امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
دنیا میں پیدا ہونے والے نابغہ روزگار لوگوں میں ایک نام حضرت امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا بھی ہے۔ ایک ذہین و فطین اور غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل انسان، جن کا اصل نام تقی الدین احمد بن عبدالحلیمابن عبدالسلام ابن تیمیہ تھا۔
1263عیسوی میں خزان موجودہ ترکیہ کے علمی، فقہی حوالے سے شہرت رکھنے والے ایک خانوادے میں پیدا ہوئے۔ والد شیخ عبدالحلیم اپنے دور کے عالم دین اور فقہ حنبلی کے نامور فقیہ اور محدث ہی نہیں دمشق کے مدرسہ’’السکریہ‘‘ کے قابل مدرس بھی تھے۔ سفاک و بے رحم منگولوں کے پے در پے حملوں نے ہجرت کرنے پر مجبور کیا اور ترکیہ سے گہوارہ علم دمشق میں منتقل ہوگئے۔ وہاں کسی جوہری نے انہیں پہچان لیا اور وہ استاذ کے طور پر فرائض انجام دینے لگے۔ بیٹے تقی الدین کی ابتدائی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری خود اٹھائی اور عالم اسلام کو ایک بہادر و بے باک عالم دین عطا کیا.
پھر دنیا نے دیکھا کہ علم و عرفان کی دولت سے مالا مال شیخ عبدالحلیم کا ہونہار فرزند ابن تیمیہ کے نام سے علمی حلقوں میںمفسر، محدث اور فتوی نویس کے طور پر پہچانا جانے لگا۔ اجتہادی معاملات میں اتنے پر اعتماد اور دینی اصلاحات میں نت نئی راہیں تلاشنے اور تراشنے والے ابن تیمیہ وقت کے حاکموں کے زیر عتاب آگئے۔ دارو رسن اور قیدو بند ان کا مقدر بنا لیکن مجال ہے جادہ حق جسے سمجھتے تھے اس پر سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹے ہوں۔ ان کی علمی سرگرمیوں کو گویا مہمیز لگ گئی۔
حنبلی فکر کے قریب ہونے کے باوجود تقلید اور فکری ہی نہیں فقہی جمود کے بھی بڑے ناقد کے طور پر ابھرنے لگے۔سخت گیر توحیدی تھے، شرک و بدعات کے خلاف شعلہ مستعجل ثابت ہوئے۔ اکیس برس کے تھے کہ والد کا سایہ سرپر سے اٹھ گیا اور ابن تیمیہ رحمہ اللہ وہابیت اور سلفی تحریکوں کے مرکزی رہبرو رہنما بنے اور ان کی تعلیمات بدعات کے خلاف سیسہ پلائی ہوی دیوار بن گئیں۔
جب منگول شام پر حملہ آور ہوئے تو اپنی توپوں کا رخ ان کی طرف موڑ دیا اور جہادکی شرعی حیثیت اجاگر کرنے کا بیڑا اٹھا لیا، یہاں تک کہ منگولوں کے خلاف باقاعدہ جنگ و جدل میں شرکت پر آمادہ ہوئے اوراس حوالے سے کام کرنے والے علماء کا ساتھ دیا۔ لیکن علمی اور فکری محاذ پر سے بھی تساہل نہیں برتا۔اتنی گمبھیر تگ و دو والی زندگی میں بھی پانچ سو سے زیادہ کتب لکھیں۔ ’’ فتاوی ابن تیمیہ‘‘ ان کی معروف کتاب ہے جس میں انہوں نے عقائد پر بحث کی ہے۔ وسیع علمی موضوعات کو حاصل تحریر بنایا، دینی، فقہی اور اجتہادی نظریات پر بھرپورسوالات اٹھائے اور جوابات تحریر کئے۔
تصوف، سیاست، فلسفہ اور دیگر کئی معاملات پر خیال آفرینی کی۔ اسما ء الحسنی کی صفات کی تشریح کی۔ اس کے ساتھ ہی شرکیہ اور قبیح رسموں پر کڑی تنقید کی۔ اس کے علاوہ اسلامی معیشت کے کاروباری اصولوں تک کو زیربحث لائے۔
امام ابن تیمیہ وحدت الوجود کے نظریئے کے سخت مخالف تھے۔ غیر شرعی تصوف اور اس سے وابستہ بعض اعمال کو غیر ضروری گردانتے تھے۔ امامت کی دیگر تشریحات کو رد کیا، اور خلافت راشدہ رضی اللہ تعالیٰ علیہم کے سچے امین کے طور پر دلائل و براہین سے بات کی اور سب سے اہم بات یہ کہ حکمرانوں کے شریعت کے دائرہ سے باہرکے امور پر سخت تنقید کی، اس جرم میں قید کی صعوبتوں سے نہیںگھبرائے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ یہودو بصاری کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے تھے اور ان کے تحریف شدہ صحیفوں پر دلائل کی روشنی میں تنقید کرتے تھے۔
705 ہجری میں انہی الزام کے تحت انہیںقاہرہ میں قید و بند کی سزا سے دو چار ہونا پڑا، وہاں سے رہائی ملی تو707ہجری میں انہیں دمشق کے قلعے میں قید کردیا گیا۔مگر وہ حق کی راہ سے کبھی ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ دمشق کے قلعے میں اسیری کے دوران ہی امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ کا انتقال ہوا۔ وہ جن سخت گیر نظریات کے حامل تھے تا دم آخریں ان پر قائم رہے، حکمرانوں کے خلاف ڈنکے کی چوٹ پر بات کرتے، اپنے ہم عصر علماء کو اپنے اجتہادی افکار سے للکارتے اور انہیں دلائل سے زچ کر دیتے۔ خصوصاً فقہی مسائل میں جمود سے متعلق انہوں نے بہت کچھ لکھا۔ اللہ کی صفات کے بارے امام ایسے نظریہ کے قائل تھے جو بعض علماء کے نزدیک قطعی طور پر بلا جواز تھا اور یہ مناقشہ آج بھی ان کے افکار و نظریات کے حوالے سے کئی اسلامی مکاتب فکر کے یہاں بہتر تسلیم نہیں کیاجاتا۔ واللہ اعلم
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
گستاخ اہل بیت مولوی عطاء اللہ بندیالوی گرفتار
ذرائع کے مطابق پولیس نے عطا اللہ بندیالوی کو جماعتی وکیل بلال ایڈوکیٹ کی گاڑی سے اتار کر اپنی گاڑی میں منتقل کر لیا اور کہا کہ عطا اللہ بندیالوی پر ایف آئی آرز درج ہیں، ہم آپ کو تفصیلات واٹس ایپ پر بھیج دیتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ اشاعت توحید و السنہ پنجاب کے رہنماء اور یزید ملعون کے وکیلوں کے سرخیل مولوی عطاء اللہ بندیالوی کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اشاعت توحید و السنہ کے ذرائع کے مطابق سرگودہا میں جمعہ کی نماز کے بعد عطاء اللہ بندیالوی حسبِ معمول مہمان خانے میں موجود تھے کہ چند پولیس اہلکار وہاں آئے، ابتدائی گفتگو کے بعد عطاء اللہ بندیالوی نے مقامی ایم این اے اور جماعتی وکیل بلال ایڈووکیٹ کو بھی بلا لیا، کافی دیر تک غیر رسمی بات چیت جاری رہی۔ جب عطاء اللہ بندیالوی اُٹھنے لگے تو پولیس والوں نے کہا کہ ہمارے دو سینیئر افسر آرہے ہیں، جو آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔
افسران کے پہنچنے پر انہوں نے بلال ایڈووکیٹ سے کہا کہ عطاء اللہ بندیالوی کو اپنی گاڑی میں ہمارے چاندنی چوک دفتر لے آئیں، جہاں بات چیت ہوگی اور ہم آپ کے تعاون کے شکر گزار ہوں گے۔ جب وہ لوگ مدرسے سے نکلے اور کچھ ہی فاصلے پر پہنچے تو پولیس نے عطاء اللہ بندیالوی کو بلال ایڈووکیٹ کی گاڑی سے اتار کر اپنی گاڑی میں منتقل کر لیا اور کہا کہ عطاء اللہ بندیالوی پر ایف آئی آرز درج ہیں، ہم آپ کو تفصیلات واٹس ایپ پر بھیج دیتے ہیں۔