ٹرمپ کا عراق کو ایران سے بجلی خریدنے کی چھوٹ ختم کرنے کا فیصلہ ’غیر قانونی‘، تہران
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 مارچ 2025ء) تہران میں وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے کہا، ''اس طرح کے بیانات لاقانونیت کا اعتراف اور انسانیت کے خلاف جرائم کا اعتراف ہیں، کیونکہ ایرانی قوم کے خلاف یکطرفہ امریکی پابندیوں کا کوئی جواز یا قانونی بنیاد نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اقدام ''صریحاً غیر قانونی‘‘ ہے۔
ایران نے کہا ہے کہ وہ کسی ''دھمکی‘‘ کے تحت بات چیت نہیں کرے گا۔ تہران کا یہ بیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے کیے گئے اس اعلان کے تناظر میں سامنے آیا ہے کہ وہ عراق کو اپنے پڑوسی ملک ایران سے بجلی خریدنے کے لیے دی گئی چھوٹ ختم کر رہے ہیں۔
نئی امریکی پابندیاں 'غیر قانونی' اور 'غیر منصفانہ'، ایران
اقوام متحدہ میں ایران کے مشن نے اتوار کے روز عندیہ دیا تھا کہ تہران اپنے جوہری پروگرام سے متعلق ارادوں کے بارے میں امریکی خدشات دور کرنے کے لیے بات چیت پر رضامند ہو سکتا ہے، تاہم ایران اپنے جوہری پروگرام کو مکمل طور پر ختم نہیں کرنا چاہتا۔
(جاری ہے)
دریں اثناء آج پیر کے روز ایران کے اعلیٰ سفارت کار نے اس طرح کی بات چیت کا دروازہ بند کرتے ہوئے کہا کہ تہران کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن تھا اور ہمیشہ رہے گا اور اس کے ''ممکنہ عسکریت پسندی کے لیے استعمال ہونے جیسے خیال کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے۔‘‘جوہری تنصیبات پر حملے کا فوری اور فیصلہ کن جواب دیا جائے گا، ایران
ٹرمپ کا عراق کو حاصل استثنیٰ ختم کر نے کا فیصلہ
ایران کی طرف سے پیر کو سامنے آنے والے رد عمل کی وجہ دراصل امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے اتوار کے روز عراق پر پابندیوں میں استثنیٰ کی تجدید نہ کرنے کے فیصلے کا اعلان بنی۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا، '' ایران کو کسی قسم کی اقتصادی یا مالی امداد کی اجازت نہ دینے کو یقینی بنانے کے لیے ہم نے عراق پر پابندیوں میں استثنیٰ کی تجدید نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ایران عراق کو ایک تہائی گیس اور بجلی فراہم کرتا ہے، جو تہران کے لیے آمدنی کا بڑا ذریعہ بھی ہے۔
ٹرمپ کی واپسی کے بعد سے ایران اور امریکہ کے مابین کوئی رابطہ نہیں ہوا،ایران
صدر ٹرمپ نے یورپی اتحادیوں کے اعتراضات پر معاہدے سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا اور اس کی بجائے ایران سے تیل خریدنے والے کسی بھی دوسرے ملک پر امریکی پابندیاں عائد کر دیں۔
یہ چھوٹ اب تک عراق کو امریکہ کے ''اہم شراکت دار‘‘ کے طور پر دی گئی تھی۔عراق کا موقف
عراق میں تیل اور گیس کے بے پناہ ذخائر موجود ہونے کے باوجود اس کا انحصار توانائی کی درآمدات پر ہے۔ تاہم بغداد نے کہا ہے کہ اس نے چھوٹ کے حوالے سے ''تمام منظرناموں کی‘‘ تیاری کر لی ہے۔ امریکہ کی طرف سے ایرانی انرجی کی خرید پر چھوٹ کو ختم کرنے سے عراق میں بجلی کی قلت مزید بڑھ جائے گی جو 46 ملین عراقی باشندوں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرنے کا سبب بھی بنے گی۔
''مڈل ایسٹ اکنامک سروے‘‘ کے خلیجی خطے کے لیے تجزیہ کار یسار المالکی نے کہا کہ عراق کو اب خاص طور پر موسم گرما میں بجلی کی دسیتابی میں چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مسک کی ایرانی سفیر سے ملاقات، کشیدگی کم کرنے کی سمت قدم: رپورٹ
ایران کا امریکی دھمکی میں نہ آنے کا اعلان
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے ایک پیغام میں کہا، ''ہم دباؤ اور دھمکی کے تحت بات چیت نہیں کریں گے۔
چاہے موضوع کچھ بھی ہو، ہم اس پر غور بھی نہیں کریں گے۔‘‘رواں سال جنوری میں دوبارہ امریکی صدر بننے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف ''دباؤ میں زیادہ سے زیادہ اضافے‘‘ کی اپنی پالیسی کو بحال کر دیا ہے، خاص طور سے اس کی تیل کی صنعت کو کچلنے کے مقصد سے واشنگٹن نے تہران پر مزید سخت پابندیاں دوبارہ نافذ کر دی ہیں۔
ایران یورپی طاقتوں کے ساتھ جوہری مکالمت میں مصروف
عراق کو چھوٹ کب ملی تھی؟
عراق کے لیے اس استثنیٰ کو 2018 ء میں متعارف کرایا گیا تھا۔
تب واشنگٹن نے ٹرمپ کی جانب سے پہلی بار ایران پر ''زیادہ سے زیادہ سختی‘‘ کی پالیسی اپنائی تھی اور امریکہ ایران کے ساتھ تاریخی جوہری معاہدے سے بھی یکطرفہ طور پر دستبردار ہو گیا تھا۔نئے جوہری معاہدے کا مطالبہ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں ایران کے ساتھ ایک نیا جوہری معاہدہ کیے جانے کا مطالبہ کیا۔
گزشتہ جمعے کے روز انہوں نے کہا کہ ایران پر نئے مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالتے ہوئے انہوں نے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو لکھا ہے۔ ساتھ ہی ٹرمپ نے خبردار کیا کہ اگر ایران انکار کرتا ہے، تو ممکنہ فوجی کارروائی کی جائے گی۔ تاہم ایران کا کہنا ہے کہ اسے ٹرمپ کا کوئی خط موصول نہیں ہوا۔شدید دباؤ کی امریکی پالیسی اب بھی کام نہیں کرے گی، ایران
ہفتے کے روز خامنہ ای نے ٹرمپ کی دھمکیوں کو ''غنڈہ گردی کے ہتھکنڈوں‘‘ سے تعبیر کرتے ہوئے کہا، ''کچھ بدمعاش حکومتیں، کچھ غیر ملکی شخصیات اور لیڈران کے لیے میں واقعی بدمعاشی کے لفظ سے زیادہ کوئی مناسب اصطلاح نہیں جانتا، مذاکرات پر اصرار کرتی ہیں۔
‘‘خامنہ ای کا مزید کہنا تھا، ''ان کے مذاکرات کا مقصد مسائل کو حل کرنا نہیں ہے، ان کا مقصد تسلط قائم کرنا ہے۔‘‘
ک م/ م م (اے ایف پی، روئٹرز)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نے کا فیصلہ ایران کے عراق کو ٹرمپ کی بات چیت نے کہا کہا کہ کے روز کے لیے
پڑھیں:
لاس اینجلس، غیر قانونی تارکین وطن آپریشن، ٹرمپ نے ہر جگہ فوج تعینات کرنے کی دھمکی دیدی
LOS ANGELES:لاس اینجلس میں غیر قانونی تارکین کے چھاپوں کے خلاف جاری احتجاج کے دوران صورتحال اس وقت کشیدہ ہو گئی جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر تعینات نیشنل گارڈ کے دستے مختلف علاقوں میں پھیل گئے۔
گزشتہ روز ایک وفاقی حراستی مرکز کے باہر سیکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، جس کے بعد صدر ٹرمپ نے بہت سخت قانون و انصاف نافذ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے دیگر شہروں میں بھی فوج تعینات کرنے کا عندیہ دیا۔
امریکی فوج کے مطابق 79ویں انفنٹری بریگیڈ کامبیٹ ٹیم کے 300 فوجی اہلکار گریٹر لاس اینجلس کے تین مختلف مقامات پر تعینات کیے گئے ہیں۔ ان کا مشن وفاقی املاک اور عملے کی حفاظت فراہم کرنا ہے۔
ان فوجی اہلکاروں کو مکمل جنگی لباس اور اسلحے کے ساتھ شہر کے مرکزی وفاقی حراستی مرکز پر تعینات کیا گیا، جہاں وہ محکمہ داخلہ (ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی) کے اہلکاروں کے ساتھ مشترکہ طور پر کام کر رہے ہیں۔
مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے فورسز نے آنسو گیس اور پیپر اسپرے کا استعمال کیا، جس سے صحافیوں سمیت کئی افراد متاثر ہوئے۔ یہ اقدام اس وقت اٹھایا گیا جب ایک سرکاری گاڑیوں کا قافلہ حراستی مرکز میں داخل ہو رہا تھا۔
صدر ٹرمپ نے مظاہروں میں مبینہ پرتشدد عناصر کی موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے سامنے پرتشدد لوگ ہیں ہم انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
مزید پڑھیں: صدر ٹرمپ نے لاس اینجلس میں احتجاج کے دوران نیشنل گارڈز کو تعینات کر دیا
جب ان سے سوال کیا گیا کہ آیا وہ انسریکشن ایکٹ (Insurrection Act) نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو فوج کو داخلی طور پر پولیس فورس کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے تو صدر ٹرمپ نے جواب دیا کہ ہم ہر جگہ فوج تعینات کرنے پر غور کر رہے ہیں کیونکہ ہم یہ سب کچھ اپنے ملک کے ساتھ نہیں ہونے دیں گے۔
دوسری جانب کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوزوم نے اس اقدام کو جان بوجھ کر اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ریاستی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ جب تک ٹرمپ نے مداخلت نہیں کی تھی، ہمیں کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا، یہ ریاستی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی ہے، حکم واپس لیا جائے اور کیلیفورنیا کا کنٹرول ریاست کو لوٹایا جائے۔
متعدد ڈیموکریٹ گورنرز نے ایک مشترکہ بیان میں گورنر نیوزوم کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ کا کیلیفورنیا نیشنل گارڈ کا استعمال اقتدار کا خطرناک غلط استعمال ہے۔
واضح رہے کہ نیشنل گارڈ امریکا کی ایک ریزرو فوجی فورس ہے، جو عموماً قدرتی آفات یا شدید ہنگامی حالات میں مقامی حکام کی درخواست پر تعینات کی جاتی ہے۔
اس بار یہ تعیناتی ریاستی منظوری کے بغیر کی گئی ہے، جو ماہرین کے مطابق 1960ء کی شہری حقوق کی تحریک کے بعد پہلا واقعہ ہے۔