے حق میں 142 ممالک نے ووٹ دیا جبکہ امریکہ اور اسرائیل سمیت 10 ممالک نے اس کے خلاف ووٹ دیا ۔ یہ خوش آئند ہے کہ بڑے دنوں کے بعد ہندوستان نے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ووٹ دیا ۔ 22ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران غزہ کے معاملے پر عالمی رہنماؤں کا اجلاس ہو گا جس میں امکان ہے کہ برطانیہ فلسطین کو بطورِ ریاست تسلیم کر لے گا۔فرانس سمیت برطانیہ اور کینیڈا جیسے ممالک نے اس دوران فلسطین کو تسلیم کرکے دو ریاستی حل پر زور دینے کا فیصلہ کیا تھا اور چونکہ دو تہائی اکثریت سے قرارداد منظور ہوئی ہے اس لیے فلسطین کو مبصر سے رکن کا درجہ مل جائے گا۔
اسرائیل قطر میں حماس پر حملہ کرکے فلسطین کی رکنیت کو اور بھی زیادہ اہم اور آسان بنادیا ہے ۔پچھلے سال یعنی 2024 میں اقوام متحدہ
کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو نئے "حقوق اور مراعات دینے کے لیے ووٹ دے کر سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اسے اقوام متحدہ کا 194 واں رکن بنائے ۔اس قرارداد کو 143 بمقابلہ 9 ووٹوں کے فرق سے منظور کیا گیا جبکہ 25 ارکان غیر حاضر تھے ۔ مخالفین میں صرف امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ارجنٹینا، چیکیا، ہنگری، مائیکرونیشیا، ناؤرو، پلاوو اور پاپوا نیو گنی جیسے ممالک تھے لیکن اس ایک سال کے اندر غیر حاضر ممالک کی تعداد میں بڑی کمی ہوئی ہے اور اس میں فرانس و برطانیہ جیسے ویٹو والے ممالک ہوں گے ۔اسی طرح دو سال قبل 27 اکتوبر کو جنرل اسمبلی کی غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی قرارداد کے حق میں 120کے خلاف صرف 14 ووٹ پڑے تھے لیکن 45کی غیر حاضری بڑی رکاوٹ تھی یہ اعدادو شمار فلسطین کے حق میں رائے عامہ کی ہمواری کا ثبوت ہیں۔
امریکہ نے فلسطین کی رکنیت کو روکنے کے لیے اسے اسرائیل کے ساتھ فلسطین کی براہِ راست بات چیت ، سرحدوں پر امن و سلامتی اور
یروشلم کے مستقبل سمیت اہم مسائل کے حل سے جوڑ دیا ۔ یہ تو ایسا ہے کہ جیسے ‘نہ نو من تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی’ اس طرح کی شرائط لگا کر
تو روس اور یوکرین کی رکنیت بھی ختم کردینی چاہیے لیکن اس کا تو تصور بھی محال ہے کیونکہ روس ویٹو کی طاقت رکھنے والا ملک ہے اور یوکرین
مغرب کا حلیف یا آلۂ کار ہے ۔ اس لیے ان پر امریکہ بہاد ر یہ شرائط نہیں رکھے گا۔ اقوام متحدہ میں فلسطین کی رکنیت اسرائیل کی علامتی
شکست ہونے کے سبب اہمیت کی حامل ہے ۔ اسی لیے امریکہ نے 18اپریل کو وسیع پیمانے پر حمایت یافتہ کونسل کی قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا ۔
سلامتی کونسل کی اس ووٹنگ میں، فلسطینیوں کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کے لیے بہت زیادہ حمایت ملی تھی ۔ اس کے حق میں 12ووٹ پڑے تھے مگر برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ نے حصہ نہیں لیا تھا اور ریاستہائے متحدہ نے قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا۔اس لیے کہنا پڑے گا کہ اقوام متحدہ کی ماں جمعیت اقوام کے بارے میں علامہ اقبال نے جو کہا تھا وہ اب بیٹی پر بھی صادق آتا ہے
بیچاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے ڈر ہے خبر بد نہ مرے منہ سے نکل جائے
ممکن ہے کہ یہ داشتہ پیرک افرنگ ابلیس کے تعویذ سے کچھ روز سنبھل جائے
یہ عجیب منافقت ہے کہ 144ممالک فلسطین کی ریاست کو تسلیم تو کرتے ہیں مگر اقوام متحدہ میں رکنیت کی حمایت نہیں کرتے ۔ اس سے قبل امریکی اتحادیوں میں سے فرانس، جاپان، جنوبی کوریا، اسپین، آسٹریلیا، ایسٹونیا اور ناروے نے فلسطین حمایت کی تھی مگر یورپی ممالک اس پر آمادہ نہیں تھے ۔ یہ فلسطین کی اقوام متحدہ میں رکنیت کے روس اور چین، اس لیے بھی حامی ہیں کیونکہ اس طرح روس کے لئے کوسوو اور چین کے لئے تائیوان کو رکن بنانے میں آسانی ہوگی ۔ اس بار یوروپ کی برف پگھلی ہے ۔ جولائی میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا تھا کہ فرانس اقوام متحدہ کے اجلاس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔ فرانس کے وزیر خارجہ جین نول باروٹ نے اقوام متحدہ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ بین الاقوامی اتفاق رائے ہے کہ اسرائیل فلسطین تنازع کے سیاسی حل کا وقت آ گیا ہے لیکن اس کے لیے عالمی طاقتوں کو کام کرنا ہو گا۔انہوں نے کہا تھا کہ ، ”یوروپی یونین کی جانب سے یوروپی کمیشن کو اپنی توقعات کا اظہار کرنا ہو گا۔ اسے یہ بھی دکھانا ہو گا کہ ہم اسرائیلی حکومت کی اس اپیل کو سننے کے لیے کس طرح حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں۔
جولائی کے اواخر میں اقوام متحدہ کے فرانس اور سعودی عرب کی جانب سے منعقدہ مشترکہ اجلاس میں کی گئی تھی۔ عشروں پرانے اسرائیل فلسطین تنازع کے دو ملکی حل پر اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی اجلاس کے پہلے دن پرفرانسیسی وزیر خارجہ باروٹ نے مندجہ بالابیان دیا تھا ۔ اس اجلاس کی صدارت کرنے والے فرانس نے یوروپی یونین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اسرائیل پر فلسطینیوں کے ساتھ دو ملکی حل پر رضامندی کے لیے دباؤ ڈالے ۔ یہ فرانس کی طرف سے ایک تیز حملہ تھا کیونکہ وہ فلسطین کو ایک قوم کے طور پر تسلیم کرنے کے وعدے کے چند دن بعد ہی غزہ جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کر رہاہے ۔ فرانس کی جانب سے اس صدائے امن کے جواب میں ایک درجن سے زیادہ دیگر مغربی ممالک نے
دوسرے ملکوں سے بھی ایسا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ بیلجیئم نے امسال 9 ستمبر سے شروع ہو رہے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیلی حکومت کے خلاف سخت پابندیاں بھی عائد کردی ۔ بیلجیئم کے وزیر خارجہ پریوٹ نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ غزہ میں رونما ہونے والے انسانی المیے کے پیش نظر کیا گیا ہے ، جہاں اسرائیلی جارحیت زیادہ تر آبادی کو کم از کم ایک بار بے گھر کر چکی ہے اور اقوام متحدہ نے قحط اور بھکمری کو تسلیم کیا ہے ۔
بیلجیئم کے وزیر خارجہ پریوٹ نے اپنی پوسٹ میں مزید لکھا، ”اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نسل کشی کے کسی بھی خطرے کو روکنے کے لیے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے بیلجیئم کو اسرائیلی حکومت اور حماس کے ‘دہشت گردوں’ پر دباؤ بڑھانے کے لیے سخت فیصلے لینے پڑے ۔یہ اسرائیلی عوام کو سزا دینے کے بارے میں نہیں ہے ، بلکہ اس بات کو یقینی بنانے کے بارے میں ہے کہ ان کی حکومت بین الاقوامی اور انسانی قانون کا احترام اور پاسداری کرے جو اس کے برعکس زمینی صورت حال کو تبدیل کرنے کی کارروائیوں میں مصروف ہے ۔امسال 31جولائی (2025)کو فرانس اور برطانیہ کے بعد کینیڈا نے بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مشروط اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مالٹا نے طویل عرصے سے فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت کی ہے اور ”ذمہ دار ملک کے طور پر ہمارا فرض ہے کہ ہم دو ریاستی حل کے تصور کو نظریہ سے عملی شکل دینے کے لیے کام کریں۔ کینیڈا کے صدر میک کارنی نے کہا کہ ”کینیڈا اس حقیقت کی مذمت کرتا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے غزہ میں تباہی پھیلانے کی اجازت دے رکھی ہے ۔ اس پر اسرائیل کو ایسی مرچی لگی کہ اس کے وزارت خارجہ نے لکھا ”کینیڈین حکومت کی پوزیشن میں تبدیلی حماس کے لیے انعام ہے اور غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کی کوششوں کو نقصان پہنچاتی ہے ۔
امریکہ کی موجودہ ٹرمپ انتظامیہ نے بھی مغربی ممالک کے ان اعلانات کے خلاف اسرائیلی موقف کو اختیار کرتے ہوئے اسے حماس کے لیے انعام قرار دیا، نیز اسے غلط وقت میں اٹھایا گیا قدم بتایا۔ اپنے بین الاقوامی حلیفوں کے پیٹھ پھیر لینے سے بے چین ہوکربن یامین نیتن یاہو نے جنرل اسمبلی کے اجلاس کی ابتداء میں ہی قطر کے اندر یہ ناکام حملہ کرکے مغربی ہمدردوں کواور بھی دور کردیا ہے ۔ فرانس اور سعودی عرب کے مشترکہ صدارت سے اسرائیل فلسطین تنازع کے دو ملکی حل پر اقوام متحدہ کے نیویارک دفتر میں منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس نے اسرائیل کے ہوش اڑا دئیے ہیں ۔برطانوی وزیر اعظم اسٹارمر اعلان کرچکے ہیں کہ وہ جرمنی اور فرانس میں اپنے ہم منصبوں سے لڑائی کو روکنے کی کوششوں پر تبادلہ خیال کریں گے ۔ انہوں نے کہا تھاکہ جنگ بندی ”ہمیں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے راستے پر ڈالے گی۔ غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کے ناقدعالمی رہنما مل کر نیتن یاہو کے ذریعہ تباہ کرنے کی کوشش کا مقابلہ دو ریاستی حل سے کرنے کا عزم رکھتے ہیں ۔
٭٭٭