بلاور کٹھوعہ میں تین افراد کی پُراسرار ہلاکت کی تحقیقات کا حکم دیا گیا، عمر عبداللہ
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
بلاور ہلاکتوں پر بات کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ میرا ڈپٹی وہاں جانے کا ارادہ رکھتے تھے اور پولیس کو اس حوالے سے آگاہ بھی کیا تھا، لیکن انکی رہائشگاہ کے باہر اضافی فورس تعینات کردی گئی۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کے وزیراعلٰی عمر عبداللہ نے آج اسمبلی میں گلمرگ فیشن شو اور بلاور کٹھوعہ میں تین افراد کی پُراسرار موت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ دونوں معاملات کی تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق گلمرگ میں فیشن شو ایک نجی ہوٹل میں ایک نجی کمپنی کے ذریعے منعقد کیا گیا تھا، جس میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں تھا اور دعوت نامے خفیہ طور پر تقسیم کئے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ پروگرام رمضان کے مقدس مہینے میں نہیں ہونا چاہیئے تھا، لیکن میری رائے میں ایسا کوئی بھی ایونٹ کسی بھی وقت نہیں ہونا چاہیئے۔ بلاور ہلاکتوں پر بات کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ میرا ڈپٹی وہاں جانے کا ارادہ رکھتے تھے اور پولیس کو اس حوالے سے آگاہ بھی کیا تھا، لیکن ہفتہ کی شام ان کی رہائشگاہ کے باہر اضافی فورس تعینات کر دی گئی۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب نائب وزیراعلٰی کو وہاں جانے کی اجازت نہیں ملی تو قائد حزب اختلاف کو کیونکر جانے دیا گیا۔ عمر عبداللہ نے بلاور قتل عام کی مذمت کرتے ہوئے ہلاک ہوئے افراد کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا۔ قبل ازیں جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی میں بلاور ہلاکتوں، گلمرگ میں منعقدہ فیشن شو اور ایم ایل اے بنی ڈاکٹر رمیشور سنگھ کے ساتھ بدسلوکی پر شدید ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی۔ ایوان کی کارروائی شروع ہوتے ہی حکومتی بینچوں کے اراکین، کانگریس اور عام آدمی پارٹی (AAP) کے ایم ایل اے نے ان معاملات پر تشویش کا اظہار کیا اور وضاحت طلب کی۔ ایم ایل اے بنی ڈاکٹر رمیشور سنگھ ایوان کے وسط میں پہنچ کر اپنے ساتھ ہوئی بدسلوکی پر انصاف کا مطالبہ کرنے لگے، تاہم اسپیکر کے کہنے پر وہ اپنی نشست پر واپس چلے گئے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: عمر عبداللہ نے کرتے ہوئے نے کہا کہ
پڑھیں:
پاکستان سیلاب: اقوام متحدہ نے جاں بحق و بے گھر افراد کے اعدادوشمار جاری کردیے
پاکستان میں جاری تباہ کن مون سون بارشوں اور ان کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے ملک بھر میں تباہی مچا دی ہے جہاں 1000 سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں اور 25 لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔ جان سے جانے والوں میں بچوں کی تعداد ایک چوتھائی کے قریب ہے۔
یہ بھی پڑھیں: قائم مقام صدر کی مخیر حضرات اور عالمی اداروں سے سیلاب متاثرین کی فوری مدد کی اپیل
اقوام متحدہ کے مطابق جون کے اواخر سے شروع ہونے والی شدید بارشوں نے ملک کے مختلف حصوں میں زمین کھسکنے، سیلاب اور گلیشیئر جھیلوں کے پھٹنے جیسے حالات پیدا کیے جن سے مجموعی طور پر 60 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔
صوبہ پنجاب میں دریاؤں میں طغیانی کے باعث 47 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں خصوصاً راوی، ستلج اور چناب میں آنے والے پانی نے فصلیں، بستیاں اور بنیادی ڈھانچہ برباد کر دیا ہے۔ بھارت کی جانب سے پانی چھوڑے جانے کے باعث صورتحال مزید خراب ہوئی۔
ادھر خیبر پختونخوا میں 16 لاکھ افراد متاثر ہوئے جب کہ گلگت بلتستان میں گلیشیئر جھیلوں کے پھٹنے سے کئی وادیاں دیگر علاقوں سے مکمل طور پر کٹ چکی ہیں۔
سندھ میں بھی ممکنہ خطرے کے پیش نظر ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔
قدرتی آفات سے بچاؤ کے قومی ادارے (این ڈی ایم اے) کے مطابق اب تک 8،400 مکانات، 239 پل اور 700 کلومیٹر سڑکیں تباہ ہو چکی ہیں۔
مزید پڑھیے: امن بحالی کے اقدامات اور سیلاب متاثرین کی بھرپور مدد کر رہے ہیں، وزیراعلیٰ سندھ
22 لاکھ ہیکٹر زرعی زمین زیر آب آ چکی ہے خاص طور پر پنجاب میں جہاں گندم سمیت اہم فصلیں متاثر ہوئی ہیں۔ خوراک کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور صرف ستمبر کے پہلے ہفتے میں آٹے کی قیمتوں میں 25 فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیا۔
انسانی بحران: خوراک، پانی، صحت کی شدید کمیاقوام متحدہ کے امدادی ادارے متاثرہ علاقوں میں امداد کی فراہمی کی کوشش کر رہے ہیں۔ 50 لاکھ ڈالر ہنگامی فنڈ جاری کیے گئے ہیں اور مزید 15 لاکھ ڈالر مقامی تنظیموں کو دیے گئے ہیں۔
یونیسف، ورلڈ فوڈ پروگرام، اور دیگر ادارے پینے کے صاف پانی، غذائیت، صحت و صفائی اور بچوں کے لیے عارضی اسکول فراہم کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: سیلاب سے متاثرہ دربار صاحب کرتار پور کو صفائی کے بعد سکھ یاتریوں کے لیے کھول دیا گیا
تاہم ٹوٹے ہوئے پل، زیرآب سڑکیں اور کٹے ہوئے علاقے امدادی کارروائیوں میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ کئی مقامات پر صرف کشتیوں یا ہیلی کاپٹرز کے ذریعے ہی رسائی ممکن ہے۔
ملیریا، ڈینگی، اور ہیضہ جیسے بیماریوں کے پھیلاؤ کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔
پاکستان میں اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور کے نمائندے کارلوس گیہا کا کہنا ہے کہ یہ قدرتی آفات پاکستان کی موسمیاتی تبدیلی کے ہاتھوں بڑھتی ہوئی قیمت کا حصہ ہیں جس کے پیدا کرنے میں پاکستان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔
یہ بھی پڑھیے: ملالہ یوسف زئی کا پاکستان میں سیلاب متاثرہ تعلیمی اداروں کی بحالی کے لیے گرانٹ کا اعلان
انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ صرف فوری امداد ہی نہیں بلکہ طویل المدتی بحالی، خوراک کی خود کفالت اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے بھی پاکستان کی حمایت کرے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اقوام متحدہ پاکستان سیلاب پاکستان سیلاب نقصانات